اکتاہٹ سے بچیے۔ خطبہ مسجد حرام (اقتباس)
امام وخطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی حفظہ اللہ
جمعۃ المبارک 7 ربیع الآخر 1440ھ بمطابق 14 دسمبر 2018ء
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: عمر وزیر
ہر طرح کی حمد وثنا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ وہی کائنات کو پیدا کرنے والا ، دنیا کی ہر چیز کو تخلیق کرنے والا ہے۔ وہی رزق بانٹنے والا ، وہی عطائیں دینے والا اور نوازشیں کرنے والا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ جسے چاہتا ہے، عدل کے مطابق اپنا فضل وکرم عطا فرما دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے اپنی حکمت کے مطابق محروم کر دیتا ہے۔ اس کی عطا کو کوئی نہیں روک سکتا اور اس کی روکی چیز کوئی دے نہیں سکتا۔ اس کے مقابلے میں کسی کی طاقت کام نہیں آ سکتی۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے دیے پر راضی، اللہ کے لکھے پر قناعت کرنے والے، اچھے دنوں میں شکر کرنے والے اور برے دنوں میں صبر کرنے والے تھے۔ اللہ کی رحمتیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، اہل بیت پر، صحابہ کرام پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر بھی بہت سلامتی نازل ہو۔
اے مسلمانو!
لوگوں کے رزق، آمدنی اور ان کے نصیب صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ ہی یہ چیزیں اپنے بندوں میں تقسیم کرتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے
امام بغوی علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: یعنی وہ جس کا رزق چاہتا ہے، کشادہ کر دیتا ہے، اور جس کا چاہتا ہےتنگ کر دیتا ہے۔ وہی مکمل عدل اور حکمت والا ہے۔
یہ بھی اللہ کی حکمت ہے کہ اس نے لوگوں کے رزق میں فرق رکھا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دیا ہے۔ کسی کو دیتا ہے پھر اُسے اسی چیز سے محروم کر دیتا ہے، کبھی اس کے برعکس کر دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو پہچان نہ سکے اور ان کی ناقدری اور تحقیر کرنے لگے، پھر وہ ان سے تنگ آ جائے اوراس کا دل بھر جائے، وہ ان سے بیزار ہو جائے اور بے تابی میں رہنے لگے۔ یہ چاہتا ہے کہ یہ نعمتیں چھن جائیں اور ان کی جگہ دوسری نعمتیں مل جائیں۔ اس حوالے سے ہمارے لیے پچھلی قوموں میں بہت بڑا سبق ہے۔ بنی اسرائیل نے اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ مَنُّ وسلویٰ کی جگہ کوئی اور کھانا دیا جائے، کہ وہ اس سے اکتا گئے تھے اور تنگ آ گئے تھے چنانچہ انہوں نے اس کی جگہ اس سے کم تر چیز کو اختیار کر لیا۔ ساگ، کھیرے، گندم، دال، پیاز کو پسند کر لیا۔ سب سے افضل اور شاندار کھانوں کو چھوڑ کر انہوں نے ان سےکم تر چیز کا مطالبہ کر دیا۔
اسی طرح قومِ سبأ، جن پر اللہ تعالیٰ نے نعمتوں کی برکھا خوب برسائی اور مشکلات سے مکمل حفاظت عطا فرمائی، انہیں دنیا میں دو عظیم باغ عطا فرمائے، جو پھلوں سے لدے رہتے تھے، ان کے شہر کا ماحول بہترین بنایا، اسے گندگی اور غلاظت سے پاک فرمایا اور انہیں وافر رزق عطاء فرمایا۔ مگر انہوں نے اللہ کے شکر کی بجائے ناشکری اور نعمت سے اکتاہٹ کا اظہار کیا، اور یہ مطالبہ کیا کہ ان کی بستیاں دور دور کر دی جائیں، حالانکہ اس سے پہلے وہ انتہائی قریب رہتے تھے ،آنا جانا انتہائی آسان تھا۔ وہ امن وامان میں بھی رہ کر تنگ پڑ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دی اور ان پر سیلاب کا عذاب نازل کر دیا۔ ان کے باغوں کو تلف کر دیا۔ وہی جنتیں، جو دلفریب باغوں سے پھلوں سے گھنے درختوں بھری تھیں، اب بے فائدہ جھاڑیوں کا جنگل بن گئیں۔
اے مسلمانو!
اللہ کی نعمتوں سے اکتاجانا بہت بڑی آفت ہے، جس کی وجہ سے انسان کو موجودہ نعمتوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ جس کے بعد وہ یقینی طور پر یہ تمنا کرے گا کہ وہ اللہ کی دی گئی نعمتوں پرہی راضی رہتا۔ اس آفت کے متعلق ابن القیم علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
یہ بہت عام اور چھپی آفت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی چنیدہ اور عطا کردہ نعمت انسان کو میسر ہو اور وہ اس سے اکتا جائے اور اسی اپنی جہالت کی بنا پر ایسی چیز سے تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنے لگے جسے وہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے بہتر سمجھتا ہو، جبکہ اللہ تعالیٰ اس کی جہالت کو دیکھتے ہوئے اس کے برے اختیار کو پورا نہ کر رہا ہو بلکہ اس کی بہتر نعمت ہی قائم رکھ رہا ہو، اور وہ اس نعمت سے بہت تنگ آ جائے اور تنگ دل ہو جائے اور اکتاہٹ اپنے عروج کو پہنچ جائے تو اللہ نعمت چھین لے۔ جب وہ اپنی مانگی ہوئی نعمت حاصل کر لے اور پھر گزشتہ اور حالیہ نعمت میں تقابل کرے تو وہ افسوس اور سخت ندامت کا شکار ہو جائے، پھر پچھلی چھنی نعمت کا مطالبہ کرنے لگے۔ ایسی صورت میں اگر اللہ تعالیٰ انسان کو کامیابی اور بہتری عطا کرنا چاہے تو وہ اسے گواہ بنا لیتا ہے کہ یہ دوسری نعمت بھی اللہ ہی کی عظیم نعمت ہے، اسی سے راضی کر دیتا ہے اور شکر کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔
امام طبرانی نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے فلان! تونے کس حال میں صبح کی؟ اس نے کہا، میں اللہ کی حمد وثنا بیان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے یہی چاہتا تھا۔ یعنی کہ تم اللہ کا شکر اور اس کی حمد وثنا بیان کرو۔
جب ابن المغیرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: اے ابو محمد؟ تونےکس حال میں صبح کی؟ انہوں نے کہا: اللہ کی نعمتوں میں غرق، شکر سے عاجز، ہمارا پروردگار ہم سے بے نیاز ہونے کے باوجود ہمارا پیار جیتنے کی کوشش کرتا ہے اور ہم اس کے محتاج ہونے کے باوجود اسے ناراض کرتے ہیں۔
یہ ہیں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں: جب تک میرے کپڑے مجھے پورے آتے ہیں، میں ان سے کبھی نہیں اکتاتا، میری بیوی جب تک میرے ساتھ اچھی رہتی ہے، میں اس سے بھی نہیں اکتاتا، جب تک میری سواری مجھے اٹھاتی ہے، میں اس سے بھی نہیں اکتاتا۔ اکتاہٹ برے اخلاق میں سے ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا۔ اکتاہٹ واقعی بہت برا اخلاق اور مذموم صفت ہے۔ اس کی وجہ سے انسان اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے، ان سے تنگ پڑتا ہے، رزق میں اللہ کی تقسیم سے ناراض ہوتا ہے۔ یہ بات کتنی بری ہے کہ انسان اللہ کی نعمتوں اور عطاؤں میں ہو، اس کے باوجود وہ نعمتوں سے تنگ پڑ جائے اور نا شکری کرنے لگے۔
ابن القیم علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: انسان کے لیے اللہ کی نعمتوں سے اکتاہٹ سے زیادہ نقصان دہ چیز کوئی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جب انسان اکتا جاتا ہے تو وہ نعمت کو نعمت نہیں سمجھتا، اس پر شکر ادا نہیں کرتا، اس سے خوش بھی نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے تنگ دل ہو جاتا ہے اور اسی کی شکایت کرنے لگتا ہے اور اسے مصیبت سمجھنے لگتا ہے حالانکہ وہ اللہ کی عظیم نعمت ہوتی ہے۔
تو اے مسلمانو! لوگ موجودہ نعمتوں سے کس طرح تنگ پڑ جاتے ہیں، انہیں حقیر کس طرح سمجھنے لگتے ہیں اور کم تر نعمتوں کی تمنا کیوں کرنے لگتے ہیں جبکہ بہتر نعمتیں پہلے سے ہی ان کے پاس ہوتی ہیں؟ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسرے سے حسد کرنے لگتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے: فلاں مجھ سے افضل کیوں ہے؟ میں دوسروں سے کم تر کیوں ہوں ؟ اگر کسی نعمت سے کچھ عرصہ سے لطف اندوز ہوتا رہے، توحقارت کے ساتھ کہنے لگتا ہے: کیا ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور نعمت نہیں ہے؟ اللہ کی نعمت سے تنگ ہو جاتا ہے، اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا اور الہ کے دیے پر قناعت نہیں کرتا۔
ایسے لوگ دنیا کو درست نگاہ سے دیکھنا کیوں نہیں جانتے؟ امام مسلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیاوی نعمتوں کے حوالے سے کم تر لوگوں کی طرف دیکھو، بہتر لوگوں کی طرف نہ دیکھو۔ ایسا کرنے سے تم اللہ کی نعمتوں کی ناقدری سے بچ جاؤ گے۔
یعنی اگر اللہ کے دیے پر راضی ہو جاؤ گے اور دوسروں کے ہاتھ میں دی گئی نعمتوں پر نظر نہیں اٹھاؤ گے تو شکر کی توفیق ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ انسان اگر قناعت پسندی اپنا لے تو وہ آزاد ہو جاتا ہے اور اگر لالچ میں آ جائے تو غلام بن جاتا ہے۔
بھائیو! موجودہ صورت حال میں بہت سے لوگ اکتاہٹ کا شکار ہیں، تنگ دلی اور مایوسی کے عالم میں ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ تعلق باللہ مضبوط نہیں ہے، فرمان برداری کا فقدان ہے اور منہج الٰہی سے رو گردانی ہے۔ اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ بڑھاپے میں انسان اپنی زندگی سے تنگ پڑ جائے۔ جیسا کہ دورِ جاہلیت کے شاعر نے کہا تھا:
تھک گیا ہوں میں، زندگی کےبوجھ سے
اور جسے اسی سال جینا پڑے، میرے بھائی! وہ تنگ پڑ ہی جاتا ہے۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی اپنے آپ کو موت کی بد دعا دے، بھول جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خبردار فرمایا تھا۔ فرمایا:
کسی مصیبت یا تنگی کی وجہ سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے۔ اگر کرنی ہی ہو تو یہ کہے: اے اللہ! جب تک زندگی بہتر ہے، اسے دراز کرتا جا اور جب موت بہتر ہو تو مجھے اپنے پاس بلا لے۔ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
لوگ وہ بھی ہیں جو اپنے والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ احسان کر رہے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ نیکی کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو ان کے ساتھ رہنے کو نا پسند کرنے لگتے ہیں اور ان کی صحبت سے تنگ ہو جاتے ہیں۔ ان کے احسانوں اور ان کے ساتھ تعلق تک کے منکر ہو جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ دشمنی کرنے لگتے ہیں، انہیں اذیت دینے لگتے ہیں، ان سے تنگ پڑنے لگتے ہیں، انہیں نازیبا الفاظ اور جملے سنانے لگتے ہیں، ان کے احساسات مجروح کرنے لگتے ہیں، ان کے فضائل بھول جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کون سی گستاخی ہو سکتی ہے؟ کیا اس نا شکرے کو والدین کے حقوق کا کوئی علم نہیں؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ برا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
ایسےلوگ بھی ہیں جو قرآن کریم سیکھنا شروع کرتے ہیں یا دینی علوم سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جلد ہی تنگ پڑ جاتے ہیں اور راستے کو طویل سمجھنے لگتے ہیں۔ ثابت قدم نہیں رہتے بلکہ جلدی مچاتے ہوئے کسی دوسرے علم کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔ علم کو آہستہ آہستہ نہیں سیکھتے اور کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کرتے۔ صبر وتحمل اختیارنہیں کرتے۔
ایسے بھی ہیں کہ لوگوں کو دین کی طرف لانے، انہیں وعظ ونصحیت کرنے اور رہنمائی کرنے میں جن کا بڑا کردرا ہوتا ہے، مگر جب تھوڑا وقت گزرتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایک ہی چیز بار بار دھرانے کا، یا اس راستے پر چلنے یا قائم رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یا اس راستے میں ہٹ دھرم یا متکبر کا سامنا ہوتا ہے جو حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے، تو وہ لوگوں کے فائدے سے امید توڑ دیتے ہیں اور مایوس ہو جاتے ہیں اور اس راہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی نیک اور فضیلت والا کام کر رہے تھے۔
ایسے بھی ہیں جو کوئی خیراتی کام کرتے ہیں۔ نیک کام کرتے ہیں یا قرب الٰہی کی غرض سے کوئی عمل سرانجام دیتے ہیں، لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں، محتاجوں اور فقیروں کی مدد کرتے ہیں، مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبتیں آسان کرتے ہیں، یتیموں کی کفالت کرتے ہیں، لوگوں میں صلح کراتے ہیں، مگر یکا یک ان سب کاموں کو چھوڑ دیتے ہیں، جبکہ کوئی خاص عذر بھی نہیں ہوتا، نہ کوئی واضح سمجھ آنے والا سبب ہوتا ہے، بلکہ اس کی وجہ صرف اکتاہٹ اور تنگی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ نیکی کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے اجر سے محروم ہو جاتے ہیں ۔
اللہ کے بندو!
ہمیں اللہ کی طرف جانے والے راستے پر ثابت قدم رہنا چاہیے اور اپنی سمت درست رکھنے کی کوشش میں رہنا چاہیے۔ گمراہی سے بچنا چاہیے۔ نیکی اور نعمت کی اکتاہٹ سے بھی بچنا چاہیے۔ اور ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے اکتاہٹ کا علاج کرنا چاہیے جو کہ چند چیزوں سے ممکن ہو سکتا ہے۔
اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کیا جائے، کثرت سے دعا کی جائے ، تاکہ ثابت قدمی نصیب ہو جائے اور عمل جاری رہ سکے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیشتر دعا یہی ہوتی تھی کہ
اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما!
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: معاذ! ہر نماز کے بعدیہ دعا کبھی نہ چھوڑنا:
اے اللہ! اپنا ذکر کرنے میں، شکر کرنے میں اور بہتر طریقےسے عبادت کرنے میں میری مدد فرما! سےے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح اکتاہٹ سے بچنے کے لیے اللہ کے ساتھ سچائی اپنانی چاہیے، چیزوں میں سنجیدگی سختی اپنانی چاہیے، تاکہ انسان سستی اور اکتاہٹ کےجوہڑ سے محفوظ ہو جائے۔
اکتاہٹ سے بچنے کے لیے امیدوں کم کرنا اور آخرت کو یاد رکھنا چاہیے۔ ہمت دلانے کے لیے یہ بہت کارگر نسخہ ہے اور اللہ کی طرف متوجہ کرنے والا بہترین راستہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ یاد رکھے کہ دنیا، آخرت کی کھیتی ہے جس میں نیک اعمال کمائے جا سکتے ہیں۔
عون بن عبد اللہ بن عتبہ علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: ہم ام الدرداء رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، کچھ بات چیت کی، پھر ہم نے کہا: ہم نے آپ کو اکتاہٹ کا شکار تو نہیں کر دیا۔ انہوں نے کہا: نہیں! ہر گز نہیں۔ میں آپ سے نہیں اکتاتی۔ میں نے ہر عبادت کر کے دیکھی ہے، مگر جب میں نے علم سیکھا اور علم کا دور کیا تو میرا سینہ ٹھنڈا ہو گیا۔
انسان کو چاہیے وہ کبھی مایوس نہ ہو۔ جب بھی غلطی ہو، توبہ کو دہرا لے۔
حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ سے کہا گیا: ہم اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور پھر ان ہی گناہوں کا شکار ہو جاتے ہیں، پھر معافی مانگتے ہیں اور پھر ان ہی گناہوں میں پڑ جاتے ہیں۔ کیا ہم اللہ سے حیا نہ کریں؟ حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ نے فرمایا: شیطان کی تمنا ہے کہ وہ ایسا کرانے میں ہی کامیاب ہو جائے۔ شیطان کی تمنا ہے کہ وہ ایسا کرانے میں ہی کامیاب ہو جائے۔ تو توبہ سے کبھی مت اکتائیے گا۔
اکتاہٹ، تنگ دلی اور تھکاوٹ کا شکار تو گناہ گار کو ہونا چاہیے، اس فاسق کو ہونا چاہیے جو سب کے سامنے کھلے عام گناہ کرتا پھرتا ہے۔ ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ گناہوں سے تنگ آ جائے، ہلاک کرنے والے جرائم سے دور ہو جائے، توبہ قبول کرنے اور گناہوں کو معاف کرنے والے پروردگار کا رخ کرے۔
اے مسلمانو! اپنے پروردگار کے راستے پر چلنے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ کار کو ملحوظ خاطر رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے تھے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی عبادت نہیں چھوڑی، بلکہ وہ ہمیشہ اللہ کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے، اسی کا رخ کرتے، اسی کی عبادت میں محو رہتے، کبھی نہ تھکتے، کبھی نہ اکتاتے، کبھی نہ تنگ ہوتے اور کبھی نہ ہمت چھوڑتے۔
اے اللہ! ہم ثابت قدمی کا سوال کرتے ہیں، نیکی میں پیش قدمی اور عبادت کی توفیق کا سوال کرتے ہیں۔ تیری نعمتوں کے شکر کی اور بہترین انداز میں عبادت کی توفیق مانگتے ہیں۔ پاکیزہ دل اور سچی زبان کا سوال کرتے ہیں۔ ہر اس خیر کا سوال کرتے ہیں جسے تو جانتا ہے اور ہر اس شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں جسے تو جانتا ہے۔ جن گناہوں کو تو جانتا ہے ان سے ہم معافی مانگتے ہیں۔ اللہ آپ پر رحم فرمائے!
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں