گیلی لکڑیاں



گیلی لکڑ یاں

ہوا، آگ، پانی اور مٹی زندگی کے بنیادی عناصر ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام کیا ہے کہ کرہ ارض پر زندگی کے یہ تمام بنیادی عناصر کثرت سے موجود رہیں ۔تاہم ان عناصر میں سے آگ ایک ایسا عنصر ہے جو حرارت کی شکل میں تو سورج سے تمام جانداروں کو براہِ راست ملتا رہتا ہے ، مگر آگ کی شکل میں یہ عام دستیاب نہیں ہے ۔البتہ اللہ تعالیٰ نے وہ ایندھن بافراط اس دھرتی پر رکھ دیا ہے جس سے انسان آگ حاصل کرسکتے ہیں ۔
موجودہ دور میں قدرتی گیس آگ کے حصول کے لیے سب سے زیادہ سستے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔تاہم اس سے قبل انسانی تاریخ کے تمام عرصے میں آگ کے لیے ایندھن کے طور پر لکڑیاں ہی استعمال ہوتی رہی ہیں ۔ہزاروں سال تک انسان جنگلات اور درختوں سے لکڑ یوں کو کاٹتے اور ان سے اپنے گھر اور چولہے گرم رکھتے رہے ہیں ۔آج بھی ان علاقوں میں جہاں گیس موجود نہیں یہی ایندھن آگ کے حصول کا واحد ذریعہ ہے ۔
جن لوگوں نے لکڑ ی کو ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے دیکھا ہے ، وہ جانتے ہیں کہ لکڑ ی پر پانی کا پڑ نا اسے ایندھن کے طور پر استعمال کے قابل نہیں رہنے دیتا۔لکڑ ی جتنی خشک ہو گی ، اتنی ہی جلدی اور تیز آگ پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ لکڑ ی گیلی ہوجائے تو وہ جلتی نہیں ۔ جل بھی جائے تو آگ کم اور دھواں زیادہ دیتی ہے ۔
دورِ جدید کے مسلمانوں کی دینداری کا معاملہ بھی گیلی لکڑ یوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام کر رکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک گروہ اسلام کا علمبردار بن کر دنیا میں رہے ۔ اسلام کے چمن میں مسلمانوں کی فصل درختوں کی شکل میں پیدا ہوتی رہے ۔ یہ لوگ اپنے وجود کو ایندھن کی طرح جلا کر ہدایت کی روشنی برقرار کھیں ۔ مگر بدقسمتی سے آج کا مسلمان اپنا مقصدِحیات بھول گیا ہے ۔اس نے اپنے وجود میں خواہشات اور تعصبات کی نمی کو اس طرح جذب کر لیا ہے کہ اب وہ خدا کے کام کے لیے ایک گیلی لکڑ ی بن چکا ہے ۔ اور ایسی لکڑ ی اول تو ایندھن کے طور پر استعمال ہونے کے قابل رہتی نہیں اور اگر کی بھی جائے تو اس سے آگ کے بجائے دھواں نکلتا ہے ۔
ایمان کی آگ ، عمل صالح کی حرارت اور اخلاقِ حسنہ کی روشنی صرف اس وجود سے پھوٹتی ہے جس نے مفادات، خواہشات اور تعصبات کی ہر نمی سے خود کو پاک کر لیا ہو۔ یہ پاک وجود دنیا میں رہتا اور اس سے استفادہ کرتا ہے ، مگر اسے اپنا مقصود نہیں بناتا۔ وہ خواہشات نفسانی کو اپنا معبود نہیں بناتا۔وہ حیوانی جذبات کو زندگی کا محور نہیں بناتا۔ وہ مادی لذات کو زندگی کا مرکز نہیں بناتا۔
ایسا بندۂ مومن دنیا کو سرائے سمجھ کر زندگی بسر کرتا ہے ۔دنیا کی رنگینیاں اسے اپنی جانب کھینچتی ہیں ، مگر وہ ان کے عارضی حسن کے لیے جنت کی ابدی بادشاہی کا نقصان اٹھانا گوارا نہیں کرتا۔ اس کے ہر لمحے ، پیسے اور صلاحیت کا بہترین مصرف یہ ہوتا ہے کہ اس سے جنت حاصل کی جائے ۔ایسا شخص تارک الدنیا تو نہیں ہوتا۔وہ شادی کرتا، گھر بناتا اور معاش کے لیے جدوجہد کرتا ہے ۔ مگر وہ جانتا ہے کہ اسے حدود میں جینا ہے ، ہوس میں نہیں ۔ ضرورت میں جینا ہے خواہش میں نہیں ۔اسے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا ہی اس کے امتحان کا پرچہ ہے ۔ یہ پرچہ اگر نہیں دیا تو آخرت کی کامیابی ممکن نہیں ہے ۔ مگر وہ جانتا ہے کہ بہرحال یہ دنیا کمرۂ امتحان ہے ، کمرۂ آرام نہیں ۔ یہی یقین اسے خد اکے کام کے لیے خشک لکڑ ی بنادیتا ہے ۔
دوسری طرف جو لوگ آخرت کو مقصودکے مقام سے ہٹادیں ، وہ جتنی بھی دینداری اختیار کر لیں ، ان کی دینداری سے آگ کے بجائے دھواں پیدا ہوتا ہے ۔وہ دھواں جس سے حرات پیدا ہوتی ہے نہ روشنی۔ یہ لوگ انفاق کرتے ہیں ، مگر ریا کاری کے ساتھ، یہ لوگ عبادت کرتے ہیں ، مگر غفلت کے ساتھ، یہ لوگ نصرت دین کے لیے اٹھتے ہیں ، مگر تعصبات کے ساتھ ۔ان کی تمام تر دینداری ان کی خواہشات اور جذبات کے تابع ہی ہوتی ہے ۔
ایسی گیلی لکڑ یاں دنیا میں ایندھن نہیں بن پاتیں ۔ البتہ قیامت کے دن وہ ضرور ایندھن بنیں گی، مگر یہ ایندھن جہنم کا ہو گا۔وہ جہنم جہاں انسان اور پتھر ایک ساتھ جلائے جائیں گے ۔

(Abu Yahya)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں