اسلام میں مسلمان کے سماجی حقوق
خطبہ جمعہ مسجد نبوی ( اقتباس)
22 ربیع الاول 1440 بمطابق 30 نومبر 2018
امام و خطیب: ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: اردو مجلس فورم
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 22 ربیع الاول 1440 کا خطبہ جمعہ " اسلام میں مسلمان کے سماجی حقوق" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام میں سماجی حقوق کی بہت اہمیت ہے، ان کی ادائیگی یقینی بنانے کے لئے ان پر ثواب بھی عنایت کیا، ان حقوق پر مشتمل ایک جامع حدیث ذکر کی اور اس کی تفصیلات بھی بتلائیں کہ: سلام در حقیقت پیغام محبت اور امان ہے، سلام کی حقیقت سے آشنا معاشرہ بہت سی خرابیوں سے پاک ہو سکتا ہے۔ کھانے کی دعوت قبول کرنی چاہیے تاہم دعوت میں حاضر ہو کر کھانا تناول کرنا یا نہ کرنا آپ کی چاہت پر منحصر ہے، دعوتوں پر فضول خرچی اسلام کے منافی عمل ہے۔ اچھا مشورہ اور نصیحت بھی مسلمان کا حق ہے، خیر خواہ شخص کسی کے عیوب کی تشہیر نہیں کرتا بلکہ متعلقہ شخص تک محدود رکھتا ہے، کچھ لوگ پگڑی اچھالنے کو نصیحت کا نام دیتے ہیں جو کہ بدنیتی کی علامت ہے۔ چھینک آنے پر الحمدللہ کہنا اور سننے والے کا"یَرْحَمُكَ اللهُ" کہنا بھی مسلمان کا حق ہے، چھینک اللہ کی نعمت ہے جو کہ اللہ کا خصوصی شکر کی متقاضی ہے۔ تیمار داری بھی مسلمان کا حق ہے، تیمار داری کرنا بہت ہی فضیلت والا علم ہے، تیمار داری میں مریض پر دم کرنا چاہیے، تیمار داری جنت میں داخلے، فرشتوں کی دعائیں، اور اللہ کی رحمت لینے کا باعث عمل ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: نماز جنازہ بھی مسلمان کا حق ہے اور دفن تک ساتھ رہنے سے دو احد پہاڑ کے برابر ثواب ملتا ہے، آخر میں انہوں نے کہا کہ ان حقوق کی ادائیگی کرنے والا معاشرہ انتہائی مضبوط بنیادوں پر قائم رہتا ہے، انہیں کوئی بیرونی طاقت متزلزل نہیں کر سکتی، پھر آخر میں انہوں نے سب کے لئے جامع دعا کروائی۔
↺ منتخب اقتباس ↻
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ اس نے اطاعت گزاری اور حقوق کی ادائیگی کے لئے توفیق دی، اسی کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے اپنے بندوں کو گمراہی اور فسق سے محفوظ رکھا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ تعالی نے حق کو غلبہ عطا کیا اور باطل کو نیست و نابود فرمایا، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے ہمیں اعلی اخلاق کی تبلیغ فرمائی اور نافرمانی سے خبردار کیا۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر اس وقت تک رحمتیں نازل فرمائے جب تک صبح ہوتی رہے اور سورج چمکتا رہے۔
مصروفیات اور مادیت کے سیل رواں کی وجہ سے مسلمان کی توجہ کچھ واجبات اور سماجی تعلقات سے ہٹ جاتی ہے، اور بسا اوقات انہیں بھول جاتا ہے یا عمداً توجہ یہ کہتے ہوئے نہیں دیتا کہ میں یہ کمی ، کوتاہی اور سماجی تعلقات میں سرد مہری بعد میں ختم کر دوں گا؛ پھر اسی امید پر سالہا سال گزر جاتے ہیں اور عمر بیت جاتی ہے، جس کی وجہ سے دوری بڑھتی جاتی ہے اور دراڑیں گہری ہوتی جاتی ہیں، زندگی پر خشک سالی کا غلبہ ہو جاتا ہے اور جذبات سوکھ جاتے ہیں۔
اسلام نے سماجی تعلقات کو بھر پور اہمیت دی، سماجی تعلقات پر اتنا اجر بھی مرتب کیا کہ تعلقات میں پہل کرنے کی ترغیب ملے؛ تا کہ دل آپس میں جڑ جائیں، باہمی تعلقات گہرے ہوں ، ایک دوسرے کی ضروریات پوری ہوں، معاشرے کے سب افراد اچھے اخلاق اور بہترین تعامل کو فطرت ثانیہ بنا لیں، پھر میزان بھی نیکیوں سے بھر جائے اور درجات بھی بلند ہو جائیں۔
جس وقت سماجی حقوق ادا کیے جائیں، تو تعلقات مضبوط ہوتے ہیں، جن کی بدولت مضبوط ، آہنی، اور گہری بنیادوں والا معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں ) پوچھا گیا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کو ن سے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جب تم ملو تو سلام کرو اور جب وہ تم کو دعوت دے تو قبول کرو اور جب وہ تم سے مشورہ طلب کرے تو اس کو خیر خواہی والا مشورہ دو، اور جب چھینک آنے پر الحمدللہ کہے تو اس کے لیے رحمت کی دعا کرو۔ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں جاؤ۔) مسلم
یہ ایک عظیم حدیث ہے ، یہ حدیث مسلمانوں کی باہمی تعلق داری اور محبت کے آفاق عیاں کرتی ہے، مسلمانوں کی زندگی میں روح پھونکتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ}
ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، اگر آپ ما فی الارض بھی خرچ کر دیتے تو ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتے تھے؛ لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی ۔ [الأنفال: 63]
◄ایک مسلمان کا دوسرے پر اولین حق محبت اور مودت پر مبنی دعائیہ جملہ ہے جو کہ اہل جنت کا سلام بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم مومن ہو جاؤ، اور تم مو من نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو ، آپس میں سلام عام کرو۔) مسلم
سلام دلوں میں محبت سرایت کرنے کا ذریعہ ہے تو کسی بھی دروازے پر اجازت لینے کا سلیقہ بھی ، سلام زندگی کو برکت، ترقی اور فروغ دیتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً }
جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنوں کو سلام کہا کرو۔ یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ [النور: 61]
سلام در حقیقت پروانۂ امان ہے، اور اہل ایمان کی شان بھی۔ جو بھی سلام کا معنی، مقام، اور اس کی حقیقت و فضیلت سے آشنا ہو جائے تو اس کا باطن پاک ہو جائے، تعامل مہذب بن جائے، اور اس شخص کا معاشرہ بھی دین و دنیا کے اعتبار سے ترقی کر جائے۔
◄مسلمان کا مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ: مسلمان کی کھانے پر دعوت قبول کرے، ولیمے میں شرکت کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرے، اور اس کی خوشی میں شریک ہو، دعوتوں کے تبادلے سے باہمی الفت اور یگانگت کو فروغ ملتا ہے، ایک دوسرے سے ملنے اور ملاقات کا موقع بنتا ہے، جس کی بدولت مسائل بھی تحلیل ہو جاتے ہیں، اہل عقل و خرد ناراضیوں سے تجاوز کر جاتے ہیں، دوریاں ختم ہو جاتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرے، پھر [وہاں پہنچ کر] اس کی مرضی ہے کہ چاہے تو کھانا کھا لے اور چاہے تو نہ کھائے۔) مسلم
دعوت کی قدر و قیمت دعوت پر کیے جانے والے خرچے اور تکلف پر نہیں بلکہ دعوت کا مقصود باہمی بھائی چارے اور مسلمانوں کے آپس میں رابطے سے پورا ہو جاتا ہے، جبکہ دعوتوں میں فضول خرچی یکسر قابل ستائش عمل نہیں ہے، یہ شریعت کے منافی ہے، فضول خرچی سے برکت مٹ جاتی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ}
کھاؤ، پیو اور فضول خرچی نہ کرو، بیشک اللہ فضول خرچی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ [الأعراف: 31]
◄مسلمان کا تیسرا حق یہ ہے کہ: اپنے بھائی کو نصیحت کرے تو نرمی اور پیار کے ساتھ، نصیحت اور مشورہ در حقیقت مسلمان کا اپنے بھائی کے لئے پیغامِ محبت ہوتا ہے؛ کیونکہ مسلمان اپنے بھائی کے لئے ہمیشہ خیر چاہتا ہے اور اسے اپنے بھائی کا نقصان کسی صورت قبول نہیں۔
خیر خواہ شخص کا دین میں بہت عظیم مقام اور مرتبہ ہے، جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے اس دن بھی اس کا بہت بلند مقام ہو گا، تو جس وقت خیر خواہ شخص کسی کو نصیحت کرتا ہے تو سُچا آدمی نصیحت کو سن کر کشادہ دلی سے قبول کرتا ہے، نصیحت قبول کر کے بڑے پن کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ نصیحت گر کے بارے میں بد گمانی نہیں کرتا، یا اس کی غلط توجیہ نہیں کرتا، اسی لیے امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: "اللہ اس شخص پر رحمت فرمائے جو ہمیں تحفے میں ہمارے عیب بتلائے۔"
◄مسلمان کا چوتھا حق یہ ہے کہ چھینک لے کر الحمدللہ کہنے پر چھینک لینے والے کے لئے اللہ سے دعا اور رحمت مانگیں۔ دعا سے ہر ایک خوش ہوتا ہے اور مزید دعا چاہت رکھتا ہے، اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مسلمان آدمی کی اپنے بھائی کے لئے پیٹ پیچھے کی دعا مقبول دعا ہوتی ہے، دعا کرنے والے کے سر پر ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کے لئے کہتا ہے: آمین، تمہیں بھی یہی کچھ ملے) مسلم
چھینک اللہ تعالی کی نعمت ہے، چھینک آنے پر اللہ کا شکر اور الحمدللہ پڑھنا اس نعمت کا حق ہے، چھینک لینے والے کے الحمدللہ کہنے پر دعا کرنے اور اللہ کا ذکر کرنے سے شیطان غضبناک ہوتا ہے۔ پھر چھینک لینے والے کے لئے حکم ہے کہ اس کے الحمدللہ کا جواب "یَرْحَمُكَ اللهُ" کہہ کر دینے والے کے لئے مغفرت، ہدایت اور اصلاح احوال کی دعا کرے اور کہے: "يَهْدِيْكُمُ اللهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ" کہے، دعا کے ان الفاظ میں ہر طرح کی بہتری مراد ہے۔
◄مسلمان کا مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ جب بیمار ہو تو اس کی تیمار داری کرے ؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ مریض کو کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ایسا بھی ممکن ہے کہ بیماری ہفتوں اور مہینوں تک لمبی ہو جائے، بیماری کے باعث نہ آنکھیں آرام کر سکیں اور نہ ہی ذہن کو سکون ملے، درد اور الم سے کڑھتا اور کروٹیں ہی لیتا رہے، مریض شخص کو ایسی مقبول دعا کی تمنا ہوتی ہے جسے قبول کر کے اللہ تعالی مریض کو شفا یاب فرما دے، اس کے درجات بلند کر دے۔ مریض کو ایسی تیمار داری کی چاہت ہوتی ہے جس سے اس کی تکلیف کم ہو جائے، ایسے بول کی ضرورت ہوتی ہے جو پریشانی میں غم گسار بن جائے، ایسے احساس کی ضرورت ہوتی ہے جو بھائیوں کے قریب ہونے کی اطلاع دے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے کسی ایسے مریض کی عیادت کی جس کا ابھی وقت نہ آیا ہو اور سات بار اس کے پاس یہ دعا پڑھے: "أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ " [ترجمہ: میں اللہ سے سوال کرتا ہوں جو عظمت اور بڑائی والا اور عرش عظیم کا رب ہے کہ تجھے شفا عنایت فرمائے ]تو اللہ تعالی اسے اس بیماری سے عافیت دے دے گا) ابو داود
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے کسی مریض کی عیادت کی وہ مسلسل "خرفۂ جنت" میں رہا)آپ سے پوچھا گیا: اللہ کے رسول! "خرفۂ جنت" کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: (جنت کے چنے ہوئے پھل) مسلم
یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کوئی بھی مسلمان کسی مسلمان کی دن کے کسی بھی حصے میں عیادت کرے تو اللہ تعالی ستر ہزار فرشتوں کو بھیجتا ہے اور وہ اس کے لیے شام تک دعا کرتے ہیں اور اگر رات کو عیادت کرے تو صبح تک اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں) احمد
جب آپ ان حقوق پر غور کریں کہ یہ متنوع، ہر طرح کے اور با مقصد ہیں تو آپ کو یقینی طور پر علم ہو جائے گا کہ مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی پر ایسے حقوق بھی ہیں جو اس کی وفات تک جاری و ساری رہتے ہیں،
◄ بلکہ وفات بعد بھی کچھ حقوق ہیں کہ: اس کے جنازے کے ساتھ جائیں اور اس کے لئے دعا کریں، یہ مسلمان کی تکریم اور اظہار شان ہے، دوسری جانب اہل ایمان کے ہاں وفا کی حقیقی منظر کشی بھی کرتا ہے، در حقیقت یہی مسلمانوں کے ما بین اخوت کا تقاضا بھی ہے۔
مسلمان فوت ہو جائے تو غسل اور کفن دینے کے بعد اس کا جنازہ ادا کیا جاتا ہے، دعائے مغفرت کی جاتی ہے اور پھر قبر تک اسے رخصت کرنے کے لئے لوگ جاتے ہیں، پھر اسے قبر کی مٹی میں دفن کیا جاتا ہے، پھر قبر کی بھی رکھوالی کی جاتی ہے کہ قبروں کی بے حرمتی نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو کوئی ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے پھر نماز جنازہ اور دفن سے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر واپس آتا ہے۔ ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔) متفق علیہ
ایسا معاشرہ جہاں پر حقوق؛ اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ادا کیے جائیں تو وہ معاشرہ انتہائی مضبوط بنیادوں اور اتحاد کا حامل ہوتا ہے، اس معاشرے کے افراد معزز ہوتے ہیں، کسی بھی دشمن کو ایسے معاشرے میں قدغن لگانے کا موقع نہیں ملتا، ان کی بنیادوں کو ہلانے یا باہمی محبت میں رخنے پیدا کرنے میں انہیں کامیابی نہیں ملتی، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ}
ان کے بعد آنے والے کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے، اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے [الحشر: 10]
اللہ کے بندو!
رسولِ ہُدیٰ پر درود و سلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔ [الأحزاب: 56]
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
یا اللہ! ہم تجھ سے تیری رضا اور جنت مانگتے ہیں، یا اللہ! ہم تیری ناراضی اور جہنم سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے۔ اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، نیز ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی بھلائی مانگتے ہیں چاہے کوئی جلدی ملنے والی یا دیر سے، یا اللہ ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی برائی سے پناہ مانگتے ہیں چاہے وہ جلد آنے والی ہے یا دیر سے ۔
یا اللہ! ہم تجھ سے شروع سے لیکر آخر تک، ابتدا سے انتہا تک ، اول تا آخر ظاہری اور باطنی ہر قسم کی جامع بھلائی مانگتے ہیں، نیز تجھ سے جنتوں میں بلند درجات کے سوالی ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہماری عبادات اور دعائیں قبول فرما، بیشک تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے، یا اللہ! ہمیں بخش بھی دے، تو ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ}
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23] {رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201] ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں