یہ دنیا۔۔وہ دنیا
ابو یحییٰ
اس مادی دنیا میں ہمارا ہر عمل ایک نتیجہ تخلیق کرتا ہے۔ ہم چلیں گے تو آگے بڑھیں گے۔ بوئیں گے تو کاٹیں گے۔ کھائیں گے تو سیر ہوں گے۔ پئیں گے تو پیاس بجھے گی۔ بولیں گے تو سنے جائیں گے۔ محنت کریں گے تو اسباب دنیا جمع کرتے چلے جائیں گے۔
مگر اس دنیا میں ایمانی عمل کوئی مادی نتیجہ پیدا نہیں کرتا۔ بلکہ بعض اوقات الٹا نتیجہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک بندہ مومن اس طرح تڑپ کر خالق ارض و سما کی حمد کرتا ہے کہ پہاڑ و پرند اس کے ساتھ حمد کرنے لگتے ہیں، مگر وہ گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن کردیا جاتا ہے۔ ایک دیانت دار شخص کرپشن کی دلدل میں گھرے ہوکر بھی خود کو آلودہ نہیں کرتا، مگر اس کی ایمانداری اس کے لیے قیمتی پلاٹ اور عالیشان گھر نہیں تخلیق کردیتی۔ ایک باحیا لڑکی اپنی شرافت کا بھرم رکھتی ہے، مگر حسن پرستی کے اس دور میں اپنا گھر اس کے لیے خواب و خیال ہوجاتا ہے۔
وہ قدریں جن کے بغیر انسانیت شرف انسانیت سے محروم ہوجائے گی وہ اس مادی دنیا میں آخری درجے میں غیر موثر ہیں۔ اس سے زیادہ حوصلہ پست کر دینے والی کوئی حقیقت اس مادی دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ ایسے میں خدا کی کتاب ہے جو یہ بتاتی ہے کہ یہ مادی دنیا ایک روز کوٹ کوٹ کر برابر کردی جائے گی اور ہر مادی عمل فنا ہوجائے گا۔
پھر ایک نئی دنیا تخلیق ہوگی۔ اس دنیا میں خدا کی محبت اور خوف میں بہنے والا ہر آنسوں ستاروں اور کہکشاؤں کی بادشاہی تخلیق کردے گا۔ فحش کو دیکھ کر جھک جانے والی نگاہ حسن کے جلووں کی ابدی تماشائی بنادی جائے گی۔ اپنی نسوانیت کو مجمع میں ابھارنے کے بجائے چھپانے والی حیا جمال و کمال کے آخری قالب میں ڈھال دی جائے گی۔ ایمان، رحم، انفاق، صبر اس روز وہ چیک بکس بن جائیں گے جن سے جنت کا ہر محل اور ہر نعمت خریدی جاسکے گی۔
یہ مادی دنیا اور اس کا ہر عمل فانی ہے۔ وہ ایمانی دنیا ابدی ہے۔ اس کی ہرنعمت لازوال ہے۔
ابو یحییٰ
اس مادی دنیا میں ہمارا ہر عمل ایک نتیجہ تخلیق کرتا ہے۔ ہم چلیں گے تو آگے بڑھیں گے۔ بوئیں گے تو کاٹیں گے۔ کھائیں گے تو سیر ہوں گے۔ پئیں گے تو پیاس بجھے گی۔ بولیں گے تو سنے جائیں گے۔ محنت کریں گے تو اسباب دنیا جمع کرتے چلے جائیں گے۔
مگر اس دنیا میں ایمانی عمل کوئی مادی نتیجہ پیدا نہیں کرتا۔ بلکہ بعض اوقات الٹا نتیجہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک بندہ مومن اس طرح تڑپ کر خالق ارض و سما کی حمد کرتا ہے کہ پہاڑ و پرند اس کے ساتھ حمد کرنے لگتے ہیں، مگر وہ گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن کردیا جاتا ہے۔ ایک دیانت دار شخص کرپشن کی دلدل میں گھرے ہوکر بھی خود کو آلودہ نہیں کرتا، مگر اس کی ایمانداری اس کے لیے قیمتی پلاٹ اور عالیشان گھر نہیں تخلیق کردیتی۔ ایک باحیا لڑکی اپنی شرافت کا بھرم رکھتی ہے، مگر حسن پرستی کے اس دور میں اپنا گھر اس کے لیے خواب و خیال ہوجاتا ہے۔
وہ قدریں جن کے بغیر انسانیت شرف انسانیت سے محروم ہوجائے گی وہ اس مادی دنیا میں آخری درجے میں غیر موثر ہیں۔ اس سے زیادہ حوصلہ پست کر دینے والی کوئی حقیقت اس مادی دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ ایسے میں خدا کی کتاب ہے جو یہ بتاتی ہے کہ یہ مادی دنیا ایک روز کوٹ کوٹ کر برابر کردی جائے گی اور ہر مادی عمل فنا ہوجائے گا۔
پھر ایک نئی دنیا تخلیق ہوگی۔ اس دنیا میں خدا کی محبت اور خوف میں بہنے والا ہر آنسوں ستاروں اور کہکشاؤں کی بادشاہی تخلیق کردے گا۔ فحش کو دیکھ کر جھک جانے والی نگاہ حسن کے جلووں کی ابدی تماشائی بنادی جائے گی۔ اپنی نسوانیت کو مجمع میں ابھارنے کے بجائے چھپانے والی حیا جمال و کمال کے آخری قالب میں ڈھال دی جائے گی۔ ایمان، رحم، انفاق، صبر اس روز وہ چیک بکس بن جائیں گے جن سے جنت کا ہر محل اور ہر نعمت خریدی جاسکے گی۔
یہ مادی دنیا اور اس کا ہر عمل فانی ہے۔ وہ ایمانی دنیا ابدی ہے۔ اس کی ہرنعمت لازوال ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں