الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
پچھلی آیت میں لفظ *خَلَق* استعمال کیا گیا لیکن یہاں *جَعَل* استعمال ہوا ہے، یعنی مہیا کیا ہے، آراستہ کیا ہے، آسانی دی ہے.
الارض کو یہاں *فراش* کہا گیا ہے. ایسی چیز جو نرم ہو، جس پر لیٹا جا سکے، جس پر بآسانی چلا جسکے، یعنی یہ دوسرے سیاروں کی طرح بہت زیادہ سخت نہیں ہے.
باقی سیاروں کی طرح اس کا درجہ حرارت اتنا زیادہ نہیں کہ آپ کا جسم ہی پگھل جائے. یہ اتنی نرم بھی نہیں ہے کہ پاؤں اس کے اندر دھنس جائیں. نہ ہی زمین کی سطح دندانے دار ہے کہ اس کی نوکیں پاؤں میں چبھ جائیں اور زخمی کر ڈالیں. اللہ تعالٰی نے اس زمین کو چلنے پھرنے کیلئے آسان بنایا ہے. اس کی سطح ایسی ہے کہ اس پر سویا جا سکے.
الغرض ہمارے آقا نے اس زمین کو ایسا نہیں بنایا کہ اس پر رہنا مشکل ہو. لفظ فراش بستر کے مترادف ہے.
قدیم زمانے کے لوگوں کے پاس اونچے پلنگ نہیں ہوتے تھے. ان کا طرز زندگی بہت سادہ تھا. بستر کھولا، بچھایا، لیٹے اور سو گئے. اسی کو "فراش" کہتے ہیں. اللہ تعالٰی یہاں ساری زمین کو ہمارے لیے بستر قرار دے رہے ہیں. آپ اس پر کہیں بھی، کبھی بھی سو سکتے ہیں. عرب لوگ صحرا میں سفر کرتے ہوئے کوئی ہوٹل تلاش نہیں کرتے بلکہ جہاں سونے کا وقت ہوا، بستر بچھایا، لیٹے اور سو گئے. *الذی جعل لکم الارض فراشا *
یہ صحرا نورد ہوٹل کے چکر میں نہیں پڑتے. ویسے ہوٹل میں کیا ہوتا ہے؟ بستر، بہترین چھت، اور لابی.
اسی آیت میں آگے اللہ عزوجل فرماتے ہیں *والسماء بناء* اور تمہارے لیے چھت بنایا آسمان کو. خوبصورت مزین کی ہوئی.
حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ نے اس ساری زمین کو ہمارے لیے رہنے کی جگہ بنا دیا ہے. یہ ساری زمین ہمارے لئے گھر کی طرح ہے. بلکہ گھر کے بھی سب سے اہم حصے (بیڈروم) کی طرح.
انسانی زندگی میں دو چیزیں بہت اہم ہیں :
سونا (آرام) اور کھانا.
*الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ*
دوسری تشبیہ آگے بیان کی جارہی ہے.
* وانزل من السماء ماء*
*فاخرج بہ من الثمرات*
اللہ تعالٰی نے یہاں گھاس، گندم، دانے، فصلیں نہیں کہا. بلکہ ہوبہو پھلوں کا ذکر کیا ہے. اور پھل کیا ہیں؟ یہ روئے زمین کی مزےدار ترین چیز ہیں. میٹھے، خوش ذائقہ، مزیدار، خوش رنگ، خوش شکل، خوشبو دار. حتی کہ ان کا چھلکا بھی خوبصورت ہوتا ہے. پس اللہ عزوجل ہمیں یاد دہانی کروارہے ہیں کہ کس طرح میں نے تمہارے لئے زمین پر زندگی گزارنا آسان کر دیا ہے. اور کس قدر خوبصورت چیزیں مہیا کی گئی ہیں.
میرا ایک دوست معدے کے مسئلے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل تھا. اسےچھ ماہ تک ٹھوس غذا بند تھی. دو ماہ کیلئے اس کو ڈرپس لگتی رہیں. پھر وہ لیکوڈ غذا لینے کے قابل ہوا. جو ضروری کاربوہائیڈریٹس اور پروٹین کے محلول پر مشتمل تھی. صبح، دوپہر، شام ان سب کا ناگوار سا شیک بنا کر اس کو دیا جاتا تھا. بالآخر وہ ٹھوس غذا لینے کے قابل ہو گیا. اس کی بیماری کے دوران میں اس سے ملنے گیا، اس نے مجھے اپنا وہ شیک آفر کیا. میں اس کا ایک گھونٹ ہی بھر سکا. آآآآآخ خ خ خ یہ کیا ہے؟ یہ انسانوں کے پینے کے لیے ہے ؟ یہ میرا ردعمل تھا اور وہ شخص جو سارا دن صرف اسی پر اکتفا کر رہا تھا وہ بھی تو بطور انسان زندہ تھا. اس کا ذائقہ سرد، کراہیت آمیز اور بڑبڑانے پہ مجبور کرنےوالا تھا.
کیا اللہ تعالٰی نے ہمارے سروائول والی خوراک کو خوش ذائقہ، خوش رنگ اور خوش شکل نہیں بنایا؟ یہ غذا بس بنیادی ضروری غذائی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے. اور آپ جانتے ہی ہیں کہ بعض اقوام کی خوراک تو لال بیگ پر بھی مشتمل ہوتی ہے.
اسی طرح جانوروں کو بھی اپنی بقا کے لئے کوئی خوبصورت پلیٹ، چمچ، چاقو، کیچپ اپ نہیں درکار ہوتے، وہ براہ راست زمین پر اگی گھاس کھاتے ہیں.
اللہ عزوجل نے ہمیں ناقابلِ بیان تہوں میں لپٹے پھل عطا کئے ہیں اور پھر ان کو خوبصورت درختوں پر لگایا ہے. خوش رنگ پکے پھلوں سے لدے ہوئے درختوں کا تصور ہی بہت خوشگوار ہے. کیلیفورنیا کے پام کے درختوں کا تصور کریں، وہاں چھٹیاں گزارنا نہایت مہنگا منصوبہ ہے. یہ کھجوریں کیا براہ راست نظر آتی ہیں؟ نہیں یہ تہوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں. ہر پھل اللہ عزوجل کی طرف سے ایک تحفہ ہے. ہر ایک کی اپنی ساخت ہے، اپنی نوعیت ہے. ہر پھل اپنی خوشبو، رنگت یہاں تک کہ چھلکے کے اعتبار سے بھی دوسرے سے مختلف ہے. اور اللہ نے یہ سب آپ کے لیے بنایا ہے.
* رِزْقًا لَّكُمْ ۖ*
یہ تمہارے لیے رزق ہے.
اللہ نے انسان کو کمتر چیزیں مہیا نہیں کیں. اُس نے آپ کو بہترین، خوبصورت ترین رزق عطاء کیا ہے. خوش ذائقہ اور دل پسند رزق.
پس تم اللہ کیلئے شریک نہ بناؤ. کسی کو اس کے مقابل نہ ٹھہراؤ.
* تندید * کسی کے سامنے اپنی آواز بلند کرنا. یہاں اس کا مطلب محض یہ نہیں کہ اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ. بلکہ کسی بھی چیز کو اس سے آگے نہ بڑھاؤ. اس کے سامنے کوئی آواز بلند نہ کرو. یعنی اللہ کو چیلنج نہ کرو. زندگی اس کی مخالفت میں مت بسر کرو. ایسے کام مت کرو جو اللہ کے خلاف چیلنج ہوں.
اور تم اپنے اعمال کے بارے میں خوب خوب جانتے ہو. خوب علم رکھتے ہو.
* وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ*
ایک دفعہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک بدو آیا جو زیادہ تہذیب یافتہ نہیں تھا. اس نے آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں.(ماشاءاللہ وما شئت). رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی بات پر ناراض ہوئے. کہ کیا تم نے مجھے اللہ کے مقابل کر دیا ہے؟ تم صرف یہ کہو........کہ جو اللہ چاہے. کیونکہ جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہے.
ہمارے لئے* ند* کیا ہے؟ شرک کیا ہے؟ میں آپ کے سامنے اپنے اور اللہ عزوجل کے درمیان تعلقات کی تصویر پیش کر چکا ہوں.
*وہ رب ہے. ہم عبد ہیں.*
*اور اس تعلق کی بنیاد محبت ہے.*
جاری ہے...............
استاد نعمان علی خان