محرم ِ زیست کوئی بات ہے یہ؟


عاطف سعید ​ کی آنے والی کتاب "محرم ِ زیست" سے ایک نظم

محرم ِ زیست ! کوئی بات ہے یہ؟
دور ہوتے نہیں خیالوں سے
ہر گھڑی آس پاس رہتے ہو
آنکھ لگتی ہے سوچتے تم کو
آنکھ کُھلتے ہی یاد آتے ہو
خواب بھی تم سجائے رکھتے ہو
ساری دنیا بُھلائے رکھتے ہو
یاد کر کے تمہاری باتوں کو
بات بے بات مسکراتا ہوں
خود سے لگتے نہیں جُدا مجھ کو
اپنے اندر ہی تم کو پاتا ہوں
تم مری سوچ میں خیالوں میں
میرے جینے کے سب حوالوں میں
میری تاریکیوں، اُجالوں میں
میری مستی بھری دھمالوں میں
میری ہر اک دُعا میں رہتے ہو
ابتدا انتہا میں رہتے ہو
خامشی میں صدا میں رہتے ہو
تم مری ہر ادا میں رہتے ہو
محرم ِ زیست کوئی بات ہے یہ؟
جانے کیسے ہے یہ کیا تم نے
مجھ کو میرا پتا دیا تم نے
تھک گیا تھا تلاش میں اپنی
مجھ سے مجھ کو ملا دیا تم نے
کچھ بھی اپنا نہیں رہا باقی
تم ہی تم بھر گئے ہو اب مجھ میں
محرم ِ زیست کوئی بات ہے یہ؟

عاطف سعید

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں