آج کی بات ۔۔۔۔ 30 اپریل 2019


~!~ آج کی بات ~!~

سب کچھ حاصل ہو جانے پر ہماری زندگی میں پیدا ہو جانے والا خلا ..
ہمیں ایک نئے لاحاصل کا متمنی بنا دیتا ہے۔

از رابعہ خرم درانی

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

~!~ آج کی بات ~!~ سب کچھ حاصل ہو جانے پر ہماری زندگی میں پیدا ہو جانے والا خلا .. ہمیں ایک نئے لاحاصل کا متمنی بنا دیتا ہے۔ ...

ذہنی تناؤ سے کس طرح نبٹیں (حصہ سوم)

Image result for stress management

ذہنی تناؤ سے کس طرح نبٹیں
حصہ سوم
استفادہ لیکچر: یاسمین مجاہد

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
پچھلی پوسٹ میں میں نے آپکو ماضی کے زخموں کو بھلانے کے دو عمومی طریقے بتائے تھے، جو دو ایکسٹریمز پر ہیں۔
جسکا نتیجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنا فوکس ٹھیک کرنا ہے۔ اسکے لئے میں نے آپکو ایک مشق بھی بتائی تھی۔

نکتہ نمبر 4

خود سے محبت۔ 
مجھے اکثر لوگوں خصوصا خواتین سے بات کرکے محسوس ہوا ہے کہ ہم خواتین خود سے محبت نہیں کرتیں۔ ہم خود کو بہت زیاد تنقید کا نشانہ بناتی ہیں، خود کے بارے میں منفی سوچتی ہیں۔ اور یہ صرف خواتین کا نہیں مرد حضرات کا بھی مسئلہ ہے، کہ ہم لوگ خود کے بارے میں خود سے اتنی منفی باتیں سوچتے رہتے ہیں کہ ہم بہت برے ہیں۔ ہم خود کو اتنا برا بھلا کہتے ہیں کہ اگر وہی تنقید اور بری باتیں جو ہم اپنے بارے میں کہتے ہیں، ہم کسی اور سے کہیں تو ہمارا جھگڑا ہوجائے ان سے، یعنی ہم خود کو اتنا برا کہتے رہتے ہیں۔ ''او مائی گاڈ، تم تو ایک انتہائی ناکام انسان ہو، انتہائی برے انسان ہو،۔۔۔'' ایسے جملے بولتے ہیں ہم خود سے۔۔۔

مت کریں ایسا۔۔۔۔ یہ جملے اگر آپ اپنی بہن بھائی، دوست، بیٹی وغیرہ سے تو آپ کی دوستی یا رشتہ متاثر ہوگا نا؟؟ تو آپ خود سے اپنا رشتہ کیوں خراب کررہے ہیں؟ کیوں خود اپنے ہاتھوں سے اپنے اعتماد اور عزت نفس کا گلا گھونٹ رہے ہیں؟
خود سے محبت کریں، اپنے بارے میں مثبت سوچیں، خود کو حوصلہ اور تسلی دیں کہ ہمت نہیں ہارنی، خود کو سمجھائیں، خود کے ساتھ اپنا رشتہ خوبصورت بنائیں۔

اگر آپ کے دماغ میں کوئی منفی بات آ بھی رہی ہے خود کو لے کر،، تو اسکو روکیں۔۔۔ فرض کریں آپکا کوئی دوست ہے جو امتحان میں فیل ہوگیا ہے، کیا آپ جاکر اس کو یہ بولیں گے کہ تم ایک ناکام انسان ہو؟ کیونکہ آپ جانتے ہیں ہو ہرٹ ہوگا۔۔۔ سو آپ جاکر اس کو تسلی دیں گے نا؟ تو پھر خود کو ہرٹ کیوں کرنا ایسی باتیں کرکے؟ خّود کو تسلی کیوں نہیں دیتے ہم؟

نکتہ نمبر 5

اپنے دل کو تروتازہ اور صحت مند رکھنے کے لئے آپ نے خیال رکھنا ہے کہ اس میں کوئی غلط چیز نا جائے جو اس کو بے چین کردے۔
اگر ایک انسان روز صبح ناشتے کے ساتھ ایک ہلکا سا سپ زہر کا لیتا ہو،،، مطلب وہ آہستہ آہستہ خود کو موت کے منہ میں ڈال رہا ہے۔ ہم خود کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔ جب ہم خود کو منفی باتوں، لوگوں اور رویوں سے گھیر لیتے ہیں۔ آجکل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، اکثر ہم نے سوشل میڈیا پر ایسے پیجز لائک کیے ہوتے ہیں جنکا کام بس منفیت پھیلانا ہوتا ہے۔ ٹھیک؟
ان کی ایک پوسٹ سے شاید آپ کچھ محسوس نا کریں، لیکن آہستہ آہستہ روز منفی پوسٹس دیکھنے سے آپ پر بھی منفی اثر پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔

سو خیال رکھیں آپ اپنی نیوزفیڈ میں کیا دیکھ رہے ہیں، آپ ٹی وی پر کیا دیکھ رہے ہیں، آپ ریڈیو پر کیا سن رہے ہیں۔۔۔ یہ سب چیزیں آپ کی زندگی پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

اپنے منہ سے نکلنے والے الفاظ کا خیال رکھیں۔۔ کیونکہ ایک بار ایک بری بات کہنے یا گالی بکنے سے ہمیں محسوس نہیں ہوتا کہ ہم آہستہ آہستہ کیا کررہے ہیں خود کے ساتھ،،،، ہمیں احساس تب ہوتا ہے جب ہمیں گالیوں کی عادت پڑجاتی ہے، یا جب روز منفی خبریں یا نیوزفیڈ میں منفی پوسٹس دیکھنے کے بعد ہم ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔۔۔ یہ سب ایک دم سے نہیں، بلکہ آہستہ آہستہ ہوتا ہے کیونکہ ہم خود کو یہ زہر پلارہے ہیں روزانہ تھوڑا تھوڑا۔۔۔

سوشل میڈیا اور نیوزفیڈ کو لے کر مزید بات کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک فریج کی طرح ہے، آپ کی نیوز فیڈ میں جو جو آتا ہے، آپ اس کو کھاتے ہیں، وہ آپ کے اندر جاتا ہے۔ کوئی بھی پلیٹ فارم ہو، انسٹآگرام، فیس بک، ٹویٹر،،، یا کچھ بھی۔۔ اگر آپ وہاں ٹائم گزارتے ہیں تو مطلب آپ وہاں کی چیزوں کو نفسیاتی اور روحانی طور پر اپنے اندر ڈال رہے ہیں۔ تو پھر کیوں نا اپنی نفسیاتی اور روحانی خوراک کو بہتر بنایا جائے؟ اپنی نیوز فیڈ کو بہتر بنائیں۔

میں ہمیشہ لوگوں کو بتاتی ہوں سوشل میڈیا پر ایک بہت اچھا آپشن موجود ہے، ان فالو/ان فرینڈ۔۔۔۔ اس کا استعمال کریں۔
جو بھی پیج، یا فرینڈ ایسا ہے جس کی پوسٹ پڑھ کر آپ کو منفی وائبز آتی ہیں، آپ کو سٹریس ہوتا ہے، یا آپ کو لگتا ہے آپکی زندگی اچھی نہیں ہے، یا آپ کو لگتا ہے آپ احساس کمتری کا شکار ہورہے ہیں، یا آپ کو لگتا ہے آپ ایک برے انسان ہیں {بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر ایسے ہوتے ہیں، جنکا کام سب کو بتانا ہوتا ہے کہ وہ بہت نیک ہیں، اور ان کو دیکھ کر ہمیں لگتا ہے ہم تو پکے جہنمی ہیں، اللہ ہم سے محبت نہیں کرتا۔ رائٹ؟}۔۔۔ فوری طور پر ان فالو یا ان فرینڈ کریں ایسے لوگوں کو۔ آپ کو یاددہانی ملنا ضروری ہیں، اور خود کو بہتر بنانے کی جدوجہد کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن اگر کچھ ایسا ہے جو مسلسل آپ کو بہتر بنانے کے بجائے آپ کو Discourage  کررہا ہے، آپ کی حوصلہ شکنی کررہا ہے کہ آپ کبھی اچھے نہیں بن سکتے، یا آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کرہا ہے کہ آپ کی زندگی اچھی نہیں تو ان فالو کریں ایسے لوگوں کو۔ آپ کے دماغ کا سکون ضروری ہے۔

اگلے بندے کو پتا بھی نہیں چلتا آپ نے ان کو ان فالو کیا ہوا ہے۔ میں خود ہمیشہ اس آپشن کا استعمال کرتی ہوں۔ آپ اپنی نیوزفیڈ بہتر بنائیں، پازیٹیویٹی لائیں اپنے اردگرد، نیگیٹیویٹی کو اپنی زندگی سے نکال باہر کریں۔۔۔ دیکھنا آپ فرق محسوس کریں گے کہ آپ کا دماغ کتنا ریلیکس رہتا ہے۔ 

کیونکہ پھر وہی بات آجاتی ہے کہ جس چیز پر آپکا فوکس ہوگا وہ بڑی ہوتی جائیگی۔ اگر آپ ہر وقت سوشل میڈیا پر یہ دیکھ رہے ہیں کہ فلاں کی زندگی بہت خوبصورت ہے، یا فلاں بہت خوبصورت ہے، آپ کے پاس کچھ نہیں ہے، تو یہ احساس کمتری اور ناشکری بڑھتی ہی جائے گی۔ کیونکہ آپکا فوکس بدل گیا ہے اب۔ سو اپنی نیوز فیڈ کو پازیٹیو بنائیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔ 

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ذہنی تناؤ سے کس طرح نبٹیں حصہ سوم استفادہ لیکچر: یاسمین مجاہد بشکریہ:  نعمان علی خان اردو فیس بک پیج السلام علیکم ورحمتہ الل...

ذہنی تناؤ سے کس طرح نبٹیں (حصہ دوم)

Image may contain: flower and text
ذہنی تناؤ سے کس طرح نبٹیں
حصہ دوم
استفادہ لیکچر: یاسمین مجاہد

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
پچھلے حصے میں میں نے آپ کو بتایا تھا کس طرح آپ اپنے دل اور روح کو تروتازہ رکھ سکتے ہیں۔ 
اس میں قرآن کو بھی شامل کرلیں۔ قرآن میں اللہ نے سکون رکھا ہے۔ روز کا ایک صفحہ پڑھیں بیشک، لیکن قرآن کو اپنی روز کی زندگی کا حصہ بنالیں۔ 
یہ چیزیں ہیں دل و روح کی تسکین کے لئے، اب میں دماغی سکون کے لئے کچھ ٹپس دوں گی۔ 

تیسرا نکتہ

دماغ کے سکون کے لئے ایک چیز جو ضروری ہے وہ ہے فوکس۔ آپ جس چیز پر کیمرے کا فوکس رکھیں گے، وہ چیز زوم ہوتی جائے گی۔ ٹھیک؟ بالکل اسی طرح ایک بات کو اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ آپ کا دماغ جس چیز پر فوکس رکھے گا، وہ بڑی ہوتی جائے گی۔ سو آپ نے اب یہ کرنا ہے کہ اپنا فوکس بدلنا ہے۔ ابھی آپ سوچیں کہ روزمرہ کی زندگی میں آپ کس چیز پر زیادہ فوکس کرتے ہیں {یا کس چیز کے بارے میں زیادہ سوچتے رہتے ہیں}۔ اب آپ یہ سوچیں کیا آپ کی زندگی میں بس بری چیزیں ہیں؟ کیا کوئی بھی مثبت چیز نہیں؟ ہم سب کی زندگی میں کچھ اچھا اور کچھ برا ہے۔ کسی کی بھی زندگی 'ہمیشہ اچھی' یا 'ہمیشہ بری' نہیں ہوسکتی۔ ٹھیک؟
 اللہ سبحان و تعالی بھی قرآن میں کہتے ہیں ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے، {یاد رکھیں آسانی مشکل کے بعد نہیں، مشکل کے ساتھ ہے} اللہ سے بڑھ کر سچا کوئی نہیں۔ جب اللہ کہہ رہے ہیں کہ آسانی بھی نہیں بلکہ آسانیاں ہیں، تو مطلب آسانیاں ہیں۔ {یسرا جمع کا صیغہ ہے}۔ ہم گھبرا کر اپنا سارا فوکس پریشانی پر کر دیتے ہیں، جس سے پریشانی ہمیں اتنی بڑی نظر آنے لگتی ہے، کہ جو اس کے ساتھ کئی آسانیاں ہوتی ہیں وہ بھی چھپ جاتی ہیں کیونکہ ہمارا فوکس غلط ہے۔ 

آپ نے اپنا فوکس ٹھیک کرنا ہے۔ بعض اوقات ہم ان چند چیزوں کا رونا روتے ہیں جو ہمارے پاس نہیں، اور ان ہزاروں لاکھوں چیزوں پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے جو ہمارے پاس ہیں۔ کیونکہ ہمارا فوکل پوائنٹ ٹھیک نہیں ہوتا۔ فوکس کی بات کررہے ہیں تو آپکو وہ آیت یاد ہے جس میں اللہ کہتے ہیں 'اگر تم شکرگزار ہو گے تو ہم تمہں اور بھی دیں گے۔' کیونکہ ایک شکرگزار بندے کا فوکس اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر ہوتا ہے، اور وہ نعمتیں بڑھتی جاتی ہیں۔

فوکس ٹھیک کرنے کے لئے میں آپ کو ایک مشق بتاتی ہوں۔ آپ نے روز صبح اُٹھ کر تین کوئی ایسی چیزیں لکھنی ہیں جن کے لئے آپ اللہ کے شکرگزار ہیں۔ اور دن میں بار بار آپ نے ان چیزوں کو یاد کر کے اللہ کا شکر ادا کرنا ہے۔ یہ چیزیں آپ کی زندگی، آپ کی صحت، آپ کے والدین، آپ کی ڈگری، آپ کی جاب، آپ کی اولاد، آپ کا گھر، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اور یہ مشق آپ نے روز کرنی ہے۔ میں یہ نہیں کہتی ایسا کرنے سے آپ کے حالات بدلیں گے، لیکن آپ کا فوکس بدل جائے گا، آپ کا چیزوں کو دیکھنے کا انداز بدل جائے گا۔ 

فوکس کو لے کر ایک اور بات جو میں کرنا چاہتی ہوں وہ ہے ماضی۔۔۔ ہم سب کے ماضی میں کچھ ایسا ہوا ہوتا ہے جو تکلیف دہ ہوتا ہے اور بعض اوقات ہم اس سے باہر نہیں نکل پارہے ہوتے۔ 
ماضی کے تکلیف دہ زخموں کو ٹھیک کرنے کے بنیادی طور پر دو طریقے ہیں۔ اور یہ دونوں طریقے دو انتہاؤں پر ہیں۔

پہلا طریقہ یہ کہ ہم کہتے ہیں کہ زخم کو فوری ڈھک دیں۔ 'بس کرو، نکلو اس سب سے'، مٹی ڈالو، یہ تو کچھ بھی نہیں، اس سے زیادہ برا بھی ہوسکتا تھا۔۔۔' ایسے جملے اکثر سنے ہوں گے آپ نے اپنے اردگرد۔۔ یا شاید آپ نے کسی سے کہی ہوں۔ یہ بالکل بھی مفید باتیں نہیں ہیں۔ ہمارے اردگرد بھی ہمیں یہی سکھایا جاتا ہے کہ اپنے چہرے پر 'Happy Me' کا ماسک چڑھائے رکھو۔ چاہے جس بھی تکلیف میں ہو، اوپر سے خوش نظر آو اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کو گولی لگے، اور آپ اس گولی کو نکالنے کے بجائے اس کو بولیں کہ اس زخم پر کپڑا رکھ کے ڈھک دو، یہ ٹھیک ہوجائے گا۔ کیا ایسے گولی کا زخم ٹھیک ہوتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ ایسے زخم اور بھی بگڑتا جائے گا۔ اور کیا آپ یہاں ایسا کہہ سکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ گولی کا یہ زخم ٹھیک ہو جائے گا؟ نہیں نا؟ ایسے ہی ماضی کا ہر زخم وقت کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوتا جب تک آپ اس کی ٹھیک سے مرہم پٹی نہیں کریں گے۔ 

ہر زخم کی مرہم پٹی مختلف ہوتی ہے۔ اگر آپ کو کسی پروفیشنل کی مدد لینی پڑے تو بھی لیں۔ یہ نا سوچیں کہ یہ ڈپریشن وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہو جائے گا۔ نہیں۔۔۔۔ اسکا علاج کرنا ہے۔ ہاں مرہم پٹی کرلینے کے بعد وقت پر چھوڑ دیں، وقت نا صرف آپکا زخم ٹھیک کردے گا، بلکہ اس کے نشان بھی مٹادے گا۔ ان شاء اللہ۔۔

دوسری انتہا یہ ہے کہ آپکا زخم مندمل ہورہا ہے، لیکن آپ اسکو کھرچتے رہتے ہیں، اسکو چھیڑتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک سخت نقصان دہ بات ہے۔ ماضی میں جو ہوا اس میں اٹک کر نا رہ جائِیں، بلکہ آگے بڑھیں۔ ماضی کو کریدتے رہیں گے تو وہ زخم کبھی بھی مندمل نہیں ہوں گے۔ مت ہاتھ لگائیں اس زخم کو جو تکلیف دینا ہے۔ ایک انگریزی کی کہاوت ہے

Past is a place of reference, not a place of residence.

یعنی ماضی سیکھنے کی جگہ ہے، رہنے کی جگہ نہیں۔ ماضی سے سبق سیکھیں، وہاں اپنا گھر بنا کر بیٹھ مت جائیں۔ اور آگے بڑھ جائیں۔ 
اپنے زخم کی مرہم پٹی کریں، اس کو دوبارہ ہاتھ مت لگائیں، اور پھر وقت پر چھوڑ دیں۔ وہ ماضی کا زخم مندمل ہوجائے گا۔

جاری ہے ۔۔۔ 

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ذہنی تناؤ سے کس طرح نبٹیں حصہ دوم استفادہ لیکچر: یاسمین مجاہد بشکریہ:  نعمان علی خان اردو فیس بک پیج السلام علیکم ورحمتہ اللہ ...

ذہنی تناؤ سے کس طرح نبٹیں ( حصہ اول)

Related image

ذہنی تناؤ سے کس طرح نبٹیں
حصہ اول
استفادہ لیکچر: یاسمین مجاہد

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ہم آج جس دور میں رہ رہے ہیں یہاں سٹریس یا ذہنی تناؤ ایک بہت عام بیماری بنتی جارہی ہے، بلکہ بن چکی ہے۔ 
ہم یہاں کچھ  پوائنٹس (نکات) شیئر کریں گے جو حقیقی زندگی میں ان شاء اللہ آپکو اس ذہنی تناؤ سے باہر نکلنے میں مدد دیں گے۔ 
آپ غور اس ان نکات کو پڑھیں اور عمل کی کوشش کریں۔ اللہ مدد کرے گا۔ 

پہلا نکتہ

ہمارے جسم کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ہماری روح کو بھی آکسیجن کی ضرورت ہے، اور بنا کسی جھجک کے میں آپکو بتاتی ہوں کہ روح کی آکسیجن نماز ہے۔ 
اپنی روح کو، اپنے دل کو بے سکونی میں ڈالنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہی خود کو نماز سے دور کردینا ہے۔ نماز چھوڑ کر ہم روح کو اسکی آکسیجن کی سپلائی معطل کردیتے ہیں۔ لہذا روح کو زندہ رکھنے کیلئے نماز سب سے پہلے نمبر ہے۔ نماز کو اپنی آکسیجن بنا لیں۔ سمجھیں آپ مر جائیں گے اگر آپ نے نماز چھوڑی۔

دوسرا نکتہ

جیسے ہمارے جسم کو آکسیجن کے علاوہ پانی اور خوراک کی ضرورت ہے ویسے ہی دل کی غذا ہے اللہ کا ذکر۔ ویسے تو اللہ کا ذکر کرنے کے سینکڑوں طریقے ہیں، سینکڑوں دعائیں ہیں۔ آپ بچپن سے سبحان اللہ، الحمدللہ وغیرہ جیسے اذکار کا سنتے آئے ہوں گے اور آپکو یہ پڑھتے رہنا بھی چاہیے۔ لیکن آج میں آپکو وہ کم ازکم اذکار بتاتی ہوں جس کو ہر حال میں اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا لیں۔ انکو اپنی زندگی میں شامل کر کے آپ ایک واضح فرق محسوس کریں گے۔ یہ آپ کے دل کےلئے وٹامنز کا کام کریں گے۔ یہ ہیں صبح شام کے اذکار۔ چار سے پانچ منٹ لگیں گے آپکو یہ پڑھنے میں۔ میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں یہ آپکی زندگی میں ایک بہت اچھا اثر چھوڑیں گے۔ اپنی روز کی روٹین میں سے 5 منٹ دے دیں ان وٹامنز کو۔


ان نکات سے آپکی روح اور دل کو سکون ملے گا۔ اگلی پوسٹ میں میں آپ کو بتاوں گی دماغ کے سکون کے لئے کیا کریں۔

جاری ہے ۔۔۔ 

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ذہنی تناؤ سے کس طرح نبٹیں حصہ اول استفادہ لیکچر: یاسمین مجاہد بشکریہ: نعمان علی خان اردو فیس بک پیج السلام علیکم ورحمتہ ال...

مصنوعی وابستگیاں

Related image
تحریر: نیر تاباں
مرکزی خیال: Reclaim your heart

یاسمین مجاہد کی کتاب Reclaim your heart آجکل زیرِ مطالعہ ہے۔ مرکزی موضوع یہ ہے کہ تمام تر مصنوعی وابستگیوں (false attachments) سے جان چھڑا کر کس طرح دل کی چابی اسکو تھمائیں جو دل کا مالک ہے - اللّٰہ۔ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا میں مگن نہیں ہونا، یعنی کشتی پانی میں رہے لیکن پانی کشتی میں نہ جانے پائے کیونکہ اس میں ہلاکت ہے۔ اگر غور کریں تو تمام عبادات کا محور یہی ہے کہ اپنی دنیاوی محبتوں میں مگن نہ ہوں۔ دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو دنیا میں غرق ہونے سے بچانے کی کوشش انتہائی مشکل ہے، اور یہی کوشش جہاد بالنفس ہے، یہی کوشش توحید کا نچوڑ ہے۔

اسلام کے پانچ ستون - کلمہ شہادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج - تمام کا بنیادی مقصد انسان کو بار بار دنیا کی محبتوں سے کاٹ کر اللہ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ آئیں تھوڑا سا تفصیل میں دیکھتے ہیں۔

شہادت:‌ لا الہ الا اللہ! یعنی نہ صرف یہ اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں، بلکہ ہر ایک سے اپنی امید توڑ کر اپنی تمام تر امیدوں اور محبتوں کا محور و منبع صرف اللہ کو سمجھنا۔

نماز: روزانہ دن میں پانچ بار ہر کام چھوڑ کر اللہ کے حضور حاضر ہونا۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ دن میں ایک بار، یا ہفتے میں ایک بار نماز ادا کرنا فرض ہوتا، یا پانچوں نمازیں ایک ہی وقت پر ادا کرنے کا حکم ہوتا۔ لیکن دن میں پانچ بار نماز کی بھی شاید یہی حکمت ہو کہ نیند کو چھوڑ کر، یا اپنا کام، اپنے بچے کو چاہے وہ اتنی دیر میں شرارت شروع کر دیں، یا اپنے چاہنے والوں سے بات ادھوری چھوڑ کر، اپنا کوئی پسندیدہ شو، کرکٹ میچ، چاہے جو بھی کام کر رہے ہیں، اس کو چھوڑ کر نماز کے لئے اٹھ جانا ہے۔ دن میں پانچ بار- یعنی ادھر دنیا میں دل لگنے لگا تھا، ادھر اللہ نے بلا لیا اور سب کچھ چھوڑ کر نماز ادا کرنے لگے۔

روزہ: کھانے پینے کا پرہیز، میاں بیوی کے تعلقات، غیر ضروری اور فضول گفتگو، تمام سے بچنا۔ جسمانی ضروریات یا جذباتی، دونوں کو ہی روکنا۔ یعنی ہر طرح کی نفسانی خواہشات سے علیحدہ ہونا۔ پورا سال نماز میں اسکی ٹریننگ تھوڑے سے وقت کے لئے ہوتی ہے، اور پھر سال میں ایک بار پورے مہینے کے لئے دورانیہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ تا کہ مومن دنیا میں غرق نہ ہونے پائے۔

زکوٰۃ: دولت کی محبت انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔ زکوٰۃ دینا دولت سے الگ ہونے کی تربیت ہے۔

حج: مصنوعی وابستگیوں کو توڑنے کے لئے حج ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ اپنا گھر، خاندان، اپنی جاب، اپنی تنخواہ، گرم بستر، نرم جوتے، برانڈڈ کپڑے، اپنی گاڑی، اپنا اسٹیٹس، یہ سب چھوڑ کر سادہ سا احرام پہن کر، زمین پر کھلے آسمان کے نیچے سونا بھی پڑے گا، حج کے مناسک ادا کرتے ہوئے دھکم پیل بھی برداشت کرنی پڑے گی، پیدل سعی بھی کرنی پڑے گی۔

اللہ نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ دنیا چھوڑ دو، لیکن دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا میں مگن نہ ہو جاؤ۔ پورا دین اسی ٹریننگ کے گرد گھومتا ہے۔ لڑکی نے باہر جانا ہے، جانتی ہے کہ حجاب اوڑھوں گی تو بال خراب ہو جائیں گے، بھنویں بنانا چھوڑوں گی تو اتنی حسین نہیں لگوں گی، لیکن پھر بھی کرتی ہے۔ لڑکا سوٹ بوٹ پہن لے لیکن داڑھی کی سنت بھی ادا کرے، لڑکی دعوتِ نظارہ دے تو بھی نظریں جھکا لے۔

ہر ہر جگہ ہمیں یہ مثالیں نظر آئیں گی۔ یہی مومن کی زندگی ہے۔ دنیا میں ایک مسافر کی طرح! تمام کام کرنے ہیں، جوگ نہیں لینا لیکن بس دنیا کی زندگی میں گم نہیں ہو جانا۔ بار بار اپنا احتساب کرنا ہے۔


مصنوعی وابستگیاں تحریر: نیر تاباں مرکزی خیال: Reclaim your heart یاسمین مجاہد کی کتاب Reclaim your heart آجکل زیرِ مطالعہ ہے۔...

محو تسبیح تو سبھی ہیں مگر ادراک کہاں؟



سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم

اور تم ان کی تسبیح سے ناواقف ہو
کائنات میں ہر شے محو تسبیح ہے

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم اور تم ان کی تسبیح سے ناواقف ہو کائنات میں ہر شے محو تسبیح ہے تبصرہ کرکے اپنی رائے کا ...

ایموشنل ویمپائرز (Emotional Vampires)

Image result for emotional vampires
تحریر: محمد عامر خاکوانی

کالج کے زمانے میں ہمارا ایک دوست ہوا کرتا تھا، اب عرصہ ہوگیا اس سے رابطہ ہی نہیں رہا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ جتنی دیر ساتھ بیٹھتا، ایک سے بڑھ کر ایک مایوس کن منفی تبصرہ کر ڈالتا۔ جس موضوع پر بات ہوتی، اس کا منفی اور تاریک ترین پہلو سامنے لے آتا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کے جانے کے خاصی دیر بعد تک ہمیں اپنے آس پاس تاریکی، مایوسی اور فرسٹریشن کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دکھائی دیتا۔ آخر ہم نے اسے ایجنٹ آف ڈارک نیس (تاریکیوں کا نمائندہ) قرار دے کر اس سے بچنا شروع کر دیا۔ اس طرح کے منفی سوچ رکھنے والے بہت سوں سے بعد میں بھی واسطہ پڑا، یاسیت اور قنوطیت ان کی زندگی میں یوں چھائی ہوئی تھی کہ کہیں سے امید اور روشن کی کرن جھانک ہی نہ سکے۔ بعض دوستوں کے قریبی رشتے داروں میں ایسے منفی، مایوس سوچ والے کردار ملتے ہیں۔ ان بےچاروں پر ترس آتا کہ کسی دوست سے تو ملنا جلنا کم کیا جا سکتا ہے، گھر کے بندوں سے کیسے بچا جائے؟

ایسے لوگوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے والا پہلے سے زیادہ پریشان، مایوس اورنڈھال ہوکر اٹھتا۔ یوں لگتا جیسے انسان کے اندر کی مثبت توانائی، امید ، حوصلہ اور کچھ کرگزرنے کا یقین ان لوگوں نے کسی نادیدہ کنکشن کے ذریعے چوس لی ہے۔ پچھلے دنوں انٹرنیٹ پر ریسرچ کرتے ہوئے ایموشنل ویمپائر(Emotional Vampires) کی اصطلاح نظر سے گزری۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کا خون چوسنے کے بجائے ان کی پازیٹو انرجی، امنگ، قوت عمل اور امید کو کھینچ لیتے ہیں۔ اس اصطلاح کو سمجھنے کے بعد یہ ادراک ہوا کہ یہ سب کردار ایموشنل ویمپائرز ہی تھے۔

اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی تو یہ اندازہ ہوا کہ” ایموشنل ویمپائرز “والا معاملہ پاکستان جیسے ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم ہے، جس میں خاندان کے کئی لوگوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی برداشت کرنا پڑتا ہے، چھوٹے گھروں میں تو خاص طور پر چھپنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی ، جہاں کچھ وقت کے لئے پناہ مل سکے۔ دوسری بڑی وجہ تعلیم اور تربیت کا فقدان ہے۔ کم پڑھے لکھے لوگوں سے کیا شکوہ کریں، یہاں تو اچھے بھلے پڑھے لوگ بھی دوسروں کے معاملات، ان کی پرائیویسی میں دھڑلے سے مداخلت کرتے ہیں ۔ کس نے کیا کپڑے پہنے ، کیا ہیر سٹائل ہے، وزن زیادہ یا کم، کون سے مضمون پڑھنے ہیں، اپنی زندگی کے لئے کون سا کیرئر منتخب کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ .... یہ سب نہایت ذاتی معاملات ہیں اور ہر آدمی کی پرائیویسی میں شمار ہوتے ہیں۔یہ ایموشنل ویمپائرز مگر ایسی کسی اخلاقی پابندی ، حدود کے پابند نہیں۔ جہاں اور جسے جی چاہا اس پر حملہ آور کر دیا۔ اس کی عزت نفس، خود اعتمادی پاش پاش کر دی۔ اسے باور کرایا کہ تم تو کچھ نہیں کر سکتے، تم میں تو اس کی صلاحیت ہی نہیں وغیرہ ۔

سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کا تجزیہ کریں تو یہاں بھی اس طرح کی مخلوق جگہ جگہ نظر آئے گی۔۔ بہت کم لوگ مثبت، اصلاحی، امید سے پر تحریریں لکھتے ملیں گے۔ جن کے پاس کوئی نیا آئیڈیا، تجویز یا پلان ہو ، جو صرف تنقید کر کے وقت گزارنے کے بجائے عمل پر اکساتے ہوں اور ان کی تحریر پڑھنے کے بعد آپ اپنے اندر نئی توانائی محسوس کریں۔ ایسے اجلے، مثبت لوگ ہیں، خاصے ہیں، مگر ایموشنل ویمپائرز کی تعداد بھی کم نہیں ۔ ہوتا یہ ہے کہ جہاں کوئی مایوس کن واقعہ ہوا، ان ویمپائرز نے فرسٹریشن کا نل کھول دیا، کچھ ہی دیر میں اس مایوسی، غیر یقینی اور خودترسی کے جراثیم ہر جگہ پھیل جاتے ہیں۔ 

کہیں کسی مظلوم کو پولیس یا سرکاری اہلکاروں نے نشانہ بنایا تو پھر ایک نئے انداز سے یہ مایوسیاں اور تاریکیاں بانٹنا شروع ہو جائیں گی۔ کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ بیس کروڑ آباد ی کا ملک ہے، جس کی مختلف تہیں، پرتیں ہیں، ایک جگہ کا ماحول دوسرے سے مختلف ہے۔ جہاں کہیں غلط ہو، اس کی نشان دہی ضرور کرو، احتجاج کرو، مظلوم کا ساتھ دو، مگر یہ سب کچھ قوم پر لعنت ملامت کیے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔

ان ایموشنل ویمپائرز سے بچنے کے مختلف گر، تکنیک بتائی گئی ہیں۔ اپنی مثبت بیٹری خالی کرنے والے ان ویمپائرز سے فاصلہ رکھیں، جہاں رابطہ ناگزیر ہو، وہاں حکمت سے ہینڈل کریں۔ایک نصیحت تمام ماہرین نے کی کہ اپنے آپ پر یقین رکھیں، اعتماد نہ گرنے دیں اور مضبوطی مگر شائستگی سے بے جا مداخلت کرنے والے کو بتا دیں کہ آپ ان کی منفی باتوں میں دلچسپی نہیں رکھتے اور بن مانگے مشورے دینے کی زحمت نہ فرمائیں۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

 اقتباس ( ایموشنل ویمپائرز ) تحریر:  محمد عامر خاکوانی کالج کے زمانے میں ہمارا ایک دوست ہوا کرتا تھا، اب عرصہ ہوگیا اس سے رابطہ ہ...

آج کی بات ۔۔۔ 14 اپریل 2019

✿ آج کی بات ✿

بہترین مشورہ وہ نہیں جس میں بہترین حل ہو، 

بلکہ بہترین مشورہ وہ ہے جو پریشان حال کے دل کا اطمینان بھی ہو۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

✿ آج کی بات ✿ بہترین مشورہ وہ نہیں جس میں بہترین حل ہو،  بلکہ بہترین مشورہ وہ ہے جو پریشان حال کے دل کا اطمینان بھی ہو۔ ...

تکبر وغرور کا مفہوم اور اس کے اثرات ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) 15 مارچ 2019


تکبر وغرور کا مفہوم اور اس کے اثرات 
 خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) 
امام و خطیب: ڈاکٹر سعود بن ابراھیم الشریم
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: دلیل ویب
خطبے کے اہم نکات

  •  لوگوں کے تصرفات ان کے ما فی الضمیر کی عکاسی کرتے ہیں۔
  •  دل کی اصلاح اور تطہیر کی ضرورت۔
  •  تکبر وغرور کے معانی اور اس کے اسباب۔
  •  خود اعتمادی اور غرور میں فرق۔
  •  تکبر وغرور ہی بدبختی اور گھاٹے کا سبب ہے۔
  •  تکبر وغرور کی بد ترین شکل الحاد ہے اور اس کی سب سے ہلکی صورت حق کا انکار اور اس کا رد ہے۔
  •  تکبر وغرور کا علاج۔
منتخب اقتباس

اللہ کی ویسی حمد وثنا بیان کرتا ہوں جیسی اس کی پکڑ سے ڈرنے والے شکر گزار کرتے ہیں۔ ہر طرح کی حمد وثنا اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہی آسمانوں کا پروردگار ہے، زمین کا پروردگار ہے اور سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔ اسی کا حکم چلتا ہے اور تم سب نے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اگلوں اور پچھلوں کے سردار ہیں۔ لوگوں کے لیے رحمت، گواہ، بشارت دینے والے، خبردار کرنے والے ، اللہ کی مرضی سے اس کی طرف بلانے والے اور روشن چراغ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اللہ کی رحمتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام پر، تابعین پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔

اللہ کے بندو!
 لوگوں کے اخلاق اور تصرفات، چاہے اچھے ہوں یا برے، بہر حال وہ ان کے دلوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے نفس برتنوں کی مانند ہیں اور برتن کی حیثیت اس میں ڈالی جانے والی چیز کے مطابق ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں پر غفلت یوں چھا گئی ہے کہ انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ اس دنیا میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ان کا گمان ہے کہ وقت کی چکی انہیں کبھی نہیں پیسے گی، بلکہ ان کے ارد گرد رہنے والوں کو بھی معاف کر دے گی۔ اس غفلت کا نتیجہ کینہ سے بھرے دلوں، عزتیں اچھالنے والی زبانوں اور ہر شے ملیامیٹ کرنے والے تکبر وغرور کی شکل میں سامنے آیا۔ جس سے اخلاقِ عالیہ یوں مٹ گئے جیسے کشیدہ لباس کی کشیدہ کاری مٹتی ہے۔ کسی کو معلوم نہ رہا کہ رحمت کیا ہے، سادگی کیا ہے نرمی کسے کہتے ہیں۔ عہدوں، جائیدادوں اور عزتوں کی کثرت ہی اہل دنیا کا پیمانہ بن گیا۔ لوگ بھول گئے کہ یہ چیزیں تو عارضی ہیں اور جلد ہی ان کی واضح تصویر مٹ جانے والی ہے۔ ان کا دلوں پر کوئی خاص اثر نہیں رہنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
 (جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے) [الرعد: 17]۔

وہب بن مُنَبّہ رح نے مکحول رح کو جو خط لکھا تھا اس میں انہوں سے سچ لکھا تھا: ’’بعدازاں! تم نے اپنے ظاہری اعمال سے لوگوں کے یہاں ایک مقام اور مرتبہ حاصل کر لیا ہے، اب اپنے چھپے اعمال سے اللہ کے یہاں اپنا مقام ومرتبہ بنانے کی کوشش کر۔ یاد رکھ کہ یہ دونوں قسم کے مقام ایک دوسرے کو ختم کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں‘‘، 
یہاں تکبر وغرور سے خبردار کیا گیا ہے۔ یہ جس کا ساتھی بنتا ہے، اس کا دین ودنیا تباہ کر دیتا ہے۔ جی ہاں! یہ غرور ہی ہے جو نیکیوں کو چاٹ جاتا ہے، جو عجز وانکساری کو قتل کر ڈالتا ہے، جو دشمنوں اور بد خواہوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔ اگر تکبر کرنے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ جس چیز سے وہ اپنے گھر کی ترمیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس سے اصل میں اس کا اپنا گھر تباہ ہو رہا ہے، تو وہ لمحہ بھر کے لیے بھی لباس تکبر زیب تن نہ کرے۔


جو اپنے نفس کی حیثیت جان لیتا ہے، وہ اسے وہیں رکھتا ہے جہاں اسے رکھنا چاہیے۔ وہ اس کی صحیح انداز میں رہنمائی کرتا ہے۔ وہ اس کی لگام بن جاتا ہے۔ ارد گرد رہنے والوں میں سے ہر صاحب حق کا حق ادا کرتا ہے۔ جبکہ تکبر وغرور جس چیز میں شامل ہوتا ہے، وہ اسے گندا کر دیتا ہے، کسی قوم میں پھیلتا ہے، تو انہیں رسوا کر دیتا ہے۔ اللہ کے بندو! یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ کیونکہ تکبر کا ایک قطرہ انکساری کے ایک چشمے کو گندا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ قاعدہ تو طے شدہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار سے نشہ ہوتا ہے، اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہی ہے۔

اللہ کے بندو! 
تکبر وغرور کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ بندہ اپنی حیثیت کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اس کے پاس اپنے نفس کو جانچنے کے لیے صحیح پیمانا نہیں ہوتا۔ اسے لگتا ہے کہ وہ ان صلاحیتوں کا مالک ہے جو حقیقت میں اس میں نہیں ہوتیں، یا اللہ نے اسے کچھ صلاحیتیں دی ہوتی ہیں، مگر وہ ان کا شکر کرنے کی بجائے تکبر اور غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ناقابل قبول تصرفات کرنے لگتا ہے کہ جن کی کوئی صحیح بنیاد نہیں ہوتی۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ ایسے تصرفات کی بنیاد خود اعتمادی ہے، تو وہ غلطی پر ہے۔ کیونکہ تکبر اور خود اعتمادی میں بڑا واضح فرق ہے۔ 
خود اعتمادی کی وجہ صلاحیت کی موجودگی ہوتی ہے جبکہ تکبر کی وجہ صلاحیت کی کمی یا غیر موجودگی ہوتی ہے۔ غرور یہ ہے کہ انسان غیر حقیقی عظمت اور کمال کا دعویٰ کرے۔ خود اعتمادی ایک فطری چیز ہوتی ہے جس میں کوئی تکلف نہیں ہوتا، جبکہ تکبر وغرور مصنوعی اور خودساختہ ہوتا ہے۔ خود اعتمادی سے انکساری پیدا ہوتی ہے جبکہ غرور اس کے برعکس ہے، یہ انسان کو تکبر کی طرف دھکیلتا ہے۔

اللہ کے بندو!
 خلاصہ یہ ہے کہ خود اعتمادی بلندی کی طرف جانے والے زینے ہیں۔ تکبر رسوائی کی طرف لیجانی والی گھاٹی ہے۔ کہا جاتا ہے: ’’خود اعتمادی اور غرور میں بس ایک بال ہی کا فرق ہے۔‘‘

خود اعتمادی تو ایک زندہ مقصد اور محبوب اخلاق ہے۔ خود اعتمادی رکھنے والا اپنے اندر کسی اچھی صفت کی موجودگی سے مطمئن ہوتا ہے۔ اس میں انکساری ہوتی ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس سے بہتر صفات کے حاملین بھی موجود ہیں اور وہ خود بہت سے لوگوں سے بہتر ہے۔ اگر اس کا یہ حال نہ ہو تو وہ اپنی حقیقی صلاحیتوں یا خوش فہمی کی بنیاد پر تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

یہی تو تکبر کی حقیقت ہے۔ تکبر اور خود اعتمادی کے درمیان جو ایک بال کا فاصلہ موجود ہے، وہ یہی ہے کہ خود اعتمادی رکھنے والا خود پسندی کا شکار نہ ہو جائے۔ یہ وہ بال ہے کہ جس کے ٹوٹنے کی صورت میں انسان پر تکبر یوں چھا جاتا کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس پر کوئی قدرت نہیں رکھتا۔ وہ اپنی حیثیت سے اندھا ہو جاتا ہے اور اپنے عیبوں سے بہرا ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے عیب تو کسی نے دیکھے ہی نہیں!

 امام بیہقی کی حسن درجے کی سند کے ساتھ روایت کردہ حدیث میں ہے کہ: ’’تین چیزیں ہلاکت میں ڈلانے والی ہیں: وہ کنجوسی جس کی انسان پیروی کرنے لگے، ایسی خواہشات جن کے پیچھے انسان بھاگنے لگے اور انسان کی خود پسندی‘‘۔

اللہ کے بندو!
 تکبر ایسا نشہ ہے جو خود پسندی کی اضافی خوراک کی وجہ سے انسان پر حملہ کرتا ہے۔ اس کی عقل کو اپنے پروردگار کے حق سے اور دوسروں کے حقوق سے اندھا کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کی تعظیم کرنے لگتا ہے، اس کے کمال اور پسندیدگی کے بارے میں الفاظ بارش برسانے لگتا ہے، پھر وہ اس قابل بھی نہیں رہتا کہ چیزوں کو ارد گرد رہنے والوں کی نگاہ سے دیکھ لے۔ وہ صرف اپنے آپ کو دیکھ پاتا ہے، وہ کسی کی نصیحت قبول نہیں کرتا، کسی یاد دہانی پر دھیان نہیں دیتا، بلکہ وہ تکبر کو خود اعتمادی اور اپنی عزت کا نام دیتا ہے، جبکہ دوسروں کی نصیحتوں اور یاد دہانیوں کو حسد اور دل کی بھڑاس کہتا ہے۔ وہ اپنی ہر غلطی اور کوتاہی کی کوئی نہ کوئی تاویل کر لیتا ہے اور دوسروں کی صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ وہ دوسروں کو ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کے محبوب ترین لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس کی باتوں کی گونج بن جائیں۔ اس طرح اس کی صفات مجموعی طور پر لوگوں کو قریب کرنے والی نہیں بلکہ انہیں دور بھگانے والی بن جاتی ہیں۔ اللہ کی قسم! غرور کرنے والے کی یہی ہلاکت اور اس کی فلاح کی یہی قبر ہے، کیونکہ وہ اپنے حق میں بھی کوتاہیاں کرتا ہے اور دوسروں کے ساتھ بھی زیادتی کرتا ہے۔ اپنے نفس کے حق میں وہ یہ کوتاہی کرتا ہے کہ اسے ضرورت سے زیادہ بڑا سمجھنے لگتا ہے، اسے اس کے جسم سے بڑی پوشاک پہناتا ہے۔ دوسروں پر زیادتی یوں کرتا ہے کہ انہیں واجب اہمیت سے کم توجہ دیتا ہے، اس طرح وہ دوہرے پیمانوں کا حامل بن جاتا ہے اور اخلاقی گراؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔

جو تکبر وغرور اور خود پسندی سے سعادت کا طالب ہوتا ہے، وہ یقینی طور پر رسوا ہوتا ہے اور ایسی چیزوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جو اس کی خواہشات کی عین ضد ہوتی ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے حقیقت میں مغرور لوگ سعادت سے محروم ہوتے ہیں، بلکہ وہ اپنے غرور کی وجہ سے دوہری بدبختی کا شکار ہوتے ہیں۔ مغروروں کے لیے غرور نمکین پانی کی طرح ہے۔ جس سے انسان ایک کھونٹ پیتا ہے تو اس کی پیاس اور بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح وہ ایسے بیمار بن جاتے ہیں جو اپنا علاج بھی اسی بیماری سے کر رہے ہوتے ہیں جس کا وہ پہلے سے شکار ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کو شفا کیوں کر نصیب ہو؟
 جی ہاں! اس کا غرور اسے غبارے کی طرح پھلا ضرور دیتا ہے، مگر وہ اس سے بلندی کی طرف نہیں جاتا۔ بلکہ کھائیوں کی طرف گرتا جاتا ہے۔ وہ اپنا سینا جتنا بھی ابھار لے، بہر حال، اس میں ہوا کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس سے وہ ہوا میں اڑنے کے قابل کبھی نہیں ہو سکتا اور نہ وہ پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا: 
(زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو (37) اِن امور میں سے ہر ایک کا برا پہلو تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے) [الاسراء: 37 -38]۔

بعدازاں!
 اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! یاد رکھو تکبر کبھی قوت کو ظاہر نہیں کرتا اور انکساری کمزوری کو ظاہر نہیں کرتی۔ مغرور شخص اپنی خواہشات کے سامنے ذلیل اور انتہائی ضعیف ہوتا ہے،

جبکہ منکسر المزاج انسان خواہشات، تکبر اور خود پسندی جیسی بیماریوں کا مقابلہ بڑی سختی کے ساتھ کرتا ہے۔

پھر یہ بھی یاد رکھو کہ غرور کی بد ترین شکل اللہ کے انکار اور کفر کی ہے، جبکہ اس کی ہلکی ترین شکل حق کو رد کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔ جو غرور الحاد اور کفر کی طرف لیجاتا ہے، اللہ نے اس کے بارے میں یہ فرمایا ہے: 
(بعض اور لوگ ایسے ہیں جو کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر، گردن اکڑائے ہوئے (8) خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ خدا سے بھٹکا دیں) [الحج: 8 -9]
یعنی: تکبر اور غرور کی وجہ سے منہ موڑے رکھتا ہے۔
 ابن الجوزی رح معروف ملحد ابن راوندی کے بارے میں فرماتے ہیں، جو اپنی ذہانت کی وجہ سے بڑا معروف تھا، کہ ایک دن راستے میں اسے سخت بھوک لگی تو وہ پُل پر بیٹھ گیا۔ بھوک نے اسے ستا چھوڑا تھا۔ اسی دوران اس کے سامنے کچھ گھوڑے گزرے جس پر موٹا اور پتلا ریشم لدا ہوا تھا۔ اس نے کہا: ’’یہ کس کے ہیں؟ لوگوں نے کہا: فلاں کے ہیں۔ پھر اس کے سامنے سے کچھ خوبصورت لونڈیاں گزریں تو اس نے کہا: یہ کس کی ہیں؟ کہا گیا: فلان کی ہیں۔ پھر ایک شخص نے اس کا حال دیکھا تو اسے رحم آ گیا اور اس نے اسے روٹی کے دو ٹکڑے دیے، مگر اس نے انہیں دور پھینکتے ہوئے اپنے مالک پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: یہ ساری چیزیں فلان کی اور روٹی کے یہ ٹکڑے میرے؟!‘‘ یعنی وہ تکبر اور غرور کے ساتھ اپنے رب پر اعتراض کر رہا تھا۔ اس مغرور انسان کو اپنی ذہانت سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اپنے اسی رویے کی وجہ سے اس بھوک کا مستحق بنا ہے۔

اسی طرح جو غرور تکبر اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کی طرف لے جاتا ہے تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’تکبر یہ ہے کہ تو حق کو دھتکارے اور دوسروں کو حقیر سمجھے‘‘ (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔ امام نووی رح فرماتے ہیں: ’’حق دھتکارنے کا مطلب یہ ہے کہ خود کو بڑا سمجھتے ہوئے اور زیادتی کرتے ہوئے اسے رد کیا جائے اور اس کا انکار کر دیا جائے۔ لوگوں کو حقیر سمجھنا انہیں اپنے سے کم تر سمجھنا ہے‘‘۔

اللہ کے بندو!
 جامع اور مختصر بات یہ ہے کہ تکبر وغرور کی آگ بجھانے میں کوئی چیز قرآنی آیات اور سنت رسول کو دلوں میں ہمہ وقت تازہ رکھنے جیسی کار گر نہیں ہے۔ قرآن وحدیث میں لوگوں کی تخلیق کی ابتدا کے متعلق بتایا گیا ہے۔ یہ واضح کیا گیا ہے کہ سب ایک جیسے ہیں۔ سب آدم اور حواء کی اولاد ہیں۔ اگر ان کا کوئی قابل فخر نسب ہے، تو وہ مٹی اور پانی ہے۔ اللہ کے یہاں لوگوں کی برتری مال، معاشرتی مقام، نسب، ذہانت یا کسی عہدے کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ ان ساری چیزوں کی وجہ سے کوئی دوسرے سے بہتر نہیں بنتا۔ فرمانِ الٰہی ہے: 
(در حقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان اللہ نے پیدا کیے ہیں) [المائدہ: 18]۔

اللہ آپ پر رحم فرمائے! 
درود وسلام بھیجو مخلوقات کی افضل ترین اور انسانوں میں پاکیزہ ترین ہستی، حوض کوثر اور شفاعت کبری والے، محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ اللہ نے آپ کو یہ حکم دیتے ہوئے، پہلے اپنا ذکر فرمایا، پھر اپنی تسبیح بیان کرنے والے فرشتوں کا ذکر فرمایا، پھر آپ کو اے مؤمنو! کہہ کر مخاطب کیا۔ فرمایا: ﴿اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو﴾ [الاحزاب: 56]۔

اے اللہ! ہمارے نفس کو پرہیزگار بنا! انہیں پاکیزگی عطا فرما! تو ہی انہیں سب سے بڑھ کر پاکیزہ بنانے والا ہے۔ تو ہی اس کا ولی اور پروردگار ہے۔

اے اللہ! ہم تجھ سے جو خیر مانگیں، وہ ہمیں عطا فرما! جو نہ مانگیں، وہ بھی ہمیں عطا فرما! اور جس خیر تک ہماری امیدیں پہنچ ہی نہیں پاتیں، ان تک بھی ہمیں پہنچا۔

پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں (180) اور سلام ہے مرسلین پر (181) اور ہماری ہر بات کا خاتمہ اسی پر ہے کہ ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

تکبر وغرور کا مفہوم اور اس کے اثرات   خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)  امام و خطیب: ڈاکٹر سعود بن ابراھیم الشریم ترجمہ: محمد عا...

ماہِ شعبان میں رسول ﷺ کا طرز عمل - خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 12 اپریل 2019


ماہِ شعبان میں رسول ﷺ کا طرز عمل 
 خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) 
07 شعبان 1440 بمطابق 12 اپریل 2019
امام وخطیب: ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 07 شعبان 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "ماہِ شعبان میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان میں بہت کم روزے چھوڑتے اور زیادہ تر ایام روزوں میں گزارتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اس ماہ میں اعمال اللہ تعالی کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں اس لیے میں روزے کی حالت میں رہنا پسند کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ دو فضیلت والے مہینوں رجب اور رمضان کے درمیان شعبان کے مہینے سے لوگ غافل رہتے ہیں۔ سلف صالحین اس مہینے میں ماہ رمضان کی تیاری کے لئے قرآن مجید کو بہ کثرت یاد کرتے تھے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ شعبان کے آخری دنوں میں رمضان کے لئے احتیاط کے نام پر روزے رکھنا صریح حدیث کی مخالفت ہے، ایسے ہی شک کے دن کا روزہ رکھنا بھی صحیح نہیں، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: ایسی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے کہ جس میں نصف شعبان کی رات یا دن کو کوئی مخصوص عبادت کرنے کی تخصیص ہو، پھر آخر میں انہوں نے جامع دعا فرمائی۔

►منتخب اقتباس ◄

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں وہ نیک لوگوں کا والی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی الٰہ الحق اور ہر چیز واضح کرنے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے ، چنیدہ نبی اور امام الانبیاء و المرسلین ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔

اللہ کے بندو!

ماہ شعبان بھی دیگر مہینوں کی طرح ہے کہ مسلمان اس میں اللہ کی جانب سے فرض کردہ ا مور بجا لائے، اللہ تعالی کی اطاعت کرے ، تمام تر گناہوں اور حرام کاموں سے اپنے آپ کو بچائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ} 
اللہ کی جانب ہی استقامت اختیار کرو اور اسی سے بخشش مانگو۔[فصلت: 6]

مزید یہ کہ ماہ شعبان کے ایسے فضائل ہیں جن پر مومن کو فوری طور عمل پیرا ہو جانا چاہیے، انہیں پانے کے لئے موقعے کو غنیمت جانے، چنانچہ بخاری اور مسلم میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ -اللہ تعالی ان سے اور ان کے والد سے بھی راضی ہو-کہتی ہیں کہ: (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماہ رمضان کے علاوہ کسی بھی مہینے میں پورے ماہ کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے بڑھ کر کسی مہینے میں [نفل] روزے رکھتے ہوئے دیکھا )

بخاری اور مسلم ہی کی ایک اور روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان سے بڑھ کر کسی بھی مہینے میں [نفل] روزے نہیں رکھتے تھے؛ کیونکہ آپ اس پورے مہینے کے روزے رکھتے) تاہم پورے مہینے کے روزے رکھنے کی روایت اکثر اور زیادہ تر دنوں کے روزے رکھنے پر محمول کی گئی ہے، جیسے کہ ابن مبارک اور ابن حجر رحمہما اللہ وغیرہ نے اس کی وضاحت کی ہے؛ کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند دنوں کے علاوہ مکمل شعبان کے روزے رکھتے تھے)

اسلامی بھائیو!

اس مہینے کے دوران ایسے کام کرنے میں بالکل تاخیر نہ کرو جو تمہیں اللہ عزوجل کے قریب کر دیں، کیونکہ اس مہینے کی فضیلت ہے، اس مہینے کا سلف صالحین کے ہاں ماہِ قرّاء نام مشہور تھا؛ کیونکہ قرائے کرام کثرت کے ساتھ اس ماہ میں قرآن کریم کی دہرائی کرتے ہیں اور تلاوت قرآن کے لئے یکسو ہو جاتے ہیں۔ اس ماہ میں قرائے کرام قیام رمضان کی تیاری کے لئے کثرت سے قرآن کریم یاد کرنے کی پابندی کرتے ہیں۔

اس لیے تاخیر مت کریں، فوری اور جلدی سے اس ماہ کو متنوع عبادات، نوافل اور نیکیوں سے معمور کر دیں، چنانچہ امام احمد اور نسائی نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: " اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں رکھتے ہیں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ وہ مہینہ ہے کہ رجب اور رمضان کے درمیان آنے کی وجہ سے لوگ اس سے غفلت کر جاتے ہیں، حالانکہ یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں رب العالمین کے ہاں انسانوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں۔) اس حدیث کو امام احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اہل علم نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

جبکہ مسند احمد، سنن ابو داود اور نسائی وغیرہ میں جو حدیث آئی ہے کہ : (جب شعبان آدھا رہ جائے تو روزے مت رکھو) اس کے بارے میں اکثر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند اور متن دونوں ہی محقق علمائے کرام کے ہاں منکر ہیں، نیز جن اہل علم نے اسے صحیح قرار دیا بھی ہے تو ان کے ہاں اس کا معنی یہ ہے کہ جس کی روزے رکھنے کی عادت نہیں ہے تو اس کے لئے شعبان آدھا رہ جانے پر رمضان کے لیے احتیاط کے نام پر روزے رکھنا مکروہ ہے، بلکہ بعض اہل علم کے ہاں یہ احتیاط بدعت ہے۔

اس لیے اللہ کے بندو! اس ماہ میں اور دیگر مہینوں میں اپنے اوقات کو ایسے کاموں سے معمور رکھو جو تمہیں اللہ تعالی کے قریب کر دیں، نیکیوں اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ} 
اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی جانب بڑھو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جسے متقین کے لئے تیار کیا گیا ہے۔[آل عمران: 133]

اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ}
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لئے کیا پیش کیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ یقیناً اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ [الحشر: 18]

اہل ایمان!

نصف شعبان کی رات کو قیام اور دن کو صیام کے ساتھ مختص کرنا ایسا کام ہے جس کی کوئی صحیح دلیل معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملتی، بلکہ بہت سے محققین اور علمائے کرام نے اس سے روکا ہے اور صراحت کے ساتھ اس عمل کو بدعت قرار دیا ہے۔

اگر کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے کہ جس میں ہے کہ: (اللہ تعالی نصف شعبان کی رات لوگوں پر نظر فرماتا ہے ، پھر مشرک اور عداوت رکھنے والے کے سوا سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔) تو اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ اس رات یا دن میں کو کوئی مخصوص عبادات کی جائیں۔


اللہ کے بندو!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا افضل ترین عبادت ہے۔ یا اللہ! ہمارے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں، برکتیں، اور سلامتی نازل فرما ۔

اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔

یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو ماہ رمضان نصیب فرما، یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو ماہ رمضان نصیب فرما، یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو ماہ رمضان نصیب فرما، یا اللہ! ماہ رمضان کو ہمارے لیے بابرکت بنا دے، یا رحمن!

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوقات تیری اطاعت میں صرف کرنے کی توفیق عطا فرما۔ تیرے قرب اور رضا کی جستجو میں صرف کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! مسلمانوں میں سے بہترین افراد کو ان کی حکمرانی عطا فرما، یا اللہ! انہی لوگوں کو زمام حکومت عطا فرما، جو تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیرا خوف ان کے دلوں میں ہیں۔ یا اللہ! انہی لوگوں کو زمام حکومت عطا فرما، جو تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیرا خوف ان کے دلوں میں ہیں۔ یا اللہ! شریر حکمرانوں کو خود ہی کفایت کر جا، یا اللہ! شریر حکمرانوں کو خود ہی کفایت کر جا، یا اللہ! شریر حکمرانوں کو خود ہی کفایت کر جا، یاحیی! یا قیوم!

یا اللہ! سب مومن اور مسلمان مرد و زن کی مغفرت فرما دے، یا اللہ! زندہ اور فوت شدہ سب کی مغفرت فرما دے۔

آمین یا رب العالمین!!


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ماہِ شعبان میں رسول ﷺ کا طرز عمل   خطبہ مسجد نبوی (اقتباس)  07 شعبان 1440 بمطابق  12 اپریل 2019 امام وخطیب:  ڈاکٹر جسٹس حسین بن ...

آج کی بات ۔۔۔ 12 اپریل 2019

Image result for ‫آج کی بات‬‎
❣ آج کی بات ❣

اتفاق میں تو محبت ہوتی ہی ہے...
 بات تو تب ہے جب اختلاف کے باوجود محبتیں قائم رہیں؛
یہی حسن ہے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

❣ آج کی بات ❣ اتفاق میں تو محبت ہوتی ہی ہے...  بات تو تب ہے جب اختلاف کے باوجود محبتیں قائم رہیں؛ یہی حسن ہے۔ تبصرہ کرکے ا...