غُرور بیچیں گے ، نہ اِلتجا خریدیں گے
نہ سر جھکائیں گے ، نہ سر جھکا خریدیں گے

قَبول کر لی ہے ، دیوارِ چین آنکھوں نے
اب اَندھے لوگ ہی ، رَستہ نیا خریدیں گے

جھُکیں تو اُس کو ’’سخاوت‘‘ لگے یہ جھُکنا بھی!۔
اب اَپنے قَد کا ’’کوئی‘‘ دیوتا خریدیں گے

یہ ضدی لوگ ہیں اِن سے وَفا کی نہ رَکھ اُمید
جفا گُزیدہ ، مُکرّر جفا خریدیں گے

پھر اُس ’’ہُجوم‘‘ کا ، قبلہ دُرست ہو کیسے
جو قبلہ بیچ کے ، قبلہ نُما خریدیں گے

ہم اپنے شَہر کی ، ملکۂ حُسن کی خاطر
تمہارے شَہر سے ، اِک آئینہ خریدیں گے

مری کتاب ہے ، اور اُس حسیں کی تصویریں!۔
مجھے پتہ تو چلے ، آپ کیا خریدیں گے

خریدتے رہے ہم ’’سادہ پانی‘‘ گر یونہی
وُہ دِن بھی آئے گا ، ہم سب ’’ہو۱‘‘ خریدیں گے!۔

ہر ایک چیز ، برائے فروخت رَکھ دیں گے
تمہارے پیار کی ، ہم اِنتہا خریدیں گے!۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں