"عباد الرحمن" سورہ الفرقان ( اردو ترجمہ) ... -استاد نعمان علی خان

"عباد الرحمن" سورہ الفرقان
استاد نعمان علی خان

اس لیکچر میں، میں سورت الفرقان کی آخری آیات پر بات کرونگا، اور یہ آیات کچھ خاص لوگوں کے متعلق ہیں. ان کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ انہیں "عباد الرحمٰن" کہتا ہے. "اللہ کے بندے". جو اللہ کو اپنا مالک مانتا ہے، اسے عبد کہا جاتا ہے، عباد یا عبید اس کی جمع ہے. مگر یہاں اللہ نے لفظ "عباد" استعمال کیا ہے. عبید اس ہر شخص کو کہتے ہیں جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور جو نہیں لاتے. اس لفظ میں ہر کوئی شامل ہے. مگر عباد، خاص لوگ ہوتے ہیں. تو ان آیات میں جن کا ذکر کیا گیا ہے وہ خاص لوگ ہیں. اللہ عزوجل کے بہت سے نام ہیں، اور اللہ نے یہاں عباد "الرحمٰن" استعمال کیا، جب اللہ کی محبت، اور رحمت انتہاء کی ہو، اور وہ فوراً مل جانے والی ہو، تب اللہ "الرحمن" استعمال کرتا ہے. سو اللہ کہتا ہے کہ الرحمن کے خاص بندے، وہ جنہیں اللہ کی خاص رحمت فوراً نصیب ہوتی ہے. میں اور آپ چاہیں گے اس گروپ کا حصہ بننا، کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ کہتا ہے کہ وہ ان پر بہت مہربان ہے. اللہ نے ان لوگوں کی تفصیل بیان کی ہے، اس سے پہلے کہ میں وہ بتاوں، میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ ایک ہی گروپ کی تفصیلات نہیں ہیں، یہ دس گروہ ہیں دس خصوصیات کے ساتھ. یعنی ضروری نہیں کہ کسی ایک انسان/گروپ میں یہ سب خصوصیات موجود ہوں، کوئی ایک چیز بھی ان میں ہے تو وہ اللہ کے خاص بندوں میں سے ہیں. آپ جب ان آیات کو سنیں گے تو سوچنا کہ آپ ان میں سے کس گروپ میں ہیں. آپ ان میں سے کس کا حصہ بننا چاہیں گے، اور ضروری نہیں کسی ایک ہی کا، آپ دو گروہ کا حصہ بھی بن سکتے ہیں.
جو پہلی قسم، جن سے اللہ محبت کرتا ہے،
وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا 
"اور رحمن کے حقیقی بندے وہ ہیں جو چلتے ہیں زمین پر عاجزی اور وقار سے"
 آپ زمین پر جیسے بھی چل رہے ہیں، کہیں بھی ہیں، ڈرائیو کر رہے ہیں، آپ اللہ کے آگے خود کو کمزور محسوس کرتے ہیں، آپ کی چال میں عاجزی ہے، آپ کی گفتگو میں عاجزی ہے، بعض اوقات آپ کی زبان میں غرور نہیں ہوتا بلکہ جس طرح آپ کسی کو دیکھتے ہیں اس میں بھی غرور ہوتا ہے، آپ جس طرح خود کو ظاہر کرتے ہیں اس میں غرور چھپا ہوتا ہے، یہ سب يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا نہیں ہے. ممکن ہے آپ کی جاب بہترین جگہ پر ہے، اور آپ کے کسی جاننے والے کی نہیں ہے، اور جب وہ آپ کے پاس آتا ہے آپ اس کے ساتھ کھڑے ہونا پسند نہیں کرتے! جب کہ اللہ نے آدم علیہ اسلام کی تمام اولاد کو عزت بخشی ہے. تو پھر آپ کون ہوتے ہیں کسی انسان کو خود سے کم سمجھنے والے. اللہ کہتا ہے جو لوگ اس کے لیے خاص ہیں ان کی چال میں عاجزی ہوتی ہے. مگر آپ کو کیسے معلوم ہوگا کہ آپ میں عاجزی ہے؟ آگے ہی اس کا جواب ہے،
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
"اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہیں"
. جن قابل نفرت لوگ ان سے گفتگو کرتے ہیں، جب جاہل ان سے گفتگو کرتے ہیں، جب کوئی غصے میں ان سے گفتگو کرتا ہے، جب بے ادب لوگ ان سے گفتگو کرتے ہیں، اور جب کوئی آپ کو بے عزت کرے تو تکلیف ہوتی ہے ، جب کوئی آپ کو کچھ غلط کہے تو تکلیف ہوتی ہے، اور اللہ نے ان سب لوگوں کو جاھلون کہا ہے، جاھل عربی میں عاقل کے مخالف ہے، جاھل کا عربی میں معنی ہے "کوئی ایسا شخص جس کا اپنے جذبات پر قابو نا ہو" ان کے دماغ میں کوئی غلط لفظ آتا ہے تو وہ ان کی زبانوں سے بھی ادا ہوجاتا ہے، وہ اس بارے میں سوچتے بھی نہیں. میں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں، آپ ڈرائیو کر رہے ہیں، چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے، وہ شخص آکر آپ پر چلانے لگ جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں، اوہ اچھا! می تمہیں بتاتا ہوں.. نہیں، رُکیں!
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا 
"اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہیں.
 آپ انہیں سلام کہتے ہیں، یا سوری کہہ کر مہذب طریقے سے گفتگو کا اختتام کرتے ہیں. آپ کو یہ کرنا سیکھنا ہوگا، اگر نہیں کر سکتے تو آپ اس گروپ نمبر 1 میں شامل ہونے کے اہل نہیں ہیں. اور اللہ نے یہاں یہ نہیں کہا "اگر" اس نے فرمایا "جب".. جب کا مطلب ہے یہ ضرور ہوگا.

آپ نہیں جانتے لوگ آپ سے ایسا برتاو کیوں کر ہے ہیں؛ ممکن ہے ان کہ زندگی میں کافی مسئلے ہیں جس کے باعث وہ آپ پر غصہ کر جاتے ہیں، اس لیے آپ کو ان سے اچھا برتاو کرنا چاہیے، کچھ مرد اور خواتین تھے جو نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آ کر ان پر چلانے لگ گئے تھے، اور وہ مسلمان تھے، اور آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم ناراض نہیں ہوئے تھے. جب لوگ آپ سے برا برتاو کریں تو آپ کو نرمی سے جواب دینا چاہیے، یہ سنت میں سے ہے. یہاں بہت سے شادی شدہ مرد موجود ہیں، آپ کی بیوی ایسی بہت سی باتیں کہہ سکتی ہے، جو سننے بعد آپ اسے جاہل نہیں کہیں گے اب سے مگر "سلام" کہیں گے. آگے سے جواب نا دیں، چپ رہیں! اور سسٹرز، آپ کے شوہر بعض ایسی باتیں کہہ جائیں گے جن سے آپ کو بہت غصہ آئے گا، مگر آپ کچھ نا کہا کریں، اس وقت چپ رہا کریں، بس "سلام". موضوع بدل دیں. اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کوئی آپ سے لڑ رہا ہے تو آپ آگے سے "سلام" کہنے لگ جائیں اس کا مطلب ہے، آرام سے بات کرنا، امن سے بات کرنا، اس طریقے سے گفتگو کرنا کہ سننے والے کو برا نا لگے. یہ پہلے لوگوں کا گروہ تھا، وہ لوگ جو اپنا غصہ قابو کر سکتا ہے، وہ لوگ جو اپنی ego ختم کردیتے ہیں پھر چاہیں وہ حق بجانب ہی کیوں نا ہوں. میں آپ کو امام ابو حنیفہ کا قصہ سناتا ہوں، وہ اپنے وقت کے عظیم فقہی تھے اور لوگ ہر وقت ان کے پاس کسی فتوے کے لیے آیا کرتے تھے. ان کی والدہ نے ان سے ایک سوال پوچھا، انہوں نے جواب دے دیا، مگر ان کی والدہ نے کہا "تم کچھ نہیں جانتے میں کسی اور سے جا کر پوچھ لیتی ہوں." اب جس شخص سے وہ دریافت کرنے گئیں، وہ داعی(وہ فتوے نہیں دے سکتا تھا) تھا، اس نے کہا میں پہلے اس پر کچھ ریسرچ کرلوں پھر آپ کو بتاونگا، اور وہ ابو حنیفہ کے پاس آیا اور ان سے کہا آپ کی والدہ آئیں تھیں اور ایسا ہوا. ابو حنیفہ نے کہا: یہ جواب ہے اس سوال کا مگر انہیں مت بتانا کہ میں نے تمہیں بتایا ہے. بعض اوقات آپ کی فیملی میں ایسے لوگ ہونگے جو آپ کو سننا پسند نہیں کریں گے. ممکن ہے آپ اسلام سے بہت قریب ہوگئے، مگر وہ نہیں ہیں اور اس وجہ سے آپ کو غصہ آتا ہے، آپ کو غصہ آتا ہے کہ آپ کے خاندان میں کچھ خواتین ہیں جو حجاب نہیں لیتیں، آپ کو غصہ آتا ہے کہ کچھ نوجوان نماز ادا نہیں کرتے، مگر.. ان پر غصہ مت ہوا کریں، ان سے پرامن طریقے سے گفتگو کریں! آپ کا غصہ انہیں دین سے دور ہی لے جائے گا بس. ایک وقت تھا جب آپ بھی نماز نہیں پڑھا کرتے تھے، اگر تب کوئی آپ پر غصہ کرتا تو کیا آپ نماز پڑھنا شروع کردیتے یا دین سے اور دور چلے جاتے؟ سوچیں اس بارے میں! آپ کو ان سے نرمی سے پیش آنا چاہیے اور اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ ان کا دل نرم کردے. اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ اسلام سے فرمایا تھا کہ فرعون سے اچھے سے پیش آنا، وہ فرعون جس نے موسیٰ علیہ اسلام کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ہر سال ہزاروں بچوں کا قتل کرتا تھا، خود کو خدا کہتا تھا، کتنی وجوہات تھی اس سے نفرت کرنے کی اور اللہ نے فرمایا کہ جب تم اس کے پاس جاو تو اس سے نرمی سے بات کرنا!! اگر انہیں فرعون سے نرمی کا برتاو رکھنے کا کہا جا سکتا ہے، تو آپ کی بیوی، یا آپ کے شوہر، آپ کی اولاد، کزنز، بہن بھائی، انکل کا کیا حق ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں غصہ دلاتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو اپ کے نرم رویے کے حق دار ہیں. یہی قَالُوا سَلَامًا ہے.
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا 
اور وہ لوگ جو راتیں گزارتے ہیں اپنے رب کے حضور سجدے میں پڑ کر اور کھڑے رہ کر

اور یہ دوسرا گروہ ہے جو اللہ کے لیے بہت خاص ہے کیونکہ وہ رات سجدے میں اور قیام میں گزارتے ہیں، "قیام الیل، تہجد". اب یہاں سب کہیں گے کہ اگلی کیٹگری دیکھتے ہیں کیونکہ یہ تو بہت مشکل ہے. جانتے ہیں دلچسپ بات کیا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ کوئی اللہ کے بہت قریب ہے تو آپ سوچیں گے کہ وہ شخص تہجد ضرور پڑھتا ہوگا، مگر اللہ نے پہلے کس کا ذکر کیا؟ پہلی کیٹگری تہجد گزار لوگوں کی نہیں تھی، بلکہ ان کی تھی جو غصے پر قابو رکھنا جانتے ہیں! سبحان اللہ! اور پھر ان کی جو راتوں کو اللہ کی عبادت کرتے ہیں.
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا 
 اور وہ لوگ جو دعائیں مانگتے ہیں: اے ہمارے رب! ٹال دے ہم سے جہنم کا عذاب، بے شک اس کا عذاب ہے جان کا لاگو.
یہ تیسری کیٹگری ہے، اور انتہائی خوبصورت ہے! "ایک گروپ ہے لوگوں کا جس سے اللہ محبت کرتا ہے کیونکہ وہ جو بس ایک چیز اللہ سے مانگتے ہیں وہ یہ ہے کہ "یا اللہ! میں جہنم نہیں دیکھنا چاہتا".
اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا . اِنَّھَا.سآءَت مُستَقَرَّا وَ مُقَامً... 
 "اس کا جرمانہ بہت بھاری ہے ، بہت زیادہ ہے، میں اسے برداش نہیں کر سکتا. میں جہنم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا. " یہ رہنے کے لیے ایک خوفناک جگہ ہے چاہے وہاں کچھ دیر ٹھہرا جائے یا زیادہ وقت کے لیے."
مجھے اس حصے کو تفصیل سے سمجھانا ہوگا.
یہ رہنے کے لیے خوفناک جگہ ہے، "مُسْتَقَرَّا" کچھ دیر کے لیے". "وَمُقَامً" طویل مدت کے لیے".
ایک خاتون تھیں، florida میں ایک youth program کے لیے، اس نے مجھ سے ایک سوال پوچھا، وہ کہتی "میں بہت سے حرام کاموں میں مبتلا ہوں مگر میں ہمیشہ کے لیے تو جہنم نہیں جاونگی نا، ہے نا؟ کیونکہ میں مسلمان ہوں. تو اگر میں جہنم جاونگی بھی تو وہ "ہمیشہ" کے لیے نہیں ہوگا نا؟ یہ دعا کہتی ہے، کہ میں جہنم نہیں جانا چاہتا ، نہ ٹھوڑے وقت کے لیے اور نا ہی طویل مدت کے لیے. میں نہیں اسے دیکھنا چاہتا. اللہ مِحبت رکھتا ہے ان لوگوں سے جو اس بات کو سمجھتے ہیں کہ انہیں جہنم کا کوئی حصہ نہیں چاہیے، وہ قلیل مدت ہو یا طویل.
کچھ مسلمان ہیں، جو کہتے ہیں، آف کورس ! میں ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں جانا چاہتا. مگر شاید ایک ہفتہ کے لیے، شاید ہم اتنا حرام کر سکتے ہیں!
یہ یہود کی طرف سے ہے" اِلَّا ایَّاماً مَّعدُودَتٍ.. "وہ کہتے ہیں کچھ دن کے لیے ہم برداشت کرلیں گے." لوگ آج کل کہتے ہیں کچھ نہیں ہوتا، تھوڑا سا حرام یہاں کر لیتے ہیں کچھ دن جہنم جائیں گے اس کے بعد تو جنت ہے نا..
اللہ فرماتے ہیں، یہ لوگ عباد الرحمٰن نہیں ہیں. عباد الرحمٰن وہ لوگ ہیں ، اللہ کے خاص بندے ، جو کہتے ہیں یا اللہ "میں جہنم نہیں دیکھنا چاہتا، نا ایک دن کے لیے، نا ہی دو دن کے لیے ، ایک منٹ کے لیے نہیں، ایک سیکنڈ کے لیے نہیں. اور نا ہی مستقل. مجھے جہنم نہیں جانا.
سورت الانبیاء میں ایک آیت ہے، جو جہنم کی کم سے کم سزا کو بیان کرتی ہے، جہنم کو قرآن میں بہت سی جگہوں پہ بیان کیا گیا ہے مگر اس آیت میں وہاں کی سب سے کم سزا کے متعلق بیان کیا گیا ہے، جس شخص کے متعلق بیان کیا ہے اس نے آگ نہیں چکھی، بلکہ صرف ایک جھونکا چکھا ہے، گرم آگ کا جھونکا، اور وہاں لفظ "نفحہ" استعمال کیا گیا ہے اس جھونکے کے لیے، اور نفحہ اصل میں ٹھنڈے جھونکے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور نفحہ تب استعمال ہوتا ہے جب آپ دروازہ بند کرتے ہیں تو کچھ گرم ہوا اندر آتی ہے، وہ گرم ہوا کا جھونکا جو اندر آتا ہے یا باہر جاتا ہے اسے نفحہ کہتے ہیں. اللہ نے فرمایا وہ لوگ "نفحہ" چکھیں گے، اور وہ بھی جہنم کے باہر ہی سے، اور وہ ہوا کا جھونکا انہیں بہت کم ہی چھو کر جائے گا مگر وہ شخص کہے گا "میں نے ایسی سزا اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے میں جہنم کے سب سے ہیبت ناک حصے میں ہوں". آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا، "ویل".جہنم کا سب سے ہیبت ناک حصہ ہے اور یہ شخص جو کہ جہنم میں بھی نہیں کہے گا "ایسا لگتا ہے میں "ویل" میں ہوں!! مسلمان سمجھتے ہیں، ایمان والے، قرآن کے طالبات سمجھتے ہیں کہ "(اِنَّھَا سَآءَت مُستَقَرَّا وَمُقَامً) میں وہاًں نا قلیل مدت کے لیے ہو سکتا ہوں اور نا ہی طویل مدت کے لیے. میں جانتا ہوں. میری ذہنیت بنی اسرائیل جیسی نہیں ہونی چاہیے جو کہتے تھے "لَن تَمَسَّنا النَّار اِلَّا اَیَّامًا مَّعدُودَتٍ " ہم برداش کرلیں گے کچھ دن کے لیے.
یہ لوگ اللہ کے لیے خاص ہیں ، اور جو صرف ایک چیز یہ اللہ سے مانگتے ہیں وہ یہ ہے کہ "یا اللہ، مجھے جہنم نہیں چاہیے." ہر گز نہیں، بلکل نہیں! یہ دعا خود آپ کو اللہ کے محبوب بندوں میں سے ہونے کا اہل بنا دیتی ہے. سبحان اللہ! کیسی رحمت ہے اللہ کی.
وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا
اور وہ لوگ جو جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں اور ہوتا ہے (ان کا خرچ کرنا) ان دونوں کے درمیان اعتدال سے. 
 جب آپ شاپنگ پہ جاتے ہیں، ہر چیز اُٹھانے لگ جاتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس بہت پیسہ ہے، آپ بس لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ آپ کے پاس کتنا پیسہ ہے. آپ خرچ کرتے ہوئے سوچتے ہی نہیں! اللہ کہتا ہے وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو اعتدال سے کرتے ہیں، وہ ذمہ داری سے خرچ کرتے ہیں، اور پھر وہ بخل بھی نہیں ہیں،کہ آپ کہ بیوی گھر کی اشیاء لے رہی ہے اور آپ اسے ٹوکنے لگ جائیں کہ یہ بھی مت لو، یہ چھوٹا لو، اب ایسا بھی مت کریں! ان کے بجٹ میں توازن ہوتا ہے. قرآن ہمیں سکھا رہا ہے کہ جب آپ خرچ کریں تو اپنی جیب کے مطابق خرچ کریں، لونز مت لیں، اپنے کریڈٹ کارڈ کے عادی مت بنیں، سوچے سمجھے بغیر خرچ مت کیا کریں، اور آج مسلمان صرف اس وقت سوچتے ہیں جب انہیں صدقہ دینا ہوتا ہے، اس وقت آپ کو یاد آجاتا ہے کہ بجلی کا بل بھی دینا ہے، یوٹیلیٹی بلز بھی دینے ہیں، مگر جب موبائل خریدنا ہو، ویڈیو گیمز خریدنی ہوں، آئی پیڈ خریدنا ہو تب کاموں کی لسٹ یاد نہیں آتی، تب آپ آرام سے خرچ کرتے ہیں. ہمیں ذمہ دار بننا ہوگا! نا اسراف کریں، نا ہی بخل بنیں! کیونکہ آپ افورڈ کرسکتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ خرچ کرتے جائیں اس کا آپ بہتر استعمال کر سکتے ہیں، فیملی میں سے کسی کی مدد کرسکتے ہیں، معاشرے میں کسی کی مدد کر سکتے ہیں، کسی کا قرض ادا کر سکتے ہیں، آپ کا پیسہ اچھے کاموں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے. ضروری نہیں کہ آپ کے پاس نئی سے نئی گاڑی ہو، ایک معقول سی گاڑی خریدیں بس، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اب آپ کوئی ایسی گاڑی خرید لیں جو کسی کام کی نا ہو، مگر اعتدال سے خرچ کریں. کسی ایک شرٹ کیلیے پانچ گناہ زیادہ خرچ نہ کریں صرف اس لیے کہ وہ برانڈڈ ہے. اور ہمیں یہ بات اپنی اولاد کو بھی سکھانی ہوگی، انہیں پیسوں کا عادی مت بنائیں، جب آپ انہیں دیتے ہیں تو انہیں اس کے لیے کام بھی کہا کریں! انہیں کمانا سکھائیں، جب آپ انہیں بس دیے جاتے ہیں تو وہ ان کی قدر بھول جاتے ہیں. مگر جب آپ انہیں کہتے ہیں کہ پہلے تم گاڑی کی صفائی کروگے گھر صاف کروگے، باہر کہیں کام نہیں کر سکتے تو گھر میں کروائیں، اور پھر انہیں دیں، کہ اس طرح وہ کمائیں گے، اور کام کے بعد جب آپ انہیں پیسے دیں گے چاہے وہ تھوڑے ہی کیوں نا ہوں وہ ان کی قدر کریں گے. اگر آپ بس دیتے جائیں گے اور اگلے دن پوچھیں گے تو انہیں معلوم بھی نا ہوگا انہوں نے کہاں خرچ کیے ہیں! میرا ایک بہت امیر دوست ہے امریکہ میں، جس کے بیٹے نے قرآن حفظ کیا،وہ اپنے بیٹے سے اتنا خوش تھا کہ اس نے اپنے بیٹے کو BMW خرید دی، وہ بھی 16 17 کے بیٹے کو،اور اس نے 3 4 ایکسیڈنٹس میں ہی گاڑی کا برا حال کردیا! وہ امیر تھا بہت، تو اگلی گاڑی بھی خرید دی، اس کا بھی یہی حال ہوا، اور وہ میرے پاس آیا کہ میں کیا کروں میرا بیٹا ہر گاڑی تباہ کردیتا ہے، میں نے کہا تم دیتے کیوں ہو؟ اسے کہو، میں اب تمہیں خرید کر نہیں دے رہا جاو جا کر جاب ڈھونڈو اور اپنے لیے کماو. اس نے پھر ایک ٹائر شاپ پر کام کیا جبکہ اس کے والد سرجن تھے، اس نے پھر بھی مختلف جگہوں پر کام کیا، کچھ پیسے کمائے اور بس قابل قبول حالت کی ایک گاڑی خریدی، مگر وہ اس گاڑی کو روز واش کرتا، اس کا خیال رکھتا، اور اس کو فخر تھا کہ وہ اس نے خود کمائی تھی!

وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا
اور وہ لوگ جو نہیں شریک کرتے پکارنے میں اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو اور نہ قتل کرتے ہیں اس جان کو جسے حرام کردیا ہے اللہ نے مگر جائز طریقے سے. اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص بھی کرے گا ایسا تو وہ پائے گا بدلہ اپنے گناہوں کا.

*اور وہ لوگ جو نہیں شریک کرتے پکارنے میں اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو. یہاں اللہ نے ہر مسلمان کے لیے دروازے کھول دیے ہیں، کہ تم میرے لیے خاص ہو اگر تم میرے علاوہ کسی اور کو نہیں پکارتے. 
 *اور نہ قتل کرتے ہیں اس جان کو جسے حرام کردیا ہے اللہ نے مگر جائز طریقے سے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں. اب یہاں بڑے گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے، میرا ماننا ہے کہ یہ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ اس دنیا میں بعض لوگ ہیں جن کے لیے یہ کام مشکل ہیں، کچھ ایسے لوگ ہیں جن کا اہل و عیال مشرک ہے، اور ان کے لیے صرف اللہ کی عبادت کرنا بہت مشکل ہے مگر وہ پھر بھی صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اس لیے وہ اللہ کے خاص بندے ہیں. کچھ شہر، ملک، اور ریاستیں ہیں جہاں جنگ چل رہی ہے، لوگ ایک دوسرے کا قتل کر رہے ہیں اور بہت آسان ہے اس میں حصہ لے کر کسی کا بھی قتل کردینا مگر کچھ لوگ نہیں اس میں حصہ لیتے کہ وہ کسی موصوم کو قتل کرنا صحیح نہیں سمجھتے جبکہ ان کے لیے خود کو روکے رکھنا بہت مشکل ہے، کیونکہ ہر کوئی کر رہا ہے.
 امریکہ میں کچھ گروہ ہیں جو لوگوں کو فورس کرتے ہیں کہ انہیں جوئن کریں اور اگر آپ نہیں کرتے تو ان کے ظلم کا نشانہ بننا ہوگا! اور اگر اس وقت کوئی اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے انکار کرتا ہے تو ایسے لوگ اللہ کے لیے خاص ہیں. 
 *اور نہ وہ زنا کرتے ہیں ان کے بوئے فرینڈز/گرل فرینڈز نہیں ہیں، ان کے خفیہ تعلقات نہیں ہیں. اس چیز کا ذکر کیوں کیا گیا؟ کیونکہ کچھ لوگوں کے سامنے یہ سب ہوتا ہے اور اس وقت خود پہ قابو پانا ان کے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے! کوئی لڑکا اگر مال میں ہے اور لڑکی دیکھ کر مسکرادے، اور تب اگر وہ لڑکا خود کو روکتا ہے، میں جانتا ہوں یہ اس کے لیے بہت مشکل ہے، مگر وہ پھر بھی خود پہ قابو رکھتا ہے. یا اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کو دیکھ رہا ہے، تو وہ سوچے گی "اسے میں خوبصورت لگ رہی ہوں" اور وہ تب خود پہ قابو رکھتی ہے کہ یہ سب غلط ہے مجھے اس سب میں نہیں پڑنا. وَلا يَزْنُونَ وہ نہیں اس سب میں پڑتے، ایسا رویہ نہیں اپناتے. ظاہر ہے ہمارے نوجوان کالج جاتے ہیں، جہاں سے میرا تعلق ہے وہاں گرمیوں میں کالج کا حال بہت برا ہوتا ہے اور اگر کوئی 18،19 سال کا لڑکا ہے اور وہ ان خواتین کے ساتھ پڑھتا ہے جن کا دین سے کوئی لینا دینا نہیں اور ان میں سے کوئی آکر اسے کہہ دے "کہ میری مدد کردو ذرا ہوم ورک میں" اس نوجوان کا امتحان لیا جا رہا ہوتا ہے اس وقت. اور نوجوان نسل کے لیے اپنے ان احساسات پر قابو رکھنا آسان نہیں ہے. اگر کوئی لڑکی اس سب میں مبتلا ہے، تو ابھی سے رک جائیں! خود پہ قابو رکھیں. جب آپ جوان ہو جاتے ہیں اور صنف مخالف کے لیے کشش محسوس کرتے ہیں اس کا اسلام میں مطلب ہے کہ اب آپ بالغ ہوگئے ہیں اور اب آپ کو خود اپنے لیے ذمہ دارانہ فیصلے لینے ہونگے آپ کے والدین اب آپ کے اسلام کے ذمہ دار نہیں ہیں. چاہے آپ 14، 15 سال کے ہیں یا پھر 13 سال کے، اگر آج آپ کی موت واقع ہوجاتی ہے تو اللہ آپ کو چھوٹا نہیں سمجھے گا،آپ کے ساتھ ایک بالغ کی طرح ہی سلوک کیا جائے گا. جس لمحے آپ صنف مخالف کے لیے کچھ محسوس کرنے لگ جاتے ہیں، آپ کا تب سے کسی 50 سالہ شخص کی طرح ہی امتحان لیا جائے گا.
وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا 
 اور جو شخص بھی کرے گا ایسا تو وہ پائے گا بدلہ اپنے گناہوں کا. 
 ایک مسلمان یہ کیسے کر سکتا ہے؟ مسلمان شرک کیسے کر سکتا ہے؟ قتل کیسے کرسکتا ہے؟ زنا کیسے کر سکتا ہے؟
يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا 
 دگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب روز قیامت اور پڑا رہے گا وہ ہمیشہ اس میں ذلیل و خوار ہو کر
ایسے لوگوں کے لیے روز قیامت عذاب کو دُگنا کردیا جائے گا.. شروع میں کہا گیا تھا کہ یہ لوگ اللہ کے بندے ہیں، اللہ کے لیے خاص ہیں. اور اب اللہ فرما رہا ہے کہ یہ تین لوگ، یہ تین چیزیں، شرک، قتل اور زنا، اگر کوئی شخص یہ کرے گا تو اسے سزا دی جائے گی پر اگر ایک مسلمان یہ کرے گا تو اس کے لیے سزا کو دگنا کردیا جائے گا، کیونکہ اسے معلوم تھا یہ غلط ہے مگر پھر بھی اس نے ایسا کیا.
وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا 
"اور پڑا رہے گا وہ ہمیشہ اس میں ذلیل و خوار ہو کر"
 اسے مسلسل ذلیل و خوار کیا جائے گا. کیونکہ شرک، قتل اور زنا بے عزت کرنے والے جرائم ہیں یہ ایک انسان سے اس کا وقار چھین لیتے ہیں. ممکن ہے سامعین میں کوئی ایسا موجود ہے جو ان جرائم میں سے کس ایک کا ارتکاب کر چکا ہے، آپ کو یہ لوگوں کو نہیں بتانا چاہیے اپنے اور اللہ کے درمیان رکھنی چاہیے یہ بات. ممکن ہے آپ بڑے گناہوں کا ارتکاب کر چکے ہیں اور اب ان آیات کو سن کر آپ پریشان ہوگئے ہیں کہ اب میں کیا کروں. اور پھر شیطان ایسے لوگوں کو اور بہکاتا ہے کہ تم پہلے ہی جہنم میں جا رہے ہو تو اب آرام سے پارٹی کرتے ہوئے زندگی گزارلو!!نہیں ایسا مت سوچیں! تو اب اللہ ان لوگوں کے متعلق کیا فرماتا ہے جو ان جرائم میں مبتلا ہیں یا تھے:
إِلاَّ مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا 
 "اور جس نے توبہ کرلی اور ایمان لا کر کیے اچھے عمل سو ایسے لوگوں کے لیے بدل دے گا اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے اور ہے اللہ بہت معاف فرمانے والا، رحم کرنے والا.

جن لوگوں نے شرک، قتل، یا زنا کیا ہے یا پھر یہ تینوں کام کیے ہیں، اگر.. آپ واپس اللہ کی طرف لوٹ آتے ہیں اور آپ دوبارہ مومن بن جاتے ہیں.. اور اس دفعہ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا بہت سنجیدہ ہو کر نیک اعمال کرتے ہیں.. بہت بہت محنت کرتے ہیں اپنے اعمال کو درست کرنے کے لیے.. 
فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَات
تو ان لوگوں کے لیے اللہ ان کے تمام گناہوں کو لے کر انہیں نیکیوں میں بدل دے گا. 
وہ آپ کے گناہوں سے کو مٹائےگا نہیں بلکہ انہیں نیکیوں میں بدل دے گا. ہو سکتا ہے آپ کے گناہ ایک پہاڑ جتنے تھے،اللہ اس سے ختم نہیں کرے گا بلکہ اسے نیکیوں کا پہاڑ بنادے گا اگر آپ توبہ کرتے ہیں تو. یہ ہے الرحمن! اللہ ہمیں کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ اللہ سے بہت دور ہیں، جو اپنا ایمان کھو چکے ہیں، جو شرک کرتے ہیں، لوگوں کا قتل کرتے ہیں، جو زنا کرتے ہیں ظاہر ہے وہ اللہ سے بہت دور ہیں اور اللہ کہہ رہا ہے چاہے وہ مجھ سے بہت دور ہے اگر وہ واپس لوٹ آتے ہیں میں ان کے تمام جرائم بھول جاونگا اور میں ان کے لیے ان کے تمام گناہوں کو نیک اعمال میں بدل دونگا. سبحان اللہ!

ممکن ہے کہ سب جاننے کے بعد کوئی سوچ رہا ہو، کسی کو شیطان بہکا رہا ہو کہ تم بھی یہ جرائم کرلو اور پھر توبہ کرلینا کہ اس طرح آسانی سے اتنی نیکیاں حاصل کی جا سکتی ہیں، اور شاید کوئی یہ سوچ رہا ہو کہ ان لوگوں نے اتنے بڑے گنا کیے اور توبہ کرنے پر اللہ نے انہیں معاف کردیا، پر میں نے اتنے بڑے گناہ نہیں کیے، میں نے تو بس کچھ نمازیں ترک کی ہیں، ایک دفعہ والدہ پر غصہ ہو گیا تھا، یا اپنے شوہر کو جواب دیا تھا، اپنی بہن سے لڑا تھا، میرے کچھ گناہ ہیں، مگر اب یہ اتنے بُرے بھی نہیں، میں نے کسی کا قتل تو نہیں کیا، زنا نہیں کیا، تو کیا میری توبہ کا کوئی فائدہ ہوگا؟ ان کی توبہ بڑے گناہوں کی تھی اور میری چھوٹی چیزوں کے لیے ہے تو کیا اسے گنا جائے گا؟ اللہ اگلی آیت میں فرماتا ہے: 
وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا
اور جس نے توبہ کی اور کیے نیک عمل تو بے شک وہ پلٹ آیا ہے اللہ کی طرف جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے.

جو بھی گناہ آپ سے سرزد ہوئے ہیں، گناہوں کے بارے میں ایک بات یاد رکھیں.. اگر آپ کے گناہ آپ کے لیے کوئی بڑی بات نہیں، تو اللہ کے لیے وہ بڑی بات ہے! اور جب آپ کے گناہ آپ کے لیے بہت بڑی بات ہوتے ہیں، وہ بہت پریشان کن ہیں آپ کے لیے پھر اللہ کے لیے وہ چھوٹا سا مسئلہ ہیں. اللہ آسانی سے درگزر کردے گا اگر آپ اپنی غلطیوں کی بہت پرواہ کرتے ہیں تو. اگر آپ نہیں کرتے یہ سوچ کر کہ یہ تو چھوٹی سی غلطی ہے تو قیامت کے دن وہ غلطی بہت بڑی بن جائے گی، کیونکہ آپ کو پرواہ نہ تھی. پرواہ دل میں ہوتی ہے، اللہ ہمیں ہمارے دل کو دیکھتے ہوئے جج کرتا ہے، ہمارے رویے کو دیکھ کہ کرتا ہے.
وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا 
 اور وہ لوگ جو نہیں گواہ بنتے جھوٹ کے/بیکار کمپنی کے اور جب گزرتے ہیں بیہودہ کاموں کے پاس سے تو گزرجاتے ہیں باوقار طریقے کے ساتھ

وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ
نوجوان عوام پلیز یہ بہت دھیان سے سنیں. "یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی بیکار کمپنی نہیں دیکھی." الزُّورَ کا معنی "جھوٹی گواہی" ہے، اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایسی کمپنی جو بیکار ہے، جس کا کوئی فائدہ نہیں، یہ باطل ہے. دوسرے معنوں میں یہ رات کے دو بجے تک باہر رہ کر ہُکہ نہیں پیتے. یا یہ صبح کے تین بجے تک باہر رہ کر فضول باتوں میں وقت نہیں گزارتے یہ ایسا نہیں کرتے. یہ مال میں اپنے دوستوں کے ہمراہ جا کر وہ سب نہیں کرتے جو کہ آپ جانتے ہی ہیں کیا کرتے ہیں
کیوں نہیں کرتے ؟ (why not) کیونکہ یہ پہلے سے توبہ کر چکے ہیں. اور جب کوئی توبہ کرتا ہے. وہ جانتا ہے..
پتا ہے جب آپ بڑے گناہ کر بیٹھتے ہیں، جانتے ہیں آپ بڑے گناہوں کا کیسے ارتکاب کرتے ہیں؟ آپ چھوٹے گناہوں سے شروع کرتے ہیں. اور وہ بڑھتے چلے جاتے ہیں پھر آپ بڑے گناہ کرنے لگ جاتے ہیں. پھر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کے گناہ آپ کے دوستوں کا نتیجہ تھے. جن لوگوں کے ساتھ آپ نے وقت گزارا، وہی لوگ ہیں جو آپ کے لیے گناہ کرنا آسان بناتے ہیں.

تو اللہ نے فرمایا " اب جب انہوں نے توبہ کرلی ہے تو وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ "کسی برائی کے اجتماع میں کبھی نہیں بیٹھیں گے". وہ کسی جھوٹے اجتماع میں نہیں شرکت کریں گے.
بعض اوقات آپ کسی دعوت میں مدعو کیے جاتے ہیں اور ہو سکتا ہے وہ لوگ جنہوں نے آپ کو مدعو کیا ہے وہ زیادہ مذہبی نہ ہو. تو وہاں میوزک زور و شور سے بج رہا ہے، خواتین نے میک اپ کیا ہوا ہے ، مرد اور خواتین اکٹھے موجود ہیں، اور آپ اس دعوت میں ہیں،تو آپ کھڑے ہو کر یہ نہیں کہتے "وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ" اور پھر باہر چلے جاتے ہیں. مگر آپ کوئی بہانہ کرتے ہیں، "مجھے جانا ہے" پھر آپ جاتے ہیں مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں، اور عشاء تک وہی رہتے ہیں اور عشاء کی نماز ادا کر کے واپس دعوت میں جاتے ہیں اور تب تک سب جا چکے ہوتے ہیں تو آپ کہتے ہیں "اوہ، i am sorry. آپ یہ کر سکتے ہیں، آپ ان لوگوں کو شرمندہ نہیں کرتے، مگر ان میں شرکت بھی نہیں کرتے. آپ اس سے نکلنے کا ہوشیار طریقہ استعمال کرتے ہیں.

تو اللہ فرماتے ہیں
وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَاِذَا مَرُّوا بِاللَّغوِ مَرُّوا کِرَاماً
 جب وہ کسی فضول بات کو سنتے ہیں، جب وہ کسی فضول سرگرمی سے گزرتے ہیں ، جس سے وہ عیاں ہوتے ہیں،اور وہ ہونگے، تو وہ اسے با وقار طریقے سے چھوڑ جاتے ہیں. آپ ان پر غصہ مت کریں، بلکہ باوقار طریقے سے اس محفل کو چھوڑدیں، اگر نصیحت کرتے ہیں انہیں تو وہ بھی عزت کے زمرے میں رہتے ہوئے دیں. لوگوں کی عزت کریں چاہے وہ غلط کام ہی کیوں نہ کر رہے ہوں. ہمیں گناہوں سے نفرت ہے ان لوگوں سے نہیں جو گناہ کرتے ہیں. آپ کے دوست احباب ہونگے جن میں کچھ بری عادات ہیں اور وہ آپ کو بھی مدعو کرتے ہیں، نہ صرف انہیں غلط کرنے سے روکیں اگر وہ نہیں رکتے تو پھر خود کو ان کی کمپنی سے دور رکھا کریں. اپنی حفاظت کریں. کیونکہ آپ ان کو نہیں بچا پائیں گے بلکہ خود بھی اس کام میں پڑ جائیں گے. آپ کے کچھ دوست ڈرگز لیتے ہونگے یا شراب پیتے ہونگے، اور کیونکہ وہ یہ حرام کام بہت پہلے سے کرتے آرہے ہیں اب انہیں یہ کام زیادہ حرام نہیں لگتا، ان کے لیے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں. کوشش کریں انہیں نصیحت کرنے کی اگر وہ نہیں بدلتے تو آپ اس کمپنی کا حصہ نہیں بن سکتے، آپ کو اس کمپنی کو چھوڑنا ہوگا. مَرُّوا کِرَاماً گزرجاتے ہیں باوقار طریقے کے ساتھ.

وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا 
 اور وہ لوگ جنہیں اگر نصیحت کی جاتی ہے اپنے رب کی آیات سنا کر تو نہیں گرتے اس پر بہرے اور اندھے بن کر (بلکہ غور سے سنتے ہیں)
اس کیٹگری میں، یہاں موجود ہر شخص ہو سکتا ہے. آپ کے پاس موقع ہے کہ آپ اس گروہ کا حصہ بنیں. "جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے اپنے رب کی آیات سنا کر" مجھے نصیحت مل رہی ہے جب میں یہ سب کہہ رہا ہوں، اور جو کوئی یہاں بیٹھا ہے (سن رہا ہے) انہیں نصیحت کی جا رہی ہے رب کی آیات سنا کر. اللہ کہتا ہے، جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے ان کے رب کی آیات کی لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا "وہ ان سے بہرے اور اندھے بن کر نہیں گزرجاتے". یہ نہیں کرتے کہ "اچھا.. سن لیا ہے..مگر میں تو وہی کرونگا جو میرا دل کرتا ہے". میرے استاد کہا کرتے تھے "سن سن کہ سنی ہوگئے ہیں" بس سنتے ہی رہتے ہیں مگر ان میں کوئی تبدیلی نہیں آتی. آپ ساری زندگی تقاریر سنتے آئے ہیں، کیا بدلا ؟ اللہ فرماتا ہے تم عباد الرحمن بننا چاہتے ہو، آپ پوڈکاسٹ سنتے ہو، یوٹیوب پہ ویڈیوز سنتے ہو، یا کوئی درس سنتے ہو، (اور جب درس ختم ہوجائے)اور آپ باہر نکلتے ہو تو کہتے ہو "میں یہ سبق نہیں بھولنے والا، یہ سبق میری زندگی کے لیے تھا، کوئی تقریر یا پروگرام نہیں تھا بس، یہ ایک نصیحت تھی میرے لیے جو کہ اللہ کی آیات سے دی گئی، اس لیے اب مجھے ان میں سے کسی ایک جیسا بننا ہے، اندھا بہرہ بن کر نہیں گزر جانا". اگر یہ آپ کا رویہ ہے تو پھر آپ اس کیٹگری کا حصہ بن سکتے ہیں.

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا 
 اور وہ لوگ جو دعائیں مانگتے ہیں: اے ہمارے مالک! انعام فرما تو ہمیں ایسی بیویاں/ایسا شوہر اور ایسی اولاد جو آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور بنادے تو ہمیں متقیوں میں امام.

یہ اس امت کی دعا ہے، میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں، میں نے زیادہ تو نہیں مگر اتنا سفر تو کیا ہی ہے کہ میں امت کے متعلق مشاہدہ کرسکوں. آج اس امت کا بحران معاشی نہیں ہے، سیاست نہیں ہے، تعلیم نہیں ہے، کرپشن نہیں ہے. یہ سب امت کا مسئلہ نہیں ہے. اس امت کا بحران یہ ہے کہ فیملی یونٹ تباہ ہوچکی ہے. آج کل لوگ نہیں جانتے کہ اپنی اولاد کی پرورش کیسے کرنی ہے، لوگ نہیں جانتے کہ والدین ہونا ہوتا کیا ہے، شوہر نہیں جانتا کہ شوہر ہونا کیا ہوتا ہے، بیوی نہیں جانتی بیوی ہونا کیا ہوتا ہے، اولاد نہیں جانتی کہ اولاد ہونا کیا ہوتا ہے، وہ سب تباہ ہورہا ہے. اور وہ کیا چیز ہے جو ہماری حفاظت کرے گی، ہماری امت کو محفوظ کریں گی، وہ یہ ہیں کہ ہم اپنی فیملی کی حفاظت کریں. ہم اس یونٹ کو محفوظ رکھیں. والدین کی سب سے بڑی ترجیح ان کی اولاد کا اسلام ہونا چاہیے ہے، وہ کیا کریں گے جب آپ نہیں ہونگے، کیا وہ صرف اس لیے نماز ادا کر رہے ہیں کیونکہ آپ وہاں کھڑے ہیں یا پھر اس لیے ادا کر رہے ہیں کہ آپ نے ان کے دلوں میں اللہ کا تقوی ڈالا ہے؟
 یعقوب علیہ اسلام بسترِ مرگ پہ تھے، اور انہوں نے اپنی اولاد کو دیکھ کر پوچھا: " تم کس کی عبادت کروگے میرے جانے کے بعد؟" کہ جب میں یہاں تھا تم اللہ کی عبادت کرتے تھے مگر اب میں نہیں ہوں گا، تو تم میرے چلے جانے بعد کیا کروگے؟ وہ "تربیت" ہے. یہ دعا کہ "اے ہمارے مالک، هَبْ لَنَا ہمیں انعام کر، یہاں لفظ 'اتینا' نہیں استعمال ہوا، "هَبْ لَنَا" ہوا، جو کہ ھِبَ سے ہے، اور عربی میں ھِبَ "تحفے/انعام" کو کہتے ہیں. کیا تحفہ عطا کر؟ مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ ایسی بیویاں/ شوہر اور اولاد عطا کر جو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں کہ انہیں دیکھ کر ہماری آنکھیں بھر آئیں. قُرَّةَ أَعْيُنٍ ، آنکھوں کی ٹھنڈک، جانتے ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟ اس سے آپ کو اتنی خوشی ملے کہ آپ کا رونے کو جی چاہے. جب آپ اپنی اولاد کو قرآن کی تلاوت کرتا دیکھیں، اور انہیں اس کی تلاوت سے محبت ہو، اس منظر سے آپ کو ایسی خوشی ملے کہ آپ کا رونے کو جی چاہے. جب آپ اپنی بیوی کو دیکھیں کہ وہ کس طرح آپ کی اولاد کی پرورش کر رہی ہے آپ کو اس سے اتنی خوشی ملے کہ آپ رونا چاہیں. جب وہ اپنے شوہر کو دیکھے جو اپنی اولاد کو فجر کے لیے جگا رہا ہے اور انہیں مسجد لے جاتا ہے، وہ اس منظر کو دیکھ کر رونا چاہے. آج ہمارے شوہر روتے ہیں، اور بیویاں روتی ہیں، مگر اس لیے نہیں کہ وہ خوش ہیں! ہم اللہ سے خوشی کے آنسووں کی التجا کر رہے ہیں. ہم اتنا خوش رہنا چاہتے ہیں اپنی فیملی ساتھ. اور یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟ آج کل آپ جب گھر جاتے ہیں تو اپنی بیوی سے جھگڑتے ہیں، وہ پوچھتی ہے "تم اتنا لیٹ کیوں ہو؟" آپ کہتے ہیں " تم کیوں پوچھ رہی ہو، ہر وقت پوچھتی رہتی ہو، باہر ٹریفک نہیں دیکھی!" اور یہ روز کا معمول ہے. اور پھر آپ اتنا غصہ ہوتے ہیں کہ اپنی اولاد کو بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ڈانٹنے لگ جاتے ہیں، ان کی خوشی بھی ختم کردیتے ہیں کہ تم کیوں خوش ہو! یہ قُرَّةَ أَعْيُنٍ نہیں ہے.

کچھ لوگ ہیں جو مسجد میں نماز کے لیے آتے ہیں، نماز آپ کو سکون بخشتی ہے ، مگر وہ نماز پڑھ کے گھر جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے گھر میں طوفان آگیا ہے، ہر کوئی آپ کے غصے سے ڈرتا ہے. آپ کو اپنی فیملی کے خوف کا باعث نہیں ہونا چاہیے، بلکہ خوشی کا باعث بنیں! انہیں آپ سے اتنی محبت ہونی چاہیے کہ وہ آپ کو دیکھ کر خوش ہوا کریں. ایسا تعلق ہونا چاہیے آپ کا اپنی اولاد کے ساتھ. اور کیونکہ میں اس بارے میں بات کر رہا ہوں،تو مجھے کچھ باتیں شئیر کرلینے دیں. 20، 30 سال پہلے والدین کی تربیت کا طریقہ مختلف تھا، اب ویسا نہیں ہے. میں fathers کو نصیحت کر رہا ہوں کہ اب آپ اپنی اولاد پہ اتھارٹی نہیں رکھ سکتے، آپ یہ افورڈ نہیں کرسکتے. اب آپ کو ان کا دوست اور ساتھ اتھارٹی بننا ہوگا. ہمارے والد ہمارے دوست نہیں تھے، وہ اتھارٹی سے سب کرتے تھے. تب سب مختلف تھا، تب ابا کے آتے ہی آپ سیدھے ہو کہ بیٹھ جاتے تھے، مگر اب آپ کی اولاد ایسا نہیں کرتی، نہ ہی وہ کرے گی. اب وقت بدل گیا ہے، اور ہمیں اس بات کو مان لینا چاہیے اب. ہماری اولاد بہت سے چیزوں سے عیاں ہے، وہ ہمارا احترام کرتی ہے مگر اب چیزیں مختلف ہیں، اور صرف آپ ہی انہیں دین کی محبت عطا کرسکتے ہیں، اور آپ یہ نہیں کر پائیں گے اگر آپ صرف اتھارٹی سے کام چلائیں گے، اگر آپ صرف ان کو ڈانٹ کر اور حکم دے کر کام کروائیں گے. ہر والد کو ان ویڈیو گیمز میں ماسٹر ہونا چاہیے جو ان کی اولاد کھیلتی ہے، آپ کو پتا ہونا چاہیے وہ کیا کھیلتے ہیں، ان کے ساتھ بیٹھا کریں اس وقت، جا کر نیوز دیکھنے مت لگ جایا کریں آپ دنیا نہیں بدل سکتے! گھر آ کر ٹی وی مت دیکھنے لگ جایا کریں، آ کر اپنی اولاد کے ساتھ کھیلا کریں، انہیں وقت دیا کریں، ان کے ساتھ کام کریں، ان سے گفتگو کریں، انہیں مسجد لے جائیں. انہیں ایسا بنائیں کہ انہیں آپ سے محبت ہو. میں بتا رہا ہوں، اگر والد یہ سب نہیں کرینگے، تو آپ اس امت کو کھو دینگے. ہم اپنی اگلی نسل کھودینگے. آپ کی اولاد میں اصل بدلاو آپ ہی کہ وجہ سے آئے گا. اور میری بہنیں! غصہ ہونا چھوڑدیں، مان لیا کریں، اور اپنے شوہر سے محبت کریں. اسے خوش کرنے کی کوشش کیا کریں. یقین کریں اگر وہ تھوڑا سا بھی خوش ہوگا تو آپ بہت خوش رہیں گی. جبکہ آپ کہتی ہیں مجھے غصہ ہے تو وہ بھی کیوں خوش رہے،وہ میری پروا نہیں کرتا تو میں اس کی پرواہ کیوں کروں؟ اور وہ(شوہر) بھی یہی سوچتا ہے! آپ شروعات کریں، آپ اچھا برتاو کریں. کسی شادی پہ جانے کے لیے مت سجا کریں، اپنے شوہر کے لیے سجا سنورا کریں، چاہے آپ کے چار بچے ہیں. باہر بہت شیطان، اور فتنہ ہے،آپ کے شوہر کو آپ میں خوبصورتی نظر آنی چاہیے، کہیں اور نہیں. اور آپ (شوہر) ان کی تعریف کیا کریں، ان سے اچھی گفتگو کیا کریں، ہر وقت شکایت مت کرتے رہا کریں، کہ میری چابی کہاں ہیں، اس میں نمک کم ہے، اس میں یہ زیادہ ہے! Stop!! اس سے اچھی گفتگو کیا کریں. اور میں جانتا ہوں ہمارے انڈین، پاکستانی کے لیے یہ بہت مشکل ہے. آپ کے لیے اپنی بیوی کو کچھ اچھا کہنا بہت مشکل ہے،ہمارے کلچر میں اگر آپ اپنی بیوی کو کچھ اچھا کہہ دیں تو درد شروع ہوجاتی ہے اس لیے آپ فوراً کچھ برا کہہ کر توازن قائم کرتے ہیں. (یہ طنز کیا گیا ہے)
یہ دعا ہے، کہ ہمیں اپنی فیملی سے اتنی خوشی ملے کہ ہمارا رونے کو جی چاہے،مگر یہ کیسے ہوگا؟ ایک بات یاد رکھیں، کہ اگر آپ اللہ سے مانگتے ہیں اور خود محنت نہیں کرتے تو کچھ نہیں ہوگا. آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ اللہ سے نماز پڑھنے کے لیے دعا کرتے رہیں اور خود آذان کے وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہیں. ایسے تو کچھ نہیں ہوگا. یہ ممکن نہیں کہ دعا کرتے ہی اچانک سے وہ ہونے لگ جائے گا، آپ کو محنت کرنا ہوگی. ہماری امت پہ یہ لازم ہے کہ وہ اپنی فیملی کو فِکس کرے. اور جانتے ہیں جب ہماری اولاد دیکھتی ہے کہ ماں باپ جھگڑ رہے ہیں، تو وہ بگڑنے لگ جاتی ہے. وہ دیکھتی ہے کہ دونوں کی آپس میں بنتی نہیں تو وہ اس کا فائدہ اٹھاتی ہے، جس کام پہ باپ رضامند نہ ہو اس کے لیے ماں کو منالیں گے، اور ایسے ہی باپ کے ساتھ بھی کریں گے اور کیونکہ ماں باپ کی آپس میں بنتی نہیں تو انہیں خبر بھی نہ ہوگی کہ کیا ہورہا ہے. پر اگر میاں بیوی ایک ٹیم بن جائیں، تو ان کی اولاد کہیں نہیں جا سکتی. اور ہمیں یہ سب کیوں کرنا چاہیے؟ کیوں اولاد کی پرورش پہ توجہ دینی چاہیے؟ کیوں اچھا شوہر بننا چاہیے؟ کیونکہ، واللہِ! آپ اچھے شوہر بنیں گے تو آپ کا بیٹا ایک اچھا شوہر بنے گا. آپ ایک اچھی بیوی بنیں گی، تو آپ کی بیٹی ایک اچھی بیوی بنے گی. اور اگر آپ نہیں ہیں، تو آپ برے خاندان بنائیں گے. اور اس میں آپ کی غلطی ہوگی. اور اس کے بعد ہم کہتے ہیں: وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا "ہمیں امام/لیڈرز بناو ان لوگوں کا جن میں تقوی ہے. آسان لفظوں میں، جس کا بھی گھر بار ہے وہ اپنے گھر کا امام ہے، آپ کی مسجد کا امام ہوتا ہے، اور ہر گھر کا بھی امام ہوتا ہے،آپ اپنے گھر کے امام ہیں. اور آپ کو س بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ آپ کے گھر والے متقین ہیں. اللہ نے کیوں کہا " وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا" ؟ قیامت کے دن جب میں اللہ کے آگے حاضر ہوں گا، تو میری حیثیت اپنے گھر والوں پہ امام کی ہوگی، وہ مجھ سے جڑے ہونگے، اگر میں نے اپنا فرض، اور اپنا کام صحیح سے سرانجام نہ دیا ہوگا، اور انہوں نے میری وجہ سے غلطیاں کی ہونگی تو اس کا بار مجھے بھی اُٹھانا پڑےگا. مجھے ان ہی کے ساتھ نیچے گھسیٹا جائے گا. پر اگر میں نے اپنی اولاد کی صحیح طریقے سے پرورش کی ہوگی، اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہوگا، اور پھر وہ اللہ کے دین کی خدمت کرتے رہے، نیک اعمال کرتے رہے، تو اللہ انہیں اوپر اُٹھائے گا، اور کیونکہ میں ان سے جُڑا ہوا ہوں تو ان کے ساتھ مجھے بھی اٹھایا جائے گا. ہم اس لیے اللہ سے متقین کے اوپر امام بننے کی دعا کرتے ہیں. کیونکہ روز قیامت ہمیں اس کی ضرورت ہوگی.
میں اصل میں پاکستان سے ہوں، اور میں ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جو بہت زیادہ مذہبی نہیں ہے، اکثر پاکستانی خاندان ایسے ہی ہیں، کہ کچھ لوگ کافی مذہبی ہیں اور کچھ نہیں. جب میں نے اسلام کے بارے میں پرھنا شروع کیا تو میرے کزنز اور خاندان کے کچھ اراکین کو ذرا جھٹکا لگا تھا. کہ تم داڑھی کیوں رکھ رہے ہو؟ ہم تو نہیں رکھتے. تمہاری بیوی نے حجاب کیوں لیا ہے؟ تم ریگولر کیوں نہیں رہتے، کہ تم "نارمل" ہماری طرح کیوں نہیں زندگی گزارتے! کیونکہ عام طور پر عورتیں اب حجاب نہیں لیتیں، اور مرد بھی ایسے ہی ہیں. اور کبھی نماز ادا کرلی کبھی نہیں کی، کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا. آپ کسی شادی پہ چلے جائیں عصر کے وقت، مغرب اور عشاء اسی میں قضاء ہوجاتی ہیں اور کسی کو پرواہ نہیں ہوتی. گانے چل رہے ہیں، کوئی مسئلہ ہی نہیں. اور پھر وہ کہتے ہیں "تم روایت چھوڑ رہے ہو، تم ہماری طرح کیوں نہیں رہتے، تم مولوی کیوں بن رہے ہو؟" پر اگر آپ اپنے آباو اجداد کو دیکھیں، ان کی پرانی تصاویر دیکھیں، تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ان بلیک اینڈ وائٹ تصویروں میں آپ کے پردادا کی لمبی سی داڑھی ہے اور پردادی کے چہرے پہ نقاب ہوتا ہے. "وہ ہماری روایت ہے". نسب میں سے کسی نے فیصلہ کیا کہ وہ اسلام کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے، اور پھر ان کی اولاد نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سے بھی کم سنجیدگی سے لیں گے..اور ایسا چلتا رہتا ہے حتیٰ کہ ایک مقام آتا ہے جہاں وہ مسلمان بھی نہیں رہتے. میں ایک قرآن کانفرنس پہ تھا Las Vegas میں، اور وہاں میں ایک وائٹ میاں بیوی سے ملا جو بہت ہی ضعیف تھے. ان کی عمر 90 سال ہوگی، سنہری بال، نیلی آنکھیں،اور وہ مسجد آئے تھے. میں نے ان سے پوچھا آپ کیا کر رہے ہیں یہاں؟ وہ کہتے "ہم نے پچھلے سال ہی اسلام قبول کیا ہے. اور ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی وفات سے قبل جتنے مسلمانوں سے ہوسکا ملیں گے. اس لیے ہم امریکہ کی ہر مسجد میں جا کر ٹھہرتے ہیں. ہم نے ohio سے شروعات کی تھی اور اب ہم vegas میں ہیں اب آگے California جائیں گے." میں نے پوچھا آپ مسلمان کیوں بنے؟ انہوں نے کہا: میں اپنا شجرہ نسب دیکھ رہا تھا اور مجھے معلوم ہوا کہ ہم اصل میں لبنان سے تعلق رکھتے ہیں، اور میرے پردادا جو امریکہ منتقل ہوگئے تھے وہ اصل میں مسلمان تھے. مگر پھر ان کے بیٹے نے (میرے دادا) نے ایک عیسائی سے شادی کرلی، پھر ان کی اولاد نے اسلام اور عیسائیت کے درمیان پرورش پائی،اور انہوں نے عیسائیت کو قبول کرلیا. اور پھر ہماری پرورش عیسائیت سے ہوئی. میں کرسچن تھا، میری اولاد بھی کرسچن تھی. مگر جب میں نے اپنے نسب کو دیکھا تو سوچا کہ میرے پردادا مسلم کیسے تھے، اور دین اسلام ہے کیا؟ میں نے اسلام کے متعلق پڑھنا شروع کردیا اور ایسے میں اسلام کی طرف آگیا! سبحان اللہ! اور کتنے لوگ اسلام چھوڑدیتے ہیں، اور اسلام چھوڑنے کے لیے ضروری نہیں آپ کرسچن یا یہودی بنیں.کیا یہ کافی نہیں کہ ہم اب نماز بھی نہیں پڑھتے؟ ہمارے بچے ہیں جو نماز ہی نہیں پڑھتے؟ اللہ نے قرآن میں فرمایا " فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّى" "اور نا ایمان لایا وہ اور نہ نماز پڑھی اس نے". ایمان لانے کا ثبوت یہ ہے کہ نماز پڑھی جائے. آپ نہیں پڑھتے، یعنی آپ کو نہیں لگتا کہ یہ حق ہے! وَلَكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى بلکہ جھٹلایا اور منہ پھیرلیا. نماز سے منہ پھیرلیا.

یہ عباد الرحمن کی خصوصیات ہیں (اب تک جو بیان کی گئی ہیں) آگے اللہ ان کے متعلق کیا فرماتا ہے؟
أُوْلَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلامًا
"یہی وہ لوگ ہیں جو پائیں گے اونچے محل بدلہ میں اپنے صبر کے اور استقبال ہوگا ان کا وہاں آداب و تسلیمات سے"
عباد الرحمن جنہوں نے اپنا غصہ قابو میں رکھا،اور جنہوں نے راتوں کو اٹھ کر نماز ادا کی، اور جنہوں نے جہنم سے پناہ مانگی، اور جو اصراف نہیں کرتے، اور جو قتل نہیں کرتے، زنا نہیں کرتے، شرک نہیں کرتے... اور جو نہیں گواہ بنتے جھوٹ کے، گزرجاتے ہیں بیہودہ کاموں کے پاس سے.. اور جنہیں نصیحت کی جاتی ہے ان کے رب کی آیات سنا کر تو بہرے اندھے بن کر نہیں گزرتے، اور جو دعا مانگتے ہیں نیک بیوی/شوہر کی اور اولاد کی..

اللہ سبحان و تعالی انہیں ان کے صبر کے بدلے میں اونچے، بلند و بالا محل دے گا. یہ سب خصوصیات صبر مانگتی ہیں، اور صبر کا معنی کیا ہے؟ "صبر ثابت قدمی کو کہتے ہیں." کچھ لوگ رمضان میں بہت نیک مسلمان بن جاتے ہیں،مگر ان میں رمضان کے بعد اس کیفیت کو جاری رکنھے کا صبر نہیں ہوتا. آپ میں یہ خصوصیات ہوسکتی ہیں، پر اگر آپ کہیں کہ میں یہ کام دو مہینوں سے کر رہا ہوں اور اب مجھ سے نہیں ہوتا، یہ صبر نہیں ہے. صبر کا مطلب ہے جب آپ ان میں سے کسی ایک خصوصیت کو پوری زندگی کے لیے اپنا لیتے ہیں. اگر آپ اسے لائف اسٹائل چوئس بنالیتے ہیں، پھر ان لوگوں کو جنت ملتی ہے.
وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلامًا
اور ان کا استقبال کیا جائے گا، جب وہ جنت میں داخل ہورہے ہونگے، فرشتے ان کے منتظر ہونگے، ان کا استقبال کریں گے.
خَالِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا
وہ ہمیشہ رہیں گے اس میں. کیا ہی اچھا مقام ہے وہ قلیل مدت کے لیے اور ہمیشہ رہنے کے لیے

آپ وہاں عارضی طور پہ نہیں جائیں گے بلکہ ہمیشہ وہاں رہیں گے. وہ آپ کا گھر ہوگا.. اور کتنا ہی اچھا ٹھکانا ہے وہ چاہے قلیل مدت کے لیے ٹھہرا جائے یا ہمیشہ وہاں رہا جائے. اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں قلیل مدت کیوں کہا گیا؟ جنت کے متعلق تو فرمایا تھا کہ ہمیشہ اس میں رہیں گے. مگر اس مقام کے لیے " مُسْتَقَرًّا" کیوں کہا؟ کیونکہ ممکن ہے، اللہ آپ کے درجات بلند کردے اور آپ کو اپ گریڈ کردے! سبحان اللہ!
سورہ الکھف میں جنت کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے " ماکثین فیه ابدا" عربی میں ماکث کہتے ہیں جب کوئی کسی چیز کا انتظار کر رہا ہو اور بہت پرجوش ہو" اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ "ہم مسلسل انتظار کریں گے پرجوش ہو کر". جانتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے؟ کہ وہاں آپ کو ایک پھل ملے گا تو آپ اگلے پھل کا پرجوش ہو کر انتظار کرنے لگ جائیں گے، ایک محل دیکھیں گے اس کے بعد دوسرا دکھایا جائے گا اسلیے آپ اس کے لیے پرجوش رہیں گے. اور یہ کیفیت مسلسل ہوگی، کیونکہ آپ مسلسل اپ گریڈ ہوتے رہیں گے. ہمیشہ کے لیے!
میں نے ان آیات کو شیئر کیا آپ کے ساتھ کیونکہ میں چاہتا ہوں آپ اور آپ کہ فیملی عباد الرحمن بنے. اللہ نے یہ نہیں کہا کہ آپ یہ سب کریں، اس نے فرمایا کم از کم اس میں سے ایک دو خصوصیات کو ضرور اپنائیں، تاکہ میں تمہیں عباد الرحمن کہہ سکوں.
اللہ عزوجل ہمیں عباد الرحمن بنائے، اس کمیونٹی میں مسلمانوں کی زندگی میں برکت ڈالے. اللہ عزوجل آپ کے لیے آپ کی فیملی کے لیے، سب بہن بھائیوں کے لیے قرآن سیکھنا اور رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت کو سیکھنا آسان بنادے. آمین.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں