یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے


کیسارقت آمیز تھا وہ منظر جب بوڑھا شفیق باپ اپنے کم سن لخت جگر سے کہ رہا ہے کہ’’پیارے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے میں تجھے ذبح کررہا ہوںبتا تیری کیا رائے ہے؟‘‘ اور لائق فرزند نے پورے عزم سے جواب دیا’’ابا جان آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اسے کرڈالیے آپ انشااللہ مجھے صابروںمیں پائیں گے‘‘(الصفات۱۰۲)۔

اب حضرت ابراہیمؑ تھے اور حضرت اسماعیلؑ ۔ دنیا کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہونے والا تھا۔صحرا کی اس تپتی ریت پر اپنے معصوم لخت جگر کو لٹاکر اس کے سینے پر گھٹنا ٹیک کر تیز چھری اسکی گردن پر پھیردی۔ اور اس معصوم جان نے اپنی گردن اس لئے زمین پر ڈال دی کہ اس کے باپ تعمیل حکم ربی کے ماسوا کچھ نہیں کرتے۔ صحرا ، پہاڑ، سورج بھی اطاعت وفرماں برداری کا یہ روح پرور منظر جھک کر دیکھ رہے ہیں کہ رحمت خداوندی جو ش میں آجاتی ہے’’اے ابراہیمؑ تم نے اپنا خواب سچا کردکھایا ہم وفادار بندوں کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں یقناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی‘‘(الصفات۱۰۶)۔

حضرت ابراہیم ؑ نے بیٹے کی گردن پر چھری پھیر کر جاں نثاری اور وفاداری کے جذبات کی تسکین کرلی لیکن قدرت کو بیٹے کی قربانی منظور نہ تھی پس عشق کا اتنا ہی امتحان مطلوب تھا۔میڈھے کو بھیج کر حضرت اسماعیل ؑ کو بچالیاگیا۔اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اس عظیم قربانی کی یاد ہرسال تازہ کریں جو ان کے جدامجد نے پیش کی تھی۔
لیکن ۔۔۔ قربانی کا یہ مطالبہ اچانک تو نہیں کردیا گیاتھا۔۔۔ یوں تو کوئی اپنی پسندیدہ ترین چیز ایک اشارے پر قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔حضرت ابراہیم ؑ تو ہیں ہی قربانیوں کی تفسیر۔۔وہ کون سی آزمائش تھی جس میں آپ پورا نہیں اترے۔خاندان، برادری، وطن عزیز تو چھوٹی چیزیں ہیں آپ تو آتش نمرود میں کود پڑے بے آب وگیاہ وادی میں اپنے خاندان کو چھوڑ آئے اور جب وہی بیٹا چل کر جوان ہوا تو حکم ملا کہ خود اس کو ذبح کردو! دنیا میں کسی انسان کو جو عظیم ترین آزمائشیں پیش آسکتی ہیں وہ سب حضرت ابراہیمؑ کو پیش آئیں۔۔اور ہر آزمائش میں پوراترکر مسلم حنیف بن کر اسلام کی کامل ترین تصویر رہتی دنیا تک چھوڑ گئے۔ ’’جب ان سے ان کے رب نے کہا’’مسلم ہوجاؤ تو اس نے بے تامل کہا میں رب العالمین کا مسلم ہوگیا‘‘(البقرہ۱۳)۔

اور واقعتا ۔۔ہماری پوری زندگی گواہی نہیں دے رہی کہ ہم مسلم اور وفادار ہیں تواللہ کو نہ گوشت مطلوب ہے نہ خون نہ کوئی جشن قربانی!!  حقیقتاً تو جانوروں کے گلے پر چھری چلانے سے پہلے خود سے یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم اس طرح تیرے وفادار ہیں جیسے ہمارے ۔۔حضرت ابراہیمؑ واسماعیلؑ تھے۔ اورتیرا اشارہ ہوا تو ہم بھی حضرت اسماعیلؑ کی طرح اپنی گردن تیرے حضور پیش کردیں گے اور قربانی کے وقت جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ جانثاری کے انہی جذبات کا عکس ہے کہ ’’میں نے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا رخ ٹھیک اس اللہ کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کیلئے ہے اسکا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلم اور فرمانبردار ہوں‘‘۔

اب اگر یہ جذبہ اور ارادہ نہ ہو تو محض گوشت بانٹنے، کھانے اور کھلانے کی کوئی تقریب تو مطلوب نہیں۔ اللہ سے یہ عہد کرنے کے بعدکہ ’’میں رب العالمین کا مسلم ہوں‘‘ کہاں خود سَری کی گنجائش رہتی ہے۔ جانوروں کا فدیہ دیں اور پیروی اپنے من مانے طریقوں کی کریں۔ کیا جانوروں کی فدیے دیکر ہم نے خود کو اسلئے چھڑایا کہ اب ہم ہر باغی کے مددگار بن جائیں۔؟؟ نہ ہمیں معروف کے حکم سے کوئی غرض ہے نہ منکر کے پھیلنے سے کوئی خدشہ۔! ہماری بے حسی نے جس بے حیائی کی دنیا آباد کی ہے اسکی ایک جھلک میڈیا منٹوں میں پیش کردیتا ہے۔ جرائم کی داستانوں کو چٹخارے لیکر اور زیب داستاں کیلئے بیان کیا جارہا ہے۔ ننھی معصوم بچیوں کے ساتھ جو واقعات ہورہے ہیں لگتا ہے ہم ابلیس کی سرزمین کے باسی ہیں۔

حضرت ابراہیم نے اپنے دین وایمان ، اپنی نسل، اسلامی اقدار وروایات کے تحفظ کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔ اپنی سلامی اقدار وروایات کے تحفظ کیلئے ہم کتنے کوشاں ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بڑے شہروں کے چوک چوراہوں سے گذرجائیں تو موبائل کمپنیوں کے اشتہارات ہوں یا فوڈ کمپنیوں کے یا خواتین کے کپڑے بنانے والی کمپنیوں کے۔۔قوم کی بہنوں اور بیٹیوں کی برہنہ تشہیر ہم میں سے کسی کے ایمان پر کوئی حرف نہیں آنے دیتی۔ ہمارے اخلاقی نظام کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ سفاکی کا عالم یہ ہے کہ ایک خودکش حملے میں سیکڑوں جانیں بھی چلی جائیں تو ہمارے رونگٹھے کھڑے ہوتے ہیں نہ دعوتیں اورتقریبات متاثر ہوتے ہیں۔ جرائم کی جس طرح تشہیر کی جارہی ہے اس سے مجرمانہ ذہنیت کو فروغ مل رہا ہے کیونکہ ان جرائم کی وجوہات کی نہ تشخیص کی جارہی ہے نہ روکنے کے اقدامات!!جب قاتلوں، چوروں ،ڈاکوؤں کو ایوان ھائے اقتدار پناہ دے دیںتو معاشرتی فساد کو پھیلنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے۔ ہماری ، فلم، ٹی وی، تھیٹر، کیا کچھ پیش کررہے ہیں ؟ صبح ہوتے ہی مارننگ شوز جو رقص وموسیقی اور بے ہنگم قہقہوں اور لا یعنی گفتگو کا ایک طوفان بدتمیرزی بپا کردیتے ہیں ان سب کے ہم عادی ہوچکے ہیں۔ اب ایمان کے تیسرے درجے یعنی کراہیت سے بھی ہم عاری ہوچکے ہیں۔

پچھلے ہفتے ڈائیوو بس میں سفر کیا۔ بس کی میزبان لڑکی کے ایک ہاتھ میں ۔۔۔ تھے اور دوسرے ہاتھ میں میگزینز اور اخبار۔بس کی پچھلی نشست پر ہونے کے باعث جائزہ لینا میرے لئے آسان تھا کہ مسافروں بالخصوص نوجوانوں نے ہیڈ فون لینا پسند کئے ۔پھر ٹی وی پر جو عریاں ترین اشتہارات اور انڈین فلم چلی وہ ایسی کہ الامان الحفیظ میں نے جب میزبان سے احتجاج کیا تو وہ معصومیت سے بولی’’آپ خود دیکھ لیں مسافر کس شوق سے دیکھ رہے ہیں ہم تو مسافروں کے آرام اور تفریح کا خیال رکھتے ہیں‘‘ اور یہی تفریح ہے جو اب خبر نامے کے دوران بھی قوم کو مہیا کی جاتی ہے جب دوران خبرنامہ بالی وڈ کی فلموں کے چنیدہ عریاں مناظر اسکرین پر پیش کئے جاتے ہیں۔ 24گھنٹے کی نشریات میں کتنے گھنٹے کوئی بامقصد چیز پیش کی جاتی ہے اور کتنے گھنٹے عریاں اور بے مقصد تفریح۔۔اس جائزے کیلئے کسی کا دانشور ہونا بھی ضروری نہیں۔۔۔

ملک کی سیاست، معیشت، معاشرت، نظام عدل،امن وامان،تعلیم ہر شعبہ خدا کی بغاوت کو ہوا دے رہا ہے۔جتنی ٹیکنالوجی ترقی کررہی ہے دجالی تہذیب فتح کے لشکر اتاررہی ہے اور پیروانِ ابراہیمؑ گوشت کے تہوار کو’’قربانی‘‘سمجھ رہے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے کچھ ایسی ہی تہذیب کے بتوں کو خانہ خدا میں رسوا کیا تھا منہ کے بل گرادیا تھا۔ ہم اسی جاھلانہ تہذیب کے پیروردہ بن کر ۔خاموش تماشائی بنکر ۔سب کچھ برداشت کرکے۔محض دجالی تہذیب کے نوحے پڑھکر اور حقیقتاً اپنے مفادات کے بندے بن کر کب’’آدابِ فرزندی‘‘ نبھاسکتے ہیں۔۔! ہمارے پڑوس میں کیا ہورہا ہے؟ ملک میں کیا ہورہا ہے؟ بچوں کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟ جس موبائل فون اور لیپ ٹاپ کے حوالے ہم نے اپنی نوجوان نسل کو کردیا وہ انکو اخلاقی اور روحانی طور پر کن دنیائوں کی سیر کرارہی ہیں۔؟ کتنا ایمان اور قوت عمل باقی رہنے دیا اس ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہمارے نوجوان نسل میں۔؟؟ یہ سوچنے ، سمجھنے کی فرصت نہیں اس وقت ہمارے پاس۔ کیونکہ پے درپے حادثات، سانحات، خوف کی فضا نے ہماری فکر کو بھی شل کردیا ہے۔ اور خون مسلم کی اس ارزانی میں بھی ہمیں فکر تو ہے اپنی ذات اور خاندان کی۔اور وہ بھی انکی دائمی بقا کی نہیں۔! حضرت ابراہمؑ نے اپنی مروجہ تہذیب سے بغاوت کی تھی آج سنت ابراہیمیؑ کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہم میں سے کتنے اس دجالی تہذیب کے خاتمے کیلئے اپنا کچھ وقت، مال یا صلاحیتیں قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟؟؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں