نفس مضمون بناتے ہیں ، بدل دیتے ہیں
کتنے عنوان سجاتے ہیں ، بدل دیتے ہیں

تیرے آنے کی خبر سنتے ہی ، گھر کی چیزیں
کبھی رکھتے ہیں ، اٹھاتے ہیں، بدل دیتے ہیں

حسن ترتیب تسلی نہیں دیتا دل کو
گل سے گلدان سجاتے ہیں ، بدل دیتے ہیں

گفتگو کو یونہی محتاط بنانے کے لیے
لفظ ہونٹوں پہ جو لاتے ہیں ، بدل دیتے ہیں

ہم ہیں بے کل سے انہیں جب سے یہ معلوم ہوا
وقت آنے کا بتاتے ہیں ، بدل دیتے ہیں

چاندنی رات میں آتے ہیں ستارے چل کر
اور تقدیر بناتے ہیں ، بدل دیتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں