محبت

 
ایک دفعہ میں ایک دوست کے ساتھ چڑیا گھر گیا بندر کے پنجرے میں دیکھا کہ وہ اپنی بندریا سے چمٹا محبت کی اعلیٰ تفسیر بنا بیٹھا تھا۔ تھوڑا آگے جا کرشیر کے پنجرے کے پاس سے گزر ہوا تو معاملہ الٹ تھا، شیر اپنی شیرنی سے منہ دوسری طرف کیئے خاموش بیٹھا تھا۔ میں نے دوست سے کہا کہ بندر کو اپنی مادہ سے کتنا پیار ہے اور یہاں کیسی سرد مہری ہے؟
دوست نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا؛ اپنی خالی بوتل شیرنی کو مارو۔ میں نے بوتل پھینکی تو شیر اچھل کر درمیان میں آگیا۔ شیرنی کے دفاع میں اسکی دھاڑتی ہوئی آواز کسی تفسیر کی طالب نہ تھی۔ میں نے ایک بوتل جا کر بندریا کو بھی ماری یہ دیکھنے کو کہ بندر کا ردعمل کیا ہوتا ہے، بوتل اپنی طرف آتے دیکھ کر بندر اپنی مادہ کو چھوڑ کر اپنی حفاظت کیلئے اچھل کر کونے میں جا بیٹھا۔
میرے دوست نے کہا کہ کچھ لوگ شیر کی طرح ہی ہوتے ہیں؛ ان کی ظاہری حالت پر نہ جانا، ان کے پیاروں پر بن پڑے تو اپنی جان لڑا دیا کرتے ہیں، مگر ان پر آنچ نہیں آنے دیتے۔
اور کچھ لوگ جو ظاہرا" بہت محبت جتاتے ہیں لیکن وقت آنے پر یوں آنکھیں پھیر لیتے ہیں جیسے کہ جانتے ہی نہ ہوں

4 تبصرے:

  1. آپ کے خلاف ایک بے زبان پر ظلم.کے الزام.میں مقدمہ درج ہونا چاہئیے

    جواب دیںحذف کریں
  2. بالکل درست تجزیہ ہے ۔ یہ پڑھ کر مجھے اپنی کالج کے زمانہ (1960ء) کی ڈائری پر لکھا ہوا فقرہ یاد آیا ۔ ”محبت جتانے والے فصلی بٹیرے تو بہت ہیں لیکن محبت اُن کی حقیقی ہے جو محبوب کی خاطر جان تو لڑا دیتے ہیں لیکن محبوب کی بدنامی کے ڈر سے زبان پر محبت کا لفظ نہیں لاتے“۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت عمدہ بات شئیر کی آپ نے اپنی ڈائری سے ۔۔ بہت شکریہ

      حذف کریں