جنت کے پتے


"آپ جنت کے پتے کسے کہتے ہیں؟"

احمد نے گہری سانس لی اور کہنے لگا۔

"آپ جانتی ہیں، جب آدم علیہ السلام اور حوا جنت میں رہا کرتے تھے، اس جنت میں، جہاں نہ بھوک تھی، نہ پیاس، نہ دھوپ اور نہ ہی برہنگی۔ تب اللہ نے انہیں ایک ترغیب دلاتے درخت کے قریب جانے سے روکا تھا، تاکہ وہ دونوں مصیبت میں نہ پڑ جائیں۔"

وہ سانس لینے کو رُکا۔

"اس وقت شیطان نے ان دونوں کو ترغیب دلائی کہ اگر وہ اس ہمیشگی کے درخت کو چھو لیں تو فرشتے بن جائیں گے۔ انہیں کبھی نہ پرانی ہونے والی بادشاہت ملے گی۔ سو انہوں نے درخت کو چکھ لیا۔ حد پار کر لی . . . تو ان کو فوراً بے لباس کر دیا گیا۔ اس پہلی رسوائی میں وہ سب سے پہلی شے جس سے انسان نے خود کو ڈھکا تھا، وہ جنت کے پتے تھے، ورق الجنتہ۔"

"آپ جانتی ہیں، ابلیس نے انسان کو کس شے کی ترغیب دلا کر اللہ کی حد پار کروائی تھی؟ فرشتہ بننے کی اور ہمیشہ رہنے کی۔ جانتی ہیں حیا! فرشتے کیسے ہوتے ہیں؟"

اس نے نفی میں گردن ہلائی ، گو کہ وہ جانتی تھی کہ وہ اسے دیکھ نہیں سکتا۔

"فرشتے خوب صورت ہوتے ہیں۔" وہ لمحے بھر کو رُکا۔ "اور ہمیشہ کی بادشاہت کسے ملتی ہے؟ کون ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتا ہے؟ وہ جسے لوگ بھول نہ سکیں، جو انہیں مسحور کر دے، ان کے دلوں پہ قبضہ کر لے۔ خوب صورتی اور امر ہونے کی چاہ، یہ دونوں چیزیں انسان کو دھوکے میں ڈال کر ممنوعہ حد پار کراتی ہیں اور پھل کھانے کا وقت نہیں ملتا۔ انسان چکھتے ہی بھری دنیا میں رسوا ہو جاتا ہے۔ اس وقت اگر وہ خود کو ڈھکے تو اسے ڈھکنے والے جنت کے پتے ہوتے ہیں۔ لوگ اسے کپڑے کا ٹکڑا کہیں یا کچھ اور، میرے نزدیک یہ ورق الجنتہ ہیں۔"

(نمره احمد کے ناول ’’جنت کے پتے‘‘ سے اقتباس)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں