اُس ادا سے بھی ھوں میں آشنا، تجھے اتنا جس پہ غرور ھے
میں جیوں گا تیرے بغیر بھی، مجھے زندگی کا شعور ھے

نہ ھوس مجھے مئے ناب کی، نہ طلب صبا و سحاب کی
تِری چشم ناز کی خیر ھو، مجھے بے پیے ھی سرور ھے

جو سمجھ لیا تجھے بے وفا، تو اس میں، میری بھی کیا خطا
یہ خلل ھے میرے د ماغ کا، یہ میری نظر کا قصور ھے

کوئی بات دل میں وہ ٹھان کے، نہ الجھ پڑے تیری شان سے
وہ نیاز مند جو کہ سر بہ خم، کئی دن سے تیرے حضور ھے

میں نکل کے بھی تیرے دام سے، نہ گروں گا اپنے مقام سے
میں قتیل جور و ستم سہی، مجھے تم سے عشق ضرور ھے

قتیل شفائی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں