انسان اور شیطان


انسان اور شیطان

٭عمل شیطان کا بھی قابلِ غور ہے، قابلِ تقلید نہیں اور تقلید فرشتوں کی بھی قابل غور ہے، قابلِ عمل نہیں۔

٭ شیطان کا عمل، اس کی نافرمانی، آدم اور ابنِ آدم کا پہلا سبق ہے۔ انسان کے تمام اعمال اور افعال کی جزا و سزا کا دارومدار صرف پہلا سبق یاد کرنے اور آخری سانس تک یاد رکھنے میں مضمر ہے۔ وہ پہلا سبق جو آدم کے کسی بھی عمل سے پہلے اُس کے سامنےعیاں ہوا، جسے آنکھ بند ہونے سے پہلے سمجھنے اور اس سے بچنے میں ہی ہمیشہ کی کامیابی ہے۔

٭انسان اس وقت تک انسان کہلانے کا اہل ہے جب تک وہ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسرے کو بھی انسان سمجھتا رہے۔ جیسے ہی ہم اپنے آپ کو فرشتہ اور دوسرے کو شیطان سمجھنا شروع کرتے ہیں، فخر و غرور کے پہلے پائیدان کو چھو لیتے ہیں۔ اسی طرح جب اپنے آس پاس فرشتوں کی موجودگی کے احساس سے تنہائی اور گھٹن کا شکار ہو جائیں تو شیطانی وسوسے سے بھی ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں کہ شیطان بھی راندہ درگاہ ہونے کے باوجود مایوسی کا شکار نہیں ہوا، اس نے مہلت مانگی جو عطا کی گئی۔

٭شیطان اور فرشتے کے درمیان سے گزر کر اپنا راستہ تلاش کرنا اور اپنے اعمال پر غور کرنا عین انسانیت ہے۔

٭انسان وہی ہے جو اپنے ہر اچھے اور برے فعل پر غور کرے۔ اچھائی پر شکرگزار اور برائی پر نادم ہو۔

٭انسان ہی شیطان کو پہچانتا ہے، ورنہ شیطان تو اپنی اصلیت چھپاتا ہی ہے۔

٭انسان مر جاتا ہے شیطان نہیں مرتا۔

٭انسان جانے کے لیے اور شیطان رہنے کے لیے ہے۔

٭انسان وہ ہے جو شیطان کو دھتکارتا ہے اور شیطان وہ ہے جو انسان کو شیطان بنا دیتا ہے۔

٭نیک انسان چراغ کی مانند ہے، وقتِ مقرر کے بعد اس نے بُجھ ہی جانا ہے لیکن جانے سے پہلے اپنے حصے کی روشنی آگے منتقل کر کے چلا جاتا ہے جبکہ شیطان قیامت کا وہ جلتا سورج ہے جو ہمیشہ سوا نیزے پر رہتا ہے۔

٭آگ کبھی مٹی نہیں بن سکتی، اس کے برعکس مٹی اپنے وجود میں آگ کی پرورش کرتی ہے۔

٭شیطان کبھی انسان نہیں بن سکتا لیکن انسان اکثر اوقات شیطان سے بڑھ کر شیطان بن جاتا ہے۔

٭انسان کو موت ہے، شیطان کو موت نہیں ۔

٭انسان ایک عالم سے دوسرے عالم میں چلا جاتا ہے لیکن شیطان سدا سے ایک ہی عالم میں ہے۔

٭شیطان کو سانپ کے مماثل کہا جاتا ہے جو اپنے بچوں کو بھی نہیں چھوڑتا۔ اُس انسان کو کیا کہیں! شیطان یا سانپ جو زندگی کی کڑی دھوپ میں بچوں کے سر سے چھت اور پاؤں سے زمین نکالنے پر تُل جائے۔

٭زندگی صرف شیطان کو کنکریاں مارنے کا نام ہے۔ رمی کا پورا عمل زندگی کہانی ہی تو ہے۔ چلتے جاؤ آگے ہی آگے۔ ذرا دیر کو رُکنے یا مڑنے کی گنجائش نہیں۔ ایک ہجوم ہے، ایک بھگدڑ ہے۔ اس میں بڑے کرم کی بات ہے کہ کسی عام کو کائناتِ وقت میں کچھ خاص لمحے عنایت ہوجائیں جب وہ محنت سے جمع کیے خواہشوں اور حسرتوں کے سنگریزے رب کے فرمان پر دھتکارنے کو تیار ہوجائے۔ بند مٹھی میں قید بےقیمت حسرتیں پل میں یوں دان کر دے کہ پلٹ کر دیکھنے کی بھی خواہش نہ رہے۔ رمی فقط اندرونی اور بیرونی کیفیت کے اظہار کا نام ہے۔ ’’اندر نفس باہر شیطان‘‘۔

آخری بات
انسان سیکھنا چاہے تو شیطان بھی بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ اور مہرلگ جائے تو ولی اللہ کا قرب بھی کھائی میں گرنے سے نہیں بچا سکتا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں