نیکیاں قبول یا مسترد ہونے کی علامات اور ہدایات - خطبہ جمعہ مسجد نبوی


نیکیاں قبول یا مسترد ہونے کی علامات اور ہدایات 

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر  جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے17-ذوالحجہ-1438  کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں "نیکیاں قبول یا مسترد ہونے کی علامات اور ہدایات" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس  میں انہوں نے سعادت حج پانے والوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا کہ کائنات کی تخلیق کا مقصد اللہ کی عبادت ہے، اور عبادت کی قبولیت کیلیے جد و جہد از بس ضروری ہے، چنانچہ عدم ایمان کے باعث کافر اور منافق کا کوئی بھی عمل  آخرت میں فائدہ نہیں دے گا البتہ انہیں دنیا میں پورا بدلہ دے دیا جائے گا،  عمل کی قبولیت کیلیے اخلاص اور اتباعِ سنت  لازمی امور ہیں،  اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ نیکی کا مقصود  اور مطلوب صرف رضائے الہی ہو ، جس کے لیے نیت  بنیادی کردار کی حامل ہے؛ کیونکہ نیت کی وجہ سے چھوٹا عمل بھی بڑا بن جاتا ہے۔

خطبے سے منتخب اقتباس پیش ہے

ایک اللہ کی عبادت  تخلیق کائنات اور حاکمیت الہی کا مقصود ہے، اسی سے دھرتی کی آبادکاری ہو گی اور انسانیت خوشحالی پائے گی، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} 
جو بھی مرد یا عورت ایمان کی حالت میں نیک عمل کرے تو ہم اسے خوشحال زندگی بسر کروائیں گے اور ہم انہیں ان کے بہترین اعمال کا ضرور اجر دیں گے۔[النحل: 97]

 اور چونکہ اللہ تعالی پاک ہے اس لیے قبولیت بھی پاکیزہ چیزوں کو عطا کرتا ہے، لہذا عمل صالح کو اپنے ہاں بلند فرما کر اسے قبول فرماتا ہے۔

اللہ پر ایمان اور اعمال میں حصولِ رضائے الہی کی کوشش کرنا قبولیت کی بنیاد  ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا}
 اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور ایمان کی حالت میں کما حقہ اس کی کوشش بھی کرے  تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی پوری قدر کی جائے گی [الإسراء: 19]

جبکہ کافر کوئی بھی عمل کر لے اس اعمال آخرت میں قبول نہیں ہوں گے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا}
 اور ان کے اعمال کی جانب بڑھ کر ہم انہیں اڑتی ہوئی دھول بنا دیں گے۔[الفرقان: 23]

کافر کو دنیا میں ہی اس کے اچھے کاموں کا صلہ دے دیا جاتا ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے: (کافر کو اللہ کے لیے کیے ہوئے اعمال کے عوض  دنیا میں ہی کھلا پلا دیا جاتا ہے، حتی کہ جب  کافر آخرت میں پہنچتا ہے تو جزا پانے کیلیے  اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہوتی) مسلم

عبادت ؛نیت  اور عمل  کا نام ہے، عبادت کی قبولیت  اخلاص اور عمل کی عمدگی سے مشروط ہے، اخلاص ِ نیت سے  مقاصد  میں اور اتباع سنت سے  عمل میں عمدگی حاصل ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا}
 پس جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو وہ نیک عمل  اور کسی کو بھی اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک مت بنائے۔ [الكهف: 110]

فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:  "اگر کوئی نیکی اللہ کے لیے خالص تو ہو لیکن طریقہ صحیح نہ ہو تو وہ مقبول نہیں ہوتی اور اگر طریقہ صحیح ہو لیکن اللہ کے لیے خالص نہ ہو تو تب بھی قبول نہیں ہوتی، چنانچہ نیکی اسی وقت قبول ہوتی ہے جب اللہ کے لیے خالص بھی ہو اور طریقہ بھی صحیح ہو۔ اور نیکی اللہ کے لیے خالص صرف اسی وقت ہو گی جب اللہ کی رضا کےلیے کی جائے اور صحیح اسی وقت ہو گی جب عین سنت کے مطابق ہو"

خلوص دل قبولیت کیلیے اساس ہے، اسی سے اعمال میں بہتری ممکن ہوتی ہے، بلکہ اعمال کا دار و مدار ہی نیت پر ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ انسان صرف نیت سے اتنا بلند مرتبہ پا لیتا ہے کہ عمل کرنے سے بھی نہیں پا سکتا ، اسی طرح بہت سے معمولی کام خالص نیت کی وجہ سے بڑے بن جاتے ہیں اور بہت سے بڑے کام نیت کی وجہ سے معمولی بن جاتے ہیں۔

نیکی کی قبولیت کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ضروری امر ہے، اتباع کے بغیر کوئی بھی کام مردود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:  (کوئی بھی ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں تھا تو وہ مردود ہے) متفق علیہ

تقوی؛ نیکی کی قبولیت کا ذریعہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ} 
بیشک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے[المائدة: 27] 
اسی لیے ایک مسلمان بہت زیادہ اندیشہ رکھتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں شمار نہ ہو جائے جن کی عبادات قبول نہیں ہوتیں۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : " اگر مجھے یہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالی نے میری ایک نماز ہی قبول فرما لی ہے تو یہ میرے لیے دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ} 
بیشک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے[المائدة: 27]"

نیکی کے بعد پھر نیکی پہلی نیکی کیلیے قبولیت کی علامت ہوتی ہے،  فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ}
 اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں بڑھا دیا ہے اور انہیں ان کی پرہیز گاری عطا فرمائی  [محمد: 17]

حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نیکی کے بدلے میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے بعد مزید نیکیاں کرنے کی توفیق ملے، اور بدی کی سزا میں یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مزید گناہ  سر زد ہوں" البتہ گناہ کے بعد نیکی کی جائے یہ تو بہت ہی اچھی بات اس سے گناہ دھل جاتا ہے، جبکہ نیکی کے بعد گناہ کریں  یہ بہت ہی برا عمل ہے کہ اس سے نیکی مٹ جاتی ہے۔

اگر کسی شخص کی نیکیوں میں اضافہ نہ ہو رہا ہو تو اس کی نیکیوں میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

نیکی پر ثابت قدمی اور دائمی عمل انسان کے کامیاب اور بھلائی پر ہونے کی دلیل ہے، ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ اللہ تعالی کا کرم سے بھر پور قانون ہے کہ  جو شخص جس کام پر زندگی گزارے اس کی موت بھی اسی پر آتی ہے، اور جس کی موت جس کام پر آئے اسے روزِ قیامت اسی پر اٹھایا جائے گا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ  کسی بھی نیکی کے کام کو ہمیشہ کرتے تھے، اور جب کوئی کام ایک بار کر لیتے تو اس پر قائم ہو جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو) متفق علیہ

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: " عمل کی قبولیت کی یہ علامت   ہے کہ آپ کے دل میں نیکی معمولی نظر آئے ، اسی لیے معرفتِ الہی رکھنے والا شخص  نیکی کے بعد بھی اللہ تعالی سے استغفار کرتا ہے ، بلکہ آپ ﷺ بھی نماز سے سلام پھیرتے تو استغفار کرتے، اللہ تعالی نے حج کے بعد بھی استغفار کا حکم دیا ہے، اسی طرح قیام اللیل کے بعد استغفار  کرنے والوں  پر ان کی مدح سرائی فرمائی، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے بعد بھی توبہ اور استغفار کیا، چنانچہ اگر کوئی شخص اپنے پروردگار کے حقوق اور اپنی کم مائیگی اور کوتاہی کو سمجھ جائے تو اسے پروردگار کے سامنے استغفار کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آئے گا، وہ اپنے آپ کو ہی ابتر اور کمتر   قرار دے گا۔ "

نیکی کی قبولیت کیلیے اہم ترین ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی سے قبولیت کا سوال کریں، چنانچہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام دونوں ہی بیت اللہ  کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے اللہ سے دعا کرتے ہیں:
 {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ} 
ہمارے پروردگار! ہم سے قبول فرما لے، بیشک تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔[البقرة: 127]

مسلمان قبولیت کی شدید چاہت رکھتا ہے اور اس کےلیے خوب کوشش کرتا ہے، نیز  اعمال ضائع ہونے سے بچانے کیلیے مسلمان  مکمل طور پر متنبہ بھی رہتا ہے؛ کیونکہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بندہ نیک عمل کر لے اور بس بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان اپنی نیکی کو کسی بھی ایسے اقدام سے بچائے جو نیکی کے ضائع ہونے کا باعث ہو۔

اسی میں یہ بھی شامل ہے کہ جن اعمال کا بدلہ آخرت میں ملنا ہے ان اعمال سے دنیاوی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ (15) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}
 اور جو دنیاوی زندگی اور دنیاوی چمک دمک کا متلاشی ہو تو ہم اسے اس کے پورے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیتے ہیں   اور ان کے بدلے میں بالکل بھی کمی نہیں کی جاتی [15] یہی لوگ ہیں جن کیلیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ہے، ان کی تمام کارکردگی آخرت میں ضائع  اور ان کے تمام اعمال کالعدم ہوں گے۔[هود: 15، 16]

اپنی آواز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند سمجھنا بھی اعمال کے ضائع ہونے کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُون}
 اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند  نہ کرو اور نہ ہی اس کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال  برباد ہو جائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو [الحجرات: 2]

  ابن قیم رحمہ اللہ  کہتے ہیں: " تو اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ، سنت اور طریقے پر کسی دوسرے  کی بات  اور طریقے کو مقدم سمجھے!! "

عبادت کرنا اور پھر عبادت کو تحفظ فراہم کرنا ضروری امر ہے، پھر موت آنے تک عبادت پر قائم رہنا شریعت کی اساسی تعلیم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ} 
اور اپنے پروردگار کی عبادت کر یہاں تک کہ آپ کو موت آ جائے۔[الحجر: 99] 
اس لیے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ کسی بھی نیکی کے کام سے بے رغبتی مت کرے چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اسی طرح ہر قسم کی برائی سے دور رہے چاہے  وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ  کون سی نیکی کے باعث اللہ تعالی  اس پر رحم فرما دے اور کون سی برائی کی وجہ سے اللہ تعالی اس پر غضب ناک ہو جائے۔ تمام عبادات  میں مسلمان کی ذمہ داری  ہے کہ امید اور خوف کے مابین رہے تاہم اپنے دل کو اللہ تعالی کی محبت سے سرشار  رکھے اور اللہ تعالی سے خیر کی امید کرے۔

مسلمانو!

نیکی کی قبولیت کو نیکی کرنے سے زیادہ اہمیت دیں، اس لیے کسی بھی ایسے اقدام سے پرہیز کریں جو نیکی کو تباہ و برباد کر دے یا اس میں کمی کا باعث بنے۔

نیکی کرنے والے شخص کو اللہ کا شکر کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اسے نیکی کرنے کی توفیق دی نیز اللہ تعالی سے مزید نیکیوں کےلیے ثابت قدمی کا طلب گار بھی رہے، اس لیے نیکی کا تحفظ نیکی کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ اور ہر معاملے میں اختتام معتبر ہوتا ہے۔

یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا اللہ! مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! حجاج کرام کا حج قبول فرما، یا اللہ! ان کے حج کو مبرور بنا، ان کی جد و جہد قبول فرما، ان کے گناہ معاف فرما، یا اللہ! ان تمام مرادیں پوری فرما اور انہیں وہ سب کچھ عطا فرما جو انہوں نے تجھ سے مانگا ہے۔

آمین یا رب العامین!!



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں