آج کی بات - 492


~!~ آج کی بات ~!~

عزت کے لیے ہم بھاگے پھرتے ہیں، اور عزت کی چابی ہمارے اندر ہی کہیں چھپی ہوتی ہے، وہ ایسے کہ جب ہم دوسروں کی عزت کرتے ہیں تو رب کریم ہماری عزت کی حفاظت کرتے ہیں، لوگ ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا پسند کرتے ہیں، ہم سے (positive vibes) مثبت شعائیں نکلتی ہیں اور آخر کار ہم اپنی عزت کرنا جان جاتے ہیں الحمداللہ۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

~!~ آج کی بات ~!~ عزت کے لیے ہم بھاگے پھرتے ہیں، اور عزت کی چابی ہمارے اندر ہی کہیں چھپی ہوتی ہے، وہ ایسے کہ جب ہم دوسروں کی عزت ک...

آج کی بات - 491


~!~ آج کی بات ~!~

اپنی خوشیوں کی دھوم نہ مچایا کریں، جن کو بتانا ضروری ہے انہیں ضرور بتایا کریں،
 اور بس شکر ادا کیا کریں دل سے، ہر وقت۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

~!~ آج کی بات ~!~ اپنی خوشیوں کی دھوم نہ مچایا کریں، جن کو بتانا ضروری ہے انہیں ضرور بتایا کریں،  اور بس شکر ادا کیا کریں دل سے،...

اگر۔۔۔


اگر۔۔۔

اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے دُکھ بھُلا دیں
اور اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں یاد رکھیں

اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے نقصان بھُلا دیں
اور جو فائدے پائے ان سب کو یاد رکھیں

اگر ہم لوگوں میں عیب ڈھونڈنا چھوڑ دیں
اور ان میں خوبیاں تلاش کر کے یاد رکھیں

تو اس معمولی کوشش سے  یہ دنیا  کتنی آرام دہ ۔ خوش کن اور اطمینان بخش بن جائے
اور اللہ کی مہربانی سے آخرت میں بھی جنّت مل جائے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

اگر۔۔۔ بشکریہ: افتخار اجمل بھوپال اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے دُکھ بھُلا دیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں یاد رکھیں اگر ہم ...

الحمد للہ کہیں


الحمد للہ کہیں۔۔۔
از بابا کوڈا

اگر آپ کے پاس تین لاکھ روپے کیش یا کسی اور شکل میں موجود ہیں جنہیں آپ ایک دن کے نوٹس پر استعمال کرسکتے ہیں تو پھر سب سے پہلے الحمدللہ کہیں ۔ ۔ ۔
 الحمد للہ کہیں کیونکہ آپ کا تعلق سات ارب آبادی کی دنیا کے پانچ فیصد امیر ترین طبقے سے ہے۔

اگر آپ کو پیاس لگے اور دس منٹ کے اندر اندر تازہ یا فریج کے پانی کا گلاس آپ کو مل سکتا ہے تو پھر سب سے پہلے الحمد للہ کہیں۔ ۔ ۔ 
الحمدللہ کہیں کیونکہ آپ کا تعلق دنیا کے اس بیس فیصد طبقے سے ہے جسے اللہ نے یہ سہولت دے رکھی ہے۔

اگر دسمبر کی یخ بستہ صبح سو کر اس طرح اٹھتے ہیں کہ آپ کے نیچے نرم بستر اور اوپر گرم لحاف تھی تو سب سے پہلے الحمدللہ کہیں۔ ۔ ۔
 الحمدللہ کہیں کیونکہ آپ کا تعلق دنیا کے اس تیس فیصد طبقے سے ہے جسے یہ سہولت میسر ہے۔

اگر آپ اسی یخ بستہ صبح اپنے بستر سے نکل کر باتھ روم جاتے ہیں، نہانے کیلئے شاور کھولتے ہیں اور گرم پانی آپ کے جسم پر گرتا ہے جس سے آپ تروتازہ ہوجاتے ہیں تو سب سے پہلے الحمد للہ کہیں۔ ۔ ۔ 
الحمدللہ کہیں کیونکہ شام، فلسطین، کشمیر، افغانستان سے لے کر افریقہ کے بہت سے پسماندہ ممالک تک، کروڑوں لوگوں کو یہ سہولت میسر نہیں۔

اگر آپ کے بچے دن میں تین وقت کھانا کھاتے ہیں اور بھرے پیٹ کے ساتھ رات کو بستر پر چلے جاتے ہیں تو پھر سب سے پہلے الحمدللہ کہیں۔ ۔ ۔
 الحمدللہ کہیں کیونکہ دنیا کی 80 فیصد آبادی کے بچوں کو تین وقت پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔

اگر آپ جب چاہیں اپنے ہاتھ پاؤں ہلا سکتے ہیں، بازو اور گھٹنے موڑ سکتے ہیں اور اپنے ہاتھ بغیر تکلیف کے گھٹنوں تک پہنچا سکتے ہیں تو سب سے پہلے الحمدللہ کہیں۔ ۔ ۔
 الحمدللہ کہیں کیونکہ دنیا کی چالیس فیصد سے زائد آبادی ان میں سے کوئی ایک کام بغیر تکلیف کے نہیں کرسکتی۔

اگر آپ کے سامنے گھی سے تر بتر پراٹھے یا فرائیڈ چکن یا پیزا موجود ہے لیکن آپ اس وجہ سے نہیں کھاتے کہ کہیں آپ کا وزن نہ بڑھ جائے تو سب سے پہلے الحمدللہ کہیں۔ ۔ ۔
الحمد للہ کہیں کیونکہ آپ کا تعلق دنیا کے اس سات فیصد خوش نصیب طبقے سے ہے جسے اللہ نے یہ سب سہولیات دے رکھی ہیں اور وہ اپنی مرضی سے یہ نہیں کھاتے۔

اگر آپ گھر سے اپنی سواری پر نکلتے ہیں تو سب سے پہلے الحمدللہ کہیں۔ ۔ ۔
  الحمدللہ کہیں کیونکہ دنیا کی اسی فیصد سے زائد آبادی کو یہ سہولت میسر نہیں۔

اگر آپ بآسانی سانس لیتے ہوئے آکسیجن اندر لے جاسکتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ باہر پھینک سکتے ہیں تو سب سے پہلے الحمدللہ کہیں ۔ ۔ ۔ 
الحمدللہ کہیں کیونکہ دنیا کی بیس فیصد سے زائد آبادی کو سانس کے مسائل کا سامنا ہے۔

اگر آپ یہ پوسٹ پڑھنے کے بعد غور و فکر میں مبتلا ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے ان گنت احسانات کو محسوس کرتے ہوئے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں تو الحمد للہ کہیں ۔ ۔ ۔ 
الحمدللہ کہیں کہ اس نے آپ کو اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی، ورنہ اس دنیا میں اربوں انسان ایسے بھی آئے جنہیں یہ توفیق نہ مل سکی اور وہ اسی حالت میں قبروں میں جا پہنچے۔

الحمد للہ کہیں ۔ ۔ ۔  جب تکہ کہ آپ کی آخری سانس نہ آجائے ۔ ۔ ۔ کیونکہ یہ زندگی اللہ تعالی کا ہم پر ایک احسان عظیم ہے اگر ہم اسے اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق گزار لیں!!!! 


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

الحمد للہ کہیں۔۔۔ از بابا کوڈا اگر آپ کے پاس تین لاکھ روپے کیش یا کسی اور شکل میں موجود ہیں جنہیں آپ ایک دن کے نوٹس پر استعمال ک...

حرفِ نسبت (نعتیہ نظم)


حرفِ نسبت (نعتیہ نظم)
شاعر: شبنم رومانی

ان کی دہلیز چھوکر
جو پتھر تھا پل بھر میں پارس ہوا
ان کے ہاتھوں سے جو ہاتھ بھی مَس ہوا
چاند تاروں نے اس ہاتھ پر بیعتِ شوق کی
اس زمیں پر وہی ہاتھ سایہ رہا
یہ فلک بھی اسی کا کنایہ رہا

جس نے دیکھا انہیں
اس کی بینائی کے واہمے دُھل گئے
اس پہ آفاق کے سب ورق کھل گئے

جس نے مانا انہیں
اپنے پیکر میں شہرِ یقیں ہوگیا

جس نے جانا انہیں
جہل بھی اس کا علم آفریں ہو گیا

جن نے ڈھونڈا انہیں
وہ سلیماں قدم
عالمِ راز کا سَیربیں ہو گیا

جس نے پایا انہیں
وہ فقیرِ حَرم
معرفت کے حرا میں مکیں ہو گیا

جس نے سوچا انہیں
وہ خدا کی قسم
ماورائے زمان و زمیں ہو گیا

جس نے چاہا انہیں
اس کی چاہت بقا کی نِگارش ہوئی
اس پہ دن رات پھولوں کی بارش ہوئی

جس نے چاہا انہیں
اس کو چاہا گیا
اس کی دہلیز تک ہر دوراہا گیا

صلی اللہ علیہ وسلم





تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

حرفِ نسبت (نعتیہ نظم) شاعر: شبنم رومانی ان کی دہلیز چھوکر جو پتھر تھا پل بھر میں پارس ہوا ان کے ہاتھوں سے جو ہاتھ بھی مَس ہو...

خوشی ۔۔۔ ایک مکالمہ


خوشی - ایک مکالمہ


⁑ سب لوگ خوش کیوں نہیں رہتے؟

⁂ کیونکہ خوشی کا تعلق نصیب سے ہے۔ اور نصیب کا چوائس سے۔ ہمارے حالات ، ہماری چوائسز اور اعمال کا نتیجہ ہیں۔  ہماری چوائسز اور اعمال  ، ہماری نیّت کا۔

⁑ پر خوشی بھی تو ایک چوائس ہے۔ ہے نا؟

⁂ ہے۔ بالکل ہے۔  دراصل خوش اور مُطمئن انسان وہ ہے جو اپنا  کام کرتا ہے۔

⁑ اپنا کام؟

⁂ جی۔ اِنسان بنائے گئے تھے تاکہ یہ پتا چلے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ بس۔

⁑ بس؟

⁂ جی۔ یہی مقصدِ حیات  ہے۔ آپ نے پڑھا  ہے ناں، سورۃ المُلک کی دوسری آیت۔

⁑ جی۔ یہی ہے۔

⁂ ہم خوش اس لئے نہیں رہتے کیونکہ ہم اُن کاموں میں  مصروف ہو جاتے ہیں جو ہمارے کرنے کے نہیں۔

⁑ مثلاً؟

⁂ مثلاً دوسروں کو پرکھتے رہنا ، بلاوجہ کھوجنا ، فضول سوالات، گفتگو اور معاملات میں وقت ضائع کرنا، بے کار کی بات چیت،  توقعات وابستہ کرنا ، پِھر انہی توقعات کی بنیاد پر فیصلے صادر کرنا ، دِلوں کے حال جاننے کے دعوے،  وغیرہ۔ اس کے علاوہ ہم  خوشی کو  ناپ تول کے روایتی پیمانوں میں سمیٹنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ہم خوشی کو جج بھی کرتے ہیں، ہر چیز کی طرح۔ خوشی کو  اُن چیزوں سے مشروط بھی کر دیا کرتے ہیں، جو خود مشروط و معدوم  ہیں، مثلاً دولت، شہرت، اختیار۔

⁑ پر یہ تو تقریباً معمول ہے معاشرے کا۔

⁂ اِسی لئے تو خوشی غائب ہے۔ آپ یاد کیجیئے، آخری بار کب خوش ہوئے تھے؟

⁑ یاد نہیں آ رہا۔

⁂ اچھا، یہ بتائیں کہ آخری بار کِسی کو خوش کب دیکھا تھا؟

⁑ ایک مزدور کو۔ وہ ہمارے گھر پر کام کر رہا تھا۔

⁂ اُس کی  خاص بات کیا تھی؟

⁑ وہ اپنا  کام بہت اچھے طریقے سے کرتا تھا۔ کِسی اِدھر اُدھر کی بات میں ٹانگ نہیں اڑاتا تھا۔ کوئی فالتو بات  یا حرکت نہیں کرتا تھا۔ ہر وقت مُسکراتا تھا۔ اور ہاں،  لان میں گھاس پر ایسے سوتا تھا  جیسے کِسی محل میں سو رہا ہو۔

⁂ سب سے اہم بات، وہ موازنہ نہیں کرتا ہو گا۔

⁑ بالکل۔ بالکل۔

⁂ موازنہ ، میعارات سے جنم لیتا ہے، اور میعارات خوشی کا اُلٹ ہیں۔ خوشی بہت حد تک ہے اور ہونا چاہیئے کے مابین  فرق کو نہ پہچاننے کا نام ہے۔ اور ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب  یا تو یہ فرق نہ ہونے کے برابر ہو، ( جو کہ اکثر ناممکن ہی ہوتا ہے) ، یا پھِر ہم  ہونا چاہیئے کی بجائے ہے پر خوش اور مُطمئن ہو جائیں۔

⁑ یہ تو  نصیب پر خوش  ہو جانے والی بات ہوئی۔

⁂ جی، یہی بات۔ کیونکہ خوشی کا تعلق نصیب سے ہے۔ اور نصیب کا چوائس سے۔ ہمارے حالات ، ہماری چوائسز اور اعمال کا نتیجہ ہیں۔  ہماری چوائسز اور اعمال  ، ہماری نیّت کا۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

خوشی - ایک مکالمہ از عمر الیاس ⁑ سب لوگ خوش کیوں نہیں رہتے؟ ⁂ کیونکہ خوشی کا تعلق نصیب سے ہے۔ اور نصیب کا چوائس سے۔ ہمارے ...

وہ پاکستان کے بابا تھے جاں تھے


نذرانۂ عقیدت --- قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ
شاعر: نظرؔ لکھنوی

نئی منزل کے جب ابھرے نشاں تھے
وہی بانگِ رحیلِ کارواں تھے

چراغِ راہ تھے منزل نشاں تھے
امیرِ مسلمِ ہندوستاں تھے

وہ ہندی میکدے میں اک اذاں تھے
نوائے خوش سروشِ دلستاں تھے

دماغ و دل تھے وہ سب کی زباں تھے
وہ پوری قوم کی روحِ رواں تھے

ضعیفی تھی مگر بوڑھے کہاں تھے
اولو العزمی کے پہلو سے جواں تھے

بظاہر گو نحیف و ناتواں تھے
بباطن وہ مگر کوہِ گراں تھے

تنِ مسلم میں وہ قلبِ بتاں تھے
رگِ ملت میں وہ خونِ رواں تھے

سدا افروختہ داغِ نہاں تھے
سکوتِ شب میں وہ سوتے کہاں تھے

دمِ تقریر یوں معجز بیاں تھے
کہ سب انگشت حیرت در دہاں تھے

خموشی بھی سخن پرور تھی ان کی
کبھی جب بولتے تو دُر فشاں تھے

نگاہوں سے ٹپکتی تھی ذہانت
متانت کے وہ اک کوہِ گراں تھے

سپہرِ بخت کے رخشندہ نیّر
ہمیں منزل میں مثلِ کہکشاں تھے

غمِ دنیا سے تھی گو بے نیازی
غمِ ملت سے لیکن خوں چکاں تھے

مذاقِ غزنوی رکھتے تھے دل میں
بتوں کے حق میں تیغِ بے اماں تھے

ہلے ان کے نہ پائے استقامت
وہیں تھے تا دمِ آخر جہاں تھے

اٹھایا قم باذن اللہ کہہ کر
مسیحا دم برائے مردہ جاں تھے

ستائش کیجئے جتنی بھی کم ہے
وہ اپنے عہد کی اک داستاں تھے

نظرؔ رحمت کی ہو ان پر خدایا
وہ پاکستان کے بابا تھے جاں تھے



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

نذرانۂ عقیدت --- قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ شاعر: نظرؔ لکھنوی بشکریہ: اردو محفل فورم نئی منزل کے جب ابھرے نشاں تھے وہی بانگِ ...

فرموداتِ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ​


فرموداتِ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ​
منقول

◀ آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 ء میں قائد اعظم نے وہ بصیرت افروز اور چشم کشا خطاب کیا جس کی ضیا باری سے آج بھی تاریخ پاکستان روشن ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا :-​
" مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا "​
◀ 6 دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائد اعظم نے فرمایا:-
" وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرانِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امت "

◀ قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:-
" قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں "

◀ 1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
" میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں "
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا :
" وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ ّ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے"

◀ 13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:-
" ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں"

◀ یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا :-
" اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نطام پیش کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے۔ انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ سے بچا سکتا ہے۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے"

◀ 25 جنوری 1948 ء کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی"

◀ اب  ہم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا وہ خطاب آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے کردار کی سچائی کی سچی اور کھری شہادت کے طور پر تاریخ کے سینے پر چمک رہا ہے۔ یہ خطاب آپ نے 30 جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکاوٹ ریلی سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا :-
" میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تیظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا "

یہ متن کتاب بعنوان "پاکستان بنانے کا مقصد ( افکار اقبال و قائد اعظم کی روشنی میں)" از حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری سے لیا گیا


◀ اگست 1941 میں قائد اعظم نے راک لینڈ کے شاہی مہمان خانے میں طلبا اور نوجوانوں کو تبادلہ خیال کا موقع مرحمت فرمایا اور بیماری کے باوجود پون گھنٹہ تک گفتگو کرتے رہے۔ اس موقع پر نواب بہادر یار جنگ بھی موجود تھے۔ جناب محمود علی بی اے نے یہ گفتگو ریکارڈ کی اور اورئینٹ پریس کو بھیجی۔ اس گفتگو میں قائد اعظم سے سوالات بھی کیے اور قائد اعظم نے ان کے جوابات مرحمت فرمائے۔
سوال: مذہب اور مذہبی حکومت کے لوازمات کیا ہیں؟
جواب:
قائد اعظم نے فرمایا: جب میں انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن "خدا اور بندے" کی باہمی نسبتوں اور روابط کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں نہ تو کوئی مولوی ہوں ، نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعوی ہے البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعہ کی اپنے طور کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب یعنی قرآن مجید میں اسلامی زندگی کے متعلق ہدایات کے بارے میں زندگی کا روحانی پہلو ، معاشرت ، سیاست ، غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآن کریم کی تعلیمات کے احاطہ سے باہر ہو۔

بحوالہ:
1- ماہنامہ "المعارف" قائد اعظم نمبر ، نومبر -دسمبر 1976 صٖفحہ 72 تا 74
2- قائد اعظم اور قرآن فہمی ، صفحہ 66 از محمد حنیف شاہد ، نظریہ پاکستان فاونڈیشن لاہور

Image result for quaid e azam said"

◀ قائداعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’تعمیر پاکستان کی راہ میں مصائب اور مشکلات کو دیکھ کر نہ گھبرائیں۔ نومولود اور تازہ وارد اقوام کی تاریخ کے متعدد ابواب ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ ایسی قوموں نے محض قوتِ ارادی، توانائی، عمل اور عظمت کردار سے کام لے کر خود کو بلند کیا۔ آپ خود بھی فولادی قوت ارادی کے مالک اور عزم وارادے کی دولت سے مالا مال ہیں۔ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ تاریخ میں وہ مقام حاصل نہ کریں جو آپ کے آباؤ اجداد نے حاصل کیا تھا۔ آپ میں مجاہدوں جیسا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

(لاہور میں طلبا سے خطاب 30 اکتوبر 1937)۔

◀ قائداعظم نے ایک موقعے پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’آپ کو یاد ہوگا، مَیں نے اکثر اس بات پر زور دیا ہے کہ، دشمن آپ سے آئے دن ہنگاموں میں شرکت کی توقع رکھتا ہے۔ آپ کا اولین فرض علم کا حصول ہے، جو آپ کی ذات، والدین اور پوری قوم کی جانب سے آپ پر عائد ہوتا ہے ۔ آپ جب تک طالب علم رہیں اپنی توجہ صرف تعلیم کی طرف مرکوز رکھیں۔ اگر آپ نے اپنا طالب علمی کا قیمتی وقت غیر تعلیمی سرگرمیوں میں ضائع کردیا تو یہ کھویا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا‘‘۔

◀ قائداعظم نے ڈھاکہ میں نوجوان طلبا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میرے نوجوان دوستو! میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ یاد رکھیے کہ اب ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوچکی ہے ۔ یہ ہماری اپنی حکومت ہے، ہم ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے مالک ہیں۔ لہٰذا ہمیں آزاد اقوام کے افراد کی طرح اپنے معاملات کا انتظام کرنا چاہئے۔ اب ہم کسی بیرونی طاقت کے غلام نہیں ہیں، ہم نے غلامی کی بیڑیاں کاٹ ڈالی ہیں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ، میرے نوجوان دوستو! اب میں آپ ہی کو پاکستان کا حقیقی معمار سمجھتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی باری آنے پر کیا کچھ کر کے دکھاتے ہیں۔ آپ اس طرح رہیں کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کرسکے۔ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور استحکام پیدا کریں اور ایک مثال قائم کریں کہ نوجوان کیا کچھ کرسکتے ہیں‘‘۔

◀ 30 اکتوبر1947ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے قائد اعظم نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا:
’’ایک متحد قوم کو جس کے پاس ایک عظیم تہذیب اور تاریخ ہے، کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کام، کام اور کام کریں۔ آپ یقیناََ کام یاب ہوں گے۔ اپنا نصب العین یعنی اتحاد، ایمان اور تنظیم کبھی فراموش نہ کیجیے‘‘۔


◀ اگرچہ قائداعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے ستائیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور، 1940 میں دو قومی نظریے کی وضاحت کرچکے تھے، لیکن انہوں نے اس مرحلے پر گاندھی کو 17ستمبر 1944کو ایک خط میں واضح طور پر لکھا: 

’’ہمارا دعویٰ ہے کہ قومیت کی ہر تعریف اور معیار کی روسے ہندوستان میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں ۔ہماری قوم دس کروڑ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور یہ کہ ہم ایسی قوم ہیں جو اپنے خاص تہذیب و تمدن، زبان و اَدب، فنون و تعمیرات، اسم و اصطلاحات، معیارِ قدر و تناسب، تشریعی قوانین، ضوابطِ اخلاق، رسم و رواج، نظامِ تقویم، تاریخ و روایات اور رجحانات و عزائم رکھتی ہے۔ غرض یہ کہ ہمارا ایک خاص نظریۂ حیات ہے اور زندگی کے متعلق ہم ایک ممتاز تصوّر رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے تمام اُصولوں کے مطابق ہم ایک قوم ہیں۔‘‘

◀ 31 دسمبر 1928ء کو کلکتہ کے مقام پر کل جماعتی کنونشن  سے واپسی پر قائد اعظم نے اپنے ایک دوست سے فرمایا: 
’’آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو رہے ہیں کہ وہ آئندہ کبھی باہم متحد نہیں ہوں گے‘‘۔

Image

◀ 1945 میں قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:
"جو مسلمان پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں وہ اپنی زندگی بھارت کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے گزاریں گے"


شکریہ قائد اظم


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

فرموداتِ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ​ منقول ◀ آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 ء میں قائد ...

آج کی بات - 490


⸙ آج کی بات ⸙

‏ہم سب یہی کرتے ہیں نا، انسانوں کے بارے میں اپنے گمانوں پر چلتے ہیں۔ 
یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ ہم غلطی کر کے بدل سکتے ہیں تو دوسرا بھی غلطی سے سیکھ سکتا ہے۔
 "توبہ" کے دروازے پر کسی ایک انسان کا نام تو نہیں لکھا ہوتا۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⸙ آج کی بات ⸙ ‏ہم سب یہی کرتے ہیں نا، انسانوں کے بارے میں اپنے گمانوں پر چلتے ہیں۔  یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ ہم غلطی کر ...

تدبر قرآن: سورہ یوسف - حصہ اول


تدبر قرآن
سورہ یوسف

سورہ یوسف عام الحزن میں نازل ہوئی تھی جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ اور ابو طالب کی وفات ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب قریش مکہ کی آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم پہ زیادتیاں بڑھ گئیں تھیں۔ آپ اندرونی طور پہ بھی غمگین تھے اور بیرونی طور پہ بھی اپنے ہی رشتے داروں اور اپنی قوم اور وطن کے لوگوں کی طرف سے ستائے جارہے تھے۔
ان حالات میں اس سورت کا نزول ہوا۔

ایک ضعیف روایت میں آتا ہے کہ جو شخص غمگین ہو وہ سورت یوسف کو پڑھے تو اس کا غم جاتا رہے گا۔

اگر اس بات کو ہم نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف نہ بھی منسوب کریں کہ آپ نے فرمایا ہے تو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں صبر اور تقوی کی ایسی مثالیں ملتی ہیں اور یہ واقعہ ایسا ہے جس میں بہت سی نشانیاں اور سبق ہیں۔ اگر انسان اس کو غور سے پڑھے تو یہ سورت واقعی غم دور کرنے والی ہے۔

یوسف علیہ اسلام کے واقعہ کا آغاز ہوتا ہے جب وہ اپنے والد یعقوب علیہ السلام کو اپنا خواب سناتے ہیں۔ خواب سن کر یعقوب علیہ السلام نے جو جواب دیا اس میں ہم سب کے لیے ایک بہت اہم سبق ہے۔

یعقوب علیہ السلام نے خواب سن کر فرمایا: اے میرے بیٹے نہ بیان کرنا اپنا خواب اپنے بھائیوں سے ورنہ وہ چلیں گے تیرے ساتھ کوئی چال۔ بےشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ یعقوب علیہ السلام انتہائی سمجھدار انسان تھے۔ وہ بچوں کے باہمی تعلقات کو بھی دیکھ رہے تھے ان کے انداز کو بھی سمجھتے تھے اسکے علاوہ جانتے تھے کہ شیطان کتنا خطرناک ہے وہ ایک بھائی کو دوسرے بھائی کے خلاف بہکا دیتا ہے۔

اس آیت میں سے سب سیکھنے والا سبق "حسد" ہے۔ یعقوب علیہ السلام کو اندیشہ تھا کہ شیطان بھائیوں کے درمیان حسد ڈال سکتا ہے اس لیے انہوں نے یوسف علیہ السلام کو خبردار کردیا تھا۔

حسد ہوتا کیا ہے؟

کسی صاحب نعمت کے زوال کی تمنا کرنا۔

اس آیت سے ہم سیکھ رہے ہیں کہ بھائیوں کے درمیان، خون کے رشتوں کے درمیان بھی حسد آسکتا ہے۔ تو پھر ان کا کیا جن سے ہمارا خون کا رشتہ نہیں ہوتا؟
ہم آج سوشل میڈیا کے زمانے میں رہ رہے ہیں جہاں رازداری کا کوئی تصور نہیں رہا۔ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات ہم دنیا کو دکھانے کے لیے پوسٹ کردیتے ہیں۔
ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ ہم انسان اتنے کمزور ہیں کہ ہمارے دل میں محبت کے جذبے کے ساتھ منفی جذبات بھی پائے جاتے ہیں اور شیطان کا تو کام ہی یہی ہے کہ انسان میں جو منفی جذبات ہیں ان کو ابھارے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنی حاجات کو پورا کرنے میں کتمان سے کام لو۔

کتمان کہتے ہیں "چھپانا

یعنی اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے رازداری سے کام لو۔ کیونکہ ہر صاحب نعمت حسد کیا جاتا ہے۔

ایک اور مشہور حدیث ہے کہ "ہر نعمت والا شخص محسود ہے۔ (اس سے حسد ہوتا)

دنیا میں پہلا قتل حسد کی بناء پر ہوا تھا۔ ہابیل اور قابیل۔ جب ایک بھائی کی قربانی قبول ہوگئی تھی اور دوسرے کی نہیں۔ تو قابیل نے حسد میں اپنے بھائی ہابیل کا قتل کردیا تھا۔

حسد ایک کمزوری ہے۔ یہ تو چھوٹے سے بچے میں بھی پائی جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک چھوٹا سا بچہ جس میں کوئی برائی نہیں ہوتی، جو گناہوں سے پاک ہوتا ہے جب اس کا ایک اور بھائی یا بہن دنیا میں آئے اور وہ اپنی ماں کو ہر وقت اسی کو پکڑے دیکھتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے؟ اس بچے کو ماں کی گود سے ہٹانے لگتا ہے۔ اس چھوٹے سے بچے میں جو پہلی کمزوری آتی ہے وہ حسد ہوتی ہے۔ یہ ایک شیطانی جذبہ ہے۔ ایک آگ ہے جس میں جلتے ہوئے شیطان نے آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوایا تھا اور وہ اسی حربے کے ذریعے اب آدم کی اولاد پہ وار کرتا ہے۔

یہ ایک ایسی بیماری ہے جس سے چھٹکارا پانا مشکل ہے اور انسان کے اندر اتنے چپکے سے آتی ہے کہ پتا نہیں لگتا۔

ایسی برائی ہے جس کے آتے ہی انسان کی نیکیاں ایسے جلنے لگتی ہیں جیسے آگ سوکھی لکڑی کو کھاتی ہے۔

ابو داود کی روایت ہے کہ جب بھی ایک کے مقابلے میں دوسرے کو کوئی نعمت مل جائے اور انسان اس پہ کمفرٹیبل نہ ہو خوش ہونے کے بجائے ناراض ہونے لگے یا پھر جسے نعمت ملی ہے اس کو کوئی نقصان پہنچانے لگے تو سمجھیں کہ یہ حسد کی وجہ سے ہے۔

اس بیماری کا واحد حل تقوی ہے۔ اللہ کا خوف۔ صرف خوف خدا ہے جو انسان کو اس سے بچا سکتا ہے۔ اس کا اور کوئی علاج نہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔ 


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

تدبر قرآن سورہ یوسف از استاد نعمان علی خان سورہ یوسف عام الحزن میں نازل ہوئی تھی جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ اور ابو طالب کی وف...

رزق اور رزّاق ۔۔۔ ایک مکالمہ


رزق اور رزّاق ۔۔۔ ایک مکالمہ

⃤  کیسے ہیں آپ؟ گھر کی سُنائیں؟ شِفٹنگ ہو گئی؟

⃟ جی۔ بس مصروفیت  چل رہی ہے۔ اور کُچھ مسئلے مسائل بھی ہیں۔

⃤  اللہ آسانی فرمائیں گے۔ مناسب سمجھیں تو شیئر کیجیئے گا مسائل۔ شاید میں مدد کر سکوں۔

⃟ فی الحال تو معاشی مسائل میں مدد مِل گئی ہے، پر لگتا ہے یہ مسائل آئندہ بھی آئیں گے۔

⃤  وہ کیسے؟

⃟ حالات اچھے نہیں ہیں۔ مہنگائی نے مجھ جیسے سفید پوشوں کے لئے مسائل بڑھا دیئے ہیں۔

⃤  ملک کے معاشی حالات تو واقعی اچھے نہیں ہیں۔ پر بہتری کی اُمید ہے۔ بہرحال ، عام آدمی کے لئے زندگی کی سہولیات کا حصول مشکل ہو گیا ہے ،  لیکن ناممکن نہیں۔

⃟ آپ کیا مشورہ دیں گے اس معاملے میں۔

⃤  سب سے پہلے ، رزقِ حلال کمایا جائے۔ یہ بہت بڑا لفظ ہے: حلال۔ اِس کا مطلب ہے کہ انسان اپنے رزق کو کمانے والے پراسیس ، نوکری ، کام اور  کاج میں ایک پائی کی بھی بددیانتی، سُستی  اور غیر ذمہ داری کا مظاہر ہ نہ کرے۔

⃟ یہ تو بالکل درست بات ہے۔

⃤  اس کے بعد مال کو پاک کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔

⃟ وہ کیسے؟

⃤  مال بے شک رزقِ حلال ہی کیوں نہ ہو ، وہ پاک نہیں ہوتا  جب تک کہ اُس میں سے وہ حصہ نہ نِکالا جائے جو اللہ نے مخصوص کیا ہے۔ یہ وہ حِصہ ہے ، جو ہمیں ہمارے علاوہ  اللہ کی مخلوق کے لئے عطا کیا جاتا ہے ، جو کِسی نہ کِسی طرح ہمارے قریب ، یا ہمارے دائرہ کار میں آتی ہے۔ بے شک اللہ رازِق ہیں ، لیکن وہ ہمارے مالوں کو اِس طریقے سے پاک فرماتے ہیں۔

⃟ اچھا! میرا خیال تھا کہ رزقِ حلال کما لیا اور بس۔ لیکن  کیا وجہ ہے کہ یہ اللہ کے احکام کے مطابق حصہ نکالنے تک پاک نہیں  ہوتا؟

⃤  مجھے اس کا استدلال اس آیت سے مِلا ، کہ 
اے محبوب ﷺ  ان کے مالوں میں سے صدقہ (زکوۃ) وصول کیجیئے ، جس سے آپ انہیں ستھرا اور پاکیزہ کر دیں گے اور ان کے حق میں دعائے خیر کیجیئے، بے شک آپکی دعا ان کے دلوں کا چین ہے۔ (التوبہ –  103)
اور كنز العمال ، کتاب الزکوٰة کی وہ حدیث۔۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمايا۔۔
اپنے مال کی زکوٰة نکالتےرہو، کیونکہ زکوٰةادا کرنا مال کو پاک کردیتاہے،اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں  پاک کردےگا۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر رزق پہلے سے ہی پاک ہوتا ، تو اُس میں سے ایک مخصوص حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ضروری کیوں قرار دیا جاتا؟؟

⃟ درست۔

⃤  دوسرا کام یہ کریں ، کہ اپنا بجٹ بنائیں۔ باقاعدہ پلان کریں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے ، کہ اگر انسان معاشی بے فکری چاہتا ہے تو اُسے چاہیئے کہ اپنا خرچ ، اپنی کُل کمائی کے نصف کے برابر  رکھے۔

⃟ یہ تو کچھ  مشکل کام ہے ناں۔

⃤  ناممکن نہیں۔ آپ یقیناً اتفاق کریں گے کہ ہم منصوبہ بندی سے زندگی نہیں گُزارتے ، اور خصوصاً بجٹ کے حوالے سے فضول خرچی کی جانب مائل رہتے ہیں۔

⃟ یہ تو ہے۔

⃤  تیسری بات۔ جب خریداری کریں ، تو قائدِ اعظم محمد علی جناح  کی طرح خود سے تین سوالات پوچھیں۔ پہلا ، کیا اِس چیز کی مُجھے ضرورت ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہو ، تو دوسرا سوال پوچھیں ، کہ کیا میں اِس چیز کو افورڈ کر سکتا ہوں؟ اور اگر اس کا جواب بھی ہاں میں ہو تو خود سے تیسرا سوال پوچھیں ، کہ کیا میرا اِس چیز کے بغیر گُزارا ہو سکتا ہے؟ اگر اِس کا جواب بھی ہاں میں ہو ، تو وہ چیز نہ خریدیں۔

⃟ دِلچسپ۔

⃤  یقین کیجیئے آپ اس حکمتِ عملی کی وجہ سے بہت سی غیر ضروری خریداری سے بچ جائیں گے۔

⃟ بالکل ٹھیک۔ ویسے مُجھے ایک بات آت تک سمجھ نہیں آئی۔

⃤  کیا؟

⃟ خُدا کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں۔ پھر بھی رِزق کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں ، کہ خُدا کے سب سے محبوب بندے ہمیشہ عُسرت میں رہے۔ وہ جان بوجھ کر فقر کی راہ چلے۔ سب کُچھ ہوتے ہوئے بھی مال تقسیم کر دینے کی مثالیں قائم کیں۔ حالانکہ مال ، رِزق اور  متاع ِ دولت تو زندگی کا بنیادی پہلو ہیں۔ ہیں ناں؟

⃤  دیکھیئے ، سوال میں ہی جواب موجود ہے۔  دُنیا کی دولت خُدا کے نزدیک اگر اچھی چیز ہوتی تو وہ اپنے محبوب بندوں کے سر پرہر وقت دولت  سوار رکھتے۔ خُدا نے دولت کو ایک ذریعہ بنایا ، زندگی کے کچھ پہلوؤں کا ، بس اس سے زیادہ نہیں۔  خُدا نے اپنے ان بندوں کے ذریعے ہمیں یہ بتایا کہ دولت  استعمال کی چیز ہے ، رکھنے کی نہیں۔ بانٹنے کی چیز ہے، جمع کرنے کی نہیں، اور دور کرنے کی چیز ہے ، دِل سے لگانے کی نہیں۔

⃟ دلچسپ بات۔

⃤  ایک اور بھی دلچسپ بات ہے۔

⃟ وہ کیا؟

⃤  خُدا کے برگزیدہ  بندے جو خود کو دولت سے دور رکھتے تھے ۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اس کے فائدوں سے لاعلم تھے۔ بلکہ ، وہ اسباب کی بجائے مسبب الاسباب کو پہچانتے تھے۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

رزق اور رزّاق ۔۔۔ ایک مکالمہ از عمر الیاس ⃤  کیسے ہیں آپ؟ گھر کی سُنائیں؟ شِفٹنگ ہو گئی؟ ⃟ جی۔ بس مصروفیت  چل رہی ہے۔ اور کُ...

کلمہ طیبہ ۔۔۔۔ ایک مکالمہ


کلمہ طیبہ ۔۔۔ ایک مکاملہ

⃟ کوئی اچھی دُعا بتایئے۔

⃝ دُعائیں تو سب ہی اچھی ہوتی ہیں۔

⃟ میرا مطلب ہے ، آسان دُعا۔

⃝ کلمہ پڑھا کیجئیے۔ کلمہ طیبّہ۔

⃟ وہ تو ہے ۔ کلمہ تو بنیاد ہے ایمان کی۔

⃝ جی ۔ بالکل۔ بنیاد پکّی ہونی چاہیئے۔ کلمہ طیبّہ ہی تو ہماری متاع ہے۔

⃟ اللہ پر ایمان واقعی ہر مسلمان کا  سب سے مقدم عمل ہے۔

⃝ آپ کی بات درست ، مگر ادھوری ہے۔

⃟ کیسے؟

⃝ خُدا پر ایمان تو سب ہی رکھتے ہیں۔ اہلِ کِتاب ہم سب سے پہلے بھی رکھتے تھے۔

⃟ تو ہمارے اور اُن کے کلمے میں کیا فرق ہے؟

⃝ محمد الرسول اللہ کا فرق ہے۔ اور یہی اصل فرق ہے۔ ہمارا ایمان  محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لائے بغیر ویسا ہی ادھُورا ہے ،  جیسا کلمہ طیبہ اللہ کے محبوب کے ذکر کے بغیر۔

⃟ یہ پہلو تو میں نے سوچا ہی نہیں۔

⃝ دیکھیے۔ اللہ کا دین پہلے بھی نازل ہوتا رہا ، احکام کی شکل میں، نبیوں ، رسولوں کے ذریعے۔ لیکن کلمہ طیبہ یہی ہے۔ لا الہ ال اللہ محمد رسول اللہ۔ یہ دین کی بُنیاد ہے۔ اسی لئے، آپ کو اس کو پڑھنے کا مشورہ دِیا۔ ویسے ، آپ یا میں  یا کوئی بھی، روزانہ کی بنیاد پر کلمہ طیبہ کِتنی بار پڑھتا ہو گا؟

⃟ میں تو کبھی کبھار ہی پڑھتا ہوں۔

⃝ میں بھی۔ اسی لئے ہمیں  پہلے بُنیاد پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کلمہ طیبہ ۔۔۔ ایک مکاملہ از عمر الیاس ⃟ کوئی اچھی دُعا بتایئے۔ ⃝ دُعائیں تو سب ہی اچھی ہوتی ہیں۔ ⃟ میرا مطلب ہے ، آسان دُعا۔ ...

ذہنی پختگی


‏خوشی تو اِنسان کِسی کے ساتھ بھی بغیر سوچے سمجھے بڑے فخر سے بانٹ سکتا ہے۔

لیکن درد کو بڑے دھیان سے سوچ سمجھ کر شئیر کرنا ہوتا ہے۔

کِسے بتائیں اور کِس سے چُھپائیں۔

کیونکہ درد کو سمجھنے کے لئے ایک خاص ذہنی پُختگی درکار ہوتی ہے۔ جو درد کو سمجھتی ہے۔ جو ہر کِسی کے پاس نہیں ہوتی۔

" مستنصر حسین تارڑ "

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

‏خوشی تو اِنسان کِسی کے ساتھ بھی بغیر سوچے سمجھے بڑے فخر سے بانٹ سکتا ہے۔ لیکن درد کو بڑے دھیان سے سوچ سمجھ کر شئیر کرنا ہوتا ہے۔ ...

سڑک


(سڑک)
 حمیرا راحت

سڑک کی کیا حقیقت ہے
اک ایسا بے حس و بے جان سا رستہ
کہ جو ہر اک مسافر کو ملا دیتا ہے منزل سے
بس اس سے بڑھ کے اس کی کیا فضیلت ہے
مگر میں جب مدینہ میں تھی
تو سونے سے پہلے رات کو
ہوٹل کی کھڑکی سے
سڑک کو دیکھتی اور سوچتی
یہ ایک سیدھی سی سڑک جو میرے آقا کے
درِ اقدس پہ جاکر ختم ہوتی ہے
یہ ہے خوش بخت کتنی!!!
……………پھر اک دن یوں ہوا
میں سوچ میں گم تھی
مجھے ایسا لگا جیسے
کہ اس سیدھی سڑک کی دونوں آنکھیں
آنسوؤں سے بھر گئی ہوں
وہ اک نادیدہ غم سے ہوکے بوجھل کہہ رہے ہو
میں کہاں خوش بخت ہوں بی بی
مرے دکھ کو کسی نے آج تک جانا نہیں
میں کیسے سمجھائوں
کہ میں تم سب کو لے جاتی ہوں ان کے در پہ
لیکن خود کبھی در تک نہیں پہنچی


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

(سڑک)  حمیرا راحت سڑک کی کیا حقیقت ہے اک ایسا بے حس و بے جان سا رستہ کہ جو ہر اک مسافر کو ملا دیتا ہے منزل سے بس اس سے بڑھ...

قُربانی ۔۔۔۔ ایک مکالمہ


قُربانی ۔۔۔ ایک مکالمہ


⧬ آج سولہ دسمبر ہے۔ ہر جگہ تقریبات ہوں گی۔ شمعیں جلیں گی۔

⧭ واقعی بڑا سانحہ تھا۔

⧬ سانحہ تو تھا۔ پر اُمید کی ایک نئی کرن بھی تو تھی۔

⧭ کیسے؟

⧬ ایک قُربانی تھی جو اُن معصوم روحوں نے دی۔ ہمارے لئے۔ ہمارے مُستقبل کے لئے۔

⧭ یہ قُربانی تھی؟ یا خِراج؟

⧬ خراج کِس بات کا؟ قیمت کِس چیز کی؟

خراج ہماری غلطیوں کا۔ قیمت ہماری کوتاہیوں کی۔

⧬ آپ اس قُربانی کی تحقیر کر رہے ہیں۔

⧭ کیا واقعی؟ آپکو قُربانی کا پتہ تو ہو گا۔ اُس کے خواص کا۔

⧬ جی۔

⧭ تو بتائیں۔ قربانی کے پہلو کیا کیا ہیں؟

⧬ وہ ہیں: آگے بڑھ کے ایثار کرنا۔ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے آپ کو وار دینا۔ خطروں کی پہچان رکھنا، اور اُس سے بھی زیادہ مِشن کی پہچان رکھنا۔ اپنی جان کی پروا نہ کرنا۔

⧭ شاباش۔ اب بتائیں، اُن معصوم روحوں کو یہ سب پہلو معلوم تھے؟

⧬ نہیں۔

⧭ تو قربانی کا سب سے اہم پہلو کیا ہوا؟

⧬ یہی ، کہ قربانی لی نہیں جاتی۔ دی جاتی ہے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

قُربانی ۔۔۔ ایک مکالمہ از عمر الیاس ⧬ آج سولہ دسمبر ہے۔ ہر جگہ تقریبات ہوں گی۔ شمعیں جلیں گی۔ ⧭ واقعی بڑا سانحہ تھا۔ ⧬...

طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا مِنَ ثَنِيَّاتِ الوَدَاع



طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا مِنَ ثَنِيَّاتِ الوَدَاع
وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَى لِلَّهِ دَاع
أَيُّهَا المَبْعُوثُ فِينَا جِئْتَ بِالأَمْرِ المُطَاع
جِئْتَ شَرَّفْتَ المَدِينَة مَرْحبََاً يَا خَيْرَ دَاع
*****
طَلَعَ النُّورَ المُبِينُ نُورُ خَيرِ المُرْسَلِين
نُورُ أَمْنِِ وَسَلَامِِ نُورُ حَقِّ ويَقِين
سَاقَهُ الَلَّهُ تَعَالَى رَحْمَةََ لِلْعَالَمِين
فَعَلَى البِرِّ شُعَاعُُ وَعَلَى البَحْرِ شُعَاع
*****
طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا مِنَ ثَنِيَّاتِ الوَدَاع
وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَى لِلَّهِ دَاع
أَيُّهَا المَبْعُوثُ فِينَا جِئْتَ بِالأَمْرِ المُطَاع
جِئْتَ شَرَّفْتَ المَدِينَة مَرْحبََاً يَا خَيْرَ دَاع
*****
مُرْسَلُ بِالحَقِّ جَاءَ نُطْقُةُُ وَحْيُ السَّمَاء
قَوْلُهُ قَوْلُُ فَصِيحُُ يَتَحَدَّى البَلْغَاء
فِيهِ لؤلْجِسْمِ شِفَاءُُ فِيهِ لِلرُّوحِ دَوَاء
أَيُّهَا الهَادِي سَلَامُُ مَا وَعَى القُرآنَ وَاع
*****
طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا مِنَ ثَنِيَّاتِ الوَدَاع
وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَى لِلَّهِ دَاع
أَيُّهَا المَبْعُوثُ فِينَا جِئْتَ بِالأَمْرِ المُطَاع
جِئْتَ شَرَّفْتَ المَدِينَة مَرْحبََاً يَا خَيْرَ دَاع
*****
جَاءَنَا الهَادِي البَشِيرُ مُطْلِقُ العَانِي الأَسِير
مُرْشِدُ السَّاعِي إِذَا مَا أَخْطَأَ السَّاعِي المَسِير
دِينُهُ حَقََّاً صُرَاحُُ دِينُهُ مُلْكُُ كَبِير
هُوَّ فِي الدُّنْيَا نعيمُُ وَهْوَ فِي الأُخْرَى مَتَاع
*****
طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا مِنَ ثَنِيَّاتِ الوَدَاع
وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَى لِلَّهِ دَاع
أَيُّهَا المَبْعُوثُ فِينَا جِئْتَ بِالأَمْرِ المُطَاع
جِئْتَ شَرَّفْتَ المَدِينَة مَرْحبََاً يَا خَيْرَ دَاع
*****
هَاتِ هَدْيَ اللَّهِ هَاتْ يَا نَبِيَّ المُعْجِزَات
لَيْسَ لِلَّاتِ مَكَانُُ لَيْسَ لِلْعُزَّا الثَّبَات
وَحِّدِ اللَّهَ وَوَحِّدْ شَمَلَنَا بَعْدَ الشَّتَاتْ
أَنْتَ أَلَّفْتَ قُلُوبََا شَفَّهَا طُولُ الصِّرَاعْ
*****
طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا مِنَ ثَنِيَّاتِ الوَدَاع
وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَى لِلَّهِ دَاع
أَيُّهَا المَبْعُوثُ فِينَا جِئْتَ بِالأَمْرِ المُطَاع
جِئْتَ شَرَّفْتَ المَدِينَة مَرْحبََاً يَا خَيْرَ دَاع



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا مِنَ ثَنِيَّاتِ الوَدَاع وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَى لِلَّهِ دَاع أَيُّهَا المَبْعُوثُ فِينَا...

آج کی بات - 489


⸙ آج کی بات ⸙

مسلسل اہمیت دینے کے باوجود بھی اگر رشتے بے قدرے اور بد مزاج رہیں
 تو رہنے کی بہترین جگہ اپنی حدود ہے...



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⸙ آج کی بات ⸙ مسلسل اہمیت دینے کے باوجود بھی اگر رشتے بے قدرے اور بد مزاج رہیں  تو رہنے کی بہترین جگہ اپنی حدود ہے... تب...

صاحبِ تاجِ ختمِ نبوت ۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم


صاحبِ تاجِ ختمِ نبوت ۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم
صدرِ نشینِ بزمِ رسالت ۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم

درسِ مُروت فرماں اس کا، نوعِ بشر پر احساں اس کا
امن و محبت اس کی شریعت ۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم

صاحبِ تاجِ ختمِ نبوت ۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم

نورِ جبیں انسان کا چمکا، فرق مٹا محتاج و غنی کا
ایک ہوئے سرمایہ و محنت ۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم

صاحبِ تاجِ ختمِ نبوت ۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم

زاہد و عاصی عارف و عالی، سب ہیں در اقدس کے سلامی
سب پہ گل افشاں دامنِ رحمت ۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم

صاحبِ تاجِ ختمِ نبوت ۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم

قربِ الٰہی سُنت اس کی، حُسن عمل ہے طاعت اس کی
حاصل ایماں اس کی محبت ۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم

صاحبِ تاجِ ختمِ نبوت ۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم
صدرِ نشینِ بزمِ رسالت ۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

صاحبِ تاجِ ختمِ نبوت ۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم صدرِ نشینِ بزمِ رسالت ۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم درسِ مُروت فرماں اس کا، نوعِ بشر پر ا...

قرآن کہانی: حضرت موسیٰ ۔۔۔ حصہ چہارم


حضرت موسیٰ علیہ السلام ۔۔۔ حصہ چہارم
مصنفہ: عمیرہ علیم
بشکریہ: الف کتاب


حضرت موسیٰ علیہ السلام  کو جب کوہِ طور پر نبوت کا فرضِ منصبی عنایت کیا جاتا ہے اور اُنہیں فرعون کو تبلیغِ حق کی دعوت پہنچانے کا حکم ملتا ہے، تو وہ رب العالمین سے حضرت ہارون علیہ السلام کو بطورِ مددگار ساتھ بھجوانے کی سفارش فرماتے ہیں کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھوں ایک قبطی کا قتل ہوچکا ہے۔ یہ نہ ہو کہ میں حکمِ ربی لے کر جاؤں تو میری تصدیق کرنے والا ہی کوئی نہ ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اعلیٰ مرتبہ بندے کی درخواست قبول کرتے ہوئے حضرت ہارون علیہ السلام کو نبی اور موسیٰ کلیم اللہ کا مددگار بنا دیتے ہیں اور مصر پہنچ کر ایک طویل مدت کے بعد جب آپؑ اپنے خاندان سے ملتے ہیں، تو حضرت ہارون علیہ السلام بھی نبوت کے منصب سے سرفراز ہوچکے ہوتے ہیں۔ تب دونوں بھائی رب تعالیٰ کے حکم کی تکمیل کے لیے فرعون کے دربار پہنچ جاتے ہیں۔ پہلے تو فرعون اور اہلِ دربار حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی آپ فرعون کو اللہ رب العزت کا پیغام پہنچاتے ہیں، تو وہ غضب ناک ہو جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:
’’اے فرعون! میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیلِ ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیات ۱۰۵۔۱۰۴)

درحقیقت آپ دو احکامات لے کر فرعون کے پاس گئے تھے، پہلا یہ کہ اللہ کی بندگی اختیار کرو اور دوسرا یہ کہ بنی اسرائیل کو اپنے ظلم کے پنجے سے آزاد کردو تا کہ وہ یہاں سے جا سکیں۔

اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت نبوت کے نور سے سرفراز تھی۔ آپ کوئی ایسے شخص معلوم نہ ہوتے تھے جو ایک خدائی کے دعوے دار سے محض اس کی شان و شوکت دیکھ کر ڈر جائے اور وہ ذرا سا رعب دکھائے تو اپنے کہے گئے الفاظ سے منہ موڑ لے بلکہ آپ کی شخصیت سے رعب و دبدبہ، عزم اور مستحکم انداز جھلکتا تھا۔ آپ وہ موسیٰ نہ تھے جس پر فرعونِ مصر کے احسانات تھے اور جن کے ہاتھوں ایک قبطی کا قتل ہوا تھا بلکہ آپ موسیٰ کلیم اللہ تھے۔ جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوچکا تھا کہ اُنہیں ان کے رب نے خود نبوت کی خوش خبری سنائی تھی۔

فرعون موسیٰ علیہ السلام کا انداز دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے اور فوراً اُنہیں جتلاتے ہوئے کہتا ہے:
’’کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا؟ تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے اور اس کے بعد کر گیا جو کچھ کہہ کر گیا، تو بڑا احسان فراموش آدمی ہے۔‘‘(سورۃ الشعراء، آیات:۱۹۔۱۸)

فرعون کسی ایک شخص کا نام نہ تھا بلکہ حاکمِ مصر کو فرعون کہا جاتا تھا۔ اگر ایک شخص مر جاتا، تو اس کی جگہ دوسرا شخص فرعون کے منصب پر فائز ہو جاتا۔ فرعون اپنی قوم کا اکیلا معبود تھا بلکہ اس کے علاوہ بھی دوسرے دیوی دیوتاؤں کی پرستش ہوتی تھی۔ فرعون خود سورج دیوتا کے اوتار کی حیثیت سے بادشاہی کا حق جتاتا تھا۔ دیوی دیوتاؤں تک تو ٹھیک تھا لیکن فرعون کسی دوسری ہستی کو اپنے اوپر ماننے کو تیار نہ تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خدائے بزرگ و برتر کی واحدانیت کا اعلان کرنا اس کے دعوے کی سراسر نفی تھا۔ سورۂ النازعات میں اللہ تعالیٰ فرعون کے اس دعوے کے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ کہتا ہے:
اَنَا ربَّکُمُ الْاَعْلیٰ
’’اے اہل مصر! تمہارا رب اعلیٰ میں ہوں۔‘‘ (آیت: ۲۴)
پھر سورہ الزخرف میں اپنے درباریوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے:
’’اے قوم! کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے؟ اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں؟‘‘ (آیت:۵۱)
پھر فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے:
’’اے موسی! تو پھر تم دونوں کا رب کون ہے؟‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت: ۴۹)
موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا۔‘‘(سورۂ طٰہٰ، آیت:۵۰)
پھر فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھتا ہے:
’’ اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی؟‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت: ۵۱)
حضرت موسیٰ علیہ السلام فوراً فرماًتے ہیں:
’’اس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت:۵۲)
پھر سورۂ طٰہٰ میں ہی اللہ رب العزت اپنی تخلیقات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔ اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔‘‘(سورۂ طٰہٰ، آیات:۵۵۔۵۳)

درحقیقت رب العالمین وہ معتبر ہستی ہے جس نے اپنی تمام مخلوقات یعنی انسان، حیوان، جمادات، نباتات، ہوا، پانی، روشنی وغیرہ کو نہ صرف ایک خاص صورت عطا کی بلکہ ان کی راہنمائی بھی فرمائی کہ ان کی تخلیق کس مقصد کے تحت کی گئی ہے جب کہ فرعون ان تمام باتوں سے مبّرا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال انسان کی درست طریقے سے راہنمائی ہے۔ اس مقصد کے لیے ربِّ کائنات نے بہت سے نبی اور رسول بھیجے تاکہ وہ انسانوں کو درست اور سیدھے راستے کی طرف لے جائیں۔
مصر پر فرعون کی حکومت ایک طویل مدت سے چلی آرہی تھی۔ تبھی فرعون خیال کرتا ہے کہ اس کا مطلب ہمارے آباء و اجداد جو اب تک کرتے آرہے تھے وہ سب غلط تھا۔ کیا ان کی عقلیں سلب ہوگئی تھیں جو وہ ہمیں دوسرا راستہ دکھاتے رہے اور رب العالمین کی طرف نہ لے کر گئے۔ تبھی موسیٰ علیہ السلام بڑی حکمت سے ان کو جاہل و گمراہ کہنے کے بجائے فرماتے ہیں کہ ان کا معاملہ خدائے بزرگ و برتر کے پاس محفوظ ہے، لیکن فرعون کس طرح اس حقیقت کو تسلیم کرلیتا جو اس کے تخت و تاج کو روندنے والی تھی اور اس بات کو ماننے کا مطلب تھا طاقت و حشمت کا خاتمہ۔ تبھی وہ اپنے اہلِ دربار کو پکارتے ہوئے کہتا ہے:
’’اے اہلِ دربار! میں تو نہیں جانتا کہ تمہارے لیے میرے سوا کوئی اور خدا ہے۔‘‘(سورۃ القصص، آیت: ۳۸) 
اور آپ کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہتا ہے:
’تمہارے یہ رسول صاحب جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں، بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت :۲۷)
جب کہ جواب میں موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب کا رب ہے، اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت:۲۸)
حضرت موسیٰ علیہ السلام فوراً فرعون کے خدائی دعوے کی تردید فرماتے ہیں کہ یہ تو ایک مخصوص خطے کی خدائی کا دعویٰ دار ہے جب کہ اللہ تو مشرق سے مغرب تک موجود ہر چیز کا مالک ہے اور اُسی کی فرما روائی ہے۔
فرعون یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی کسی اور کو حاکم برتر تسلیم کرے تبھی تو وہ آپ کو دھمکی دیتے ہوئے کہتا:
’’اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا، تو تجھے بھی ان لوگوں میں شامل کردوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت۲۹)

اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کو حق کی دعوت دینے کا حکم فرمایا، تو ساتھ اس بات کی بھی تلقین فرمائی کہ خدائی پیغام ٹھیک ٹھیک فرعون کے سامنے رکھنا اور ذکرِ خداوندی میں کسی بھی قسم کی کوئی سستی نہ ہو۔ کیوں کہ خدا تعالیٰ کا ذکر بندے کو ایک ایسی غیبی طاقت عطا کرتا ہے جو اس کے لیے مددگار ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی اس بات کی بھی تلقین کی گئی کہ گفتگو میں نرمی اور شائستگی کا پہلو مدنظر رکھنا شاید کہ وہ سمجھ جائے اور راہِ راست پر آجائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہیں:
’’(اے محبوب) بلائیے ۔ (لوگوں کو) اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت سے اور عمدہ نصیحت سے ان سے بحث (و مناظرہ) اس انداز میں کیجیے جو بڑا پسندیدہ (اور شائستہ ہو)۔‘‘ (سورۂ النحل)

فرعون نے خدا کے پیغمبروں کی نہ صرف تکذیب کی بلکہ ان کی نرم گفتاری کو بھی کسی خاطر میں نہ لایا۔ اس نے اللہ رب العزت کی واحدانیت سے واضح انکار کیا اور اپنے خدائی کے دعویٰ پر قائم رہا۔ بلکہ آپ کو طعنہ دیا کہ آپ نبوت کے دعوے دار ہیں جب کہ آپ سے زبان کی لکنت کی وجہ سے صاف بات بھی نہیں ہوسکتی اور پھر آپ کو دھمکی دی کہ اگر تو اپنی بات سے نہ ہٹا، تو میں تجھے جیل خانہ میں ڈال دوں گا اور تم ایک لمبی مدت کے لیے قیدی بنا دیے جاؤ گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کو ان دھمکیوں اور طعنوں سے بے نیاز ہوکر فرماتے ہیں:
’’اگرچہ میں لے آؤں تیرے سامنے ایک صریح چیز بھی۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت:۳۰)
فرعون دیکھتا ہے کہ آپ پر کسی بات کا کچھ اثر نہیں، تو وہ گھبراتا ہے اور کہتا ہے:
’’اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے، تو اسے پیش کر۔‘‘(سورۃ الاعراف، آیت ۱۰۶)

فرعون کا حال بھی دوسرے مشرکین سے مختلف نہ تھا۔ وہ بھی ان کی طرح یہ مانتا تھا کہ اللہ ہی وہ بزرگ و برتر ہستی ہے جو تنہا کائنات کی مالک ہے۔ تبھی تو وہ کہتا ہے کہ اگر یہ واقعی اس کا بھیجا ہوا ہے، تو اس کے پاس کچھ چونکا دینے والا ہونا چاہیے۔ ورنہ یہ ظاہر ہے اگر اس کو رب العالمین کے وجود کا یقین نہ ہوتا، تو نشانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’(اس کی زبان سے یہ بات نکلتے ہی) موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک صریح اژدھا تھا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ (بغل سے) کھینچا اور وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت ۳۳۔۳۲)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جیسے ہی دونوں معجزات فرعون کے سامنے ظاہر کیے تو اس پر ہیبت طاری ہوگئی۔ یکایک اس پر اپنی بادشاہی اور اپنی مملکت کے چھن جانے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ یہ وہی فرعون ہوتا ہے جو کچھ دیر پہلے اس وقت کے نبی کو دیوانہ قرار دے رہا ہوتا ہے اور اب وہ بدحواس ہوجاتا ہے کہ اسرائیلی قوم کے دو طاقت ور افراد سامنے کھڑے ہیں اور ان کی پشت پناہی کرنے والا بہ ظاہر تو کوئی نہیں ہوتا کیوں کہ وہ بنی اسرائیل سے ہیں جو اس کی محکوم ہے لیکن ان کے پاس نشانیاں اس رب کریم کی عطا کردہ تھیں کہ وہ ڈر گیا اور اپنے درباریوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے:
’’یہ شخص یقیناًایک ماہر جادوگر ہے، چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے نکال دے، اب بتاؤ تم کیا حکم دیتے ہو؟‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت ۳۵۔۳۴)

فرعون کا حضرت موسیٰؑ کو جادوگر کہنا اس کی بدحواسی کی دلیل ہے کیوں کہ جادوگر شعبدہ باز ہوتے ہیں اور جادو کی بدولت جنگیں نہیں جیتی جاتیں اور نہ ہی کسی قسم کے سیاسی انقلاب برپا ہوسکتے ہیں۔ تماشا دکھا کر انعام و اکرام بٹورنا جادوگروں کا مقصد ہوتا ہے، لیکن فرعون کی عقل پر پردہ حائل ہو جاتا ہے اور وہ اپنے درباریوں سے مشورہ کرنے لگتا ہے کہ کس طرح موسیٰؑ کے سامنے کھڑارہا جائے اور ان کی بازی کو پلٹ دیا جائے۔ آپس و صلاح مشورہ کرکے وہ فرعون سے مخاطب ہوتے ہیں اور اُنہیں کہتے ہیں:
’’اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجیے اور شہروں میں ہرکار ے بھیج دیجیے کہ ہر سیانے جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت ۳۷،۳۶)

ملک میں ہر طرف ہرکارے دوڑا دیے جاتے ہیں جو شاہی فرمان کے مطابق جادوگروں کو ایک مخصوص دن اکٹھا ہونے کا دعوت نامہ دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے کمالات سے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے نبوت کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرسکیں۔ عام عوام کو بھی دعوت دی جاتی ہے کہ وہ بھی اس روز مجمع کا حصہ بنیں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ لاٹھی کا اژدھا بن جانا کوئی بڑی اہم بات نہیں ہے بلکہ مصر کا ہر جادوگر یہ کمال دکھانے میں ماہر ہے۔

فرعونِ مصر کے وہ بندے جو عوام کو اس دن جمع ہونے کا پیغام دیتے ہیں درحقیقت ان کے دل ان عظیم معجزات کی طرف مائل ہوچکے ہوتے ہیں۔ تبھی تو وہ لوگوں سے کہتے ہیں:
’’تم اجتماع میں چلو گے۔ شاید کہ ہم جادوگروں کے دین پر ہی رہ جائیں اگر وہ غالب رہے۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت ۴۰۔۳۹)

مختلف مفسرین اس دن کے مجمع کی تعداد مختلف بتاتے ہیں۔ کسی کے خیال میں یہ تعداد پندرہ ہزار، تیس ہزار، چالیس ہزار یا ستر ہزار پر مشتمل تھی۔ (واللہ اعلم)
مقررہ دن پر جب تمام جادوگر اکٹھے ہوتے ہیں، تو وہ جیت کی توقع رکھتے ہیں اور اس امید کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں کہ وہ میدان مار لیں گے اور بیش قیمت انعام سے نوازے جائیں گے، لیکن چوں کہ یہ دعوت فرعون کی طرف سے ہوتی ہے تبھی وہ جادوگر جب میدان میں آتے ہیں، تو فرعون سے کہتے ہیں:
’’ہمیں انعام میں کیا ملے گا۔ اگر ہم غالب رہے؟‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت ۴۱)
تو فرعون اُنہیں لالچ دیتے ہوئے کہتا ہے:
’اور تم تو اس وقت مقربین میں شامل ہو جاؤ گے۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیت ۴۲)

یہ وہ بڑے سے بڑا اجر تھا جو روپے پیسے کے علاوہ بادشاۂ وقت کے ہاں سے ملتا تھا کہ ان کو درباریوں میں شامل کرلیا جائے گا۔ جشن کے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام گروہِ مقابل کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:
’’شامت کے مارو، نہ جھوٹی تہمتیں باندھو اللہ پر، ورنہ وہ ایک سخت عذاب سے تمہارا ستیاناس کردے گا۔ جھوٹ جس نے بھی گھڑا وہ نامراد ہوا۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت۶۱)
پھر آگے کا واقع بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یہ سن کر ان کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا اور وہ چپکے چپکے باہم مشورہ کرنے لگے۔ آخرکار کچھ لوگوں نے کہا:
’’یہ دونوں تو محض جادوگر ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کردیں اور تمہاری مثالی طریقِ زندگی کا خاتمہ کردیں۔ اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کرلو اور ایکا کرکے میدان میں آؤ۔ بس یہ سمجھو کہ آج جو غالب رہا وہی جیت گیا۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت ۶۴۔۶۲)

تبھی جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
’’موسیٰ تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں؟‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت۶۵)
جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہایت ہی سمجھ داری سے پہلے اُنہیں اپنا کرتب دکھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں تاکہ تمام لوگوں پر اللہ اور اس کے نبی کی شان واضح ہو جائے اور کہتے ہیں:
’’نہیں تم پھینکو۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت ۶۷)
حضرت موسیٰؑ نے جب ان کو پہل کی دعوت دی، تو اسی وقت جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ان کی طرف پھینک دیں۔ اچانک سب کو یہ محسوس ہونے لگا جیسے سینکڑوں سانپ دوڑ رہے ہیں اور ان کی طرف آرہے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اندر دہشت سی محسوس کرتے ہیں۔ بے شک آپ پیغمبر تھے، لیکن بہرحال انسان تھے، تبھی آپ کو خوف سا محسوس ہوتا ہے۔
قرآن اس سے یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ پیغمبروں پر جادو مکمل طور پر اثر تو نہیں ڈالتا، لیکن یک گونہ اثر ضرور ڈال سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندۂ برحق کو تسلی دیتے ہیں اور اُنہیں حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مت ڈرو، تو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اس کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے، جو کچھ بنا کر لائے ہیں۔ یہ تو جادو کا فریب ہے اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ خواہ کسی شان سے وہ آئے۔‘‘
(سورۂ طٰہٰ، آیت ۶۹۔۶۸)

حضرت موسیٰؑ نے حکمِ ربی سے عصا زمین پر جیسے ہی پھینکا، تو وہ ایک خوف ناک اژدھا کے روپ میں آگیا۔ وہ اس قدر ڈراؤنا تھا کہ لوگ اُسے دیکھ کر بھاگے اور دور جا کر تماشا دیکھنے لگے۔ ہر کوئی خوف سے کانپ رہا تھا اور اژدھا جہاں جہاں لاٹھیاں اور رسیاں تھیں اُنہیں نگلتا جاتا اور ان کا طلسم ختم کرتا جاتا، ہر کوئی ششدر تھا۔ جادوگری کے فن میں ایسا کوئی کمال نہ تھا۔ بے شک جادوگر اس بات سے واقف تھے کیوں کہ ان کا جادو محض جھوٹ، فریب، حیلہ اور مکر تھا۔ خدائی معجزے کے سامنے اس کی حقیقت بالکل نہ تھی۔ جادوگروں کی آنکھوں کے سامنے سے جہالت کا پردہ ہٹ گیا اور ان کے دل کی سختی جاتی رہی اور وہ جان گئے کہ یہ برحق نبی ہیں۔ ان کے دل موم ہوگئے اور ان کی پیشانیاں سجدے میں گرگئیں۔ کیوں کہ انہوں نے رب العالمین کی طاقت کا کرشمہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا جس کے آگے جادو کا کوئی زور کارگر نہ تھا اور وہ پکار اٹھے۔
’’ہم نے مان لیا رب العالمین کو، اس رب کو جسے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام مانتے ہیں۔‘‘( سورۃ الاعراف، آیت ۱۲۲۔۱۲۱)

اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے نبی کی سچائی کو اس آن میں لوگوں کے سامنے بیان کیا کہ ان کے مخالفین جو کچھ لمحات پہلے ان سے مقابلہ کررہے تھے۔ اس عظیم ہستی کی حقیقت سے باخبر ہوکر سجدہ میں پڑے تھے۔ فرعون یہ صورت حال دیکھ کر دہنگ رہ گیا اور پریشانی اور غصے کے عالم میں ان کو پکارتا ہے:
’’تم اس پر ایمان لے آئے، قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں؟ یقیناً یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کردو۔ اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے۔ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھا دوں گا۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت ۱۲۴، ۱۲۳)

فرعون حق اور سچ سامنے آجانے پر اپنی آخری چال چلتا ہے اور اس تمام واقعہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کی ملی بھگت اور سازش قرار دیتا ہے تاکہ وہ ڈر جائیں اور موسیٰ علیہ السلام کی پیروی سے انکار کرکے فرعون کی جماعت میں شامل ہو جائیں، لیکن ہدایت ایسی روشنی ہے جس سے اگر اللہ چاہے تو دل منور ہوجائیں، تو کوئی دنیاوی طاقت اس کے آگے ٹھہرنے والی نہیں۔ تبھی تو وہ جادوگر جو کچھ وقت پہلے فرعون سے سودے بازی کررہے تھے اب حق پرستی اور اولوالعزمی کے سامنے اپنے ہرگناہ سے تائب ہوگئے اور فرعون کی قتل کی دھمکی پر ببانگ دہل کہتے ہیں:
’’بہرحال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے، تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتاہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں، تو ہم نے انہیں مان لیا۔ 
اے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اُٹھا، تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں۔(سورۃ الاعراف، آیت ۱۲۶۔ ۱۲۵)
فرعون کذب و افتراء سے کام لیتا ہے اور یہ کہتے ہوئے کفر کی انتہا کرتا ہے کہ
’’وہ تو تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تمہیں سکھایا ہے جادو کا (فن)۔‘‘ اس نے اللہ کے محبوب بندے پر بہتان لگایا جب کہ معمولی سے معمولی شخص بھی سمجھ گیا کہ اس بات کا حقیقت سے تعلق نہیں۔

بنی اسرائیل کے لوگ جو ایک طویل مدت سے فرعون اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہورہے تھے اور اس پیشین گوئیوں کے سچ ہونے کے منتظر تھے کہ ایک نبی ان میں سے مبعوث ہوگا جو فرعون کے ظلم و ستم سے اُنہیں نجات دلائے گا۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا غلبہ ان کے لیے کسی نعمتِ عظمیٰ سے کم نہ تھا۔ جادوگروں کا ایمان لے آنا اور فرعون کی دھمکیوں کے باوجود حق پر ڈٹ جانا ان کے لیے غیبی امداد تھی۔ مفسرین کے مطابق جادوگر جب سجدے میں گرے تھے، تو اُنہیں باقاعدہ جنت و دوزخ کا نظارہ کروایا گیا تھا۔ وہ جزا و سزا کو دیکھ کر ایمان کی پختگی حاصل کرگئے۔ اس کے متعلق سورۂ طٰہٰ میں رب کریم فرماتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا۔ اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہوگا۔ جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلندر درجے ہیں۔ سدا بہار باغ ہیں۔ جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا اُس شخص کے لیے ہے جو پاکیزگی اختیار کرے۔‘‘(آیت ۷۶۔۷۴)

سچ اور جھوٹ کی جنگ میں جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔ فرعون نے اپنے جھوٹے خدائی دعوے کی بنیاد پر ایک طویل مدت لوگوں کو اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنائے رکھا، لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو بنی اسرائیل کا مددگار بناکر ہر طرح سے لیس کرکے بھیجا اور پھر تمام واقعات سے ثابت ہوا کہ موسیٰ کلیم اللہ ہی حقیقی نبی اور پیغمبر ہیں اور جادوگروں کی شکست اللہ کی فتح تھی۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حق اور سچ کا ساتھ دینے والا بنائے۔ (آمین)


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام ۔۔۔ حصہ چہارم مصنفہ: عمیرہ علیم بشکریہ:  الف کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام  کو جب کوہِ طور پر نبوت ...