Ajeeb Shakhs hai





عجیب شخص ہے خود فاصلے بچھاتا ہے
جو تھک کے بیٹھوں تو منزل قریب لاتا ہے

عجب اندھیرے اجالے کا باندھتا ہے سماں
وہ ایک شمع جلاتا ہے اِک بجھاتا ہے

تماشا دیکھے کوئی، اس کی غمگساری کا
سنا کے دوسروں کے دکھ، مجھے رلاتا ہے

سماعتوں کے در و بام سجنے لگتے ہیں
وہ بولتا نہیں ، تصویر سی بناتا ہے

وہی تو ہے، پسِ منظر بھی پیشِ منظر بھی
وہ سارے منظروں کو معتبر بناتا ہے

قریب آئے تو کہیے بھی، کیا ہے، کیسا ہے
ابھی جو دور ستارہ سا جگمگاتا ہے

کسی کے کوزے میں سمٹے ملیں سمندر سات
کوئی سراب ہی سے تشنگی مٹاتا ہے

میں گزرے وقت کی تصویر ساتھ رکھتا ہوں
کہ اپنا چہرہ مجھے بھول بھول جاتا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں