اقتباس (ایموشنل ویمپائرز)
تحریر: محمد عامر خاکوانی
کالج کے زمانے میں ہمارا ایک دوست ہوا کرتا تھا، اب عرصہ ہوگیا اس سے رابطہ ہی نہیں رہا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ جتنی دیر ساتھ بیٹھتا، ایک سے بڑھ کر ایک مایوس کن منفی تبصرہ کر ڈالتا۔ جس موضوع پر بات ہوتی، اس کا منفی اور تاریک ترین پہلو سامنے لے آتا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کے جانے کے خاصی دیر بعد تک ہمیں اپنے آس پاس تاریکی، مایوسی اور فرسٹریشن کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دکھائی دیتا۔ آخر ہم نے اسے ایجنٹ آف ڈارک نیس (تاریکیوں کا نمائندہ) قرار دے کر اس سے بچنا شروع کر دیا۔ اس طرح کے منفی سوچ رکھنے والے بہت سوں سے بعد میں بھی واسطہ پڑا، یاسیت اور قنوطیت ان کی زندگی میں یوں چھائی ہوئی تھی کہ کہیں سے امید اور روشن کی کرن جھانک ہی نہ سکے۔ بعض دوستوں کے قریبی رشتے داروں میں ایسے منفی، مایوس سوچ والے کردار ملتے ہیں۔ ان بےچاروں پر ترس آتا کہ کسی دوست سے تو ملنا جلنا کم کیا جا سکتا ہے، گھر کے بندوں سے کیسے بچا جائے؟
ایسے لوگوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے والا پہلے سے زیادہ پریشان، مایوس اورنڈھال ہوکر اٹھتا۔ یوں لگتا جیسے انسان کے اندر کی مثبت توانائی، امید ، حوصلہ اور کچھ کرگزرنے کا یقین ان لوگوں نے کسی نادیدہ کنکشن کے ذریعے چوس لی ہے۔ پچھلے دنوں انٹرنیٹ پر ریسرچ کرتے ہوئے ایموشنل ویمپائر(Emotional Vampires) کی اصطلاح نظر سے گزری۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کا خون چوسنے کے بجائے ان کی پازیٹو انرجی، امنگ، قوت عمل اور امید کو کھینچ لیتے ہیں۔ اس اصطلاح کو سمجھنے کے بعد یہ ادراک ہوا کہ یہ سب کردار ایموشنل ویمپائرز ہی تھے۔
اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی تو یہ اندازہ ہوا کہ” ایموشنل ویمپائرز “والا معاملہ پاکستان جیسے ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم ہے، جس میں خاندان کے کئی لوگوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی برداشت کرنا پڑتا ہے، چھوٹے گھروں میں تو خاص طور پر چھپنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی ، جہاں کچھ وقت کے لئے پناہ مل سکے۔ دوسری بڑی وجہ تعلیم اور تربیت کا فقدان ہے۔ کم پڑھے لکھے لوگوں سے کیا شکوہ کریں، یہاں تو اچھے بھلے پڑھے لوگ بھی دوسروں کے معاملات، ان کی پرائیویسی میں دھڑلے سے مداخلت کرتے ہیں ۔ کس نے کیا کپڑے پہنے ، کیا ہیر سٹائل ہے، وزن زیادہ یا کم، کون سے مضمون پڑھنے ہیں، اپنی زندگی کے لئے کون سا کیرئر منتخب کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ .... یہ سب نہایت ذاتی معاملات ہیں اور ہر آدمی کی پرائیویسی میں شمار ہوتے ہیں۔یہ ایموشنل ویمپائرز مگر ایسی کسی اخلاقی پابندی ، حدود کے پابند نہیں۔ جہاں اور جسے جی چاہا اس پر حملہ آور کر دیا۔ اس کی عزت نفس، خود اعتمادی پاش پاش کر دی۔ اسے باور کرایا کہ تم تو کچھ نہیں کر سکتے، تم میں تو اس کی صلاحیت ہی نہیں وغیرہ ۔
سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کا تجزیہ کریں تو یہاں بھی اس طرح کی مخلوق جگہ جگہ نظر آئے گی۔۔ بہت کم لوگ مثبت، اصلاحی، امید سے پر تحریریں لکھتے ملیں گے۔ جن کے پاس کوئی نیا آئیڈیا، تجویز یا پلان ہو ، جو صرف تنقید کر کے وقت گزارنے کے بجائے عمل پر اکساتے ہوں اور ان کی تحریر پڑھنے کے بعد آپ اپنے اندر نئی توانائی محسوس کریں۔ ایسے اجلے، مثبت لوگ ہیں، خاصے ہیں، مگر ایموشنل ویمپائرز کی تعداد بھی کم نہیں ۔ ہوتا یہ ہے کہ جہاں کوئی مایوس کن واقعہ ہوا، ان ویمپائرز نے فرسٹریشن کا نل کھول دیا، کچھ ہی دیر میں اس مایوسی، غیر یقینی اور خودترسی کے جراثیم ہر جگہ پھیل جاتے ہیں۔
کہیں کسی مظلوم کو پولیس یا سرکاری اہلکاروں نے نشانہ بنایا تو پھر ایک نئے انداز سے یہ مایوسیاں اور تاریکیاں بانٹنا شروع ہو جائیں گی۔ کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ بیس کروڑ آباد ی کا ملک ہے، جس کی مختلف تہیں، پرتیں ہیں، ایک جگہ کا ماحول دوسرے سے مختلف ہے۔ جہاں کہیں غلط ہو، اس کی نشان دہی ضرور کرو، احتجاج کرو، مظلوم کا ساتھ دو، مگر یہ سب کچھ قوم پر لعنت ملامت کیے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔
ان ایموشنل ویمپائرز سے بچنے کے مختلف گر، تکنیک بتائی گئی ہیں۔ اپنی مثبت بیٹری خالی کرنے والے ان ویمپائرز سے فاصلہ رکھیں، جہاں رابطہ ناگزیر ہو، وہاں حکمت سے ہینڈل کریں۔ایک نصیحت تمام ماہرین نے کی کہ اپنے آپ پر یقین رکھیں، اعتماد نہ گرنے دیں اور مضبوطی مگر شائستگی سے بے جا مداخلت کرنے والے کو بتا دیں کہ آپ ان کی منفی باتوں میں دلچسپی نہیں رکھتے اور بن مانگے مشورے دینے کی زحمت نہ فرمائیں۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں