چھوٹی سی بات


ایک صاحب اپنے ٧ یا ٨ سالہ بچے کو موٹر بائیک کے آگے بیٹھا کر تیزی سے سڑک کا موڑ کاٹتا ہے کہ یکا یک سامنے سے ایک گاڑی والا آجاتا ہے ۔۔ موٹر سائیکل والا بہت تیز تھا لیکن گاڑی والے نے بہت ہمت کر کے اپنی گاڑی کو بریک لگائی ، پھر بھی اس ایمرجنسی بریک میں بائیک والے کی ایک ٹانگ پر ہلکی سی خراش آئی اور وہ گرتے گرتے بال بال بچا ، ١٠ قدم پر جاکر اُس نے بائیک روک لی بچے کو وہیں بیٹھا رہنے دیا ) جو قدرے خوف ذدہ ہو گیا تھا ، اور نہیں چاہتا تھا کہ اُس کا والد اُسے چھوڑ کر جائے ( ۔۔ بائیک والے نے آتے ہی گاڑی والے کے گریبان کو پکڑ کر اُسے گاڑی سے باہر نکالا ،، اور اُسے گالی گلوچ کرنے لگ گیا ۔۔۔۔ گاڑی والا جو بہت دھیما بھلا مانس انسان لگ رہا تھا ، اُس بائیک والے سے کہنے لگا ۔۔““ غلطی تمہاری ہے ، تمہیں موڑ کاٹتے ہوئے بائیک کو آہستہ کرنا چاہے تھا ،، پھر بھی میں تم سے اُلجھنا نہیں چاہتا ۔۔
لیکن بائیک والا اُس سے لڑنے پر بضد تھا ۔۔۔ آخر کار گاڑی والے نے معاملہ ختم کرنے کے لئے وہ جملہ کہا جس نے معاشرتی اقدار میں پلتی ہماری نئی نسلوں کے زہنوں کا احاطہ کیا ہواہے ۔۔

““ دیکھو تمہارا بچہ تمہیں بڑے معصوم انداز سے دیکھ رہا ہے ۔۔ تم مجھ سے الجھو گے تو بات ہاتھا پائی تک پہنچے گی ، میں اکیلا ہوں مجھے میرا کوئی نہیں دیکھ رہا ، لیکن تمہارے ساتھ تمہارا بچہ ہے اگر اُس نے آج تمہیں مجھ سے مارکھاتا دیکھ لیا تو اُس کے دل میں تمہارے لئے ““ہیرو “ کا کردار ختم ہو جائے گا ۔۔

اُس کی سوچ کہ تم اُس زندگی میں سب سے بڑا سہارا ہو ختم ہو جائے گی ، جو اس کے بچپن کے لئے انتہائی خطرناک ہے ۔۔۔““

بائیک والے کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔ اُس نے گاڑی والے کے کپڑے جھاڑتے ہوئے معافی مانگی اور واپس بائک پر آکر اپنے بچے کو پیار کرنے لگا ““ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ““

اس دانشمندی سے اُس بائیک والے نے بچے کے دل میں ““ ہیرو ““ کو مرنے نہیں دیا ۔

پر آج کیا ایسا ہوتا ہے ؟؟ ہم اپنے بچوں کے سامنے گالم گلوچ کرنے سے باز نہیں آتے پھر چاہے ٹی وی پر پروگرام دیکھتے ہوۓ سیاستدانوں کو گالیاں دینا ہو یا باہر گلی محلے میں کسی کو گالی دینا ہو . کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے یہ سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ ہمارے رویوں کا معصوم بچوں پر کیا اثر پڑتا ہے کیا وجہ ہے کہ ایک ١٢ سالہ بچہ اپنے ١٣ سالہ دوست کا قتل کردیتا ہے اتنی جنونیت کیوں ؟؟ اگر ١٢ سالہ بچہ قتل کرتا ہے تو قصوروار وہ بچا نہیں اسکے والدین ہیں . کل طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو اسپتال میں ہی رہا وہاں بھی انسانوں کے ایسے ہی رویے دیکھے کہ جب تکلیف برداشت سے باہر ہوتی تو منہ سے اول فول نکالنے لگ جاتے تھے . تمام والدین سے گزارش ہے کہ کم سے کم اپنے بچوں کے سامنے اپنے رویوں کا منفی پہلو چھپائیں ورنہ آپ تو زندگی گزار چکے جوانی بتا چکے پر آپکے بچوں کی جوانیاں انہیں جنونی بنا دیں گی برداشت نہ کرنے والا تشدد پسند ... خدارا ان معصوموں کا خیال رکھئیے انکی اچھی تربیت کریں اگر ایسا کیا تو یہی آپکے لئے صدقہ جاریہ بننے ہیں اک دن ...

4 تبصرے: