ذہنی تناؤ سے کس طرح نبٹیں (حصہ دوم)

Image may contain: flower and text
ذہنی تناؤ سے کس طرح نبٹیں
حصہ دوم
استفادہ لیکچر: یاسمین مجاہد

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
پچھلے حصے میں میں نے آپ کو بتایا تھا کس طرح آپ اپنے دل اور روح کو تروتازہ رکھ سکتے ہیں۔ 
اس میں قرآن کو بھی شامل کرلیں۔ قرآن میں اللہ نے سکون رکھا ہے۔ روز کا ایک صفحہ پڑھیں بیشک، لیکن قرآن کو اپنی روز کی زندگی کا حصہ بنالیں۔ 
یہ چیزیں ہیں دل و روح کی تسکین کے لئے، اب میں دماغی سکون کے لئے کچھ ٹپس دوں گی۔ 

تیسرا نکتہ

دماغ کے سکون کے لئے ایک چیز جو ضروری ہے وہ ہے فوکس۔ آپ جس چیز پر کیمرے کا فوکس رکھیں گے، وہ چیز زوم ہوتی جائے گی۔ ٹھیک؟ بالکل اسی طرح ایک بات کو اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ آپ کا دماغ جس چیز پر فوکس رکھے گا، وہ بڑی ہوتی جائے گی۔ سو آپ نے اب یہ کرنا ہے کہ اپنا فوکس بدلنا ہے۔ ابھی آپ سوچیں کہ روزمرہ کی زندگی میں آپ کس چیز پر زیادہ فوکس کرتے ہیں {یا کس چیز کے بارے میں زیادہ سوچتے رہتے ہیں}۔ اب آپ یہ سوچیں کیا آپ کی زندگی میں بس بری چیزیں ہیں؟ کیا کوئی بھی مثبت چیز نہیں؟ ہم سب کی زندگی میں کچھ اچھا اور کچھ برا ہے۔ کسی کی بھی زندگی 'ہمیشہ اچھی' یا 'ہمیشہ بری' نہیں ہوسکتی۔ ٹھیک؟
 اللہ سبحان و تعالی بھی قرآن میں کہتے ہیں ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے، {یاد رکھیں آسانی مشکل کے بعد نہیں، مشکل کے ساتھ ہے} اللہ سے بڑھ کر سچا کوئی نہیں۔ جب اللہ کہہ رہے ہیں کہ آسانی بھی نہیں بلکہ آسانیاں ہیں، تو مطلب آسانیاں ہیں۔ {یسرا جمع کا صیغہ ہے}۔ ہم گھبرا کر اپنا سارا فوکس پریشانی پر کر دیتے ہیں، جس سے پریشانی ہمیں اتنی بڑی نظر آنے لگتی ہے، کہ جو اس کے ساتھ کئی آسانیاں ہوتی ہیں وہ بھی چھپ جاتی ہیں کیونکہ ہمارا فوکس غلط ہے۔ 

آپ نے اپنا فوکس ٹھیک کرنا ہے۔ بعض اوقات ہم ان چند چیزوں کا رونا روتے ہیں جو ہمارے پاس نہیں، اور ان ہزاروں لاکھوں چیزوں پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے جو ہمارے پاس ہیں۔ کیونکہ ہمارا فوکل پوائنٹ ٹھیک نہیں ہوتا۔ فوکس کی بات کررہے ہیں تو آپکو وہ آیت یاد ہے جس میں اللہ کہتے ہیں 'اگر تم شکرگزار ہو گے تو ہم تمہں اور بھی دیں گے۔' کیونکہ ایک شکرگزار بندے کا فوکس اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر ہوتا ہے، اور وہ نعمتیں بڑھتی جاتی ہیں۔

فوکس ٹھیک کرنے کے لئے میں آپ کو ایک مشق بتاتی ہوں۔ آپ نے روز صبح اُٹھ کر تین کوئی ایسی چیزیں لکھنی ہیں جن کے لئے آپ اللہ کے شکرگزار ہیں۔ اور دن میں بار بار آپ نے ان چیزوں کو یاد کر کے اللہ کا شکر ادا کرنا ہے۔ یہ چیزیں آپ کی زندگی، آپ کی صحت، آپ کے والدین، آپ کی ڈگری، آپ کی جاب، آپ کی اولاد، آپ کا گھر، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اور یہ مشق آپ نے روز کرنی ہے۔ میں یہ نہیں کہتی ایسا کرنے سے آپ کے حالات بدلیں گے، لیکن آپ کا فوکس بدل جائے گا، آپ کا چیزوں کو دیکھنے کا انداز بدل جائے گا۔ 

فوکس کو لے کر ایک اور بات جو میں کرنا چاہتی ہوں وہ ہے ماضی۔۔۔ ہم سب کے ماضی میں کچھ ایسا ہوا ہوتا ہے جو تکلیف دہ ہوتا ہے اور بعض اوقات ہم اس سے باہر نہیں نکل پارہے ہوتے۔ 
ماضی کے تکلیف دہ زخموں کو ٹھیک کرنے کے بنیادی طور پر دو طریقے ہیں۔ اور یہ دونوں طریقے دو انتہاؤں پر ہیں۔

پہلا طریقہ یہ کہ ہم کہتے ہیں کہ زخم کو فوری ڈھک دیں۔ 'بس کرو، نکلو اس سب سے'، مٹی ڈالو، یہ تو کچھ بھی نہیں، اس سے زیادہ برا بھی ہوسکتا تھا۔۔۔' ایسے جملے اکثر سنے ہوں گے آپ نے اپنے اردگرد۔۔ یا شاید آپ نے کسی سے کہی ہوں۔ یہ بالکل بھی مفید باتیں نہیں ہیں۔ ہمارے اردگرد بھی ہمیں یہی سکھایا جاتا ہے کہ اپنے چہرے پر 'Happy Me' کا ماسک چڑھائے رکھو۔ چاہے جس بھی تکلیف میں ہو، اوپر سے خوش نظر آو اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کو گولی لگے، اور آپ اس گولی کو نکالنے کے بجائے اس کو بولیں کہ اس زخم پر کپڑا رکھ کے ڈھک دو، یہ ٹھیک ہوجائے گا۔ کیا ایسے گولی کا زخم ٹھیک ہوتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ ایسے زخم اور بھی بگڑتا جائے گا۔ اور کیا آپ یہاں ایسا کہہ سکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ گولی کا یہ زخم ٹھیک ہو جائے گا؟ نہیں نا؟ ایسے ہی ماضی کا ہر زخم وقت کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوتا جب تک آپ اس کی ٹھیک سے مرہم پٹی نہیں کریں گے۔ 

ہر زخم کی مرہم پٹی مختلف ہوتی ہے۔ اگر آپ کو کسی پروفیشنل کی مدد لینی پڑے تو بھی لیں۔ یہ نا سوچیں کہ یہ ڈپریشن وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہو جائے گا۔ نہیں۔۔۔۔ اسکا علاج کرنا ہے۔ ہاں مرہم پٹی کرلینے کے بعد وقت پر چھوڑ دیں، وقت نا صرف آپکا زخم ٹھیک کردے گا، بلکہ اس کے نشان بھی مٹادے گا۔ ان شاء اللہ۔۔

دوسری انتہا یہ ہے کہ آپکا زخم مندمل ہورہا ہے، لیکن آپ اسکو کھرچتے رہتے ہیں، اسکو چھیڑتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک سخت نقصان دہ بات ہے۔ ماضی میں جو ہوا اس میں اٹک کر نا رہ جائِیں، بلکہ آگے بڑھیں۔ ماضی کو کریدتے رہیں گے تو وہ زخم کبھی بھی مندمل نہیں ہوں گے۔ مت ہاتھ لگائیں اس زخم کو جو تکلیف دینا ہے۔ ایک انگریزی کی کہاوت ہے

Past is a place of reference, not a place of residence.

یعنی ماضی سیکھنے کی جگہ ہے، رہنے کی جگہ نہیں۔ ماضی سے سبق سیکھیں، وہاں اپنا گھر بنا کر بیٹھ مت جائیں۔ اور آگے بڑھ جائیں۔ 
اپنے زخم کی مرہم پٹی کریں، اس کو دوبارہ ہاتھ مت لگائیں، اور پھر وقت پر چھوڑ دیں۔ وہ ماضی کا زخم مندمل ہوجائے گا۔

جاری ہے ۔۔۔ 

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں