حضرت موسیٰ علیہ السلام ۔۔۔ حصہ چہارم
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب کوہِ طور پر نبوت کا فرضِ منصبی عنایت کیا جاتا ہے اور اُنہیں فرعون کو تبلیغِ حق کی دعوت پہنچانے کا حکم ملتا ہے، تو وہ رب العالمین سے حضرت ہارون علیہ السلام کو بطورِ مددگار ساتھ بھجوانے کی سفارش فرماتے ہیں کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھوں ایک قبطی کا قتل ہوچکا ہے۔ یہ نہ ہو کہ میں حکمِ ربی لے کر جاؤں تو میری تصدیق کرنے والا ہی کوئی نہ ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اعلیٰ مرتبہ بندے کی درخواست قبول کرتے ہوئے حضرت ہارون علیہ السلام کو نبی اور موسیٰ کلیم اللہ کا مددگار بنا دیتے ہیں اور مصر پہنچ کر ایک طویل مدت کے بعد جب آپؑ اپنے خاندان سے ملتے ہیں، تو حضرت ہارون علیہ السلام بھی نبوت کے منصب سے سرفراز ہوچکے ہوتے ہیں۔ تب دونوں بھائی رب تعالیٰ کے حکم کی تکمیل کے لیے فرعون کے دربار پہنچ جاتے ہیں۔ پہلے تو فرعون اور اہلِ دربار حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی آپ فرعون کو اللہ رب العزت کا پیغام پہنچاتے ہیں، تو وہ غضب ناک ہو جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:
’’اے فرعون! میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیلِ ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیات ۱۰۵۔۱۰۴)
درحقیقت آپ دو احکامات لے کر فرعون کے پاس گئے تھے، پہلا یہ کہ اللہ کی بندگی اختیار کرو اور دوسرا یہ کہ بنی اسرائیل کو اپنے ظلم کے پنجے سے آزاد کردو تا کہ وہ یہاں سے جا سکیں۔
اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت نبوت کے نور سے سرفراز تھی۔ آپ کوئی ایسے شخص معلوم نہ ہوتے تھے جو ایک خدائی کے دعوے دار سے محض اس کی شان و شوکت دیکھ کر ڈر جائے اور وہ ذرا سا رعب دکھائے تو اپنے کہے گئے الفاظ سے منہ موڑ لے بلکہ آپ کی شخصیت سے رعب و دبدبہ، عزم اور مستحکم انداز جھلکتا تھا۔ آپ وہ موسیٰ نہ تھے جس پر فرعونِ مصر کے احسانات تھے اور جن کے ہاتھوں ایک قبطی کا قتل ہوا تھا بلکہ آپ موسیٰ کلیم اللہ تھے۔ جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوچکا تھا کہ اُنہیں ان کے رب نے خود نبوت کی خوش خبری سنائی تھی۔
فرعون موسیٰ علیہ السلام کا انداز دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے اور فوراً اُنہیں جتلاتے ہوئے کہتا ہے:
’’کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا؟ تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے اور اس کے بعد کر گیا جو کچھ کہہ کر گیا، تو بڑا احسان فراموش آدمی ہے۔‘‘(سورۃ الشعراء، آیات:۱۹۔۱۸)
فرعون کسی ایک شخص کا نام نہ تھا بلکہ حاکمِ مصر کو فرعون کہا جاتا تھا۔ اگر ایک شخص مر جاتا، تو اس کی جگہ دوسرا شخص فرعون کے منصب پر فائز ہو جاتا۔ فرعون اپنی قوم کا اکیلا معبود تھا بلکہ اس کے علاوہ بھی دوسرے دیوی دیوتاؤں کی پرستش ہوتی تھی۔ فرعون خود سورج دیوتا کے اوتار کی حیثیت سے بادشاہی کا حق جتاتا تھا۔ دیوی دیوتاؤں تک تو ٹھیک تھا لیکن فرعون کسی دوسری ہستی کو اپنے اوپر ماننے کو تیار نہ تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خدائے بزرگ و برتر کی واحدانیت کا اعلان کرنا اس کے دعوے کی سراسر نفی تھا۔ سورۂ النازعات میں اللہ تعالیٰ فرعون کے اس دعوے کے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ کہتا ہے:
اَنَا ربَّکُمُ الْاَعْلیٰ
’’اے اہل مصر! تمہارا رب اعلیٰ میں ہوں۔‘‘ (آیت: ۲۴)
پھر سورہ الزخرف میں اپنے درباریوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے:
’’اے قوم! کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے؟ اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں؟‘‘ (آیت:۵۱)
پھر فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے:
’’اے موسی! تو پھر تم دونوں کا رب کون ہے؟‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت: ۴۹)
موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا۔‘‘(سورۂ طٰہٰ، آیت:۵۰)
پھر فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھتا ہے:
’’ اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی؟‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت: ۵۱)
حضرت موسیٰ علیہ السلام فوراً فرماًتے ہیں:
’’اس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت:۵۲)
پھر سورۂ طٰہٰ میں ہی اللہ رب العزت اپنی تخلیقات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔ اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔‘‘(سورۂ طٰہٰ، آیات:۵۵۔۵۳)
درحقیقت رب العالمین وہ معتبر ہستی ہے جس نے اپنی تمام مخلوقات یعنی انسان، حیوان، جمادات، نباتات، ہوا، پانی، روشنی وغیرہ کو نہ صرف ایک خاص صورت عطا کی بلکہ ان کی راہنمائی بھی فرمائی کہ ان کی تخلیق کس مقصد کے تحت کی گئی ہے جب کہ فرعون ان تمام باتوں سے مبّرا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال انسان کی درست طریقے سے راہنمائی ہے۔ اس مقصد کے لیے ربِّ کائنات نے بہت سے نبی اور رسول بھیجے تاکہ وہ انسانوں کو درست اور سیدھے راستے کی طرف لے جائیں۔
مصر پر فرعون کی حکومت ایک طویل مدت سے چلی آرہی تھی۔ تبھی فرعون خیال کرتا ہے کہ اس کا مطلب ہمارے آباء و اجداد جو اب تک کرتے آرہے تھے وہ سب غلط تھا۔ کیا ان کی عقلیں سلب ہوگئی تھیں جو وہ ہمیں دوسرا راستہ دکھاتے رہے اور رب العالمین کی طرف نہ لے کر گئے۔ تبھی موسیٰ علیہ السلام بڑی حکمت سے ان کو جاہل و گمراہ کہنے کے بجائے فرماتے ہیں کہ ان کا معاملہ خدائے بزرگ و برتر کے پاس محفوظ ہے، لیکن فرعون کس طرح اس حقیقت کو تسلیم کرلیتا جو اس کے تخت و تاج کو روندنے والی تھی اور اس بات کو ماننے کا مطلب تھا طاقت و حشمت کا خاتمہ۔ تبھی وہ اپنے اہلِ دربار کو پکارتے ہوئے کہتا ہے:
’’اے اہلِ دربار! میں تو نہیں جانتا کہ تمہارے لیے میرے سوا کوئی اور خدا ہے۔‘‘(سورۃ القصص، آیت: ۳۸)
اور آپ کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہتا ہے:
’’تمہارے یہ رسول صاحب جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں، بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت :۲۷)
جب کہ جواب میں موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب کا رب ہے، اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت:۲۸)
حضرت موسیٰ علیہ السلام فوراً فرعون کے خدائی دعوے کی تردید فرماتے ہیں کہ یہ تو ایک مخصوص خطے کی خدائی کا دعویٰ دار ہے جب کہ اللہ تو مشرق سے مغرب تک موجود ہر چیز کا مالک ہے اور اُسی کی فرما روائی ہے۔
فرعون یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی کسی اور کو حاکم برتر تسلیم کرے تبھی تو وہ آپ کو دھمکی دیتے ہوئے کہتا:
’’اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا، تو تجھے بھی ان لوگوں میں شامل کردوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت۲۹)
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کو حق کی دعوت دینے کا حکم فرمایا، تو ساتھ اس بات کی بھی تلقین فرمائی کہ خدائی پیغام ٹھیک ٹھیک فرعون کے سامنے رکھنا اور ذکرِ خداوندی میں کسی بھی قسم کی کوئی سستی نہ ہو۔ کیوں کہ خدا تعالیٰ کا ذکر بندے کو ایک ایسی غیبی طاقت عطا کرتا ہے جو اس کے لیے مددگار ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی اس بات کی بھی تلقین کی گئی کہ گفتگو میں نرمی اور شائستگی کا پہلو مدنظر رکھنا شاید کہ وہ سمجھ جائے اور راہِ راست پر آجائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہیں:
’’(اے محبوب) بلائیے ۔ (لوگوں کو) اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت سے اور عمدہ نصیحت سے ان سے بحث (و مناظرہ) اس انداز میں کیجیے جو بڑا پسندیدہ (اور شائستہ ہو)۔‘‘ (سورۂ النحل)
فرعون نے خدا کے پیغمبروں کی نہ صرف تکذیب کی بلکہ ان کی نرم گفتاری کو بھی کسی خاطر میں نہ لایا۔ اس نے اللہ رب العزت کی واحدانیت سے واضح انکار کیا اور اپنے خدائی کے دعویٰ پر قائم رہا۔ بلکہ آپ کو طعنہ دیا کہ آپ نبوت کے دعوے دار ہیں جب کہ آپ سے زبان کی لکنت کی وجہ سے صاف بات بھی نہیں ہوسکتی اور پھر آپ کو دھمکی دی کہ اگر تو اپنی بات سے نہ ہٹا، تو میں تجھے جیل خانہ میں ڈال دوں گا اور تم ایک لمبی مدت کے لیے قیدی بنا دیے جاؤ گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کو ان دھمکیوں اور طعنوں سے بے نیاز ہوکر فرماتے ہیں:
’’اگرچہ میں لے آؤں تیرے سامنے ایک صریح چیز بھی۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت:۳۰)
فرعون دیکھتا ہے کہ آپ پر کسی بات کا کچھ اثر نہیں، تو وہ گھبراتا ہے اور کہتا ہے:
’’اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے، تو اسے پیش کر۔‘‘(سورۃ الاعراف، آیت ۱۰۶)
فرعون کا حال بھی دوسرے مشرکین سے مختلف نہ تھا۔ وہ بھی ان کی طرح یہ مانتا تھا کہ اللہ ہی وہ بزرگ و برتر ہستی ہے جو تنہا کائنات کی مالک ہے۔ تبھی تو وہ کہتا ہے کہ اگر یہ واقعی اس کا بھیجا ہوا ہے، تو اس کے پاس کچھ چونکا دینے والا ہونا چاہیے۔ ورنہ یہ ظاہر ہے اگر اس کو رب العالمین کے وجود کا یقین نہ ہوتا، تو نشانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’(اس کی زبان سے یہ بات نکلتے ہی) موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک صریح اژدھا تھا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ (بغل سے) کھینچا اور وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت ۳۳۔۳۲)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جیسے ہی دونوں معجزات فرعون کے سامنے ظاہر کیے تو اس پر ہیبت طاری ہوگئی۔ یکایک اس پر اپنی بادشاہی اور اپنی مملکت کے چھن جانے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ یہ وہی فرعون ہوتا ہے جو کچھ دیر پہلے اس وقت کے نبی کو دیوانہ قرار دے رہا ہوتا ہے اور اب وہ بدحواس ہوجاتا ہے کہ اسرائیلی قوم کے دو طاقت ور افراد سامنے کھڑے ہیں اور ان کی پشت پناہی کرنے والا بہ ظاہر تو کوئی نہیں ہوتا کیوں کہ وہ بنی اسرائیل سے ہیں جو اس کی محکوم ہے لیکن ان کے پاس نشانیاں اس رب کریم کی عطا کردہ تھیں کہ وہ ڈر گیا اور اپنے درباریوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے:
’’یہ شخص یقیناًایک ماہر جادوگر ہے، چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے نکال دے، اب بتاؤ تم کیا حکم دیتے ہو؟‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت ۳۵۔۳۴)
فرعون کا حضرت موسیٰؑ کو جادوگر کہنا اس کی بدحواسی کی دلیل ہے کیوں کہ جادوگر شعبدہ باز ہوتے ہیں اور جادو کی بدولت جنگیں نہیں جیتی جاتیں اور نہ ہی کسی قسم کے سیاسی انقلاب برپا ہوسکتے ہیں۔ تماشا دکھا کر انعام و اکرام بٹورنا جادوگروں کا مقصد ہوتا ہے، لیکن فرعون کی عقل پر پردہ حائل ہو جاتا ہے اور وہ اپنے درباریوں سے مشورہ کرنے لگتا ہے کہ کس طرح موسیٰؑ کے سامنے کھڑارہا جائے اور ان کی بازی کو پلٹ دیا جائے۔ آپس و صلاح مشورہ کرکے وہ فرعون سے مخاطب ہوتے ہیں اور اُنہیں کہتے ہیں:
’’اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجیے اور شہروں میں ہرکار ے بھیج دیجیے کہ ہر سیانے جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت ۳۷،۳۶)
ملک میں ہر طرف ہرکارے دوڑا دیے جاتے ہیں جو شاہی فرمان کے مطابق جادوگروں کو ایک مخصوص دن اکٹھا ہونے کا دعوت نامہ دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے کمالات سے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے نبوت کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرسکیں۔ عام عوام کو بھی دعوت دی جاتی ہے کہ وہ بھی اس روز مجمع کا حصہ بنیں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ لاٹھی کا اژدھا بن جانا کوئی بڑی اہم بات نہیں ہے بلکہ مصر کا ہر جادوگر یہ کمال دکھانے میں ماہر ہے۔
فرعونِ مصر کے وہ بندے جو عوام کو اس دن جمع ہونے کا پیغام دیتے ہیں درحقیقت ان کے دل ان عظیم معجزات کی طرف مائل ہوچکے ہوتے ہیں۔ تبھی تو وہ لوگوں سے کہتے ہیں:
’’تم اجتماع میں چلو گے۔ شاید کہ ہم جادوگروں کے دین پر ہی رہ جائیں اگر وہ غالب رہے۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت ۴۰۔۳۹)
مختلف مفسرین اس دن کے مجمع کی تعداد مختلف بتاتے ہیں۔ کسی کے خیال میں یہ تعداد پندرہ ہزار، تیس ہزار، چالیس ہزار یا ستر ہزار پر مشتمل تھی۔ (واللہ اعلم)
مقررہ دن پر جب تمام جادوگر اکٹھے ہوتے ہیں، تو وہ جیت کی توقع رکھتے ہیں اور اس امید کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں کہ وہ میدان مار لیں گے اور بیش قیمت انعام سے نوازے جائیں گے، لیکن چوں کہ یہ دعوت فرعون کی طرف سے ہوتی ہے تبھی وہ جادوگر جب میدان میں آتے ہیں، تو فرعون سے کہتے ہیں:
’’ہمیں انعام میں کیا ملے گا۔ اگر ہم غالب رہے؟‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت ۴۱)
تو فرعون اُنہیں لالچ دیتے ہوئے کہتا ہے:
’’اور تم تو اس وقت مقربین میں شامل ہو جاؤ گے۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت ۴۲)
یہ وہ بڑے سے بڑا اجر تھا جو روپے پیسے کے علاوہ بادشاۂ وقت کے ہاں سے ملتا تھا کہ ان کو درباریوں میں شامل کرلیا جائے گا۔ جشن کے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام گروہِ مقابل کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:
’’شامت کے مارو، نہ جھوٹی تہمتیں باندھو اللہ پر، ورنہ وہ ایک سخت عذاب سے تمہارا ستیاناس کردے گا۔ جھوٹ جس نے بھی گھڑا وہ نامراد ہوا۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت۶۱)
پھر آگے کا واقع بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یہ سن کر ان کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا اور وہ چپکے چپکے باہم مشورہ کرنے لگے۔ آخرکار کچھ لوگوں نے کہا:
’’یہ دونوں تو محض جادوگر ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کردیں اور تمہاری مثالی طریقِ زندگی کا خاتمہ کردیں۔ اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کرلو اور ایکا کرکے میدان میں آؤ۔ بس یہ سمجھو کہ آج جو غالب رہا وہی جیت گیا۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت ۶۴۔۶۲)
تبھی جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
’’موسیٰ تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں؟‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت۶۵)
جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہایت ہی سمجھ داری سے پہلے اُنہیں اپنا کرتب دکھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں تاکہ تمام لوگوں پر اللہ اور اس کے نبی کی شان واضح ہو جائے اور کہتے ہیں:
’’نہیں تم پھینکو۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت ۶۷)
حضرت موسیٰؑ نے جب ان کو پہل کی دعوت دی، تو اسی وقت جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ان کی طرف پھینک دیں۔ اچانک سب کو یہ محسوس ہونے لگا جیسے سینکڑوں سانپ دوڑ رہے ہیں اور ان کی طرف آرہے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اندر دہشت سی محسوس کرتے ہیں۔ بے شک آپ پیغمبر تھے، لیکن بہرحال انسان تھے، تبھی آپ کو خوف سا محسوس ہوتا ہے۔
قرآن اس سے یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ پیغمبروں پر جادو مکمل طور پر اثر تو نہیں ڈالتا، لیکن یک گونہ اثر ضرور ڈال سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندۂ برحق کو تسلی دیتے ہیں اور اُنہیں حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مت ڈرو، تو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اس کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے، جو کچھ بنا کر لائے ہیں۔ یہ تو جادو کا فریب ہے اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ خواہ کسی شان سے وہ آئے۔‘‘
(سورۂ طٰہٰ، آیت ۶۹۔۶۸)
حضرت موسیٰؑ نے حکمِ ربی سے عصا زمین پر جیسے ہی پھینکا، تو وہ ایک خوف ناک اژدھا کے روپ میں آگیا۔ وہ اس قدر ڈراؤنا تھا کہ لوگ اُسے دیکھ کر بھاگے اور دور جا کر تماشا دیکھنے لگے۔ ہر کوئی خوف سے کانپ رہا تھا اور اژدھا جہاں جہاں لاٹھیاں اور رسیاں تھیں اُنہیں نگلتا جاتا اور ان کا طلسم ختم کرتا جاتا، ہر کوئی ششدر تھا۔ جادوگری کے فن میں ایسا کوئی کمال نہ تھا۔ بے شک جادوگر اس بات سے واقف تھے کیوں کہ ان کا جادو محض جھوٹ، فریب، حیلہ اور مکر تھا۔ خدائی معجزے کے سامنے اس کی حقیقت بالکل نہ تھی۔ جادوگروں کی آنکھوں کے سامنے سے جہالت کا پردہ ہٹ گیا اور ان کے دل کی سختی جاتی رہی اور وہ جان گئے کہ یہ برحق نبی ہیں۔ ان کے دل موم ہوگئے اور ان کی پیشانیاں سجدے میں گرگئیں۔ کیوں کہ انہوں نے رب العالمین کی طاقت کا کرشمہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا جس کے آگے جادو کا کوئی زور کارگر نہ تھا اور وہ پکار اٹھے۔
’’ہم نے مان لیا رب العالمین کو، اس رب کو جسے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام مانتے ہیں۔‘‘( سورۃ الاعراف، آیت ۱۲۲۔۱۲۱)
اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے نبی کی سچائی کو اس آن میں لوگوں کے سامنے بیان کیا کہ ان کے مخالفین جو کچھ لمحات پہلے ان سے مقابلہ کررہے تھے۔ اس عظیم ہستی کی حقیقت سے باخبر ہوکر سجدہ میں پڑے تھے۔ فرعون یہ صورت حال دیکھ کر دہنگ رہ گیا اور پریشانی اور غصے کے عالم میں ان کو پکارتا ہے:
’’تم اس پر ایمان لے آئے، قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں؟ یقیناً یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کردو۔ اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے۔ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھا دوں گا۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت ۱۲۴، ۱۲۳)
فرعون حق اور سچ سامنے آجانے پر اپنی آخری چال چلتا ہے اور اس تمام واقعہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کی ملی بھگت اور سازش قرار دیتا ہے تاکہ وہ ڈر جائیں اور موسیٰ علیہ السلام کی پیروی سے انکار کرکے فرعون کی جماعت میں شامل ہو جائیں، لیکن ہدایت ایسی روشنی ہے جس سے اگر اللہ چاہے تو دل منور ہوجائیں، تو کوئی دنیاوی طاقت اس کے آگے ٹھہرنے والی نہیں۔ تبھی تو وہ جادوگر جو کچھ وقت پہلے فرعون سے سودے بازی کررہے تھے اب حق پرستی اور اولوالعزمی کے سامنے اپنے ہرگناہ سے تائب ہوگئے اور فرعون کی قتل کی دھمکی پر ببانگ دہل کہتے ہیں:
’’بہرحال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے، تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتاہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں، تو ہم نے انہیں مان لیا۔
اے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اُٹھا، تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں۔(سورۃ الاعراف، آیت ۱۲۶۔ ۱۲۵)
فرعون کذب و افتراء سے کام لیتا ہے اور یہ کہتے ہوئے کفر کی انتہا کرتا ہے کہ
’’وہ تو تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تمہیں سکھایا ہے جادو کا (فن)۔‘‘ اس نے اللہ کے محبوب بندے پر بہتان لگایا جب کہ معمولی سے معمولی شخص بھی سمجھ گیا کہ اس بات کا حقیقت سے تعلق نہیں۔
بنی اسرائیل کے لوگ جو ایک طویل مدت سے فرعون اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہورہے تھے اور اس پیشین گوئیوں کے سچ ہونے کے منتظر تھے کہ ایک نبی ان میں سے مبعوث ہوگا جو فرعون کے ظلم و ستم سے اُنہیں نجات دلائے گا۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا غلبہ ان کے لیے کسی نعمتِ عظمیٰ سے کم نہ تھا۔ جادوگروں کا ایمان لے آنا اور فرعون کی دھمکیوں کے باوجود حق پر ڈٹ جانا ان کے لیے غیبی امداد تھی۔ مفسرین کے مطابق جادوگر جب سجدے میں گرے تھے، تو اُنہیں باقاعدہ جنت و دوزخ کا نظارہ کروایا گیا تھا۔ وہ جزا و سزا کو دیکھ کر ایمان کی پختگی حاصل کرگئے۔ اس کے متعلق سورۂ طٰہٰ میں رب کریم فرماتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا۔ اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہوگا۔ جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلندر درجے ہیں۔ سدا بہار باغ ہیں۔ جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا اُس شخص کے لیے ہے جو پاکیزگی اختیار کرے۔‘‘(آیت ۷۶۔۷۴)
سچ اور جھوٹ کی جنگ میں جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔ فرعون نے اپنے جھوٹے خدائی دعوے کی بنیاد پر ایک طویل مدت لوگوں کو اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنائے رکھا، لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو بنی اسرائیل کا مددگار بناکر ہر طرح سے لیس کرکے بھیجا اور پھر تمام واقعات سے ثابت ہوا کہ موسیٰ کلیم اللہ ہی حقیقی نبی اور پیغمبر ہیں اور جادوگروں کی شکست اللہ کی فتح تھی۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حق اور سچ کا ساتھ دینے والا بنائے۔ (آمین)
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ