’’سر
میں آج کل بہت سکون سے ہوں ۔‘‘، میں ان کا یہ جملہ سن کر حیران رہ گیا۔
کیونکہ آج سے پہلے کئی دفعہ وہ میرے پاس اپنے ٹینش اور پریشانی کا مسئلہ لے
کر آئے تھے۔ میں کچھ نہیں بولا لیکن میری خاموشی میں پوشیدہ سوال کو پڑھتے
ہوئے وہ خود ہی گویا ہوئے ۔
’’میں
نے اپنے گھر سے اخبار کو تو پہلے بند کرا دیا تھا، مگر انٹرنیٹ پر روزانہ
تین چار اخبارات کا مطالعہ کرتا تھا۔ اب انہیں بھی چھوڑ دیا۔ فیس بک سے چن
چن کر ان لوگوں کو اپنی فرینڈ لسٹ سے نکال باہر کیا جو سیاسی اور مذہبی
اختلافات، فرقہ واریت اور ملکی حالات کے بارے میں منفی خبریں دینا اپنا فرض
سمجھتے تھے۔ ٹی وی پر آنے والے تمام نیوز چینل دیکھنا بند کر دیے۔ موبائل
پر خبروں کی اپ ڈیٹ آتی تھی وہ بھی بند کرادی۔
اب
فارغ وقت میں اچھی کتابیں پڑھتا ہوں ۔ گھر والوں سے باتیں کرتا ہوں ۔
دوسروں کے دکھ درد میں دلچسپی لیتا ہوں ۔ کسی کی مدد کرنا ممکن ہو تو وہ کر
دیتا ہوں۔ قرآن مجید سمجھ کر پڑھ لیتا ہوں۔ بس اب زندگی میں سکون ہی سکون
ہے ۔‘‘
’’اور
ملکی حالات و معاملات؟‘‘، میں نے ان کے اس سابقہ پس منظر کی روشنی میں
انھیں چھیڑ تے ہوئے سوال کیا۔ کیونکہ وہ ملکی و بین اقوامی حالات، اندورنی
اور بیرونی سازشوں اور اسی نوعیت کی دیگر چیزوں کو لے کر ہمیشہ انتہائی
پریشان رہتے تھے۔
’’
اب میں نے سمجھ لیا کہ مجھے انھی چیزوں کے بارے میں پریشان ہونا چاہیے
جہاں میں کچھ کرسکتا ہوں۔ اور وہ جگہ صرف میرا قریبی حلقہ ہے۔ باقی معاشرے
کے لیے فیس بک پر آپ کے پیج سے ایمان و اخلاق اورمثبت سوچ کی باتیں آ گئے
شیئر کر دیتا ہوں ۔‘‘
میں نے انھیں مبارکباد دیتے ہوئے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑ ھادیا۔ آخر کار انھوں نے ایک نارمل انسان کی زندگی جینا شروع کر دیا تھا۔
ابو یحییٰ ۔۔۔ www.inzaar.org
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں