تم مِرے درد بھی، غم بھی ، مِرے آلام بھی تم
تم مِرا چین ہو جاناں، مِرا آرام بھی تم

کامیابی کو نہیں ہم نے تمہیں چاہا ہے
ہم تمہارے ہیں بھلے ہو گئے ناکام بھی تم

میں مسیحا ہوں اگر، میرا وظیفہ تم ہو
میں ہو مجرم تو مِری جاں مِرا الزام بھی تم

مختلف حیلوں بہانوں سے مجھے سوچتے ہو
ایک دن کُھل کے پکارو گے مِرا نام بھی تم

رات دن تم کو فقط تم کو مجھے سوچنا ہے
میری فرصت بھی تمہی اور مِرا کام بھی تم

جس سے روشن مرا آنگن ہے تمہی ہو وہ چراغ
سچ تو یہ ہے کہ تمہی گھر ہو دَر و بام بھی تم

یہ سیاست بھی عجب کھیل ہے بھولے پنچھی
یہاں صیّاد بھی تم ہو، تو تہِ دام بھی تم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں