تکبر وغرور کا مفہوم اور اس کے اثرات
خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر سعود بن ابراھیم الشریم
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: دلیل ویب
خطبے کے اہم نکات
- لوگوں کے تصرفات ان کے ما فی الضمیر کی عکاسی کرتے ہیں۔
- دل کی اصلاح اور تطہیر کی ضرورت۔
- تکبر وغرور کے معانی اور اس کے اسباب۔
- خود اعتمادی اور غرور میں فرق۔
- تکبر وغرور ہی بدبختی اور گھاٹے کا سبب ہے۔
- تکبر وغرور کی بد ترین شکل الحاد ہے اور اس کی سب سے ہلکی صورت حق کا انکار اور اس کا رد ہے۔
- تکبر وغرور کا علاج۔
منتخب اقتباس
اللہ کی ویسی حمد وثنا بیان کرتا ہوں جیسی اس کی پکڑ سے ڈرنے والے شکر گزار کرتے ہیں۔ ہر طرح کی حمد وثنا اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہی آسمانوں کا پروردگار ہے، زمین کا پروردگار ہے اور سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔ اسی کا حکم چلتا ہے اور تم سب نے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اگلوں اور پچھلوں کے سردار ہیں۔ لوگوں کے لیے رحمت، گواہ، بشارت دینے والے، خبردار کرنے والے ، اللہ کی مرضی سے اس کی طرف بلانے والے اور روشن چراغ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اللہ کی رحمتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام پر، تابعین پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
اللہ کے بندو!
لوگوں کے اخلاق اور تصرفات، چاہے اچھے ہوں یا برے، بہر حال وہ ان کے دلوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے نفس برتنوں کی مانند ہیں اور برتن کی حیثیت اس میں ڈالی جانے والی چیز کے مطابق ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں پر غفلت یوں چھا گئی ہے کہ انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ اس دنیا میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ان کا گمان ہے کہ وقت کی چکی انہیں کبھی نہیں پیسے گی، بلکہ ان کے ارد گرد رہنے والوں کو بھی معاف کر دے گی۔ اس غفلت کا نتیجہ کینہ سے بھرے دلوں، عزتیں اچھالنے والی زبانوں اور ہر شے ملیامیٹ کرنے والے تکبر وغرور کی شکل میں سامنے آیا۔ جس سے اخلاقِ عالیہ یوں مٹ گئے جیسے کشیدہ لباس کی کشیدہ کاری مٹتی ہے۔ کسی کو معلوم نہ رہا کہ رحمت کیا ہے، سادگی کیا ہے نرمی کسے کہتے ہیں۔ عہدوں، جائیدادوں اور عزتوں کی کثرت ہی اہل دنیا کا پیمانہ بن گیا۔ لوگ بھول گئے کہ یہ چیزیں تو عارضی ہیں اور جلد ہی ان کی واضح تصویر مٹ جانے والی ہے۔ ان کا دلوں پر کوئی خاص اثر نہیں رہنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
(جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے) [الرعد: 17]۔
وہب بن مُنَبّہ رح نے مکحول رح کو جو خط لکھا تھا اس میں انہوں سے سچ لکھا تھا: ’’بعدازاں! تم نے اپنے ظاہری اعمال سے لوگوں کے یہاں ایک مقام اور مرتبہ حاصل کر لیا ہے، اب اپنے چھپے اعمال سے اللہ کے یہاں اپنا مقام ومرتبہ بنانے کی کوشش کر۔ یاد رکھ کہ یہ دونوں قسم کے مقام ایک دوسرے کو ختم کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں‘‘،
یہاں تکبر وغرور سے خبردار کیا گیا ہے۔ یہ جس کا ساتھی بنتا ہے، اس کا دین ودنیا تباہ کر دیتا ہے۔ جی ہاں! یہ غرور ہی ہے جو نیکیوں کو چاٹ جاتا ہے، جو عجز وانکساری کو قتل کر ڈالتا ہے، جو دشمنوں اور بد خواہوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔ اگر تکبر کرنے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ جس چیز سے وہ اپنے گھر کی ترمیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس سے اصل میں اس کا اپنا گھر تباہ ہو رہا ہے، تو وہ لمحہ بھر کے لیے بھی لباس تکبر زیب تن نہ کرے۔
جو اپنے نفس کی حیثیت جان لیتا ہے، وہ اسے وہیں رکھتا ہے جہاں اسے رکھنا چاہیے۔ وہ اس کی صحیح انداز میں رہنمائی کرتا ہے۔ وہ اس کی لگام بن جاتا ہے۔ ارد گرد رہنے والوں میں سے ہر صاحب حق کا حق ادا کرتا ہے۔ جبکہ تکبر وغرور جس چیز میں شامل ہوتا ہے، وہ اسے گندا کر دیتا ہے، کسی قوم میں پھیلتا ہے، تو انہیں رسوا کر دیتا ہے۔ اللہ کے بندو! یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ کیونکہ تکبر کا ایک قطرہ انکساری کے ایک چشمے کو گندا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ قاعدہ تو طے شدہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار سے نشہ ہوتا ہے، اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہی ہے۔
اللہ کے بندو!
تکبر وغرور کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ بندہ اپنی حیثیت کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اس کے پاس اپنے نفس کو جانچنے کے لیے صحیح پیمانا نہیں ہوتا۔ اسے لگتا ہے کہ وہ ان صلاحیتوں کا مالک ہے جو حقیقت میں اس میں نہیں ہوتیں، یا اللہ نے اسے کچھ صلاحیتیں دی ہوتی ہیں، مگر وہ ان کا شکر کرنے کی بجائے تکبر اور غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ناقابل قبول تصرفات کرنے لگتا ہے کہ جن کی کوئی صحیح بنیاد نہیں ہوتی۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ ایسے تصرفات کی بنیاد خود اعتمادی ہے، تو وہ غلطی پر ہے۔ کیونکہ تکبر اور خود اعتمادی میں بڑا واضح فرق ہے۔
خود اعتمادی کی وجہ صلاحیت کی موجودگی ہوتی ہے جبکہ تکبر کی وجہ صلاحیت کی کمی یا غیر موجودگی ہوتی ہے۔ غرور یہ ہے کہ انسان غیر حقیقی عظمت اور کمال کا دعویٰ کرے۔ خود اعتمادی ایک فطری چیز ہوتی ہے جس میں کوئی تکلف نہیں ہوتا، جبکہ تکبر وغرور مصنوعی اور خودساختہ ہوتا ہے۔ خود اعتمادی سے انکساری پیدا ہوتی ہے جبکہ غرور اس کے برعکس ہے، یہ انسان کو تکبر کی طرف دھکیلتا ہے۔
اللہ کے بندو!
خلاصہ یہ ہے کہ خود اعتمادی بلندی کی طرف جانے والے زینے ہیں۔ تکبر رسوائی کی طرف لیجانی والی گھاٹی ہے۔ کہا جاتا ہے: ’’خود اعتمادی اور غرور میں بس ایک بال ہی کا فرق ہے۔‘‘
خود اعتمادی تو ایک زندہ مقصد اور محبوب اخلاق ہے۔ خود اعتمادی رکھنے والا اپنے اندر کسی اچھی صفت کی موجودگی سے مطمئن ہوتا ہے۔ اس میں انکساری ہوتی ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس سے بہتر صفات کے حاملین بھی موجود ہیں اور وہ خود بہت سے لوگوں سے بہتر ہے۔ اگر اس کا یہ حال نہ ہو تو وہ اپنی حقیقی صلاحیتوں یا خوش فہمی کی بنیاد پر تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
یہی تو تکبر کی حقیقت ہے۔ تکبر اور خود اعتمادی کے درمیان جو ایک بال کا فاصلہ موجود ہے، وہ یہی ہے کہ خود اعتمادی رکھنے والا خود پسندی کا شکار نہ ہو جائے۔ یہ وہ بال ہے کہ جس کے ٹوٹنے کی صورت میں انسان پر تکبر یوں چھا جاتا کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس پر کوئی قدرت نہیں رکھتا۔ وہ اپنی حیثیت سے اندھا ہو جاتا ہے اور اپنے عیبوں سے بہرا ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے عیب تو کسی نے دیکھے ہی نہیں!
امام بیہقی کی حسن درجے کی سند کے ساتھ روایت کردہ حدیث میں ہے کہ: ’’تین چیزیں ہلاکت میں ڈلانے والی ہیں: وہ کنجوسی جس کی انسان پیروی کرنے لگے، ایسی خواہشات جن کے پیچھے انسان بھاگنے لگے اور انسان کی خود پسندی‘‘۔
اللہ کے بندو!
تکبر ایسا نشہ ہے جو خود پسندی کی اضافی خوراک کی وجہ سے انسان پر حملہ کرتا ہے۔ اس کی عقل کو اپنے پروردگار کے حق سے اور دوسروں کے حقوق سے اندھا کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کی تعظیم کرنے لگتا ہے، اس کے کمال اور پسندیدگی کے بارے میں الفاظ بارش برسانے لگتا ہے، پھر وہ اس قابل بھی نہیں رہتا کہ چیزوں کو ارد گرد رہنے والوں کی نگاہ سے دیکھ لے۔ وہ صرف اپنے آپ کو دیکھ پاتا ہے، وہ کسی کی نصیحت قبول نہیں کرتا، کسی یاد دہانی پر دھیان نہیں دیتا، بلکہ وہ تکبر کو خود اعتمادی اور اپنی عزت کا نام دیتا ہے، جبکہ دوسروں کی نصیحتوں اور یاد دہانیوں کو حسد اور دل کی بھڑاس کہتا ہے۔ وہ اپنی ہر غلطی اور کوتاہی کی کوئی نہ کوئی تاویل کر لیتا ہے اور دوسروں کی صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ وہ دوسروں کو ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کے محبوب ترین لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس کی باتوں کی گونج بن جائیں۔ اس طرح اس کی صفات مجموعی طور پر لوگوں کو قریب کرنے والی نہیں بلکہ انہیں دور بھگانے والی بن جاتی ہیں۔ اللہ کی قسم! غرور کرنے والے کی یہی ہلاکت اور اس کی فلاح کی یہی قبر ہے، کیونکہ وہ اپنے حق میں بھی کوتاہیاں کرتا ہے اور دوسروں کے ساتھ بھی زیادتی کرتا ہے۔ اپنے نفس کے حق میں وہ یہ کوتاہی کرتا ہے کہ اسے ضرورت سے زیادہ بڑا سمجھنے لگتا ہے، اسے اس کے جسم سے بڑی پوشاک پہناتا ہے۔ دوسروں پر زیادتی یوں کرتا ہے کہ انہیں واجب اہمیت سے کم توجہ دیتا ہے، اس طرح وہ دوہرے پیمانوں کا حامل بن جاتا ہے اور اخلاقی گراؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔
جو تکبر وغرور اور خود پسندی سے سعادت کا طالب ہوتا ہے، وہ یقینی طور پر رسوا ہوتا ہے اور ایسی چیزوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جو اس کی خواہشات کی عین ضد ہوتی ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے حقیقت میں مغرور لوگ سعادت سے محروم ہوتے ہیں، بلکہ وہ اپنے غرور کی وجہ سے دوہری بدبختی کا شکار ہوتے ہیں۔ مغروروں کے لیے غرور نمکین پانی کی طرح ہے۔ جس سے انسان ایک کھونٹ پیتا ہے تو اس کی پیاس اور بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح وہ ایسے بیمار بن جاتے ہیں جو اپنا علاج بھی اسی بیماری سے کر رہے ہوتے ہیں جس کا وہ پہلے سے شکار ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کو شفا کیوں کر نصیب ہو؟
جی ہاں! اس کا غرور اسے غبارے کی طرح پھلا ضرور دیتا ہے، مگر وہ اس سے بلندی کی طرف نہیں جاتا۔ بلکہ کھائیوں کی طرف گرتا جاتا ہے۔ وہ اپنا سینا جتنا بھی ابھار لے، بہر حال، اس میں ہوا کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس سے وہ ہوا میں اڑنے کے قابل کبھی نہیں ہو سکتا اور نہ وہ پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
(زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو (37) اِن امور میں سے ہر ایک کا برا پہلو تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے) [الاسراء: 37 -38]۔
بعدازاں!
اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! یاد رکھو تکبر کبھی قوت کو ظاہر نہیں کرتا اور انکساری کمزوری کو ظاہر نہیں کرتی۔ مغرور شخص اپنی خواہشات کے سامنے ذلیل اور انتہائی ضعیف ہوتا ہے،
جبکہ منکسر المزاج انسان خواہشات، تکبر اور خود پسندی جیسی بیماریوں کا مقابلہ بڑی سختی کے ساتھ کرتا ہے۔
پھر یہ بھی یاد رکھو کہ غرور کی بد ترین شکل اللہ کے انکار اور کفر کی ہے، جبکہ اس کی ہلکی ترین شکل حق کو رد کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔ جو غرور الحاد اور کفر کی طرف لیجاتا ہے، اللہ نے اس کے بارے میں یہ فرمایا ہے:
(بعض اور لوگ ایسے ہیں جو کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر، گردن اکڑائے ہوئے (8) خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ خدا سے بھٹکا دیں) [الحج: 8 -9]
یعنی: تکبر اور غرور کی وجہ سے منہ موڑے رکھتا ہے۔
ابن الجوزی رح معروف ملحد ابن راوندی کے بارے میں فرماتے ہیں، جو اپنی ذہانت کی وجہ سے بڑا معروف تھا، کہ ایک دن راستے میں اسے سخت بھوک لگی تو وہ پُل پر بیٹھ گیا۔ بھوک نے اسے ستا چھوڑا تھا۔ اسی دوران اس کے سامنے کچھ گھوڑے گزرے جس پر موٹا اور پتلا ریشم لدا ہوا تھا۔ اس نے کہا: ’’یہ کس کے ہیں؟ لوگوں نے کہا: فلاں کے ہیں۔ پھر اس کے سامنے سے کچھ خوبصورت لونڈیاں گزریں تو اس نے کہا: یہ کس کی ہیں؟ کہا گیا: فلان کی ہیں۔ پھر ایک شخص نے اس کا حال دیکھا تو اسے رحم آ گیا اور اس نے اسے روٹی کے دو ٹکڑے دیے، مگر اس نے انہیں دور پھینکتے ہوئے اپنے مالک پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: یہ ساری چیزیں فلان کی اور روٹی کے یہ ٹکڑے میرے؟!‘‘ یعنی وہ تکبر اور غرور کے ساتھ اپنے رب پر اعتراض کر رہا تھا۔ اس مغرور انسان کو اپنی ذہانت سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اپنے اسی رویے کی وجہ سے اس بھوک کا مستحق بنا ہے۔
اسی طرح جو غرور تکبر اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کی طرف لے جاتا ہے تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’تکبر یہ ہے کہ تو حق کو دھتکارے اور دوسروں کو حقیر سمجھے‘‘ (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔ امام نووی رح فرماتے ہیں: ’’حق دھتکارنے کا مطلب یہ ہے کہ خود کو بڑا سمجھتے ہوئے اور زیادتی کرتے ہوئے اسے رد کیا جائے اور اس کا انکار کر دیا جائے۔ لوگوں کو حقیر سمجھنا انہیں اپنے سے کم تر سمجھنا ہے‘‘۔
اللہ کے بندو!
جامع اور مختصر بات یہ ہے کہ تکبر وغرور کی آگ بجھانے میں کوئی چیز قرآنی آیات اور سنت رسول کو دلوں میں ہمہ وقت تازہ رکھنے جیسی کار گر نہیں ہے۔ قرآن وحدیث میں لوگوں کی تخلیق کی ابتدا کے متعلق بتایا گیا ہے۔ یہ واضح کیا گیا ہے کہ سب ایک جیسے ہیں۔ سب آدم اور حواء کی اولاد ہیں۔ اگر ان کا کوئی قابل فخر نسب ہے، تو وہ مٹی اور پانی ہے۔ اللہ کے یہاں لوگوں کی برتری مال، معاشرتی مقام، نسب، ذہانت یا کسی عہدے کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ ان ساری چیزوں کی وجہ سے کوئی دوسرے سے بہتر نہیں بنتا۔ فرمانِ الٰہی ہے:
(در حقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان اللہ نے پیدا کیے ہیں) [المائدہ: 18]۔
اللہ آپ پر رحم فرمائے!
درود وسلام بھیجو مخلوقات کی افضل ترین اور انسانوں میں پاکیزہ ترین ہستی، حوض کوثر اور شفاعت کبری والے، محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ اللہ نے آپ کو یہ حکم دیتے ہوئے، پہلے اپنا ذکر فرمایا، پھر اپنی تسبیح بیان کرنے والے فرشتوں کا ذکر فرمایا، پھر آپ کو اے مؤمنو! کہہ کر مخاطب کیا۔ فرمایا: ﴿اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو﴾ [الاحزاب: 56]۔
اے اللہ! ہمارے نفس کو پرہیزگار بنا! انہیں پاکیزگی عطا فرما! تو ہی انہیں سب سے بڑھ کر پاکیزہ بنانے والا ہے۔ تو ہی اس کا ولی اور پروردگار ہے۔
اے اللہ! ہم تجھ سے جو خیر مانگیں، وہ ہمیں عطا فرما! جو نہ مانگیں، وہ بھی ہمیں عطا فرما! اور جس خیر تک ہماری امیدیں پہنچ ہی نہیں پاتیں، ان تک بھی ہمیں پہنچا۔
پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں (180) اور سلام ہے مرسلین پر (181) اور ہماری ہر بات کا خاتمہ اسی پر ہے کہ ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں