ماہِ شعبان میں رسول ﷺ کا طرز عمل - خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 12 اپریل 2019


ماہِ شعبان میں رسول ﷺ کا طرز عمل 
 خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) 
07 شعبان 1440 بمطابق 12 اپریل 2019
امام وخطیب: ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 07 شعبان 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "ماہِ شعبان میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان میں بہت کم روزے چھوڑتے اور زیادہ تر ایام روزوں میں گزارتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اس ماہ میں اعمال اللہ تعالی کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں اس لیے میں روزے کی حالت میں رہنا پسند کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ دو فضیلت والے مہینوں رجب اور رمضان کے درمیان شعبان کے مہینے سے لوگ غافل رہتے ہیں۔ سلف صالحین اس مہینے میں ماہ رمضان کی تیاری کے لئے قرآن مجید کو بہ کثرت یاد کرتے تھے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ شعبان کے آخری دنوں میں رمضان کے لئے احتیاط کے نام پر روزے رکھنا صریح حدیث کی مخالفت ہے، ایسے ہی شک کے دن کا روزہ رکھنا بھی صحیح نہیں، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: ایسی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے کہ جس میں نصف شعبان کی رات یا دن کو کوئی مخصوص عبادت کرنے کی تخصیص ہو، پھر آخر میں انہوں نے جامع دعا فرمائی۔

►منتخب اقتباس ◄

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں وہ نیک لوگوں کا والی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی الٰہ الحق اور ہر چیز واضح کرنے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے ، چنیدہ نبی اور امام الانبیاء و المرسلین ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔

اللہ کے بندو!

ماہ شعبان بھی دیگر مہینوں کی طرح ہے کہ مسلمان اس میں اللہ کی جانب سے فرض کردہ ا مور بجا لائے، اللہ تعالی کی اطاعت کرے ، تمام تر گناہوں اور حرام کاموں سے اپنے آپ کو بچائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ} 
اللہ کی جانب ہی استقامت اختیار کرو اور اسی سے بخشش مانگو۔[فصلت: 6]

مزید یہ کہ ماہ شعبان کے ایسے فضائل ہیں جن پر مومن کو فوری طور عمل پیرا ہو جانا چاہیے، انہیں پانے کے لئے موقعے کو غنیمت جانے، چنانچہ بخاری اور مسلم میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ -اللہ تعالی ان سے اور ان کے والد سے بھی راضی ہو-کہتی ہیں کہ: (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماہ رمضان کے علاوہ کسی بھی مہینے میں پورے ماہ کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے بڑھ کر کسی مہینے میں [نفل] روزے رکھتے ہوئے دیکھا )

بخاری اور مسلم ہی کی ایک اور روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان سے بڑھ کر کسی بھی مہینے میں [نفل] روزے نہیں رکھتے تھے؛ کیونکہ آپ اس پورے مہینے کے روزے رکھتے) تاہم پورے مہینے کے روزے رکھنے کی روایت اکثر اور زیادہ تر دنوں کے روزے رکھنے پر محمول کی گئی ہے، جیسے کہ ابن مبارک اور ابن حجر رحمہما اللہ وغیرہ نے اس کی وضاحت کی ہے؛ کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند دنوں کے علاوہ مکمل شعبان کے روزے رکھتے تھے)

اسلامی بھائیو!

اس مہینے کے دوران ایسے کام کرنے میں بالکل تاخیر نہ کرو جو تمہیں اللہ عزوجل کے قریب کر دیں، کیونکہ اس مہینے کی فضیلت ہے، اس مہینے کا سلف صالحین کے ہاں ماہِ قرّاء نام مشہور تھا؛ کیونکہ قرائے کرام کثرت کے ساتھ اس ماہ میں قرآن کریم کی دہرائی کرتے ہیں اور تلاوت قرآن کے لئے یکسو ہو جاتے ہیں۔ اس ماہ میں قرائے کرام قیام رمضان کی تیاری کے لئے کثرت سے قرآن کریم یاد کرنے کی پابندی کرتے ہیں۔

اس لیے تاخیر مت کریں، فوری اور جلدی سے اس ماہ کو متنوع عبادات، نوافل اور نیکیوں سے معمور کر دیں، چنانچہ امام احمد اور نسائی نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: " اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں رکھتے ہیں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ وہ مہینہ ہے کہ رجب اور رمضان کے درمیان آنے کی وجہ سے لوگ اس سے غفلت کر جاتے ہیں، حالانکہ یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں رب العالمین کے ہاں انسانوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں۔) اس حدیث کو امام احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اہل علم نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

جبکہ مسند احمد، سنن ابو داود اور نسائی وغیرہ میں جو حدیث آئی ہے کہ : (جب شعبان آدھا رہ جائے تو روزے مت رکھو) اس کے بارے میں اکثر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند اور متن دونوں ہی محقق علمائے کرام کے ہاں منکر ہیں، نیز جن اہل علم نے اسے صحیح قرار دیا بھی ہے تو ان کے ہاں اس کا معنی یہ ہے کہ جس کی روزے رکھنے کی عادت نہیں ہے تو اس کے لئے شعبان آدھا رہ جانے پر رمضان کے لیے احتیاط کے نام پر روزے رکھنا مکروہ ہے، بلکہ بعض اہل علم کے ہاں یہ احتیاط بدعت ہے۔

اس لیے اللہ کے بندو! اس ماہ میں اور دیگر مہینوں میں اپنے اوقات کو ایسے کاموں سے معمور رکھو جو تمہیں اللہ تعالی کے قریب کر دیں، نیکیوں اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ} 
اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی جانب بڑھو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جسے متقین کے لئے تیار کیا گیا ہے۔[آل عمران: 133]

اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ}
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لئے کیا پیش کیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ یقیناً اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ [الحشر: 18]

اہل ایمان!

نصف شعبان کی رات کو قیام اور دن کو صیام کے ساتھ مختص کرنا ایسا کام ہے جس کی کوئی صحیح دلیل معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملتی، بلکہ بہت سے محققین اور علمائے کرام نے اس سے روکا ہے اور صراحت کے ساتھ اس عمل کو بدعت قرار دیا ہے۔

اگر کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے کہ جس میں ہے کہ: (اللہ تعالی نصف شعبان کی رات لوگوں پر نظر فرماتا ہے ، پھر مشرک اور عداوت رکھنے والے کے سوا سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔) تو اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ اس رات یا دن میں کو کوئی مخصوص عبادات کی جائیں۔


اللہ کے بندو!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا افضل ترین عبادت ہے۔ یا اللہ! ہمارے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں، برکتیں، اور سلامتی نازل فرما ۔

اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔

یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو ماہ رمضان نصیب فرما، یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو ماہ رمضان نصیب فرما، یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو ماہ رمضان نصیب فرما، یا اللہ! ماہ رمضان کو ہمارے لیے بابرکت بنا دے، یا رحمن!

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوقات تیری اطاعت میں صرف کرنے کی توفیق عطا فرما۔ تیرے قرب اور رضا کی جستجو میں صرف کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! مسلمانوں میں سے بہترین افراد کو ان کی حکمرانی عطا فرما، یا اللہ! انہی لوگوں کو زمام حکومت عطا فرما، جو تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیرا خوف ان کے دلوں میں ہیں۔ یا اللہ! انہی لوگوں کو زمام حکومت عطا فرما، جو تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیرا خوف ان کے دلوں میں ہیں۔ یا اللہ! شریر حکمرانوں کو خود ہی کفایت کر جا، یا اللہ! شریر حکمرانوں کو خود ہی کفایت کر جا، یا اللہ! شریر حکمرانوں کو خود ہی کفایت کر جا، یاحیی! یا قیوم!

یا اللہ! سب مومن اور مسلمان مرد و زن کی مغفرت فرما دے، یا اللہ! زندہ اور فوت شدہ سب کی مغفرت فرما دے۔

آمین یا رب العالمین!!


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں