تیرا ملنا ترا نہیں ملنا



کسی شاعر نے اپنے محبوب کے وصل و فراق کے بارے میں کیا خوب کہا ہے:

  تیرا ملنا ترا نہیں ملنا  
اور جنت کیا اور جہنم کیا

شاعری میں یہ مبالغہ عام ہے ، مگر حقیقی دنیا میں ایک بندہ مومن بار بار اس تجربے سے گزرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں یہ مرحلہ بار بار آتا ہے کہ کسی وقت انسان پر شوق کا غلبہ ہوتا ہے ۔ عبادات میں دل لگتا ہے ۔ آنکھوں سے آنسوں جاری رہتے ہیں ۔ دل ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ گناہ سے فطری کراہیت محسوس ہوتی ہے ۔
مگر پھر ایک روز اچانک یہ کیفیت رخصت ہوجاتی ہے۔ شوق تو دور کی بات ہے، اعمال صالحہ کی طرف طبیعت کا رجوع باقی نہیں رہتا۔ گناہ کی شدید خواہش بیدا ر ہوجاتی ہے۔ دنوں تک انسان کو یاد بھی نہیں آتا کہ اس کا کوئی رب ہے۔ انسان بہت جبر کرتا ہے تو رسمی طور پر نماز کے نام پر کچھ اٹھک بیٹھک ہوجاتی ہے ۔ مگر کسی عبادت میں دل نہیں لگتا۔
پہلی کیفیت صاحب ایمان کے لیے اگر جنت ہوتی ہے تو یہ دوسری کیفیت جہنم سے کم نہیں ہوتی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کو اس مرحلے سے گزرنا پڑ تا ہے۔ یہ دونوں کیفیات راہ خدا کے راستے کا لازمی موڑ ہیں ۔ پہلا موڑ اس لیے آتا ہے کہ انسان خدا سے تعلق کی لذت کا تجربہ کر کے اس روحانیت میں جینا سیکھ  لے جو اسے حیوانیت سے بلند کرتی ہے۔
مگر یہ کیفیت اگر مستقل رہے گی تو انسان کا امتحان ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ نیکی میں مزہ اور گناہ سے نفرت اگر مستقل کیفیات ہوجائیں تو پھر اجر کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے یہ کیفیت رخصت ہوجاتی ہے۔
ایسے میں مخلص اور حساس لوگ پریشان ہوجاتے ہیں۔ وہ اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے دھتکار دیے جانے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ وہ اسے اپنے کسی گناہ کا نتیجہ سمجھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اکثر اوقات یہ کیفیت اللہ کے اسی طریقے کے مطابق ہوتی جس کے مطابق وہ کائنات کا پورا نظام چلاتے ہیں ۔ یعنی دن کے بعد رات بھی ہوتی ہے ۔ بہار کے بعد خزاں بھی آتی ہے ۔ نہ رات بری ہے نہ خزاں ہی بے فائدہ ہے۔ ہر ایک کی اپنی مصلحت ہے اور اس کیفیت کی مصلحت یہی ہے کہ انسان کا امتحان ہوجائے کہ وہ مزے کے لیے عبادت کرتا ہے یا خود پر جبر کر کے بھی عبادت کرسکتا ہے۔
اسی طرح اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ کیفیت انسان کے اندر پیدا ہونے والے تکبر کو دور کرتی ہے ۔ ہر وقت یاد الہی اور نیکی کی کیفیت بہرحال انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ کوئی بہت بڑی ہستی بن چکا ہے۔ مگر ایسے میں دوری کے یہ لمحات اسے واپس ایک عام اور عاجز انسان ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ اس احساس کی اللہ کے ہاں بڑی قدر و قیمت ہے اور اسی کیفیت کی وجہ سے انسان اللہ کے ہاں بہت مقبول ہوجاتا ہے۔
اس کیفیت کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس سے گزر کر ہی کوئی انسان معرفت اور قرب الہی کی منزل کے قریب پہنچتا ہے ۔ یہ گویا سفر کی تعبیر ہے جس میں خوش نما باغات بھی آتے ہیں اور لق و دق صحرا بھی آتے ہیں ۔ چنانچہ اس کیفیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا اپنے رب کی طرف سفر مسلسل جاری ہے اور بندہ اگر مایوس ہوئے بغیر عمل صالح کو خلاف طبیعت ہونے کے باجود جاری رکھے تو نہ صرف قرب الہی کی کیفیات دوبارہ لوٹ آتی ہیں بلکہ انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ دوسروں کی تربیت اور رہنمائی بھی کرسکے۔ چنانچہ یہ کیفیت دراصل ایمان میں ترقی کی علامت ہے نہ کہ ایمان کے سلب ہوجانے کی کوئی نشانی۔

تحریر: ابو یحییٰ

1 تبصرہ:

  1. تو جب ملتا تھا تو بات کہاں کرتا تھا
    اب خیالاتوں میں ملاقاتیں خوب ہوتی ہیں

    جواب دیںحذف کریں