نئی صورت کی خوشیاں اور نئے اسباب غم ہوں گے


اکبر الہ آبادی کی تقریبا 90 برس قبل کی پیش گوئی ملاحظہ کریں جس میں انہوں نے آج کی موجودہ جدید جاہلیت کی ہو بہو منظر کشی کی تھی.

یہ موجودہ طریقے راہی ملک عدم ہونگے
نئی تہذیب ہوگی اور نئے سامان بہم ہوں گے

نئے عنوان سے زینت دکھائیں گے حسیں اپنی
نہ ایسا پیچ زلفوں میں نہ گیسو میں یہ خم ہوں گے

نہ خاتونوں میں رہ جائے گی پردے کی پابندی
نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب روئے صنم ہوں گے

بدل جائے گا انداز طبائع دور گردوں سے
نئی صورت کی خوشیاں اور نئے اسباب غم ہوں گے

خبر دیتی ہے تحریک ہوا تبدیل موسم کی
کھلیں گے اور ہی گل ‘زمزمے بلبل کے کم ہوں گے

عقائد پر قیامت آئے گی ترمیم ملت سے
نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گے 

بہت ہوں گے مغنی نغمہء تقلید یورپ کے
مگر بے جوڑ ہوں گے اس لئے بے تال و سم ہوں گے 

ہماری اصطلاحوں سے زباں نا آشنا ہو گی
لغات مغربی بازار کی بھاشا سے ضم ہوں گے 

بدل جائے گا معیار شرافت چشم دنیا میں
زیادہ تھے جو اپنے زعم میں وہ سب سے کم ہوں گے

گزشتہ عظمتوں کے تذکرے بھی رہ نہ جائیں گے
 کتابوں ہی میں دفن افسانہ جاہ وحشم ہوں گے

کسی کو اس تغیر کا نہ حس ہوگا نہ غم ہوگا
ہوئے جس ساز سے پیدا اسی کے زیر و بم ہوں گے

تمہیں اس انقلاب دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ
بہت نزدیک ہیں وہ دن کہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں