1965ء کی جنگ ختم ہونے کے چند ماہ بعد مدینہ منورہ میں ایک عمر رسیدہ پاکستانی خاموش بیٹھا آنسو بہاتے ہوئے روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ یہ پاکستانی 11 ستمبر 1965ء کو سیالکوٹ پھلورا محاذ پر شہید ہونے والے کوئٹہ انفنٹری سکول کے انسٹرکٹر میجر ضیاء الدین عباسی (ستارہ جراُت) کے والد گرامی تھے۔
میجر ضیاء الدین عباسی کے ٹینک کو دشمن کی توپ کا گولہ لگا جس سے وہ شہید ہوگئے۔ جبصدر ایوب خان کی طرف سے میجر عباسی شہید کے والد اپنے شہید بیٹے کو بعد از شہادت ملنے والا ستارہ جرات وصول کر رہے تھے تو ایوب خان نے ان سے ان کی کوئی خواہش پوچھی، تو انہوں نے عمرہ کی خواہش کا اظہار کیا جسے ایوب خان نے فورا قبول کر لیا۔ شہید میجر ضیاءالدینعباسی کے والد جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلام کے سامنے بیٹھے آنسو بہا رہے تھے تو خادم مسجد نبوی وہاں آئے اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ آپ میں سے کوئی پاکستان سے تعلق رکھتا ہے؟ میجر عباسی شہید کے والد نے خادم مسجد نبوی کے استفسار پر کہا کہ وہ پاکستان سے آئے ہیں۔ خدام مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ پاکستانی فوج کے میجر ضیاء الدین عباسی شہید کا نام آپ نے سنا ہے، ان کا آپ جانتے ہیں؟ اس پر شہید کے والد نے حیرت سے کہا کہ وہ ہی اس شہید کے والد ہیں۔
یہ سنتے ہی خوشی اور مسرت سے لبریز خادم خاص نے آگے بڑھ کر زور سے انہیں گلے لگا لیا اور ان کے بوسے لیتے ہوئے کہا کہ آپ یہیں رکیں، میں کچھ دیر بعد آتا ہوں۔ شہید میجر عباسی کے والد کو اپنے گھر لے گئے جہاں انہیں بڑی عزت اور احترام کے ساتھ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کھانا کھلایا۔ سب گھر والے ان کے ساتھ بڑی عزت اور احترام سے پیش آرہے تھے۔ میجر عباسی شہید کے والد بہت حیران تھے کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟ میں تو انہیں جانتا تک نہیں بلکہ زندگی میں پہلی بار میرا سعودی عرب آنا ہوا ہے۔ اسی شش و پنج میں تھے کہ خادم خاص روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھوں کے ایک بار پھر بوسے لیے اور شہید عباسی کے والد کی حیرانگی دور کرتے ہوئے کہنے لگے کہ جب پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ہو رہی تھی تو 11 ستمبر کی رات میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اپنے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالٰی اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔
کچھ لمحوں بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنے ہاتھوں میں ایک لاشہ اٹھائے وہاں تشریف لاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ شہید عباسی اسی طرح بہادری سے کفار کے خلاف جنگ لڑے ہیں جیسے آپ میرے ساتھ غزوات میں کفار کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ خادم مسجد نبوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سمیت سب نے ان کی نماز جنازہ ادا کی اور حکم دیا کہ انہیں جنت بقیع میں دفن کر دیا جائے۔
عین اسی دن ریڈیو پاکستان پر ایک نیا جنگی ترانہ گونج رہا تھا
چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم ۔ ۔ ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بانہوں میں لے لیا ہوگا ۔ ۔ ۔ علی تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے ۔ ۔ ۔ حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہوگا ۔ ۔ ۔ تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں۔ اے راہ حق کے شہیدو!!
واللہ اعلم بالثواب
منقول
1965ء کی جنگ ختم ہونے کے چند ماہ بعد مدینہ منورہ میں ایک عمر رسیدہ پاکستانی خاموش بیٹھا آنسو بہاتے ہوئے روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سل...
کا فی عرصہ کی با ت ہے کہ جب میں لیا قت میڈیکل کا لج جامشورہ میں سروس کررہا تھا تو وہا ں لڑکو ں نے سیر ت نبی ا کا نفرس منعقد کروائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا ۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جو کھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ما ہر تھے ) کے ہمرا ہ اس مجلس میں شرکت کی۔ اس مجلس میں ایک اسلامیات کے لیکچرار نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ذآتی زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شا دی کیوں کی او ر اس سے امت کو کیا فائدہ ہوا۔ یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سرا ہا ۔
کانفرس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کا ر آرہے تھے توڈاکٹر عنایت اللہ جو کھیو نے عجیب بات کی ۔ انہوں نے کہا کہ آج رات میں دو با رہ مسلمان ہوا ہوں ۔ میں نے تفصیل پو چھی تو انہوں نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب میں FRCS کے لیے انگلستان گیا تو کرا چی سے انگلستا ن کا سفر کا فی لمبا تھا ، ہوا ئی جہا ز میں ایک ائیر ہو سٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پو چھا کہ تمہا را مذہب کیا ہے ؟ میں نے بتا یا، اسلام ۔ ہما ر ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پوچھا ، میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بتا یا ، پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلو م ہے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گیا رہ شا دیا ں کی تھیں؟میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ با ت حق اور سچ ہے ۔ اس کے بعد اس لڑکی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دو تین اور باتیں کیں ، جس کے سننے کے بعدمیرے دل میں (نعو ذ بااللہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نفرت پیدا ہوئی ۔
جب میں لندن کے ہو ائی اڈے پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔ آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی۔ اتوار کو میں گرجو ں میں جا تا اور وہا ں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے ۔ جب میں آٹھ سال بعد واپس پاکستان آیا تو ہڈی جوڑ کا ماہر بن کر لیا قت میڈیکل کالج میں کام شروع کیا ۔ یہا ں بھی میری وہی عا دت رہی ۔ آج رات اس لیکچرا ر کا بیا ن سن کر میرا دل صاف ہو گیا اورمیں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے ۔ . ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو اتنا گمراہ کیا کہ وہ اپنے دین سے بدظن ہوگئے..
غور کیا جائے تو اس گمراہی اور وساوس کا شکار ہونےکی سب سے بڑی و جہ ہم مسلمانوں کی اپنے دین سے لاعلمی ہے ۔ ہم سولہ سولہ سال سکولوں کالجوں میں پڑھے، غیر نصابی مطالعہ بهی اتنا کیا کہ سینکڑوں رسالے، ناول چاٹے لیکن کبھی اپنے نبی کی زندگی کو مکمل نہیں پڑھا ، ہمارے ہاں مطالعہ کا رجحان پہلے سے کم تھا اب سوشل میڈیا نےرہی سہی کسر بهی نکال دی ہے۔ لوگوں کے پاس اب ٹائم ہی نہیں ، پچھلے دو سالوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعد اد فیس بک سے کنیکٹ ہوئی ہے ان میں سے اسی فیصد سے زائد دینی ماخذ قرآن و حدیث ،سیرت کا بنیادی علم بھی نہیں رکھتے ۔. دوسری طرف سوشل میڈیا کے ذریعے باطل کی محنتیں عروج پر ہیں.. دیکها جائے تو ملحدوں کی اپنے مکروفریب اور وساوس پھیلانے میں کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہی مسلمانوں کی اپنے دین سے ناواقفیت بھی ہے، ہمارے بہت سے لوگوں کا اللہ رسول، اصحاب رسول سے تعلق علمی کے بجائے جذباتی ہے۔ جذباتی تعلق گو کہ اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن یہ مکمل فائدہ مند نہیں، جہاں بات علم اور دلائل کی ہورہی ہو وہاں جذبات سے ذیادہ دیر کام نہیں چلایا جاسکتا ، پھر ہمارا دین عیسائیت، ہندومت کی طرح کا بھی نہیں ہے کہ صرف جذباتی تعلق تک محدود رہنا ہماری مجبوری ہو، اسلام اپنے ہر عقیدے، نظریے کے متعلق بھرپور دلائل رکھتا ہے۔
ضروری ہے کہ ہم نا صرف قرآن و حدیث، سیرت کے مطالعے کے لیے وقت نکالیں بلکہ اپنے گھر بھی مطالعے کی فضا بنائیں، سیرت پر مستند کتابیں لا کے کھیں اوراپنے بچوں کو ان کو پڑھنے کی ترغیب دیں۔ اس دور کے فتنوں سے بچنے کے یہی دو راستے ہیں یا تو علم والوں سے مستقل تعلق رکھا جائے یا پھر خود مستند کتابوں کے مطالعے کی روٹین بنائی جائے۔
اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے " پیغام قرآن و حدیث" بلاگ پر سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے آگاہی کے لیے ایک نیا قسط وار سلسلہ شروع کیا گیا ہے، نیچے دیے گئے لنک پر کلک کرکے ان اقساط تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
“جی ان شاء اللہ۔ بالکل۔ آپ کے لئے دعا ہو گی۔ اگر کِسی خاص حاجت یا مقصد کے لئے دعا کرنی ہو تو ضرور بتایئے گا۔”
“آپ میرے لئے ، میرے بچوں کے لئے بے حِساب رِزق کی دُعا کیجیئے گا”
“بے حساب رزق؟”
“جی۔ کہ اللہ بے حساب رزق نصیب فرمائے”
“رزق میں برکت کی دُعا میں ضرور کروں گا۔ پر بے حِساب رزق تو میرے خیال میں آپکو اللہ نے دے رکھا ہے”
“کہاں جی! اللہ کا شُکر ہے کہ کُچھ کمی نہیں ہوتی۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑتا۔ بالکہ کسی نہ کسی کی مدد ہی کرتے ہیں ہم۔ ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔ کُچھ خواہشیں شاید تشنہ رہ بھی جاتی ہیں، پر اللہ کا کرم ہے ، حق حلال کھاتے ہیں ، پہنتے ہیں ، استعمال کرتے ہیں”
“یہی تو ہے بے حساب رِزق”
“کیا مطلب؟”
“مطلب یہ، کہ وہ رِزق جو اُس دِن کی ضرورتیں پوری کرے ، اور اگلے دِن کے لئے نہ بچ پائے۔ کیونکہ ضرورت سے زیادہ رزق کا حساب ہو گا۔ اور حساب تو ظاہر ہے ، مشکل میں ڈالتا ہے”
“اور وہ رِزق جو بے تحاشا ہو ، اور خوب ہو ، اور اگلے دن کیا ، اگلے سال کے لئے کافی ہو ، وہ؟”
“وہ تو بے حِساب رزق نہ ہوا ناں۔ وہ تو حِساب والا رزق ہے۔ اس میں تو حساب ہی حساب۔”
“جزاک اللہ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ بے حساب رزق کا مطلب آج سے پہلے سمجھ ہی نہ آیا تھا”
“سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ 🙂 “
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
حساب ۔۔۔ ایک مکالمہ تحریر: عمر الیاس “پتہ چلا آپ حج پر جا رہے ہیں۔” “جی۔ الحمد للہ” “میرے لیے ضرور دُعا کیجیئے گا” ...
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 15 ذوالحجہ 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " دین پر استقامت " ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے دین اسلام اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے، حجاج کرام اور دیگر تمام عبادت گزاروں کو اپنی اپنی عبادات کی تکمیل پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور شکرانے کے لئے دین اور شریعت کے پابند بن جائیں، اپنی زندگی کے ہر گوشے میں دینی تعلیمات پر عمل پیرا رہیں، اسی کو استقامت کہتے ہیں، اور یہ ہر مسلمان کی زندگی کا اکلوتا ہدف اور مقصد بھی ہے، استقامت انسان کو حب الہی اور اللہ کی تعظیم کے آخری درجے پر پہنچا سکتی ہے، استقامت کا اللہ تعالی نے اپنے نبی اور نبی کے تابعداروں کو بھی حکم دیا ہے، استقامت میں سب سے پہلے الوہیت ، ربوبیت اور اسما و صفات میں وحدانیت الہی کا تصور آتا ہے، اس لیے نبوی فرمان کے مطابق جب بھی مانگیں اللہ سے مانگیں، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اللہ تعالی سے ہی مانگا، کیونکہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی بھی مشکل کشائی اور حاجت روائی نہیں کر سکتا، اپنی زندگی کے تمام گوشوں کو کتاب و سنت کی تعلیمات پر استوار کریں، حدود اللہ کا خاص خیال رکھیں، اور اگر کوئی غلطی یا گناہ سر زد ہو بھی جاتا ہے تو فوری اللہ سے معافی مانگ لیں، کیونکہ نافرمانی کی وجہ سے انسان کو دونوں جہانوں میں نقصان اٹھانا پڑے گا اور بصورت دیگر ہر جگہ پر امن و امان ہی پائے گا، پھر آخر میں انہوں سب کے لئے جامع دعا کروائی۔
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو بہت قدر دان اور نہایت بردبار ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور برگزیدہ رسول ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور بادشاہ و علم رکھنے والے اللہ کی رضا پانے والے صحابہ کرام پر سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد، لوگو!
کما حقہ تقوی الہی اپناؤ اور اسلام کو مضبوطی سے تھام لو، تو تم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جاؤ گے۔
مسلمانو!
یہ اللہ تعالی کی ہم پر بہت بڑی نعمت ہے کہ ہماری اس دین کے لئے رہنمائی فرمائی اور ہمیں مسلمان بنایا، {وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُمْ بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ}
تم پر جو اللہ کی نعمتیں نازل ہوئی ہیں انہیں اور تمہارے ساتھ طے شدہ معاہدے کو یاد رکھو، جب تم نے کہا تھا کہ: ہم نے [معاہدہ]سنا اور مان لیا۔ اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔ [المائدة: 7]
اللہ کی نعمتوں کی بدولت حج مکمل کرنے والو! اللہ کے احسانات کی بدولت نیکیوں کی بہاروں میں ہمہ قسم کی نیکیاں کرنے والو! ان نعمتوں پر اللہ جل و علا کا شکر ادا کرو، اللہ کے دین اور شریعت پر ثابت قدم ہو جاؤ، اللہ کی نافرمانی اور حدود سے تجاوز کرنے سے باز رہو، تمہارے پروردگار کا فرمان ہے: {فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ}
تو اور تیرے ساتھ توبہ کرنے والے لوگ بھی اسی طرح ثابت قدم رہیں جیسے آپ کو حکم دیا گیا ہے اور حد سے نہ بڑھو، بے شک تم جو کچھ تم کرتے ہو وہ خوب دیکھنے والا ہے۔ [هود: 112]
سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! مجھے ایسی اسلامی تعلیم دیں کہ پھر مجھے آپ کے علاوہ کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: میں اللہ پر ایمان لایا، اور پھر اس پر ثابت قدم ہو جاؤ) مسلم
اس فانی زندگی میں مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت پر استقامت اختیار کرے۔ دعائے عبادت اور حاجت، امید اور خوف، ڈر اور رغبت، قولی اور فعلی، قلبی اور جسمانی ، ظاہری اور باطنی ہر قسم کی عبادت صرف اللہ کے لئے کرے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162) لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ}
کہہ دیں: یقیناً میری نماز، قربانی، زندگی اور موت سب اللہ رب العالمین کے لئے ہیں [162] اس کا کوئی شریک نہیں ہے، مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اولین فرماں برداروں میں سے ہوں۔ [الأنعام: 162، 163]
یہ استقامت ہی ہے جو تمہیں کامل انکساری کے ساتھ اپنے خالق کی محبت میں انتہا تک پہنچا دے گی اور تم اس کی آخری درجے تک تعظیم بھی کرنے لگو گے، اس تعظیم میں ربوبیت، الوہیت اور اسما و صفات کے تمام تر تقاضے موجود ہوں گے، فرمانِ باری تعالی ہے: {اِتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ}
تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی جانب سے جو کچھ بھی نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو، اس کے علاوہ کسی بھی دوست کی اتباع نہ کرو۔ [الأعراف: 3]
ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (105) وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ (106) وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ}
آپ یکسو ہو کر دین حنیف کی طرف اپنی سمت قائم رکھیں اور مشرکوں میں شامل نہ ہوں [105]اور اللہ کے علاوہ کسی کو بھی مت پکاریں جو تمہیں نفع یا نقصان نہیں دے سکتے، اگر تم ایسا کرو گے تو تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے [106] اور اگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ آپ سے کوئی بھلائی کرنا چاہے تو کوئی اسے ٹالنے والا نہیں، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فضل نوازتا ہے ، وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ [يونس: 105- 107]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تم اللہ کو یاد کرو تو تم اسے اپنی سمت میں پاؤں گے، جب بھی مانگو تو اللہ سے ہی مانگو، اور جب مدد مانگو تو اللہ سے ہی مدد طلب کرو۔۔۔) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔
مسلم اقوام!
لوگوں کے لئے نجات دہندہ استقامت ہی ہے جو لوگوں کو ناقابل تسخیر عظمتِ الہی کے سامنے سرنگوں کر دیتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ مخلوق کتنی ہی بلند شان والی ہو، اس کا مرتبہ کس قدر ہی بلند کیوں نہ ہو؛ وہ پھر مخلوق ہی رہتی ہے جو کہ پیدا کی گئی ہے ، کسی کی زیر ملکیت ہے اور اس کے معاملات کوئی اور چلا رہا ہے، اللہ تعالی نے ساری مخلوقات میں سے افضل ترین اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا: {قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ}
آپ کہہ دیں: میں تو خود اپنے آپ کو نفع یا نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سے مفادات حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو ایمان لانے والوں کو محض ایک ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔[الأعراف: 188]
اس لیے اللہ کے بندے! اللہ تعالی سے امید رکھ، صرف اسی سے مانگ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اپنی مشکل کشائی ، حاجت روائی اور تکلیفیں دور کرنے کی دعائیں اسی سے کرو،
اللہ تعالی کا فرمان ہے: {أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ}
بھلا کون ہے جو لاچار کی پکار پر اس کی فریاد رسی کر کے اس کی تکلیف دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین کے جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے؟ تم بہت تھوڑی نصیحت حاصل کرتے ہو۔ [النمل: 62]
اللہ کی مخلوق! تمہارے اس زندگی میں وجود کا مقصد ہی یہ ہے کہ تم صراط مستقیم پر استقامت کے ساتھ چلو، تمہاری زندگی، اٹھنا بیٹھنا، معاملات سمیت ہر چیز نازل شدہ وحی اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ}
اور بلاشبہ یہی میری سیدھی راہ ہے لہذا اسی پر چلتے جاؤ اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کر دیں گی اللہ نے تمہیں انہی باتوں کا حکم دیا ہے شاید کہ تم تقوی حاصل کر لو۔ [الأنعام: 153]
اے مؤمن! حدود اللہ کا خاص خیال رکھیں، خالص اسی کے لئے اعمال کریں، نیک اعمال کا ارادہ اور ہدف اللہ کے لئے ہی ہو تو تم دائمی سعادت، امان اور عظیم کامیابی حاصل کر لو گے، دنیا ہو یا آخرت دونوں جہانوں میں خوش حال ترین زندگی گزارو گے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (13) أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}
یقیناً جن لوگوں نے کہا: ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اس پر ڈٹ گئے تو انہیں کوئی خوف یا غم لاحق نہیں ہو گا [13] یہی لوگ ہیں جنتوں والے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے۔[الأحقاف: 13، 14]
نیکیوں کی بہاروں کو ضائع کرنے والے! گناہ اور مہلک پاپ کما کر اپنے آپ پر ظلم ڈھانے والے! اپنے مولا کی طرف رجوع کر، اور تیرے دل میں امید اور آس جگانے والا فرمان سن، اس انداز سے سن کہ دل کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچ جائے، اللہ تعالی کے اس فرمان سے رحمت اور محبت چھلکتی ہے، یہ فرمان تمام لوگوں کے لئے ہے چاہے ان کے گناہ کتنے ہی زیادہ ہوں ، انہوں نے گناہوں کے انبار لگا رکھے ہوں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ}
آپ کہہ دیں: اپنی جانوں پر زیادتی کرنے والے میرے بندو! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقیناً اللہ تعالی تمام تر گناہ معاف فرما دیتا ہے، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الزمر: 53]
اس فرمان کے بعد اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو وقت گزرنے سے پہلے توبہ اور انابت کی ترغیب بھی دلائی ہے کہ بعد میں پچھتاوا نہ ہو ، چنانچہ فرمایا: {وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ (54) وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ}
تم اپنے اوپر عذاب آنے سے قبل ہی اپنے پروردگار کی طرف رجوع کر لو اور اس کا حکم مان لو مبادا تمہیں کہیں سے مدد بھی نہ مل سکے۔ [54] اور تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کی گئی سب سے اچھی بات کی پیروی کرو ، قبل ازیں کہ تم پر اچانک عذاب آ جائے اور تمہیں شعور تک نہ ہو۔ [الزمر: 54، 55]
اللہ کے بندو!
اطاعت الہی پر ڈٹ جاؤ تو تم کامیاب ہو جاؤ گے، قرآن و سنت کی تعلیمات پر کار بند رہو تو دونوں جہانوں میں خوشیاں ہی خوشیاں پاؤ گے؛ کیونکہ عزت اور سیادت دین الہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں پنہاں ہے۔ نیز عقیدہ توحید اور تقوی کی بدولت بہترین انجام حاصل ہو گا، فرمانِ باری تعالی ہے: {اَلَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ}
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم [یعنی شرک] سے آلودہ نہیں کیا ؛ تو یہی لوگ ہیں جن کے لئے امن ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔[الأنعام: 82]
جبکہ ذلت، رسوائی، شرمندگی اور نقصان؛ گناہوں، معصیتوں اور اللہ تعالی کے احکامات سے رو گردانی پر ملتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ}
اور جو بھی اللہ اور رسول اللہ کی نافرمانی کرے گا اور حدود اللہ سے تجاوز کرے گا تو اللہ اسے ہمیشہ کے لئے جہنم رسید فرمائے گا اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔[النساء: 14]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام افضل ترین اعمال میں سے ہے ، یااللہ! ہمارے حبیب، نبی ، رسول اور آنکھوں کی ٹھنڈک جناب محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-پر درود و سلام، برکتیں اور نعمتیں نازل فرما۔
یا اللہ! اہل بیت، تمام صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین نیز ان کے نقش قدم پر روزِ قیامت تک بہترین انداز سے چلنے والوں سے بھی راضی ہو جا۔
یا اللہ! مومن مرد و خواتین کو بخش سے، مسلمان مرد و خواتین کو بخش دے، یا اللہ! زندہ اور فوت شدگان سب کی مغفرت فرما دے۔
یا اللہ! ہماری عبادات قبول فرما، یا اللہ! ہمارے گناہوں کو دھو ڈال، یا اللہ! ہمارے درجات بلند فرما دے، یا اللہ! ہمارے درجات بلند فرما دے، یا اللہ! ہمیں بھی راضی کر دے اور تو بھی ہم سے راضی ہو جا، یا اللہ! ہمیں بھی راضی کر دے اور تو بھی ہم سے راضی ہو جا، یا اللہ! ہمیں بھی راضی کر دے اور تو بھی ہم سے راضی ہو جا، یا حیی! یا قیوم!
یا اللہ! حجاج اور معتمرین کی حفاظت فرما، یا اللہ! تمام حجاج اور معتمرین کو صحیح سلامت اپنے اپنے علاقے میں واپس پہنچا، یا حیی! یا قیوم! یا اللہ! تمام حجاج اور معتمرین کو صحیح سلامت اور ڈھیروں اجر و ثواب کے ساتھ اپنے اپنے علاقے میں واپس پہنچا، یا حیی! یا قیوم!
یا اللہ! ہماری اور تمام حجاج کی ضروریات اپنی رحمت سے پوری فرما دے، یا اللہ! ہماری اور تمام حجاج کی ضروریات اپنی رحمت سے پوری فرما دے، یا اللہ! تمام مسلمانوں کی ضروریات پوری فرما دے، یا ذالجلال والا کرام! یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! ہمیں صرف وہی کام کرنے کی توفیق عطا فرما جو تجھے پسند اور محبوب ہوں، یا اللہ! ہمیں صرف وہی کام کرنے کی توفیق عطا فرما جو تجھے پسند اور محبوب ہوں۔
ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
دین پر استقامت خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 15 ذوالحجہ 1440 بمطابق 16 اگست 2019 امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن ع...
حج سکیورٹی فورس کے اہلکار ماجد علی الحکمی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ دنیا بھر میں وہ اتنے مشہور ہو جائیں گے، ان کی تصویر دنیا کے اخبارات کی زینت بنے گی اور وہ خود سوشل میڈیا پر موضوع گفتگو بن جائیں گے۔
یہ ان کی اس تصویر کا ذکر ہے جسے مکہ گورنریٹ نے حج کے دنوں میں لی جانے والی تصاویر میں بہترین قرار دے کر اول انعام سے نوازا ہے۔ دنیا بھر میں شہرت پانے والی یہ تصویر نہ صرف انسانی ہمدری کی عکاسی کرتی ہے بلکہ حج سکیورٹی فورس کی والہانہ اور مخلصانہ خدمات کی بھی کہانی سناتی ہے۔ تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ حج سکیورٹی فورس کے اہلکار ماجد علی الحکمی نے ایک معمر حاجی کو گود میں اٹھا رکھا ہے۔
تصویر کی کہانی خود ماجد کی زبانی ہی سنیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’حج کی ڈیوٹی پر مامور سکیورٹی فورس کے مختلف اداروں کے تمام اہلکار یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ حجاج کی امن و سلامتی کے علاوہ ان کے آرام اور راحت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ یہی ہم سب کا اولین مقصد اور مشن ہے۔‘
ان کے بقول ’عرفات کے دن مجھے دور سے ایک معمر حاجی نظر آیا جسے چلنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ وہ تھوڑی مسافت چلتے اور پھر رک جاتے، پھر اپنے پیروں کو سہلاتے۔ میں ان کا حال معلوم کرنے کے لیے ان کے قریب گیا اور پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی مسئلہ ہے، کیا پیر زخمی ہو گیا ہے؟‘
ماجد الحکمی کہتے ہیں کہ ’معمر حاجی کو میری بات سمجھ نہیں آئی۔ وہ اردو زبان میں جواب دیے جا رہے تھے۔ میں بھی ان کی بات سمجھ نہیں پا رہا تھا مگر ان کا درد محسوس کر سکتا تھا۔ میں نے انہیں پانی پلایا اور ٹھنڈا پانی ان کے سر پر بھی ڈالا۔ مجھے خدشہ تھا کہ کہیں انہوں نے کسی تیز دھار چیز پر پیر رکھ دیا ہے۔ میں ان کا پیر دیکھنے کے لیے جھکا تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کے قدم ان کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہے۔‘
’مجھے ڈر تھا کہ وہ چند قدم چلنے سے کہیں گر نہ جائیں۔ میں نے انہیں اشارے کی زبان میں سمجھایا کہ آپ میرے والد جیسے ہیں، فکر مت کریں، میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔‘
سکیورٹی اہلکار کے مطابق ’ہم چند قدم ہی چلے تھے کہ ان کے مزید چلنے کی سکت نہیں تھی۔ میں نے انہیں اشارے کی زبان میں کہا کہ میں آپ کو گود میں اٹھا لیتا ہوں۔ پھر میں نے انہیں اٹھا لیا۔ میں انہیں مزدلفہ تک لے گیا اور پھر وہاں سے منی میں ان کے ٹھکانے تک پہنچایا۔ پورے راستے وہ مجھ سے اردو میں مخاطب ہوتے رہے، وہ مسلسل مجھے دعائیں دیتے رہے۔ بس ان کی دعائیں میرا حوصلہ بڑھا رہی تھیں اور مجھے کہیں بھی تھکن محسوس نہیں ہوئی۔‘
وہ مزید کہتے ہیں ’مجھے یوں محسوس ہوا کہ حج میں میری ڈیوٹی شاید اسی بوڑھے کی خدمت کرنے کے لئے ہی لگی ہے۔ ایک غیبی آواز آرہی تھی کہ اس معمر کی خدمت کر کے جتنا ثواب کما سکتے ہو کما لو۔ میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو شاید یہی کرتا۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ کوئی فوٹو گرافر میرا تعاقب کر رہا ہے۔ اگلے دن اخبارات میں اپنی تصویر دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔‘
فوٹو گرافر کون ہے؟
دنیا بھر میں شہرت پانے والی اس تصویر کے فوٹو گرافر سعود المسیہیج العنزی ہیں جنہیں مکہ گورنریٹ نے بہترین تصویر پر اول انعام سے نوازا ہے۔ مکہ کے گورنر شہزادہ خالد الفیصل سے انعام پانے کے بعد ٹویٹر پر شہرت پانے والے سعودی فوٹو گرافر نےچھ سال قبل فوٹوگرافری کا آغاز کیا۔
وہ اپنی تصویر کے بارے میں کہتے ہیں ’میدان عرفات میں دیگر فوٹو گرافروں کی طرح میں بھی موجود تھا۔ حج سکیورٹی فورس کے اہلکار سے پہلے میری نگاہ معمر حاجی پر گئی تھی۔ میں انہیں مسلسل تاک رہا تھا۔ اچانک اہلکار وہاں پہنچے اور حاجی کی مدد کی۔ یہ تمام چیزیں میں نے اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیں۔ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ تصویر اس قدر مشہور ہو جائے گی اور مجھے اس کے عوض انعام ملے گا۔‘
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
دنیا بھر میں شہرت پانے والی یہ تصویر انسانی ہمدردی کی عکاسی کرتی ہے- فوٹو سعود المسیہیج العنزی حج میں پہلا انعام پانے والی تصویر...
خطبے کے اہم نکات 1/ دن کے گزرنے میں بڑی عبرت ہے۔ 2/ اللہ کا ذکر عام کرنا حج کا ایک عظیم مقصد ہے۔ 3/ ذکر سے جنت میں پودے لگائے جاتے ہیں۔ 4/ اللہ کا ذکر سراسر خیر ہی خیر ہے۔ 5/ انسان جتنا ذکر سے غافل ہو گا، اتنا ہی اللہ سے دور ہو گا۔ 6/ امن وسلامتی اور آسانی کے ساتھ مناسک حج کی ادائیگی ایک عظیم نعمت ہے۔ 7/ نیکی کی قبولیت کی علامت۔
منتخب اقتباس:
ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے۔ اسی نے ہمیں اسلام کی راہ دکھائی ہے۔ بیت اللہ کا حج فرض کیا ہے، اسے سلامتی والی جنت کمانے، گناہ اور کوتاہیاں معاف کرانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ میں اللہ پاک کی حمد وثنا بیان کرتا ہوں اور اسی کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اسی سے مدد مانگتا ہوں اور اسی سے معافی مانگتا ہوں۔ ساری خیر اسی کی طرف منسوب کرتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہی بادشاہ ہے، انتہائی پاکیزہ اور سراسر سلامتی ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ نمازیوں، قربانی کرنے والوں، حاجیوں اور روزہ داروں میں افضل ترین ہیں۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتی ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اورآل پر، جو بڑے معروف ائمہ ہیں، تابعین پر اور جب تک دن اور رات آنے کا سلسلہ جاری ہے، ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
بعدازاں!
اے مؤمنو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ پرہیزگاری کے ذریعے ہی نعمتیں مانگی جاتی ہیں، آزمائشیں دور کی جاتی ہیں، اعمال اور دلوں کی اصلاح ہوتی ہے، گناہوں اور غلطیوں کی معافی ملتی ہے۔
اے بیت اللہ کے حاجیو!
دنوں کا گزرنا کتنا تیز ہے، گھڑیاں اور سال کتنی تیزی سے گزر رہے ہیں۔ کچھ ہی دن پہلے ہم ایک عظیم عبادت کے وقت کے منتظر تھے، ایک انتہائی اہم فریضے کا بڑے شوق سے انتظار کر رہے تھے۔ دنیا کے افضل ترین دن کے انتظار میں تھے۔ عرفات کے دن کے، عید کے دن اور ٹرو کے دن کے منتظر تھے۔ اور آج حجاج کرام اللہ کے فضل وکرم اوراس کی رحمت سے خوشی خوشی واپس لوٹ رہے ہیں۔ تو اے وہ لوگو، جنہیں اللہ تعالیٰ نے حجِ بیت اللہ کا موقع دیا ہے، جنہیں دنیا کے لوگوں سے چن کر یہ موقع نصیب فرمایا ہے۔ اے وہ خوش نصیبو، جن پر رحمٰن اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے، جنہیں عرفات میں ٹھہرنے اور مزدلفہ میں رات گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے، جنہوں نے بیت اللہ، کعبہ مشرفہ کا طواف کیا ہے، تلبیہ پڑھنے والوں کے ساتھ تلبیہ پڑھا ہے، ارحم الراحمین کی رحمت کے جھونکوں سے فائدہ اٹھایا ہے! یاد رکھو کہ آپ نے اس پروردگار کو پکارا ہے جو انتہائی کریم ہے، اس بادشاہ سے مانگا ہے جو بڑا عظیم ہے، جب وہ دیتا ہے تو بےنیاز کر دیتا ہے، جب نعمتوں کی بارش برساتا ہے تو خوب برساتا ہے۔ اس کی مغفرت کے سامنے کوئی گناہ بڑا نہیں ہے! اس کے لیے کوئی عطا زیادہ نہیں ہے۔ آپ نے کیا خوب راتیں گزاری ہیں، اور کیا ہی بہترین دن گزارے ہیں۔
(اے نبی، کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں) [یونس: 58]۔
اے امت اسلام! حج کا ایک عظیم مقصد اللہ کا ذکرعام کرنا ہے۔ ذکر واضح اور ظاہری عبادتوں میں سے ہے۔ یہ اتنا افضل ہے کہ عبادت گزاروں کے لیے اس سےبہتر کوئی عبادت نہیں ہے۔ حج کی عبادات کا مقصد اسی کو عام کرنا ہے۔ اس پرانے گھر کا طواف بھی اسی لیے ہوتا ہے، صفا اور مروہ کے درمیان سعی بھی اسی لیے ہوتی ہے، جمرات پر کنکریاں بھی اسی لیے ماری جاتی ہیں کہ اللہ کا ذکر عام ہو جائے۔
جب حجاج کرام حج کے کام مکمل کر لیتے ہیں تو پھر اللہ کا ذکر وہ آخری عمل ہوتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں: ’’جاہلیت کے دور میں لوگ حج کے موقع پر جگہ جگہ کھڑے ہو کر کہتے تھے: میرے والد مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے، قرض داروں کے قرض ادا کرتے تھے اور دیت ادا کرنے میں لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ وہ بس اپنے آباء واجداد کی بڑائی ہی بیان کرتے رہتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل فرمائی:
(پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر) [البقرۃ: 200]،
اے مومنو! اس طرح حج کے دوران اور حج کے بعد اللہ کے ذکر کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ دین اسلام کی تمام عبادت اسی لیے بنائی گئی ہیں کہ اللہ کا ذکر عام ہو جائے۔ ذکر آسان ترین عبادت بھی ہے اور افضل ترین اور بلند ترین عبادت بھی ہے۔ یہ ہر چیز سے بڑی عبادت ہے۔
(اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو) [العنکبوت: 45]
اللہ کے ذکر کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ بھی ذاکرین کو یاد رکھتا ہے، فرمان الٰہی ہے:
(لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، کفران نعمت نہ کرو) [البقرۃ: 152]
اللہ کے بندو! ذکر، جنت میں پودے لگانے کا طریقہ ہے، ذکر کرنے والوں کو ذکر کے نت نئے طریقے یوں الہام ہوتے رہتے ہیں جیسے انہیں سانس لینے کا طریقہ الہام ہوتا ہے۔ ،
(سنن ترمذی) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس رات مجھے بیت المقدس لےجایا گیا، اس رات میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے مجھے کہا: اے محمد! اپنی امت کو میرا سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ جنت کی مٹی بڑی پاکیزہ ہے، اس کا پانی بڑا میٹھا ہے، اس کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ وہاں پودا لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ ذکر کیا جائے: سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر۔ اللہ پاکیزہ ہے ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں! اللہ سب سے بڑا ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ذکر کرتے رہنے کی نصیحت بھی فرمائی۔
(سنن ترمذی) میں ہے کہ ایک شخص نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! ’’عبادت کی مختلف شکلیں میرے لیے کافی زیادہ ہو گئی ہیں، مجھے ایسی کوئی ایک چیز بتا دیجیے جس پر میں مضبوطی سے قائم ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا: ہمیشہ اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھنا‘‘،
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ کا ہاتھ پکڑا اور کہا: ’’اے معاذ! اللہ کی قسم! مجھے تم سے بڑی محبت ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے تم سے بڑی محبت ہے۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ دعا کبھی نہ چھوڑنا: اللهم أعنني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك- اے اللہ! اپنا ذکر کرنے، اپنا شکر کرنے اور بہترین طریقے سے اپنی عبادت میں میری مدد فرما!‘‘ (اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے)۔
جو کتاب وسنت کی عبارت پر غور کرتا ہے اسے ساری کی ساری خیر اللہ کے ذکر ہی میں نظر آتی ہے۔ اللہ کے ذکر سے پریشانی اور غم کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ رزق، خوشی اور مسرت حاصل ہو جاتی ہے۔ ذکر کرنے والے میں ہیبت اور خوبصورتی آ جاتی ہے۔
﴿ایسے ہی لوگ ہیں وہ، جنہوں نے (اِس نبی کی دعوت کو) مان لیا، اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے، جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے﴾ [الرعد: 28]
اسی طرح (سنن ترمذی) میں ہے کہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا میں تمہیں وہ عبادت نہ بتاؤوں جو تمہاری عبادتوں میں بہترین ہے، تمہارے بادشاہ کے نزدیک پاکیزہ ترین ہے، تمہارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرتی ہے، جو سونا اور چاندی کے صدقے سے بھی بہتر ہے، دشمن کے سامنے جا کر، ان کی گردنیں مارنے، اور شہید ہونے سے بھی بہتر ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! ضرور بتائیے۔ فرمایا: یہ عبادت اللہ کا ذکر ہے‘‘۔
قرآن کریم افضل ترین ذکر ہے۔ اس کے بعد سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، یہی وہ نیک عبادت ہے جس کا دیر پا اثر ہوتا ہے۔ جو شخص ایک دن میں سو مرتبہ سبحان الله، کہے، تو اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی طرح ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ ، (صحیح بخاری) میں ہے کہ ’’دو مختصر جملے رحمٰن کو بڑے محبوب ہیں، زبان پر بڑے ہلکے ہیں، میزان میں بہت بھاری ہیں: سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم"۔
جو شخص اللہ کے ذکر سے منہ پھیر لیتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس سے منہ پھیر لیتا ہے۔ جتنا وہ ذکر سے غافل ہو گا، اتنا ہی وہ اللہ سے بھی دور ہو گا۔ ذکر سے غفلت کرنے والا وحشت کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی وحشت ذکر الٰہی کے ذریعے ہی ختم ہو سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
(اور جو میرے ذِکر(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے (124) وہ کہے گا "پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟ (125) اللہ تعالیٰ فرمائے گا :ہاں! اِسی طرح تو ہماری آیات کو، جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تُو نے بھُلا دیا تھا اُسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے) [طٰهٰ: 124 -126]
تو اے اللہ! ہمیں شکر گزار بنا، ذکر کرنے والا بنا، رجوع کرنے والا بنا۔ عاجزی اور انکساری اپنانے والا بنا۔ اے اللہ! ہمیں ایمان کی زینت سے مزین فرما! ہمیں ہدایت کی راہ دکھانے والا اور صاحب ہدایت بنا۔
میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے!
(بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے) [الاحزاب: 35]۔
بعدازاں!
اے مؤمنو! مکمل امن وامان میں، سکون اور سلامتی کے ساتھ، آسانی اور آرام کے ساتھ حج کی عبادت مکمل ہو جانا بھی ایک عظیم نعمت ہے جس پر نعمتیں دینے والے کا شکر واجب ہے۔ شکر کا معنیٰ یہ ہے کہ پروردگار کے احکام کی پیروی کی جائے اور اس کی نافرمانی سے بچا جائے۔ یاد رکھو کہ اللہ کا عظیم ترین حکم اس پاکیزہ ناموں والے الٰہ کی توحید کا حکم ہے۔ سب سے بڑی نافرمانی شرک کا گناہ ہے۔
﴿کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے (162) جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں﴾ [الانعام: 162 -163]
صحیح حدیث میں ہے: «جو لوگوں کا شکر یہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا»
اللہ خادم حرمین کو اور ان کے ولی عہد کو اجر عظیم عطا فرمائے! مکہ مکرمہ کے گورنر اور ان کے نائب کو جزائے خیر عطا فرمائے! اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے گھر کی نگہبانی کے شرف سے نوازا ہے۔ انہیں اپنے حرم کے مہمانوں کا خادم بنایا ہے۔ اللہ ان سب لوگوں کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے اس سال حج کو کامیاب بنانے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ بالخصوص فوجی جوانوں کو۔ سرحدوں پر پہرہ دینے والوں کو۔ اللہ تعالیٰ ان سے قبول فرمائے! انہیں زیادتی کرنے والوں پر غلبہ نصیب فرمائے۔ ان کی حفاظت فرمائے! انہیں درست راستے دکھائے۔ خود انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔ اے بیت اللہ کے حاجیو! آپ کو مبارک ہو۔ حج کی عبادت پوری کرنے پر بہت مبارک ہو۔ قبولیت کے وعدے کی بھی مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کبھی نہیں توڑتا۔ اللہ کے بارے میں بھلا گمان رکھو۔ اللہ اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہے۔ اسی نے اس گھر کے ان حاجیوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ جو حج کے دوران کوئی بے حیائی کا کام یا کوئی گناہ نہیں کرے گا وہ یوں لوٹے گا گویا کہ وہ آج ہی پیدا ہوا ہو۔ تو اپنے حج کو ایک نیا آغاز بناؤ۔ اللہ کے ساتھ سچائی اپناؤ۔ جو نیکیاں کمائی ہیں، ان کی حفاظت کرو۔ کیونکہ نیکی کے مواقع غفلت اور اللہ سے دوری کو چھوڑ کر استقامت اور اس کی طرح متوجہ ہونے کا بہترین موقع ہوتے ہیں۔
نیکی کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ اس کے بعد پھر نیکی کی توفیق نصیب ہو۔ فرمان برداری کے بعد پھر فرمان برداری نصیب ہو۔ اگر حج کے بابرکت دن گزر گئے ہیں تو عبادت تو کسی وقت یا کسی جگہ پر ختم نہیں ہوتی۔ تو اے وہ لوگو! جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے خوشی والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، جنہیں اپنی رحمت کے جھونکوں سے فائدہ اٹھانا نصیب فرمایا ہے، اللہ کی فرمان برداری پر قائم ہو جاؤ، اس کے دین پر ثابت قدم ہو جاؤ۔ خوب عمدگی کے ساتھ دھاگہ کاتنے کے بعد اسے کاٹ دینے والی کی طرح نہ بنو۔ یاد رکھو کہ قبولیت کا ترازو اخلاص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔ ، جیسا کہ (صحیح مسلم) میں سیدنا سفیان ثقفی سے روایت ہے کہ
’’میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے دین اسلام کی کوئی ایسی بات بتائیے جس کے بعد مجھے کسی سے کچھ نہ پوچھنا پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: کہو: میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر ثابت قدم ہو جاؤ‘‘،
ثابت قدمی کے باوجود انسان غلطی اور کوتاہی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
(تم سیدھے اُسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو) [فصلت: 6]،
اس لیے جب بھی نیک بندے سے غلطی ہوتی ہے تو وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور معافی مانگتا ہے۔ پھر نیکی پر قائم رہنے اور اس کے قریب قریب رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ نیک اعمال چاہے کم ہی کرے، مگر مستقل مزاجی کے ساتھ کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے پروردگار کے ساتھ جا ملتا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بہترین طریقے سے نیکی کرنے کی کوشش کرو اور نیکی کے راستے سے قریب قریب رہنے کی کوشش کرو اور خوش ہو جاؤ کیونکہ کوئی شخص اپنے عمل کی بنیاد پر جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ بھی نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! میں بھی نہیں! الاّ یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم فرمائے‘‘
یاد رکھو کہ اللہ کو وہ اعمال سب سے زیادہ پسند ہیں جو مستقل مزاجی کے ساتھ کیے جائیں چاہے وہ کم ہی ہوں
اے مؤمنو! یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بابرکت حکم دیا ہے۔ جس میں اس نے پہلے اپنا ذکر کیا ہے۔ عزت والے کا فرمان ہے:
﴿اللہ اور اس کے ملائکہ نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو﴾ [الاحزاب: 56]،
اے اللہ! رحمتیں نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کی بیویوں اور آپ کی اولاد پر، جس طرح تو نے آل ابراہیم پر رحمتیں نازل فرمائی تھیں۔ اسی طرح برکتیں نازل فرما، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد پر، جس طرح تو نے آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائی تھیں۔ یقینًا! تو بڑا قابل تعریف اور پاکیزگی والا ہے۔ اے اللہ! چاروں خلفائے راشدین ؛ ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا! تمام صحابہ کرام سے، تابعین عظام سے اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے راضی ہو جا۔ اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے! اپنا فضل وکرم اور احسان فرما کر ہم سب سے بھی راضی ہو جا۔
اے اللہ! اے زندہ وجاوید! ہم تیری رحمت کی پناہ میں آتے ہیں۔ ہمارے سارے معاملات درست کر دے۔ اور لمحہ بھر کے لیے بھی ہمیں ہمارے نفس کے حوالے نہ فرما!
اے اللہ! اپنی رحمت ہر جگہ مسلمانوں کے احوال درست فرما! اے اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کے احوال درست فرما! اے اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کے احوال درست فرما!
اے اللہ! اپنے حاجیوں کے ہر خدمت گزار کو اجر عظیم عطا فرما! اپنے مہمانوں کا خیال رکھنے والوں کو جزائے خیر عطا فرما!
اے اللہ! ان کے میزان نیکیوں سے بھر دے۔ اے اللہ! ان کے میزان نیکیوں سے بھر دے۔ ان کے کاموں میں برکت ڈال دے۔
اے رحمٰن ورحیم! اے رب ذو الجلال! اپنی رحمت اور کرم نوازی سے ان کی عمروں میں، نسلوں میں، گھر والوں میں برکت عطا فرما!
اے اللہ! ہمارے گناہ معاف فرما! ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی فرما! ہمارے معاملات آسان فرما! ہماری نیک خواہشات پوری فرما!
اے اللہ! حجاج اور معتمرین کو سلامتی نصیب فرما! اے اللہ! اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے! اپنی رحمت اور کرم نوازی سے انہیں سلامتی اور اجر عظیم کے ساتھ انھیں ان کے گھر والوں تک لوٹا۔
(اے اللہ! ہم سے قبول فرما! یقینًا! تو سننے والا اور جاننے والا ہے) [البقرۃ: 127]،
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
ذکر افضل ترین اور انتہائی آسان عبادت خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) 15 ذو الحجہ، 1440ھ بمطابق 16 اگست 2019ء امام وخطیب: فضیلۃ...
ہمارے رشتے، ہماری چاہتیں، ہماری نفرتیں اس لیے دیرپا ہوتی ہیں کیونکہ ہم انہیں الفاظ میں ریکارڈ کر لیتے ہیں. الفاظ ہی کے دم سے انسان کو خدا نے دوسری مخلوق پر ممتاز بنایا ہے. کسی کو دوست کہنے کے بعد ہم اس کی جفائے وفا نما کو برداشت کرتے ہیں. الفاظ ہمارے تعلقات کو استقامت بخشتے ہیں، ہمیں ماحول سے جوڑتے ہیں، رشتے سے منسلک کر دیتے ہیں. ہم رشتوں کو اس لیے بھی قائم رکھتے ہیں کہ ہم نے ان کو رشتہ کہہ دیا ہوتا ہے. یہاں کہہ دینا ہی ضروری ہوتا ہے. کلمہ پڑھنے والا زندگی بھر مسلمان رہتا ہے. اگر اسلام کا مفہوم سمجھ میں نہ بھی آئے تو بھی مسلمان ہی رہتے ہیں. کہہ دینا ہی ضروری ہوتا ہے.
مزے کی بات تو یہ ہے کے الفاظ سے ہی قرآن پاک ہے، ان الفاظ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن میں ردوبدل نہ ہونے کی ذمہ داری خود خدا نے لے رکھی ہے. قرآن کے الفاظ قرآن کے علاوہ استعمال ہوں تو قرآن نہیں. الفاظ خدا کے ہوں تو قرآن بنتا ہے. نبی کے الفاظ حدیث بنتے ہیں. بزرگانِ دین کے الفاظ ملفوظات بنتے ہیں. داناؤں کے الفاظ اقوال بنتے ہیں. غرض یہ کہ جتنی مقدس زبان سے ادا ہوں گے اتنے ہی الفاظ مقدس ہوں گے، اتنے ہی پُراثر ہوں گے. الفاظ دنیا ہیں اور کائنات ہیں.
ہم الفاظ کی دنیا میں رہتے ہیں، الفاظ کے حصار میں بڑے ہوتے ہیں، الفاظ ہی ہمارا کردار بناتے ہیں. یہی الفاظ کانوں کے راستے دل پر اثرانداز ہوتے ہیں، اور خدا کا نظام دیکھیں اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا، لیکن اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے، کیونکہ یہی انسان کو پسندیدہ اور ناپسندیدہ بناتے ہیں. یہی ایک دوسرے کے انتہائی قریب اور دور کرنے کا بھی سبب ہوتے ہیں.
ہر سماج اور ہر گروہ کے الفاظ الگ الگ روح رکھتے ہیں. آپ کسی کے بھی الفاظ سن کر یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کس پیشے سے تعلق رکھتا ہے. بازار میں بیٹھنے والے لوگ بازاری زبان، دارالعلوم کے لوگ اور ہی زبان استعمال کرتے ہیں. علما کی زبان الگ ہے، حکما کی زبان اور ہے، استاد کی زبان اور. جاہل کی زبان اور، ڈرامے کی اور نثر کی زبان اور.
الفاظ بھی خاندان رکھتے ہیں، قصیدے کے الفاظ اور ہوتے ہیں، مرثیے کے الفاظ کچھ الگ ہیں، تنقید کے، تعریف کے کچھ اور ہیں. کسی بھی آدمی کے ذخیرہ الفاظ سے یہ معلوم کرنا آسان ہے کہ وہ آدمی کون سے علاقے کا رہنے والا ہے اور کون سے پیشے سے تعلق رکھتا ہے. الفاظ کی حرمت بولنے والے کے انداز اور لہجے کے دم سے ہے. ہم نے قوم ہونے کی حیثیت سے الفاظ کے استعمال پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے. صرف سیلاب الفاظ کا موجود ہے. لاکھوں الفاظ اخبارات میں روز چھپتے ہیں.
انسان کو انسان کے قریب لانے والے الفاظ گم ہوگئے ہیں، دلوں کو زخمی کرنے والے الفاظ عام ہیں. آج نہ جانے کیوں لوگوں کے پاس شکریہ ادا کرنے کے لیے نہ وقت ہے اور نہ ہی الفاظ. اپنی کوتاہی پر معذرت کرنے کی نہ جرات ہے اور نہ توفیق. اگر آج کسی مذہبی اور سیاسی اجتماع میں بولے جانے والے الفاظ کو غور سے سنا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم لوگ کہاں جا رہے ہیں. ہماری منزل کہاں ہے اور ہم اخلاق کے کس درجے ہر موجود ہیں.
ہمارے تلخ الفاظ معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں، ہمیں میٹھا بول زندہ کرنا چاہیے، زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کے اصول کو اپنانا چاہیے، الفاظ کا احترام ہی انسان کا احترام ہے، اہم چیز یہ ہے کے ہم الفاظ کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں.
الفاظ کے صحیح استعمال کی توفیق نعمت ہے، الفاظ سے ماحول کو خوش گوار بنانے کا کام لیا جائے تو بڑی بات ہے. خالی الفاظ نگلنے اور الفاظ اگلنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا. الفاظ سے ماحول کو روشن کیا جائے. الفاظ سے دلوں کو خوش کیا جائے. الفاظ حقیقت ہیں، الفاظ امانت ہیں، الفاظ دولت ہیں، الفاظ طاقت ہیں، انہیں ضائع نہ کیا جائے، انہیں رائیگاں نہ کیا جائے.
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
الفاظ کی دنیا تحریر: خلیق کوہستانی ہمارے رشتے، ہماری چاہتیں، ہماری نفرتیں اس لیے دیرپا ہوتی ہیں کیونکہ ہم انہیں الفاظ میں...
کفر سے ٹوٹنا اور اسلام کے لیے الگ تھلگ ایک جہان بسانا خواہ وہ چند نفوس پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو.. ملتِ شرک سے بیزاری دکھانا.. نہ صرف بتوں سے بلکہ بتوں کی عبادت کرنے والوں سے نہ صرف عداوت کرنا بلکہ اِس عداوت کو باقاعدہ ریکارڈ پر لے کر آنا اور اس کے مقابلے میں صرف اہل توحید سے اپنی وفاداری اور وابستگی کو ہی اپنی پہچان اور اپنی اجتماعیت کی بنیاد ماننا... یہی ملتِ ابراہیم ؑ ہے؛ یعنی ابراہیم ؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیم ؑ کے اس طریقے سے جو اُس ؑ نے خدا کی فرماں برداری میں ملتِ شرک کے مد مقابل اختیار کیا تھا بے رغبتی برتنے والے ’نیکوکار‘ جو خدا کو محض ایک ’مجموعۂ عقائد‘ اور ایک ’مجموعۂ اَخلاق‘ اور ایک ’مجموعۂ عبادات‘ کے ذریعہ سے ہی راضی کرلینے پر مصر ہوں، اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں۔
ابراہیم نے کہا: دیکھو یہ جن کو تم پوجتے آئے ہو، تم بھی اور تمہارے بڑے بھی.. یہ سب میرے دشمن ہوئے۔ سوائے ایک رب العالمین کے جو میرا پیدا کرنے والا ہے اور مجھے ہدایت دینے والا۔ جو مجھ کو کھلانے اور پلانے والا ہے اور جب بیمار پڑوں تو مجھ کو شفایاب کرنے والا۔ اور جو مجھ کو مارنے اور جِلانے والا ہے۔ اور جس سے میری یہ طمع وابستہ ہے کہ روزِ جزا وہ میری خطائیں بخش دے۔
جبکہ ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا تھا: میں بیزار ہوا ان تمام ہسیتوں سے جنہیں تم پوجتے ہو، سوائے اُس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا اور پھر وہی مجھے ہدایت دینے والا ہے۔ اِسی چیز کو ابراہیم ؑ اپنے پیچھے باقی رہنے والا کلمہ بناگیا، تاکہ وہ (بعد والے) اس کی طرف لوٹ آتے رہیں۔
میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو اُنہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں۔ صرف اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا ، مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا (ترجمہ جوناگڑھی)
ابراہیم ؑ نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! میں بیزار ہوا ان سب چیزوں سے جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو۔ میں اپنا رخ سونپتا ہوں اُس ہستی کو جس نے آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود دیا، ایک اُسی کا ہو کر، اور اب میں مشرکوں کا حصہ نہیں۔ یہاں؛ اُس کی قوم اُس سے الجھ پڑی۔ ابراہیم ؑ نے کہا: کیا تم مجھ سے الجھتے ہو اللہ رب العزت (کے حق) کے بارے میں؟ حالانکہ اُس نے مجھے راہِ راست دکھلا دی ہے۔۔
تمہارے لیے لائق اتباع مثال ہے ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں کی؛ جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا: ہم بیزار ہوئے تم سے اور جن ہستیوں کو تم اللہ کے ماسوا پوجتے ہو اُن سے۔ کفر کیا ہم نے تم سے۔ کھلی عداوت اور بیر ہوا ہمارے اور تمہارے درمیان جب تک کہ تم ایک اللہ پر ہی ایمان نہ لے آؤ۔
بہت کم حجاجِ کرام ہوں گے جو پورے شعور کے ساتھ خدا کے اُس ’’گھر‘‘ کا طواف کر کے آتے ہوں جس کی تعمیر کی کہانی میں ایک ’’بت خانے‘‘ کے ڈھائے جانے کا ذکر اِس گھر کی تعمیر سے پہلے آتا ہے! وہ حجاجِ کرام جو ہزاروں میل کا سفر توحید کے اُس قدیم ترین مرکز کی زیارت کے لیے اختیار کرتے ہوں اور اس میں پائی جانے والی ایک ایک یادگار (مشاعر) پر مناسک ادا کرکے آتے ہوں جو شرک کی ایک دنیا کو خیرباد کہہ دینے کے بعد معرضِ وجود میں آیا تھا.. اور جوکہ ’’تَبَرَّأتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ‘‘ ایسے کچھ کلمات کا ہی ایک زندہ اور جیتا جاگتا ترجمہ تھا۔ اور پھر اس سے تین سو میل کے فاصلے پر ایک اور مقدس شہر: جس کی تاسیس کا کوئی اور سبب بیان ہونے میں نہیں آتا سوائے توحید اور شرک کی اُس لڑائی کے جو سید البشر(صلی اللہ علیہ وسلم) کے اپنی قوم، قبیلہ، ملک اور دھرتی سے ناطہ توڑ لینے.. اور اُس کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر ایک پردیس کو ہی اپنا دیس قرار دے لینے.. نیز اِسی ’’پردیس‘‘ کو اپنے ملکی وقومی رشتہ داروں کے خلاف جہاد کا بیس کیمپ بنا لینے کا موجب ہوئی تھی...؛ وہ زائرین جو اِس شہر سے جس کو ’یثرب‘ کہنا متروک ہوچکا، ’’مدینہ‘‘ اور ’’تمدن‘‘ اور ’’اجتماع و عمران‘‘ کے کچھ برگزیدہ آسمانی مفہومات لے کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہوں!
****
آج ہمارے ہاتھ سے ہماری اُس قیمتی ترین متاع کو جو ’’تَبَرَّأتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ ‘‘ کے الفاظ میں بیان ہوتی ہے اور رہتی دنیا تک کے لیے ہمیں انبیاء کے کیمپ کا بلاشرکتِ غیرے وارث اور امین بناتی اور ہمیں معیتِ خدواندی کا استحقاق دیتی اور نصرتِ خداوندی کا امیدوار ٹھہراتی ہے، ہمارے ہاتھ سے چھین لے جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا چکا ہے۔ اِس ہدف کو مختصرترین وقت میں حاصل کرنے کے لیے ناقابل اندازہ وسائل جھونک دیے گئے ہیں۔ ’تعلیم‘، ’ابلاغ‘، ’ذہن سازی‘ اور ’تہذیبی روّیوں کی تشکیلِ نو‘ کے نام پر آج ہمارے گھر میں ہزاروں چور گھس آئے ہیں۔ آپ ہی سوچئے، اِس گھر کے پاسبان ہمارے اہل علم و دانش کے سوا کون ہو سکتے تھے جو قرآنی ہتھیاروں سے کام لے کر ہمارے گھر میں ہونے والی اِس ابلیسی واردات کے آڑے آتے؟ کسے معلوم نہیں، ہمارے یہ پاسبان اگر جاگ رہے ہوتے تو چور یہاں پر کامیابیوں کے جھنڈے نہ گاڑتے۔ ہمارے حاملینِ قرآن چاہے کچھ نہ کرتے اپنی پرہیبت آواز سے ماحول کو صرف خبردار رکھتے تو چوروں کو یہاں ایک حیران کن مزاحمت ملتی۔ یہ بیدار ہوتے تو امت بیدار ہوتی اور تب ہر چوک اور چوراہے پر یہاں چوروں کی شامت آئی ہوتی۔ اِس عظیم الشان امت کو کمی ہے کس چیز کی، سوائے ’’جاگتے رہو‘‘ کی گونج دار آوازوں کے؟! حق تو یہ ہے کہ خود چور ہی جوکہ حد سے بڑھ کر سمجھدار ہیں اور ’شماریات‘ میں طاق، اِس گھر کا رخ نہ کرتے اگر اُن کی اپنی ’تحقیقات‘ نے اُن پر واضح نہ کر دیا ہوتا کہ اِس گھر کے محافظ خوابِ خرگوش میں مست ہیں؛ ایک ایسا نایاب و ناقابل یقین موقع جو اِس بابرکت گھر میں نقب زنوں کو شاید ہی کبھی نصیب ہوا ہو!
اقتباس از ’’رسالہ رد شرک‘‘ (یکے از مطبوعات ایقاظ)
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
ملت ابراہیم مصنف: حامد کمال الدین کفر سے ٹوٹنا اور اسلام کے لیے الگ تھلگ ایک جہان بسانا خواہ وہ چند نفوس پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو.. ...
ميری پيدائش شہر جموں توی ضلع جموں رياست جموں کشمير ميں ہوئی ۔ اس لئے مجھے جموں کشمير کی ہر چيز ميں دلچسپی تھی اور ہے ۔ ميں نے نہ صرف جموں کشمير کی تاريخ اور جغرافيہ کا مطالع کيا بلکہ اس سے متعلقہ تمام واقعات پر بچپن ہی سے نظر رکھتا رہا ۔ ان مندرجات کے ماخذ موجود تاریخی و دیگر دستاویزات کے علاوہ پچھلے 55 سال میں اکٹھی کی ہوئی میری ذاتی معلومات ہیں
تُمہيد
نہ میرے جذبات کے اظہار کے لئے مجھے مناسب الفاظ ملتے ہیں اور نہ میری انگلیاں دماغ سے اُمڈتے ہوئے سیلاب کا ساتھ دیتی ہیں پھر ایک اور سوچ کہ کہاں سے شروع کروں کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں کیونکہ جموں کشمیر کا مسئلہ لاکھوں انسانوں کی پونے دو سو سالہ جدّ و جہد اور اٹھاون سالوں پر محیط وحشیانہ اذیّتوں کی روئیداد ہے اور اس مسئلہ کو پچھلی آدھی صدی میں گُما پھِرا کر ایسا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ عام آدمی تو ایک طرف خود جموں کشمیر کے رہنے والوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے ۔ پچھلے دنوں حریّت کانفرنس کے چند ارکان کے دورہءِ پاکستان کی بہت دھوم تھی ۔ چنانچہ سوچا کہ اِسی سے آغاز کیا جائے ۔ پھر جہاں میرا اللہ لے جائے ۔ یہ تحریر اٹھاون سال پر محیط میرے ذاتی مشاہدہ متعلقہ اشخاص سے حاصل کردہ معلومات اور میر ے سالہا سال کے مطالعہ کا نچوڑ ہے ۔ مضمون کی طوالت کے مدِ نظر کافی اختصار سے کام ليا ہے ۔
اپنے ہم وطنوں کا حال یہ ہے کہ تاریخ تو کیا ہمیں کل کی بات بھی یاد نہیں رہتی ۔ ہم بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں حالانکہ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم کا فرمان ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا ۔ ہماری کسی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کی تحقیقاتی کمیٹی بنا دیتی جو سچے واقعات کی تاریخ مرتب کر دیتے ۔ اس لئے جموں کشمیر کی جدوجہد آزادی کے واقعات لکھنے سے پہلے تھوڑا سا تاریخی حوالہ ضروری ہے ۔ ضیاءالحق کے زمانہ میں تھوڑا سا کام ہوا تھا کہ 26 موٹی جلدوں پر محیط دائرہ معارف اسلامیہ یعنی اردو انسائیکلوپیڈیا آف اسلام لکھی گئی اور کتاب الفقہ اور قرآن شریف کی کچھ تفاسیر کے عربی سے اردو میں تراجم ہوئے ۔
پرانی کہانیوں کے مطابق جموں کشمیر اشوک موریہ کے زیر انتظام بھی رہا ۔ اشوک موریہ کا دور حکومت 273 قبل مسیح سے 232 قبل مسیح تک تھا ۔ اس کے بعد 2 قبل مسیح تک 234 سال کا کچھ پتا نہیں پھر کشان 2 قبل مسیح سے 7ء تک حکمران رہا ۔ اس کے بعد کرکوٹا کا عہد آیا ۔ انہیں 855ء میں اوتپلاس نے نکال دیا ۔ ان کے بعد تنترین ۔ یسکارا اور گپتا 1003ء تک ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہے ۔ پھر لوہارا 1346ء تک جموں کشمیر میں رہے ۔ یہ صحیح طرح معلوم نہیں کہ ان سب کے زیر اثر کتنا علاقہ تھا ۔
شمس الدین التمش (1167ء تا 1235ء) نے جموں کشمیر کو فتح کیا اور یہاں مسلم ریاست کی بنیاد رکھی ۔ اس سلطنت میں گلگت ۔ بلتستان اور لدّاخ بھی شامل تھے ۔ 1586ء میں شہنشاہ مغلیہ جلال الدین اکبر نے جموں کشمیر کو سلطنت مغلیہ میں شامل کر لیا ۔ اس وقت جموں کشمیر کے 80 فیصد کے لگ بھگ لوگ مسلمان تھے ۔ سال 1757ء میں احمد شاہ درّانی نے جموں کشمیر کو فتح کر کے افغانستان میں شامل کر لیا ۔ مگر مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے جموں کشمیر میں آہستہ آہستہ انتظامی ڈھانچہ کمزور پڑ گیا چنانچہ پونے 500 سال مسلمانوں کی حکومت رہنے کے بعد 1819ء میں رنجیت سنگھ نے جموں کشمیر کو فتح کر کے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا
جموں کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک آزادی
حکومت بنانے کے بعد سکھ حکمرانوں نے مسلمانوں پر ناجائز ٹیکس لگائے جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر میں آزادی کی پہلی تحریک نے جنم لیا ۔ یہ تحریک 1832ء میں شروع ہوئی اور سکھ حکومت کے جبر و استبداد کے باوجود 1846ء تک جاری رہی جب انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر ان کی سلطنت پر قبضہ کر لیا ۔ انگریزوں نے باقی علاقہ تو اپنے پاس رکھا مگر جموں کشمیر کو 75 لاکھ یعنی ساڑھے 7 ملین نانک شاہی سکوں کے عوض اپنے خاص خیرخواہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ بیچ دیا اور اسے جموں کشمیر کا خودمختار مہاراجہ بھی تسلیم کر لیا ۔ اس فیصلہ کے خلاف مسلمانوں نے آزادی کی دوسری تحریک شروع کی جس کو کُچلنے کے لئے گلاب سنگھ نے انگریزوں سے مدد مانگی اور اس تحریک کو سختی سے دبا دیا گیا ۔۔ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ علامہ اقبال نے پہلا یومِ کشمیر 14 اگست 1931ء کو منایا تھا
لدّاخ نہ تو سکھوں کی حکومت میں شامل تھا اور نہ انگریزوں نے اس پر قبضہ کیا ۔ گلاب سنگھ نے لشکر کشی کر کے اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ۔ 1857 میں گلاب سنگھ کے مرنے کے بعد رنبیرسنگھ نے 1885 تک حکومت کی ۔ اس کے بعد پرتاب سنگھ 1925 تک حکمران رہا ۔ پھر ہری سنگھ حکمران بنا ۔ علمی طور پر ہری سنگھ اکتوبر 1947ء تک حکمران تھا ۔ اس کے بعد وہ کہاں تھا صحیح طرح معلوم نہیں ۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ ہند و پاکستان سے باہر کسی ملک میں رُوپوش ہو گیا تھا اور 1961ء تک جموں کشمیر کی حکومت صرف اُس کے نام سے چلتی رہی اور پھر اُس کے بیٹے کرن سنگھ کو حکمران بنایا گیا جو بائے نام 1971ء تک حکمران رہا
۔ جموں توی اور سرینگر میں میرا بچپن
ہماری رہائش جموں کشمیر کے سردیوں کے صدرمقام جموں توی کے سب سے بڑے محلہ میں تھی جس کے رہائشی سب مسلمان تھے ۔ اس محلہ کے دو اطراف دریائے توی اور ایک طرف نہر تھی ۔ ان دونوں کا فاصلہ ہمارے گھر سے ایک اور دو کلومیٹر کے درمیان تھا ۔ جموں شہر کے ڈھائی اطراف دریائے توی بہتا تھا اور ایک طرف دریائے چناب سے نکالی ہوئی نہر ۔ ایک جگہ نہر کے اُوپر پل بنا کر دریائے توی کو نہر کے اوپر سے گذارا گیا تھا ۔ نہر کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا اس لئے ہم سردیوں میں توی پر اور گرمیوں میں نہر پر جاتے تھے ۔ گرمیوں میں بھی ہم دس منٹ سے زیادہ نہر میں رہیں تو دانت بجنے لگتے تھے ۔ توی کا پانی اتنا صاف و شفاف تھا کہ دریا کی تہہ میں لیٹی ہوئی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی نظر آتی تھیں ۔ نہر کے پانی میں ریت ہوتی تھی ۔اگر پانی برتن میں نکال کر رکھ دیں تو ریت بیٹھنے کے بعد پانی شفاف ہو جاتا تھا ۔ جموں میں بارشیں بہت ہوتیں تھیں مگر برف دہائیوں نہیں پڑتی تھی ۔ پہاڑ کی ڈھلوان پر واقع ہونے کی وجہ سے بارش کے بعد سڑکیں اور گلیاں صاف شفاف ہو جاتی تھیں ۔گرمیوں کا صدرمقام سرینگر تھا وہاں چھ ماہ برف جمی رہتی تھی ۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہم سرینگر میں گذارتے اور اردگرد کے برف پوش پہاڑوں کی سیر بھی کرتے ۔ سرینگر میں ہم ہاؤس بوٹ میں رہتے تھے جس میں دو بیڈ رومز مُلحق غُسلخانے اور ایک بڑا سا ڈائیننگ کم ڈرائینگ روم ہوتا تھا ۔ اس کے ساتھ ایک کُک بوٹ ہوتی تھی جس میں باورچی خانہ کے علاوہ ملازمین کے لئے دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ۔ لوگ چھوٹی کشتیوں میں پھول ۔ پھل ۔ سبزیاں اور مچھلی بیچنے آتے تھے ۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں وہ ساتھ نہیں لاتے تھے بلکہ مانگنے پر اُسی وقت جال پھینک کر پکڑ دیتے ۔ چاندنی راتوں میں شکارے میں دریا کی سیر کرتے بہت مزہ آتا ۔ شکارہ ایک چھوٹی سی مگر خوبصورتی سے سجی ہوئی کشتی ہوتی ہے جس میں بیٹھنے کی جگہ کے اردگرد مہین رنگدار کپڑے کے پردے لٹکے ہوتے ہیں ۔
۔ ہندوؤں کی آمد اور برہمنوں کا رویّہ
ریاست میں باقی ہندوستان کے لوگوں کو مستقل رہائش کی اجازت نہ تھی مگر ریاست کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوؤں کو یہ اجازت دے دی جس کے بعد جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں ہندوستان سے آ کر کافی ہندو (زیادہ تر برہمن) آباد ہو گئے ۔ باوجود مسلمان غالب اکثریت میں ہونے کے ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا جو مندرجہ ذیل میرے آنکھوں دیکھے واقعات سے پتہ چلتا ہے ۔
ایک دفعہ ہم کھیل کر واپس آ رہے تھے ۔ راستہ میں ایک ہندو لڑکے نے ایک ہندو دکاندار سے پانی مانگا تو اس نے پانی کا گلاس دیا اور اس نے پی لیا ۔ پھر ایک مسلمان لڑکے نے پانی مانگا تو اس نے کہا چلّو کرو اور گلاس کے ساتھ ڈیڑھ فٹ اونچائی سے پانی لڑکے کے چلّو میں پھینکنا شروع کیا جس سے لڑکے کے کپڑے بھیگ گئے اور وہ ٹھیک طرح پانی پی بھی نہ سکا ۔ مجھے گھر والوں کی طرف سے گھر کے باہر کچھ نہ کھانے پینے کی ہدائت شائد اسی وجہ سے تھی ۔
ایک دن ایک برہمن فٹ پاتھ پر جا رہا تھا کہ وہاں کھڑی ایک گائے نے پیشاب کیا جو برہمن کے کپڑوں پر پڑا تو برہمن بولا ”پاپ چڑی گئے پاپ چڑی گئے“ یعنی گناہ جھڑ گئے ۔ کچھ دن بعد وہی برہمن گذر رہا تھا کہ ایک مسلمان لڑکا بھاگتے ہوئے اس سے ٹکرا گیا تو برہمن چیخا ”کپڑے بڑھشٹ کری گیا“ مطلب کہ کپڑے پلید کر گیا ہے اور اس لڑکے کو کوسنے لگا ۔
جموں میں تعلیم اور سیاست
مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی غالب اکثریت اسلامیہ سکول یا سرکاری سکولوں میں پڑھتی تھی ۔ تعلیمی معیار سب سکولوں میں بہت عمدہ تھا ۔ ہمارا سکول باقی سکولوں سے بھی بہتر تھا مگر اس میں مخلوط تعلیم تھی اسلئے مسلمان طلباء بالخصوص طالبات کی تعداد کم تھی ۔ ہماری جماعت میں لڑکوں میں ایک سکھ ۔ 6 مسلمان اور 7 ہندو تھے اور لڑکیوں میں مسلمان ۔ سکھ اور عیسائی ایک ایک اور 3 ہندو تھیں ۔ جب مارچ 1947ء میں پاکستان بننے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلے دن آدھی چھٹی کے وقت میرا ہم جماعت رنبیر جو مجھ سے 3 سال بڑا تھا نے قائداعظم کو گالی دی ۔ میرے منع کرنے پر اُس نے جیب سے ایک چھوٹا سا چاقو نکالا اور اُسے میرے پیچھے شانوں کے درمیان رکھ کر زور سے دبانے لگا ۔ اچانک نویں جماعت کے 3 مسلمان لڑ کے آ گئے اور وہ چلا گیا ۔ وہاں سے میرا کوٹ پھٹ گیا ۔ 2 دن بعد ہمارے اختیاری مضمون کے اُستاذ نہیں آئے تھے اور ہم سب کمرے میں بیٹھے تھے کہ رنبیر کے ایک دوست کیرتی کمار نے مسلمانوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ میرے منع کرنے پر کیرتی کمار نے کہا ”ہم تم مُسلوں کو ختم کر دیں گے“ اور مجھ پر پَل پڑا ۔ ہم گُتھم گُتھا ہو گئے ۔ کیرتی کی ناک میرے سر سے ٹکرائی اور خون بہنے لگا جو میرے پچھلی طرف میری قمیض پر گرا ۔ خون دیکھ کے تمام لڑکیوں نے چیخنا شروع کر دیا اور لڑکوں نے ہمیں علیحدہ کر دیا ۔ شور سُن کر ٹیچر انچارج آ گئیں ۔ پرنسپل صاحب گو ہندو تھے مگر برہمن نہیں تھے ۔ اُنہوں نے تفتیش کے بعد کیرتی کمار کو جرمانہ کیا اور رمبیر کو سکول سے نکال دیا
جموں شہر میں تعلیم سو فیصد تھی اس لئے جموں شہر سیاست کا گڑھ تھا ۔ 1947ء کی ابتداء سے ہی جموں کے مسلمانوں کے جلسے جلوس آئے دن کا معمول بن گیا تھا ۔ ایک دفعہ جلوس میں کم از کم آٹھ سال تک کے بچوں کو بھی شامل کیا گیا تو میں بھی جلوس میں شامل ہوا ۔ تمام بچوں کے ہاتھوں میں مسلم لیگ کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے تھے ۔ ان جلوسوں میں یہ نعرے لگائے جاتے ۔” لے کے رہیں گے پاکستان” ۔ “بَن کے رہے گا پاکستان” ۔ “پاکستان کا مطلب کیا لَا اِلَہَ اِلّاللہ” ۔ “تم کیا چاہتے ہو ؟ پاکستان” مسلمانوں کو یقین تھا کہ ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو گا کیونکہ ایک تو وہاں مسلمان کافی غالب اکثریت میں تھے دوسرے جموں کشمیر کی سرحدوں کے ساتھ سب اضلاع مسلم اکثریت کے علاقے تھے ۔ چنانچہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ میری خواہش پر میرے دادا جان نے پاکستان کا ایک بہت بڑا جھنڈا ہمارے دومنزلہ مکان کی چھت پر 26 فٹ لمبے پائپ پر لگایا
انگریزوں کی عیّاری
انگریز حکمرانوں نے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان 14 اگست 1947ء سے کچھ دن بعد کیا اور نہائت عیّاری سے گورداسپور جو کہ مسلم اکثریت والا ضلع تھا کو بھارت میں شامل کر دیا جس کے نتیجہ میں ایک تو گورداسپور میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور دوسرے بھارت کو جموں کشمیر جانے کے لئے راستہ مہیا کر ہو گیا ۔
ڈوگرہ حکومت کی مکّاری اور ہندوؤں کی مار دھاڑ
ستمبر کے شروع میں ہی ڈوگرہ پولیس نے صوبہ جموں کے مسلمانوں کے گھروں کی تلاشی لے کر ہر قسم کا اسلحہ بشمول کلہاڑیاں ۔ چار انچ سے لمبے پھل والے چاقو چھُریاں سب برآمد کر لئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ہندو اکثریت والے دیہات میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا اور ان کے مکانوں اور فصلوں کو نظر آتش کیا جانے لگا ۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ ہندو کہتے ہیں مُسلے عید پر جانور قربان کرتے ہیں اس عید پر ہم مُسلے قربان کریں گے۔ پاکستان اور بھارت میں عید الاضحٰے اتوار 26 اکتوبر 1947ء کو تھی ۔
جموں میں کرفیو لگا دیا گیا ۔ اس کرفیو میں ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح دستے بغیر روک ٹوک پھرتے تھے مگر مسلمانوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی ۔ ہمارے گھر کے قریب ہندوؤں کے محلہ میں دو اونچی عمارتوں پر بھارتی فوج نے مشین گنیں نصب کر لیں ۔ آنے والی رات کو دونوں عمارتوں کی چھتوں سے ہمارے گھر کی سمت میں متواتر فائرنگ شروع ہو گئی اس کے جواب میں مسلمانوں کے پاس سوائے نعرہءِ تکبیر اللہ اکبر کے کچھ نہ تھا کیونکہ ان کے ہتھیار پہلے ہی نکلوا لئے گئے تھے ۔ ہمارا گھر نشانہ بننے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس پر پاکستان کا بہت بڑا جھنڈا بہت اُونچا لگا ہوا تھا اور دوسری یہ کہ میرے دادا جان مسلم کانفرنس کی مالی امداد کرتے تھے اور ہمارا خاندان اُس کی سیاسی حمائت ۔
اگلی صبح دس سال سے ہمارا کرائے دار برہمن جس پر میرے دادا جان کے کئی احسان بھی تھے بعد دوپہر ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا میں نے سوچا کہ کرفیو کی وجہ سے آپ کی زمینوں سے دودھ نہیں آیا ہوگا اسلئے میں اپنی گاؤ ماتا کا دودھ بچوں کے لئے لے آیا ہوں ۔ دودھ اُبال کر ہمیں پینے کو کہا گیا مگر اُس وقت کسی کا کچھ کھانے پینے کو دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ دوسرے دن صبح چائے بنانے لگے تو دیکھا کہ دودھ خراب ہو گیا تھا اسلئے باہر نالی میں پھینک دیا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد باہر سے عجیب سی آواز آئی ۔ جا کر دیکھا تو ایک بلی تڑپ رہی تھی اور تڑپتے تڑپتے وہ مر گئی ۔ دراصل وہ برہمن ہمدرد بن کر ہم سب کو زہر والا دودھ پلا کر مارنے آیا تھا ۔
مارے ہمسایہ عبدالمجید ریاست کی فوج میں کرنل تھے اور اُن دنوں اُن کی تعیناتی برفانی علاقہ گلگت بلتستان میں تھی ۔ شروع اکتوبر 1947ء میں پتہ چلا کہ ان کے بیوی بچے ستواری (جموں چھاؤنی) جا رہے ہیں ۔ ہمارے بزرگوں کے کہنے پر وہ لوگ ہم 6 بچوں کو ساتھ لے جانے کو تیار ہو گئے ۔ اگلی رات ایک اور دو بجے کے درمیان ایک فوجی ٹرک پر میں ۔ میری دونوں بڑی بہنیں (16 سال اور 12 سال) ۔ سيکنڈ کزن لڑکا (14 سال) اُس کی بہن (17 سال) اور ايک اُن کی پھوپھی (16 سال کی) اُن کے ساتھ چلے گئے ۔ جو کچھ گھر ميں موجود تھا اُس ميں سے کچھ آٹا چاول ۔ دالیں ۔ ایک لٹر تیل زیتون اور کچھ پیسے ہمیں دے دیئے گئے
چھاؤنی میں بعض اوقات رات کو “جے ہند” اور” ست سری اکال” کے نعروں کی آوازیں آتیں جو کہ کبھی بہت قریب سے ہوتیں ۔ پتہ چلا کہ مسلح ہندو اور سکھ پچاس یا زیادہ کے جتھوں میں مسلمانوں پر حملے کرنے کے لئے کبھی وہاں سے بھی گذرتے ہیں ۔ حفاظت کا معقول انتظام نہ ہونے کے باعث ہم ہر وقت موت کے لئے تیار رہتے
کھانا پکانے کے لئے میں اپنے سيکنڈ کزن کے ساتھ باہر سے سوکھی تھوہر توڑ کے لاتا تھا جس سے میری ہتھیلیاں کانٹوں سے چھلنی ہوگئیں تھیں ۔ جب تک ہم واپس نہ آتے ہماری بہنیں ہماری خیریت سے واپسی کی دعائیں مانگتی رہتیں ۔ ايک دن تو ہم واپس آئے تو ہماری بہنوں سميت سب خواتين کو نماز جيسی حالت ميں ديکھا ۔ وجہ ہميں کسی نے نہ بتائی ۔ دروازہ ميری سيکنڈ کزن نے کھولا جو ہم چھ ميں سے سب سے بڑی (17 سال کی) تھيں ۔ مجھے پيار کيا پھر ميرے دونوں ہاتھوں کی ہتھليوں کو چوما اور چند لمحے ديکھتی ہی رہ گئيں ۔ ميں نے ديکھا اُن کی آنگھيں سے برسات جاری تھی ۔ اچانک اُنہوں نے منہ پھر کر آنسو پونچھے اور پھر اپنے بھائی کو گلے لگايا ۔ اسی لمحے کرنل عبدالمجيد صاحب کی بيوی آئيں اور ميرے اور پھر ميرے سيکنڈ لزن کے سر پر ہاتھ پھير کر دعائيں ديں ۔ سب خواتیں نفل پڑھ کر ہماری خیریت سے واپسی کی دعا کر رہی تھیں
ہمارے پاس کھانے کا سامان تھوڑا تھا اور مزید لانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اس لئے ہم تھوڑا ہی کھاتے ۔ جب زیتون کا تیل ختم ہو گیا تو اُبلے ہوئے پھیکے چاولوں پر بغیر پیاز لہسن نمک مرچ مصالحہ صرف اُبلی ہوئی دال ڈال کر کھا لیتے
ہمارے ساتھ اس کوٹھی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹا میں 10 سال کا ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئے 6 نومبر 1947ء کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون اور خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھینٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ خاتون خانہ نے خواتین اور لڑکیوں کو اندر بھیج دیا پھر ایک ڈنڈا اُنہوں نے اٹھایا اور ہم نے اُن کی تقلید کی ۔ دوبارہ زور سے دستک ہوئی ۔ خاتون خانہ نے مجھے کُنڈی کھولنے کا اشارہ کیا ۔ جونہی میں نے کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا اور سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ سب ششدر رہ گئے ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمارے عزیز و اقارب سب مار دیئے گئے ہیں سو سب زار و قطار رونے لگ گئے ۔ پھر اُسے اٹھا کر اندر لے گئے ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا ۔
مسلمانوں کو پاکستان پہنچانے کے بہانے قتلِ عام
ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔
نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947ء کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947ء کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔
بسوں کا پہلا قافلہ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ بسیں خون سے لت پت تھیں ان کے اندر بھی لاشیں تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی خون آلود لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا ۔ ہم دو دن رات روتے رہے اور کچھ نہ کھایا پیا ۔ آخر تیسرے دن خاتون خانہ نے خالی چاول اُبالے ۔ ہم سب بچوں کو پیار کیا اور تھوڑے تھوڑے چاول کھانے کو دیئے ۔
ہماری روانگی اور پاکستان آمد
کرنل عبدامجید کے بھائی جموں میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے ۔ نومبر 1947ء کے وسط میں وہ چھاؤنی آئے اور بتایا کہ” شیخ محمد عبداللہ کو وزیراعظم بنا دیا گیا ہے اور اُمید ہے کہ امن ہو جائے گا ۔ جموں کے تمام مسلمانوں کے مکان لوٹے جاچکے ہیں اور تمام علاقہ ویران پڑا ہے” ۔ واپس جا کر انہوں نے کچھ دالیں چاول اور آٹا وغیرہ بھی بھجوا دیا ۔ چار ہفتہ بعد ایک جیپ آئی اور ہمارے خاندان کے 6 بچوں یعنی میں ۔ میری 2 بہنیں ۔ 2 کزنز اور پھوپھی کو جموں شہر میں کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کے گھر لے گئی ۔ وہاں قیام کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ 6 نومبر کو مسلمانوں کے قافلے کے قتل عام کے بعد خون سے بھری ہوئی بسیں چھاؤنی کے قریب والی نہر میں دھوئی گئی تھیں ۔ اسی وجہ سے ہم نے نہر میں خون اور خون کے لوتھڑے دیکھے تھے ۔ مسلمانوں کے قتل کا منصوبہ انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا اور نیشنل کانفرنس کے مسلمانوں کے عِلم میں بھی وقوعہ کے بعد آیا ۔ وہاں کچھ دن قیام کے بعد ہمیں دوسرے لاوارث اور زخمی عورتوں اور بچوں کے ساتھ مدراسی فوجیوں کی حفاظت میں 18دسمبر 1947ء کو سیالکوٹ پاکستان بھیج دیا گیا ۔
میں لکھ چکا ہوں کہ میرے والدین فلسطین میں تھے اور ہم دادا ۔ دادی اور پھوپھی کے پاس تھے ۔ میرے دادا ۔ دادی اور پھوپھی بھِیڑ بھاڑ سے گبھرانے والے لوگ تھے اِس لئے انہوں نے پہلے 2 دن کے قافلوں میں روانہ ہونے کی کوشش نہ کی ۔ جو عزیز و اقارب پہلے 2 دن کے قافلوں میں روانہ ہوئے ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا ۔ ہمارے بغیر 9 ہفتوں میں ہمارے بزرگوں کی جو ذہنی کیفیت ہوئی اُس کا اندازہ اِس سے لگائیے کہ جب ہماری بس سیالکوٹ چھاؤنی آ کر کھڑی ہوئی تو میری بہنوں اور اپنے بچوں کے نام لے کر میری چچی میری بہن سے پوچھتی ہیں “بیٹی تم نے ان کو تو نہیں دیکھا” ۔ میری بہن نے کہا “چچی جان میں ہی ہوں آپ کی بھتیجی اور باقی سب بھی میرے ساتھ ہیں”۔ لیکن چچی نے پھر وہی سوال دہرایا ۔ ہم جلدی سے بس سے اتر کر چچی اور پھوپھی سے لپٹ گئے ۔ پہلے تو وہ دونوں حیران ہوکر بولیں ” آپ لوگ کون ہیں ؟ ” پھر ایک ایک کا سر پکڑ کر کچھ دیر چہرے دیکھنے کے بعد اُن کی آنکھوں سے آبشاریں پھوٹ پڑیں ۔
پاکستان پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے دادا کا جوان بھتیجا جموں میں گھر کی چھت پر بھارتی فوجی کی گولی سے شہید ہوا ۔ باقی عزیز و اقارب 6 نومبر کے قافلہ میں گئے تھے اور آج تک اُن کی کوئی خبر نہیں ۔ جب ہمارے بزرگ ابھی پولیس لائینز جموں میں تھے تو چند مسلمان جو 6 نومبر کے قافلہ میں گئے تھے وہ چھپتے چھپاتے کسی طرح 7 نومبر کو فجر کے وقت پولیس لائینز پہنچے اور قتل عام کا حال بتایا ۔ یہ خبر جلد ہی سب تک پہنچ گئی اور ہزاروں لوگ جو بسوں میں سوار ہو چکے تھے نیچے اتر آئے ۔ وہاں مسلم کانفرنس کے ایک لیڈر کیپٹن ریٹائرڈ نصیرالدین موجود تھے انہوں نے وہاں کھڑے سرکاری اہلکاروں کو مخاطب کر کے بلند آواز میں کہا “پولیس لائینز کی چھت پر مشین گنیں فِٹ ہیں اور آپ کے فوجی بھی مستعد کھڑے ہیں انہیں حُکم دیں کہ فائر کھول دیں اور ہم سب کو یہیں پر ہلاک کر دیں ہمیں بسوں میں بٹھا کے جنگلوں میں لے جا کر قتل کرنے سے بہتر ہے کہ ہمیں یہیں قتل کر دیا جائے اس طرح آپ کو زحمت بھی نہیں ہو گی اور آپ کا پٹرول بھی بچےگا ” ۔ چنانچہ 7 اور 8 نومبر کو کوئی قافلہ نہ گیا ۔ اسی دوران شیخ عبداللہ جو نیشنل کانفرنس کا صدر تھا کو جیل سے نکال کر وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ اس نے نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کو شہروں سے ہٹا کر ان کی جگہ مدراسی فوجیوں کو لگایا جو مسلمان کے قتل کو ہم وطن کا قتل سمجھتے تھے ۔ میرے دادا ۔ دادی ۔ پھوپھی اور خاندان کے باقی بچے ہوئے تین لوگ 9 نومبر 1947ء کے قافلہ میں سیالکوٹ چھاؤنی کے پاس پاکستان کی سرحد تک پہنچے ۔ بسوں سے اتر کر پیدل سرحد پار کی اور ضروری کاروائی کے بعد وہ وہاں سے سیالکوٹ شہر چلے گئے ۔
جموں کشمیر کے جوانوں نے ہتھیار کیوں اٹھائے
جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے تیسری سیاسی تحریک جو 1931 عیسوی میں شروع ہوئی تھی وہ آج تک مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری ہے ۔ دوسری مسلح جدوجہد 1989 عیسوی میں شروع ہوئی وہ پاکستان کی حکومت کی مدد کے بغیر آج تک جاری ہے ۔ اس دوسری مسلح تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کے ایماء پر شروع کی گئی ۔ حقیقت کچھ اس طرح ہے ۔
ایک طرف بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور دوسری طرف سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی ۔ بےنظیر بھٹو نے 1988 عیسوی میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے پردھان منتری راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی ۔ دسمبر 1988 عیسوی میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورہ سے پہلے جہاں کہیں “کشمیر بنے گا پاکستان” یا ویسے ہی جموں کشمیر کا نام لکھا تھا وہ مِٹوا دیا یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار دیا گیا جس پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا ۔ اُسی زمانہ میں خیر سگالی کرتے ہوئے کسی نے اُن راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی جن سے جموں کشمیر کے لوگ سرحد کے آر پار جاتے تھے ۔ مقبوضہ علاقہ کے ظُلم کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لئے رضاکار آزاد جموں کشمیر سے کپڑے ۔ جوتے ۔ کمبل وغیرہ لے کر انہی راستوں سے جاتے تھے ۔ بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ اس طرح جموں کشمیر کے کئی سو رضاکار مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی ۔
بوڑھے جوانوں کو ٹھنڈا رکھتے تھے ۔ جب بوڑھوں کے پاس جوانوں کو دلاسہ دینے کے لئے کچھ نہ رہا تو جوانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی ٹھانی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ بھارتی فوجیوں نے ایک گاؤں کو محاصرہ میں لے کر مردوں پر تشدّد کیا اور کچھ خواتین کی بے حُرمتی کی ۔ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا تھا مگر اس دفعہ ایک تو نوجوان بدلہ لینے کا فیصلہ کر چکے تھے اور دوسرے بھارتی فوجی اتنے دلیر ہو چکے تھے کہ انہوں نے خواتین کی بےحرمتی ان کےگاؤں والوں کے سامنے کی ۔ اس گاؤں کے جوانوں نے اگلے ہی روز بھارتی فوج کی ایک کانوائے پر اچانک حملہ کیا ۔ بھارتی فوجی کسی حملے کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لئے مسلمان نوجوانوں کا یہ حملہ کامیاب رہا اور کافی اسلحہ ان کے ہاتھ آیا ۔ پھر دوسرے دیہات میں بھی جوابی کاروائیاں شروع ہو گئیں اور ہوتے ہوتے آزادی کی یہ مسلحہ تحریک پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں پھیل گئی ۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کرِيو مَنز جِرگاز جائے چمنو سِتم شعار سے تُجھ کو چھُڑائیں گے اِک دن میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اِک دن محترم افتخار اجمل...