✰ آج کی بات ✰ کانٹا چبھنے کی تکلیف برداشت کرنے پر جہاں اجر کی بشارتیں ہوں، وہاں دل میں نشتر چبھنے کی اذیت برداشت کرنے پر کیا کی...
نماز اور قربانی، موت اور زندگانی اللہ کے لیے خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) امام و خطیب: ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی ترجمہ: شفق...
منظر پس منظر جیسا ہو
میرا عشق سمندر جیسا ہو
اور تیرے پیمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) جیسا ہو
میرا جینے کا ہر ڈھنگ خدا
مجھے اپنے رنگ میں رنگ خدا
تیری رحمت یوں اپنائے مجھے
صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ (القرآن) ❃ مجھے اپنے رنگ میں رنگ خدا ❃ کلام: مظفر وارثی میں تیرا فقیر مَلنگ خدا ...
{وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ}
ان سے کہہ دیں کہ : عمل کرتے جاؤ! اللہ، اس کا رسول اور سب مومن تمہارے طرز عمل کو دیکھ لیں گے اور عنقریب تم کھلی اور چھپی چیزوں کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو [التوبۃ : 105]
{وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ}
تمہارے اموال اور اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جن سے تم ہمارے ہاں مقرب بن سکو ، ہاں جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے اعمال کا دگنا صلہ ملے گا اور وہ بالا خانوں میں امن و چین سے رہیں گے [سبأ : 37]
{إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا}
اگر تم منع کردہ کبیرہ گناہوں سے بچو تو ہم تمہارے گناہ مٹا کر عزت کی جگہ میں داخل کر دینگے۔[النساء : 31]
{قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ}
آپ کہہ دیں: یہ میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ دعوت دیتے ہیں، اور اللہ تعالی ہر عیب سے پاک ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔[يوسف : 108]
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ: {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (1) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (2) إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (3)}
یقیناً ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے [1] چنانچہ آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں [2] بیشک آپ کا دشمن ہی لا وارث ہے۔[الكوثر : 1 - 3]
آمین یا رب العالمین
حوض کوثر کی صفات اور خواص خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 21 ستمبر 2018 امام و خطیب: ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی ترجمہ: شفقت ...
برانڈز کی دوڑ تحریر: ابو یحییٰ موجودہ دورکنزیومرازم کا دور ہے۔ اس دور میں لوگوں میں اشیاء کے بے دریغ استعمال کی ایک دوڑ لگی ہوئی...
اور نام کو نہیں انہیں انسانیت سے پیار
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
جس سے مٹے نہ تیرگی وہ بھی کوئی ضیاء ہے
مرنے کے بعد بھی تيرا رہ جائے نیک نام
سب ہمنوا ہوں تیرے تُو سب کا ہمنوا ہو
ایسا نہ ہو کہ اک دن گر جائے تو بھی ورنہ
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
آفت زدہ ملے ۔ نہ آنکھیں کبھی چرانا
جو آج کا ہو کام وہ کل پر نہ ڈال دے
اسلاف کی یہی روشِ اولیں رہی ہے
کہتے ہیں جس کو جنت کیوں نہ یہی زمیں ہو
ہے زندگی کا مقصد شاعر: نامعلوم بشکریہ: افتخار اجمل بھوپال کوشاں سبھی ہیں رات دن اک پل نہیں قرار پھرتے ہیں جیسے ہو گرسنہ ...
【〝آج کی بات〞】 جلوت انسان کا وہ پہلو ہے جودوسروں کے ساتھ روابط، تعلقات، رشتے، خواہش، جذبات، دوستی اور محبت سے اسے مطمئن اورآسود...
~!~ آج کی بات ~!~ یہ عارضی زندگی در حقیقت آپ کے اخلاق کا امتحان ہے، اور اس امتحان کا سب سے بڑا میدان آپ کا اپنا گهر ہے.
1- اس بات کا احساس پیدا کریں کہ آپ کوایک حرمت والا مہینہ نصیب ہوا ہے اور اس پر عمل کریں:
احادیث مبارکہ کے مطابق حرمت والے مہینے ذوالقعدہ، ذو الحجہ، محرم اور رجب ہیں (البخاری) ۔۔۔ "مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔ یہی درست دین ہے" ۔۔۔ (سورۃ التوبۃ - 36)
اسے اس کی حرمت کے باعث 'محرم' کہا جاتا ہے جو کہ اس کی حرمت اور تقدس کی تصدیق بھی ہے۔
"تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ﻇلم نہ کرو" (سورۃ التوبہ-36)
یعنی ان حرمت والے مہینوں میں اپنے ساتھ غلط نہ کرو کیونکہ ان مہینوں میں گناہ کرنا باقی مہینوں سے زیادہ درجہ برا ہے۔
عمل کی بات:
اپنی بری عادتوں پر ایک گہری نظر ڈالیں اور ان کو اچھی عادات سے بدل ڈالیں۔
2- روزہ رکھیں:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"رمضان المبارک کے بعد اللہ کے مہینے محرم کے روزے سب روزوں سے افضل ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز آدھی رات (یعنی تہجد) کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہے۔" (مسلم: کتاب الصيام: باب فضل صوم المحرم؛۱۱۶۳)
3- 'عاشورہ' کا روزہ کیوں رکھیں:
عاشورہ کی تاریخ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
"جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھا (افضل) دن ہے اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات بخشی (اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت بحیرہ قلزم میں غرقاب کیا) تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (بطورِ شکرانہ) اس دن روزہ رکھا (اور ہم بھی روزہ رکھتے ہیں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے (شریک ِمسرت ہونے میں) تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔" (بخاری: ایضاً ؛ ۲۰۰۴/مسلم؛۱۱۳۰)
مسند احمد کی ایک روایت میں اس بات کا اضافہ ہے کہ "اس دن حضرت نوح کی کشتی جودی کی پہاڑی پر رکی تھی سو اس دن نوح علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا تھا "۔
اسلام میں روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشورہ کا روزہ ایک تدریجی اقدام تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ
"قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔" (بخاری: کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشورا ؛۲۰۰۳/ مسلم: کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء ؛۱۱۲۵)
4- عاشورہ کے روزے کا ثواب:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
"میں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنوں میں سے دسویں محرم (یوم عاشوراء) کے اور مہینوں میں سے ماہِ رمضان کے روزوں کے سوا کسی اور روزے کو افضل سمجھ کر اس کا اہتمام کرتے ہوں۔" (بخاری، ایضاً؛۲۰۰۶/ مسلم ایضاً؛۱۱۳۲)
اس دن اہتمام سے روزہ رکھنے کا مقصد اللہ سے ثواب کی امید رکھنا ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یوم عاشورا کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔" (مسلم : کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثة ایام؛ ۱۱۶۲)
عمل کی بات:
اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اس دن روزہ رکھنے کی توفیق دے تاکہ آپ اس اجر کو حاصل کرنے کے امیدوار بن سکیں، اپنے گزرے ہوئے سال کے گناہوں کو یاد کریں اور اللہ سے اس کی معافی طلب کرتے ہوئے دعا کریں کہ سو آپ کو اس اجر حاصل کرنے والوں میں شامل فرمائے۔
یاد رکھیں روزہ صرف معدے کا نہیں ہوتا، بلکہ زبان اور دوسرے اعضاء کا بھی ہوتا ہے۔ سو غصہ، لڑائی، بحث، غیبت، جھوٹ وغیرہ سے دور رہیں۔
5- کون سا دن 'عاشورہ' ہےََ؟
امام نووی (رح) فرماتے ہیں: 'عاشورہ' اور 'تسوعہ' دو قریبی نام ہیں جو عربی زبان کی کتب میں درج ہیں، ہمارے ساتھی کہتے ہیں کہ عاشورہ محرم کا دسواں دن ہے اور تسوعہ نواں دن ہے۔
6- کیا 'تسوعہ' (9 محرم) کا روزہ 'عاشورہ' (10 محرم) کے روزے کے ساتھ ملانا مستحب ہے؟
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ
"اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں۔ (یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ آپ تو ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور یوم عاشوراء کے معاملہ میں تو ان کی موافقت ہورہی ہے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "فاذا کان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع" آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے اللہ کے رسول انتقال فرما گئے۔" (مسلم؛۱۱۳۴)
7- 'تسوعہ' (9 محرم) کا روزہ کیوں مستحب ہے؟
اس کا بنیادی مقصد یہودیوں کی مخالفت ہے کیونکہ وہ صرف عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ جو کہ اوپر حدیث میں بیان ہوا ہے۔
احتیاط کے طور پر اور دس تاریخ کے روزے کو ممکن بنانے کے لیے (اگر چاند دیکھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہو)
شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
یوم عاشوراء کا روزہ ایک برس کے گناہوں کا کفارہ ہے ، اکیلا دس محرم کا روزہ رکھنا مکروہ نہيں ۔ دیکھیں الفتاوی الکبری جلد نمبر ( 5 ) ۔
ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
صرف اکیلا عاشوراء کا روزہ رکھنے میں کوئي حرج نہيں ۔ دیکھیں کتاب : تحفۃ المحتاج باب صوم التطوع جلدنمبر ( 3 ) ۔
8- گناہوں سے کفارہ:
امام النووی فرماتے ہیں: "عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، جبکہ عاشوراء کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے، اسی طرح جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے تو اسکے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔۔۔ مذکورہ تمام اعمال گناہوں کو مٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور چنانچہ اگر کوئی صغیرہ گناہ موجود ہوا تو وہ مٹ جائے گا، اور اگر صغیرہ یا کبیرہ کوئی بھی گناہ نہ ہوا تو اس کے بدلے میں نیکیاں لکھ دی جائیں گی، اور درجات بلند کر دئیے جائیں گے، ۔۔۔ اور اگر کوئی ایک یا متعدد کبیرہ گناہ ہوئے، لیکن کوئی صغیرہ گناہ نہ پایا گیا ، تو ہمیں امید ہے کہ ان کبیرہ گناہوں میں کچھ تخفیف ہو جائے گی"۔ (المَجمُوع شرح المُهَذَّب-6 صوم یوم عرفہ)
9- روزے کے اجر پر بہت زیادہ تکیہ نہ کریں:
بعض لوگ ہوم عاشورہ اور یوف عرفہ کے روزے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں کہ "عاشورہ' کا روزہ پورے سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور یوم عرفہ کا روزہ اضافی اجر رکھتا ہے"۔
امام ابن القیم (رح) فرماتے ہیں: وہ گمراہ انسان یہ نہیں جانتا کہ رمضان کے روزے، دن کی پانچ نمازیں یوم عرفہ اور یوم عاشورہ سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ اور وہ گناہوں کو مٹاتی ہیں ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک، اور ایک جمعے سے دوسرے جمعے تک بشرطیکہ کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ لیکن یہ صغیرہ گناہوں کا کفارہ اس وقت تک نہیں جب تک کبیرہ گناہوں سے بچا نہ جائے یعنی یہ دونوں باتیں (روزہ/نماز اور بڑے گناہوں سے اجتناب) ساتھ ہوں تو چھوٹے گناہوں سے مغفرت کی قوت ہوتی ہے۔ جو لوگ اس دھوکے میں ہیں ان میں سے کوئی سوچتا ہو کہ اس کے نیک کام اس کے گناہوں سے زیادہ ہیں کیونکہ وہ اپنے برے اعمال پر توجہ نہیں دیتا اور اپنے گناہوں کو نہیں جانچتا، لیکن اگر وہ کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اس کو یاد رکھتا ہے اور اس پر انحصار کرتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جو اپنی زبان سے اللہ سے مغفرت طلب کرے (یعنی صرف الفاظ کے ذریعے) اور اللہ کی تسبیح بیان کرے دن میں 100 مرتبہ 'سبحان اللہ' کہہ کر، اور پھر وہ مسلمانوں کی غیبت کرے ، ان کی عزت کو پامال کرے اور دن بھر ایسی باتیں کرے جو کہ اللہ کو ناپسند ہیں۔ وہ شخص ہمیشہ تسبیحات (سبحان اللہ) اور تہلیلات (لا الہ الا للہ) کے فضائل کا سوچتا ہے مگر اس پر توجہ نہین کرتا کہ غیبت کرنے والے، جھوٹ بولنے والے۔ بدمعاشی کرنے والے اور زبان کے دیگر گناہ کرنے والے کے بارے میں کیا احکام ہیں۔ وہ مکمل گمراہ ہیں۔" (الموسوعة الفقهية جلد 31 ، غرور)
10- ان اختراعات سے بچیں جو عاشورہ پرعام ہیں:
شیخ الاسلام ابن التیمییہ (رح) سے ان چیزوں کے بارے میں سوال کیا گیا جو لوگ عاشورہ کے دن کیا کرتے تھے، جیسے " سرمہ لگانا، غسل کرنا، مہندی لگانا، ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کرنہ، معمول سے ہٹ پکوان پکانا، خوشی کا اظہار کرنا وغیرہ"۔ کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح حدیث سے ثابت ہیں یا نہیں؟ اگر صحیح احادیث میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا تویہ سب کرنا بدعت ہے یا نہیں؟ کیا اس بات کی کوئی بنیاد ہے جو ایک گروہ کرتا ہے جیسے غم اور ماتم، بغیر کچھ پیے نکلنا، چیخنا اور چلانا، اپنے کپڑے پھاڑنا وغیرہ "
انہوں نے جواب دیا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس بارے ميں كوئى صحيح حديث وارد نہيں،اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام سے ثابت ہے، اور نہ ہى مسلمان آئمہ كرام ميں سے كسى ايك نے اسے مستحب قرار ديا ہے، نہ تو آئمہ اربعہ نے اور نہ ہى كسى دوسرے نے، اور اسى طرح بااعتماد اور معتبر كتابوں كے مؤلفين نے بھى اس بارہ ميں كچھ روايت نہيں كيا، نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى صحابہ كرام اور تابعين عظام سے، اس بارہ ميں نہ تو صحيح روايت ہے اور نہ ہى ضعيف، اور نہ تو كتب صحيح ميں اور نہ ہى كتب سنن ميں اور نہ ہى مسانيد ميں.
اس كے علاوہ دوسرے امور، يہ سب كچھ بدعات اور منكرات ميں شامل ہوتے ہيں، جن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثبوت نہيں ملتا اور نہ ہى ان كے خلفائے الراشدين سے مسنون ہے۔
ابن التیمییہ کی کتاب فتاویٰ الکبریٰ میں مذکور ہے کہ 'عاشورہ کی بدعات میں لازمی طور پر زکوۃ ادا کرنا، قربانی کرنا اور خواتین کا مہندی لگانا بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے علم حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے اور ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، ہمارے روزوں کو قول فرمائے اور ہمیں جنت کے اعلیٰ درجات میں بغیر حساب داخل فرمائے آمین یا رب العالمین۔
محرم اور آپ بشکریہ: Understand Al-Quran Academy دس باتیں جو آپ کواس مبارک ماہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے جاننا ضروری ہیں 1- ا...
~!~ قرآن کہانی ~!~
~!~ قرآن کہانی ~!~ دو باغ دو کہانیاں (حصہ دوم) تحریر: علی منیر فاروقی بشکریہ: الف کتاب ویب اور جو دوسری بات اس واقعے میں پنہ...
~!~ قرآن کہانی ~!~ دو باغ دو کہانیاں (حصہ اول) تحریر: علی منیر فاروقی بشکریہ: الف کتاب ویب الحمدللہ رب العالمین و نحمدہ ونصل...
یہ قصہ قرآن کریم میں سورئہ کہف میں درج ہے اور حجم میں اتنا طویل نہیں مگر اپنے اندر حکمت و نصیحت کا ایک سمندر پنہاں رکھتا ہے تو آئیے پہلے اس قصے کا ایک رواں مطالعہ کر لیں پھر اس پر تدبر کی ایک چھوٹی سی کوشش کرتے ہیں۔
مستند روایات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قصہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد کا ہے۔ ابھی عیسائیت شرک کی ملاوٹ سے پاک تھی اور توحید کی دولت سے مالامال دین حنیف پر مبنی تھی۔ ایسے میں چند نوجوانوں نے مشرکانہ ظلمات کے پردوں کو چاک کرتے ہوئے حق کی آواز پر لبیک کہا اور دینِ حق کو قبول کرلیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس دینِ حق کا پرچار شروع کیا۔ دنیا کا اصول ہے کہ جب بھی حق کی آواز بلند ہوتی ہے اسے دبانے کے لئے باطل کی قوتیں اپنا پورا زور لگاتی ہیں، چناںچہ ان نوجوانوں کو بھی انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بات ہوتے ہوتے حاکمِ وقت کے کانوں تک پہنچی۔ (جو چند روایات کے مطابق رومی قیصر ڈیشیس تھا اور باقی روایات کے مطابق ابراہیمی دین کی بگڑی ہوئی شکل کا پیروکار تھا) چناںچہ حاکمِ وقت نے ان لڑکوں کو حکم دیا کہ واپس لوٹ آؤ اور اپنے اس نئے دین کی ترویج فوری بند کرو ورنہ تمہیں سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔
نورِ حق کے ان پروانوں نے اپنا دین چھوڑنے کے بہ جائے یہ فیصلہ کیا کہ آبادی سے دور کسی جگہ جا کر پناہ لی جائے، چنانچہ یہ نوجوان اور ان کا کتا ایک غار میں جا کر چھپ گئے تاکہ اپنا اگلا لائحۂ عمل تیار کریں ، ایسے میں اللہ نے ان تمام پر ایک نیند طاری کر دی اور نیند بھی گھنٹوں کی نہیں بلکہ صدیوں کی! اس دوران اللہ انہیں کروٹ دلاتا رہا (تاکہ خون گردش کرتا رہے اور زخم نہ بن جائیں)اور ان کو دھوپ سے بچاتا رہا ، تین صدیوں کے بعد یہ اصحاب اپنی نیند سے بے دار ہوئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہم کتنی دیر سوئے ہیں ایک بولا شاید پورا دن سو لیے دوسرے نے کہا کہ نہیں اس کا بھی کچھ حصہ سوئے ہیں، اب مشورہ ہوا کہ طعام کا بندوبست کیا جائے چناںچہ ان میں سے ایک چند چاندی کے سکّے لے کر بازار جانے لگا ، جاتے وقت اس کے ساتھیوں نے اسے تلقین کی کہ پاک طعام لے کر آنا اور ہاں دیکھنا کوئی تمہیں پکڑ نہ لے ورنہ ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔
یہ نوجوان جب بستی پہنچا تو دیکھا کہ دنیا ہی بدلی ہوئی ہے بستی و بازار در و دیوار سب الگ روپ لیے ہوئے ہیں حتیٰ کہ رہن سہن بھی بدل چکا ہے اس نئے اجنبی منظر کے خوف کو دباتے ہوئے اس نوجوان نے ڈرتے ڈرتے کھانے کا سامان لیا تو لوگ صدیوں پرانے سکّے دیکھ کر بھونچکا رہ گئے ، انہوں نے ان نوجوانوں کا قصّہ سنا ہوا تھا کہ جو اپنا ایمان بچانے کے لئے شہر چھوڑ گئے تھے ۔ اس نوجوان کو بتایا گیا کہ شرک کے بادل چھٹ چکے ہیں اور اب یہاں حق کا بول بالا ہے ۔
اتفاق سے ان دنوں اس بستی میں ایک علمی بحث چھڑی ہوئی تھی کہ مرنے کے بعد کیا ہم دوبارہ جی اُٹھیں گے؟ اور آیا خدا ہمیں قیامت کے دن اسی بدن کے ساتھ زندہ کرے گا یا ہمارا کوئی اور روپ ہوگا یوں اللہ نے اس نوجوان کے صورت میں ان کے تمام سوالوں کا جواب دے دیا ۔ اب یہ تمام لوگ اس نوجوان کے ساتھ اس غار میں پہنچے جہاں اس کے باقی ساتھی موجود تھے اور وہاں ان سب کو دیکھ کر ان کا ایمان تازہ ہو گیا ۔ یہ تھے اصحابِ کہف اب اس کے بعد کچھ کہہ نہیں سکتے کہ وہ کتنا عرصہ زندہ رہے (گمان یہ ہے کہ فوری وفات پا گئے تھے )۔
ان کی وفات کے بعد کچھ لوگ اس حق میں تھے کہ ایک دیوار کھڑی کر دی جائے اور ان کا معاملہ رب کے سپرد کیا جائے جب کہ اہلِ ثروت کی رائے کے مطابق اس جگہ پر ایک مسجد (عبادت گاہ)قائم کر دی گئی۔
یہ تھا وہ قصہ اب آئیے پہلے ان اشکالات کو رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو عموماً اس قصے کے ضمن میں اٹھائے جاتے ہیں۔ نمبر ایک ان اصحاب کی تعداد کتنی تھی؟ یہ تو یقینی بات ہے کہ ان کے ساتھ ان کا کتا موجود تھا مگر ان کی اپنی تعداد کتنی تھی ؟پانچ ،چھ یا سات ؟ اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ ان کی تعداد سات تھی کیوںکہ قرآنی آیت میں پانچ اور چھے کے بعد کہا گیا ہے کہ یہ لوگ غیب پر تکے لگا رہے ہیں مگر سات کی تعداد کے ذکر کے بعد ایسی بات نہیں کی گئی اور پھر عیسائی تعلیمات میں ان کو سیون سلیپرز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی سات سونے والے۔ مگر یہاں قرآن کی رائے نہ دیکھنا اس موضوع کے ساتھ ظلم ہو گا۔ اللہ عزوجل نے اس آیت کا اسلوب اس قدر خوب صورت رکھا ہے کہ بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
ان دو علمی نکتوں کے بعد اب آئیے اس دقیق سوال کی جانب بڑھتے ہیں جو آج کل کے پُر فتنہ دور میں بہت سوں کو گمراہی کے دہانے کی جانب لے جا رہا ہے، وہ یہ کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسانی جسم اتنا عرصہ بغیر خوراک کے جی سکے ؟ یہ سوال نیا نہیں ، ایسے سوالات قرآن کے نزول سے پہلے بھی انسانیت کو گمراہ کرتے رہے ہیں مگر اب فرق صرف اتنا ہے کہ اس طوفان کا شکارنہ صرف غیر مسلم ہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے مسلمان گھرانوں میں آنکھ کھولی اور کان میں پہلی آواز اشہد ان لا الہ الااللہ کی سنی۔ یہ چوںکہ سائنس کا دور ہے اس لیے افسوس کے ساتھ آج کل ہمارا ایمان بھی سائنس سے مشروط ہوتا جا رہا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ اب ہم دین و ایمان کو بھی سائنس کی کسوٹی پر تولتے ہیں، اب میری اس بات پر ممکن ہے دقیانوسیت کی پھبتی کسی جائے یا پھر ملا اور لاؤڈ سپیکر والی مثال دی جائے مگر حق تو یہ ہے کہ اگر ہمارا ایمان اللہ کی کتاب سے زیادہ اس کی سائنسی توجیح پر ہے تو وہ ایمان باللہ نہیں ایمان بالسائنس ہوا۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ قوانین قدرت اور سائنسی حقائق بھی اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اور اللہ ہمیں جگہ جگہ ان پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اس لیے ان کا انکار ایک انداز سے خود اللہ کا انکار ہے، مگر یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ سائنسی تھیوری ابدی نہیں ہونی چاہیے، معاملہ چاہے زمین کے سپاٹ ہونے کا ہو یا مادے کے لاینفک ہونے کا۔ ہمارے عمرانی اور علمی ارتقا کے ساتھ بہت سی ایسی تھیوریز جو کبھی ابدی حقائق سمجھی جاتی تھیں آج کی سائنس انہیں طفلانہ توجیحات گردانتی ہے۔
اب اگر قرآن کی سائنسی تشریح کر دی جائے اور بعد میں وہ تھیوری غلط ثابت ہو تو کیا معاذاللہ قرآن غلط ہو گیا؟ چناںچہ ہمارا نظریہ بہ جائے قرآن کی سائنسی توجیح کے سائنسی تھیوری کی قرآنی توجیح کا ہونا چاہیے ۔ ہمارا ایمان یہ ہونا چاہیے کہ اگر کوئی سائنسی تھیوری حق ہے تو وہ کبھی قرآن سے متصادم نہیں ہو گی اور اگر کوئی تھیوری بہ ظاہر قرآنی حقائق سے ٹکرا رہی ہے تو یا تو وہ قرآنی مقامِ متشابہات میں سے ہے جسے محکمات سمجھا جا رہا تھا یا پھر وہ تھیوری غلط ہے اس کے علاوہ کوئی تیسری راہ نہیں بچتی۔ اب ایسے میں اہلِ علم کا کام ہے کہ وہ یہ جانچیں کہ کیا قرآن کی صحیح تفسیر میں اس تھیوری کی کوئی گنجائش ہے؟ کیا یہاں کسی متشابہ آیت کی حقیقت سے پردہ تو نہیں اُٹھ رہا ؟ اور اگر ایسا نہیں تو ذہین اہلِ علم و دانش مسلمانوں کے اوپر قرآن کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس تھیوری کا سائنس ہی کے علوم میں رد کرنے کی کوشش کریں۔ تمہید کچھ لمبی ہو گئی مگر معاملہ نہایت نازک ہے،اس بات کو دل و دماغ میں بٹھا لینا ضروری ہے کہ قرآن سائنسی حقائق سے متصادم ہو ہی نہیں سکتا، فرق صرف توجیح کا ہو سکتا ہے۔
اب آئیے اس بات کی کچھ سائنسی توجیح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمارے وہ بہن بھائی جو اس طوفان میں اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرتے ہیں اور سائنس کی توجیحات کے بغیر ان کو اپنا ایمان خطرے میں نظر آتا ہے انہیں کچھ سہارا ملے۔ یہ اشکال کفر و الحاد کے حامی تین مواقع پر اٹھاتے ہیں ایک اصحابِ کہف کے واقعے پر دوسرا حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعے پر اور تیسرا معراج کے واقعے پر۔ بات کچھ یوں ہے کہ انگریزوں کے دور میں جب ذہنوں پر سائنس کا غلبہ قائم ہوا تو وہ نیوٹونین دور تھا ، نیوٹن کی مادے کے بارے میں تھیوری حق سمجھی جاتی تھیں اور مادہ لاینفک سمجھا جاتا تھا یعنی نہ ہی اسے تخلیق کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی تباہ۔ سب کچھ فزکس ہی فزکس تھی، میٹافزکس(مابعدالطبیعات)سے کوئی واقف نہ تھا ایسے میں ما ورا الطبیعات قرآنی حقائق کی تشریح کیسے کی جائے؟ یہ طوفان ہندوستان کے مسلمانوں کو بہا لے جا رہا تھا، ایسے میں اہلِ ایمان دو علمی گروہوں میں بٹ گئے ایک وہ کہ جنہوں نے سنت اصحاب کہف پر عمل کرنے میں عافیت جانی اور ان سائنسی علوم سے بالکل ہی کٹ گئے (ان ہی بے چاروں پر بعد میں لاوڈ سپیکر والی پھبتی کسی گئی )اور دوسرے وہ جنہوں نے اپنے ایمان کے دفاع کی کوشش کی مگر طریقۂ کار میں چوٹ کھا گئے ۔ انہوں نے قرآن کی تفسیر کو کھینچ تان کر اس وقت کے سائنسی حقائق کے سانچے میں بٹھانے کی اپنی سی کوشش کی مگر اس سعی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فرشتوں ،جنات اوربہشت و دوزخ کے منکر ہو بیٹھے۔ کسی نے انہیں قدرت کے قوانین کہا تو کوئی جنوں کو انسان کی غصیلی قسم مانتا تھا کبھی معراج کو مشتبہ بتایا کہ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا تو کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بحر چاک کرنے کے معجزے کی تشریح سمندری مدو جزر سے کی۔
ایسے میں جیمزچاڈوک نے آکر اپنی تھیوری سے علم کی ایک اور دنیا سے انسانیت کو روشناس کرایا، اس نے ثابت کیا کہ مادہ لاینفک نہیں ہے ، یہ اپنے اندر اور بھی جزو رکھتا ہے ، بہ قول اقبال :
اب آخر میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس واقعے میں کیا سبق پوشیدہ ہے، ویسے تو یہ پوری سورہ ہی نہایت اہمیت کی حامل ہے اور ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کی تلاوت کو اپنے معمولات کا حصہ بنانے کی تلقین بھی کی ہے اس سورہ میں چار واقعات درج ہیں کہ جو آپس میں نہایت مربوط ہیں ۔ اہل علم کی رائے میں یہ آخر الزمان میں پیش آنے والے دجالی فتنوں کی طرف نشان دہی کرتے ہیں، جس میں سے ایک فتنہ ایمان کا امتحان ہو گا، جیسے اصحابِ کہف نے اپنے ایمان کا امتحان سہا، ویسے ہی ہمیں بھی قدم قدم پر ایمان بچانا پڑتا ہے اور پڑے گا۔
ایسے میں ایمان بچانے کا طریقۂ کار کیا ہوگا؟ یہ بھی ہمیں اسی سورہ سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان اصحاب کی سنت پر عمل کیا جائے ، جب فتنوں کا طوفان حد سے بڑھ جائے تو اپنے بچاؤ کے لیے پہلے اپنے آپ کو ان فتنوں سے الگ کیا جائے مگر ڈر کر نہیں بلکہ اس عزم و ارادے کے ساتھ کہ یہ میں راہ فرار نہیں ڈھونڈ رہا مگر اپنے آپ کو الگ کر کے ان فتنوں کا رد کرنے کی اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کی کوشش کروں گا، اس واقعے میں کہیں یہ نہیں درج کہ وہ لوگ ہمیشہ کے لیے الگ ہو گئے تھے بلکہ اشارہ تو یہ ملتا ہے کہ ان کا مقصد نئی حکمت عملی کی تلاش تھا جبھی اپنے ساتھی کو بازار بھیجتے وقت انہوں نے تلقین کی تھی کہ ایسا نہ ہو کہ تم پکڑے جاؤ اور ہم ناکام ہو جائیں ۔ صحیح احادیث میں بھی یہ بات صراحتاً درج ہے کہ ہمارے نبی ۖنے ہمیں حکم دیا تھا کہ جب دجال کا خروج ہو تو تم لوگ پہاڑوں میں چھپ جانا۔ اپنے آپ کو فتنوں سے الگ کرنے میں بہت مصلحتیں ہیں۔ انسان کے اندر اللہ نے ماحول سے اثر لینے کی صلاحیت رکھی ہے۔ اپنی بقا کی خاطر اور حیوانی جبلت کے تحت انسان جس موسم اور ماحول میں ہو، خود کو اس کے مطابق ڈھال لیتا ہے اس لیے اگر اپنے ایمان کے بارے میں خوف ہو تو عافیت اسی میں ہے کی بہ جائے فتنوں کے درمیان رہ کر ایمان کھونے کا رسک لیا جائے، اپنے آپ کو فتنے میں مبتلا کرنے والے لوگوں اور چیزوں سے حتی الامکان دور کیا جائے ۔
دوسرا طریقہ اس فتنے سے بچنے کا سورۃ کہف میں اس واقعے کے فوری بعد درج ہے ، اللہ نے آیت 28 میں فرمایا
واللہ اعلم بالثواب
~!~قرآن کہانی~!~ اصحابِ کہف تحریر: علی منیر فاروقی بشکریہ: الف کتاب ویب الحمدللہ رب العالمین و نصلی علی رسولہ الکر...
کچھ میرے بارے میں
مقبول اشاعتیں
فیس بک
بلاگ محفوظات
-
◄
2024
(4)
- ◄ اکتوبر 2024 (1)
- ◄ جنوری 2024 (3)
-
◄
2023
(51)
- ◄ دسمبر 2023 (1)
- ◄ اپریل 2023 (8)
- ◄ فروری 2023 (19)
- ◄ جنوری 2023 (8)
-
◄
2022
(9)
- ◄ دسمبر 2022 (9)
-
◄
2021
(36)
- ◄ دسمبر 2021 (3)
- ◄ اکتوبر 2021 (6)
- ◄ ستمبر 2021 (1)
- ◄ جولائی 2021 (8)
- ◄ فروری 2021 (7)
- ◄ جنوری 2021 (1)
-
◄
2020
(88)
- ◄ اکتوبر 2020 (5)
- ◄ اپریل 2020 (13)
- ◄ فروری 2020 (10)
- ◄ جنوری 2020 (16)
-
◄
2019
(217)
- ◄ دسمبر 2019 (31)
- ◄ نومبر 2019 (28)
- ◄ اکتوبر 2019 (27)
- ◄ ستمبر 2019 (18)
- ◄ جولائی 2019 (32)
- ◄ اپریل 2019 (11)
- ◄ فروری 2019 (7)
- ◄ جنوری 2019 (15)
-
▼
2018
(228)
- ◄ دسمبر 2018 (13)
- ◄ نومبر 2018 (18)
- ◄ اکتوبر 2018 (7)
-
▼
ستمبر 2018
(21)
- آج کی بات ۔۔۔۔۔ 29 ستمبر 2018
- نماز اور قربانی، موت اور زندگانی اللہ کے لیے ۔۔۔ خ...
- مجھے اپنے رنگ میں رنگ خدا
- حوض کوثر کی صفات اور خواص ۔۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی...
- برانڈز کی دوڑ
- ہے زندگی کا مقصد
- آج کی بات ۔۔۔۔۔ 20 ستمبر2018
- آج کی بات ۔۔۔۔ 19 ستمبر 2018
- محرم اور آپ
- قرآن کہانی ۔۔۔۔ دو باغ دو کہانیاں (حصہ دوم)
- قرآن کہانی ۔۔۔۔ دو باغ دو کہانیاں (حصہ اول)
- رونقِ ویرانہ
- قرآن کہانی ۔۔۔ اصحاب کہف
- آج کی بات ۔۔۔ 14 ستمبر 2018
- قرآن کہانی ۔۔۔۔ حضرت یوسف علیہ السلام (حصہ دوم)
- آج کی بات ۔۔۔۔ 12 ستمبر 2018
- قرآن کہانی ۔۔۔۔۔ حضرت یوسف علیہ السلام (حصہ اول)
- آج کی بات ۔۔۔۔۔ 11 ستمبر 2018
- چھ ستمبر ۔۔۔۔۔ ایک نظم
- آج کی بات ۔۔۔ 04 ستمبر 2018
- والدین کے حقوق ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔...
- ◄ جولائی 2018 (7)
- ◄ اپریل 2018 (21)
- ◄ فروری 2018 (39)
- ◄ جنوری 2018 (38)
-
◄
2017
(435)
- ◄ دسمبر 2017 (25)
- ◄ نومبر 2017 (29)
- ◄ اکتوبر 2017 (35)
- ◄ ستمبر 2017 (36)
- ◄ جولائی 2017 (23)
- ◄ اپریل 2017 (33)
- ◄ فروری 2017 (34)
- ◄ جنوری 2017 (47)
-
◄
2016
(187)
- ◄ دسمبر 2016 (19)
- ◄ نومبر 2016 (22)
- ◄ اکتوبر 2016 (21)
- ◄ ستمبر 2016 (11)
- ◄ جولائی 2016 (11)
- ◄ اپریل 2016 (14)
- ◄ فروری 2016 (23)
- ◄ جنوری 2016 (10)
-
◄
2015
(136)
- ◄ دسمبر 2015 (27)
- ◄ نومبر 2015 (22)
- ◄ ستمبر 2015 (1)
- ◄ جولائی 2015 (10)
- ◄ اپریل 2015 (4)
- ◄ فروری 2015 (12)
- ◄ جنوری 2015 (9)
-
◄
2014
(117)
- ◄ دسمبر 2014 (5)
- ◄ نومبر 2014 (14)
- ◄ اکتوبر 2014 (11)
- ◄ ستمبر 2014 (11)
- ◄ جولائی 2014 (8)
- ◄ اپریل 2014 (5)
- ◄ فروری 2014 (14)
- ◄ جنوری 2014 (12)
-
◄
2013
(293)
- ◄ دسمبر 2013 (18)
- ◄ نومبر 2013 (21)
- ◄ اکتوبر 2013 (35)
- ◄ ستمبر 2013 (26)
- ◄ اپریل 2013 (59)
- ◄ فروری 2013 (30)
- ◄ جنوری 2013 (27)
-
◄
2012
(56)
- ◄ ستمبر 2012 (2)
- ◄ جولائی 2012 (2)
- ◄ فروری 2012 (14)
- ◄ جنوری 2012 (8)
-
◄
2011
(28)
- ◄ دسمبر 2011 (6)
- ◄ نومبر 2011 (22)