خوشبو۔۔
بیتے ہوئے دن، گزری ہوئی رات کی خوشبو
رکھتی ہے معطر حسیں لمحات کی خوشبو
چرچا ہے ہر اک کوچہ و بازار میں تیرا
پھیلی ہے زمانے میں تیری ذات کی خوشبو
انداز تکلم تیرے رس گھول رہے ہیں
اب تک ہے فضائوں میں تیری بات کی خوشبو
یادوں کے دریچے میں سجا رکھی ہے ہم نے
وابستہ جو تم سے ہے خیالات کی خوشبو
محصور ہوا جاتا ہے دل سحر سے اس کے
آنگن میں جو پھیلی ہوئی ہے رات کی خوشبو
ہلچل سی مچا رکھی ہے رم جھم کی صدا نے
نس نس میں اتر آئی ہے برسات کی خوشبو
مائل بہ کرم ایسے ہیں صدیق وہ ہم پر
جاتی ہی نہیں ان کی عنایات کی خوشبو
( صدیق فتحبوری )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں