صاف دل؛ ایک عظیم نعمت اور ضرورت - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 07 دسمبر 2018

No automatic alt text available.
صاف دل؛ ایک عظیم نعمت اور ضرورت - 
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
29 ربیع الاول1440 بمطابق 07 دسمبر 2018
امام و خطیب:  ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 29 ربیع الاول1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " صاف دل،،، ایک عظیم نعمت اور ضرورت" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ مادہ پرستی کے دور میں ایک دوسرے کا بازو بننے کی ترغیب بہت ضروری ہے، اور یہ صاف دلی سے ممکن ہے۔ صاف دلی بہت بڑی نعمت بلکہ دنیا کی جنت ہے، اس کی علامت یہ ہے کہ ایمان، تقوی اور عقیدہ توحید کے ساتھ دل میں کینہ، عداوت، کدورت، نفرت، حسد، بغض نہ ہو۔ مسلمانوں کی خوشی پر خوشی محسوس ہو، دوسروں کی خیر خواہی، اشک شوئی اور دکھ درد بانٹنے کا جذبہ موجود ہو، جس کے ساتھ بھی تھوڑا یا زیادہ وقت گزارا ہو اس کے لیے دل صاف ہو۔ صاف دل رکھنے کے اثرات چہرے پر چمک کی صورت میں عیاں رہتے ہیں، اس کی بدولت انسان بلند درجات حاصل کر لیتا ہے۔ دل کو صاف رکھنے کے معاون اسباب ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتلایا کہ: دل میں للہیت، سچائی، تقدیر پر ایمان، تعلیمات الٰہیہ پر عمل، کثرتِ تلاوت، مجاہدۂ نفس، تحائف کا تبادلہ، مسلمانوں کے لئے دعا، زبانی اور عملی ہر طرح سے مسلمانوں کی مدد، شیطانی چالوں سے دوری، اور فضول بحث و تکرار سے اجتناب شامل ہیں۔ پھر آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔

↺ منتخب اقتباس ↻

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، وہ انتہائی عظیم اور حلم والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی عرش عظیم کا پروردگار ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ کو تمام اخلاق حسنہ کے ساتھ بھیجا گیا، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، تمام صحابہ کرام اور دین قویم پر قائم تابعین اور ان کے پیروکاروں پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہی اور اطاعت گزاری کی وصیت کرتا ہوں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا}
 اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والا بہت بڑی کامیابی حاصل کر گیا۔[الأحزاب: 71]

مسلمانو!

جب دنیا سے محبت کی نت نئی شکلیں سامنے آ رہی ہوں تو مسلمان میں دوسروں سے محبت اجاگر کرنے والی نصیحت اور وعظ کی ضرورت ہوتی ہے؛ کہ مسلمان دوسروں کے کام آئے، ان کا ہاتھ بٹائے، مسلمانوں کو پہنچنے والی تکالیف دور کرے۔ تو وہ نصیحت یہ ہے کہ انسان کا دل سب کے لئے صاف ہو؛ کیونکہ دل صاف ہو تو مسلمان کی زندگی انتہائی خوش حال ، پر بہار، اور پر مسرت بن جاتی ہے۔

یہ بہت ہی بڑی خوبی اور امتیازی صفت ہے کہ انسان کا دل صاف ہو ، اس کی بدولت مسلمان عظیم اجر بھی حاصل کرتا ہے بلکہ اس کا انجام بھی بہترین ہو گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ} 
قیامت کے دن مال اور بیٹے کچھ فائدہ نہیں دیں گے [88]مگر اس شخص کو جو اللہ کے پاس صاف دل کے ساتھ آئے۔[الشعراء: 88، 89]

ایمان، تقوی، عقیدہ توحید اور یقین کے بعد دل کے صاف ہونے کی علامات میں یہ بھی شامل ہے کہ دل مسلمانوں کے بارے میں کینے، حسد، اور عداوت سے پاک ہو۔ مسلمان اپنے بھائیوں کے ساتھ زندگی گزارے تو اس کا دل صاف ہو، خوشی محسوس کرے اور من پاک ہو۔ مسلمانوں کے متعلق دل میں غبار اور نفرت نہ ہو۔ کینہ، دھوکا، فریب اور مکاری مسلمانوں کے خلاف مت رکھے بلکہ ان کے ساتھ جود و سخا، اخلاق حسنہ، صاف دلی ، نیک نیتی اور پاک ضمیر کے ساتھ رہے؛ اس طرح وہ خود بھی پر سکون رہے گا اور لوگ بھی سکون پائیں گے۔

صاف دلی کی یہ بھی علامت ہے کہ لوگوں نے کبھی بھی ایسے شخص کے بارے میں برے کلمات نہیں سنے ہوتے، انہوں نے کبھی اس کی جانب سے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کیا ہوتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی اس وقت تک [کامل] ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے) متفق علیہ

اسلامی بھائیو!

اپنے سینے کو ہر قسم کی کدورت اور ہمہ قسم کے بغض سے پاک صاف رکھنا افضل ترین اعمال میں بھی شامل ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ: "کون سے لوگ افضل ترین ہیں؟" تو اس کے جواب میں فرمایا: (مخموم القلب اور سچی زبان والا شخص افضل ترین ہے) صحابہ نے عرض کیا: "سچی زبان والا تو ہمیں معلوم ہے، لیکن یہ مخموم القلب کون ہوتا ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس سے مراد پرہیز گا ر پا ک صاف شخص ہے جو گنا ہ ،زیادتی ،کینہ اور حسد سے پاک ہو) اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، اس کی سند کو منذری اور دیگر محدثین نے صحیح قرار دیا ہے۔

اس حقیقت کو امت کے سلف صالحین نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا، اس لیے انہوں نے دلی صفائی کی خوب ترغیب دلائی جیسے کہ زید بن اسلمؒ ، ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کے بیمار ہونے پر تیمار داری کے لئے تشریف لائے تو ان کا چہرہ چمک رہا تھا، اس پر زیدؒ نے کہا: "کیا بات ہے کہ آپ کا چہرہ چمک رہا ہے!" اس پر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: "مجھے اپنے دو اعمال کے متعلق زیادہ امید ہے کہ ان کی وجہ سے ہے: ایک یہ کہ: میں کسی بھی غیر متعلقہ معاملے میں زبان نہیں کھولتا اور دوسرا عمل یہ کہ: میرا دل تمام مسلمانوں کے لئے صاف رہتا ہے"

اسلامی بھائیو!

دل کو صاف رکھنے کے معاون اسباب میں یہ بھی شامل ہے کہ للہیت اور سچائی دل میں جا گزین ہو جائے، اللہ تعالی نے بندے کے لئے اس زندگی میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر راضی ہو جائیں، تعلیمات الٰہیہ کی پابندی کریں، قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کریں، ساتھ میں انسان مجاہدۂ نفس کرتے ہوئے دھوکا، کینہ، اور حسد جیسی خبیث بیماریوں کا مقابلہ کرے؛ یہ بھی یاد رکھے کہ ان خبیث بیماریوں کا خود انسان پر جلد یا تاخیر کے ساتھ بہت برا اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح خوب محنت کے ساتھ دعا مانگے کہ اللہ اسے صاف دل عطا کرے، سچی زبان عنایت فرمائے۔ نیز ہر غالی اور نفیس چیز کو محبت، مودت پیدا کرنے کے لئے خرچ کرے تا کہ باہمی بغض اور نفرت کا خاتمہ ہو جائے؛ دلی صفائی کے لئے سب کی سلامتی کو یقینی بنائے، لوگوں کے معاملات میں بلا وجہ دخل نہ دے۔ زیادہ سے زیادہ تحائف اور عطیات دے؛ ان سے مودت پیدا ہوتی ہے اور نفرت ختم ہوتی ہے۔ اسی طرح سب مسلمانوں کے لئے دعا کرے اور اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو معاف کر دے۔ زبانی یا عملی تمام تر ممکنہ صورتوں میں سب کے کام آئے، اس سے مسلمانوں کو خوش رکھنے میں مدد ملے گی؛ کیونکہ مسلمان کا معاملہ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی خوشیوں سے خود بھی خوش ہوتا ہے، اور جب انہیں کوئی دکھ یا تکلیف پہنچے تو ان کے درد بانٹ کر اشک شوئی کرتا ہے۔

دلی صفائی کے لئے انسان حالات و واقعات اور رونما ہونے والے روزمرہ مسائل میں بحث و تکرار سے اجتناب کرے؛ کیونکہ ان سے عام طور پر حسد اور نفرت پیدا ہوتی ہے، دلوں میں کدورتیں اور دوریاں آتی ہیں۔ بحث و تکرار کا فائدہ وہاں ہوتا ہے جہاں حق بات کی جستجو ہو، اور کوئی مخلص، خیر خواہ، سچا اور سُچا ، مکمل صلاحیت رکھنے والا صاحب علم گفتگو کرے، نیز تمام کے تمام اخلاقی اور علمی آداب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا }
 اور لوگوں سے بات کرو تو اچھی کرو۔[البقرة: 83]

صاف دلی دائمی نعمتوں کے حصول کا بہت بڑا دروازہ ہے، سلف صالحین میں سے کسی نے کہا تھا: "پرہیز گاری دین کی بنیاد ہے۔ افضل ترین عبادت رات کی محنت ہے۔ جبکہ جنت کا مختصر ترین راستہ صاف دلی ہے"

اس لیے اپنے دل کو صاف رکھیں، اپنے اندر کسی کے بارے میں کدورت اور نفرت نہ رہنے دیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہدف کو پانے کی خوب ترغیب دی اور اس کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور فرمایا اور کہا: (آپس میں بغض نہ رکھو، نہ ہی باہمی حسد کرو، ایک دوسرے سے منہ مت موڑو، اور اللہ کے بندے ہو کر بھائی بھائی بن جاؤ، کسی بھی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھے) مسلم

اس لیے اللہ کے بندو! اللہ کے لیے محبت کرنے والے بن جاؤ، تقوی کی بنیاد پر دوستی کرنے والے بن جاؤ اور ایک دوسرے کو نیکی اور اطاعت کی تلقین کرتے رہو۔

یا اللہ! ہمارے دلوں کو صاف کر دے، یا اللہ! ہمارے دلوں کو صاف کر دے، یا اللہ! ہمیں اپنے گفتار اور کردار میں سچائی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! ہمیں نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے سے محبت کرنے والا بنا دے، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! یا غنی! یا حمید! ، یا قابض! یا باسط! یا ماجد! یا اللہ! ہمیں رحمت کی بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں رحمت کی بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں رحمت کی بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمارے ملک اور مسلم ممالک میں بارشیں عطا فرما، یا اللہ! ہمارے ملک اور مسلم ممالک میں بارشیں عطا فرما، یا اللہ! ہمارے ملک اور مسلم ممالک میں بارشیں عطا فرما۔

اللہ کے بندو! اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، اور صبح و شام بھی اسی کی تسبیح بیان کرو ، اور ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں رب العالمین کے لیے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں