جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے
وہ چراغ بجھ کے بھی کیا بجھا کہ وہ نور اتنا عجیب تھا
سرِ عرش سے تہہِ خاک تک سبھی روشنی میں نہا گئے
وہ چلے تو دشت و جبل بھی ان کے قدم کی دھول میں چھپ گئے
وہ رکے تو سینہ خاک پر نئی داستان سجا گئے
وہ نظر سے جتنے ہی دور تھے دل و جاں سے لاکھ قریب ہیں
وہ دلیل بن کے حیات کی سبھی فاصلوں کو مٹا گئے
صفِ دشمناں کے قریب جب ہوئے نعرہ زن وہ جری جواں
مرے دشمنوں کے دل و دماغ پہ وہ رعد و برق گرا گئے
شاعر ۔۔۔ سلیم اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں