فہم القرآن



قرآن کا فہم ــــ آسان یا مشکل


اللہ تعالیٰ نے سورہ قمر کی آیت ٣٢ میں قرآن مجید کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ 'وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ' (ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیاہے اب ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا)۔ جب یہ قرآن آسان ہے تو پھر وہ کیا مشکلات ہیں جن کو حل کرتے ہوئے مفسرین اور قرآن کے ماہرین نے ایک ایک سورہ پر ہزاروں صفحات لکھ دیے ہیں؟

قرآن مجید کے فہم کے دو پہلو ہیں۔

ایک پہلو نصیحت کا ہے۔ اس اعتبار سے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ دنیا کی آسان ترین کتاب ہے۔ اس کا اگر اچھا ترجمہ ہی پڑھا جائے تو جس بنیادی چیز کی یہ یاددہانی کرانا چاہتی ہے، اسے یہ ہر پہلو سے واضح کر دیتی ہے۔ وہ بنیادی چیز یہ ہے کہ خدا ایک ہے، وہی عبادت کے لائق ہے اور انسانوں کو ایک دن اس کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ آپ قرآن کو جہاں سے کھولیے، وہ یہ بات بیان کر رہا ہے۔

چنانچہ یہ بالکل بجا ہے کہ نصیحت اور یاددہانی حاصل کرنے کے لیے قرآن دنیا کی آسان ترین کتاب ہے۔ تاہم، اس ضمن میں واضح رہنا چاہیے کہ 'يسرنا' کا صحیح مفہوم ''آسان بنا دینا '' نہیں، بلکہ ''موزوں بنا دینا''ہے۔ یعنی ہم نے اس قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے نہایت موزوں بنا دیا ہے اور ظاہر ہے کہ موزونیت اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ اسے سمجھنے میں آدمی کو کوئی دشواری پیش نہ آئے، بلکہ وہ آسانی کے ساتھ اس کے مدعا تک پہنچ جائے۔

قرآن مجید کے فہم کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ علماے اولین اور متاخرین کے لیے علمی اعتبار سے ہمیشہ محل تدبر رہا ہے۔ یہ ام القریٰ کی عربی معلی میں نازل ہوا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو زبان وادب اور فصاحت وبلاغت کا معجزہ قرار دیا اور قریش کو یہ چیلنج کیا کہ وہ اس کے مانند کوئی ایک سورہ ہی پیش کردیں۔

یہ ایک منفرد اسلوب کا حامل ہے جسے نہ نثر کہا جاسکتا ہے اور نہ نظم۔ اس کا ایک پس منظر اور ایک پیش منظر ہے۔ اس میں خطاب لحظہ بہ لحظہ بدلتا رہتا ہے۔ چنانچہ علما کو یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ کسی مقام پر مخاطب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، عام انسان ہیں، قریش مکہ ہیں یا یہودو نصاریٰ ہیں۔

چنانچہ اگر اس نوعیت کا فہم پیش نظر ہو تو یہ دنیا کی مشکل ترین کتاب ہے۔ مجھے خود زندگی میں بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے کہ قرآن مجید کے ایک حصے کی برسوں تلاوت کی ہے، اس کو بار بار پڑھا ہے، وہ یاد بھی ہے، لیکن جب کوئی خاص مسئلہ پیش آیا اور اس پر غور کرنا شروع کیا تو اس کے ایسے پہلو نمایاں ہونے شروع ہو گئے جن کی طرف پہلے کبھی توجہ نہیں تھی۔ یہ قرآن مجید کا خاص کمال ہے۔
اس لحاظ سے اہل علم کبھی اس سے سیر نہیں ہوتے۔

چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عام آدمی اسے نصیحت اور یاددہانی کے لیے سمجھنا چاہے تو کوئی مشکل نہیں ہے اور اگر امت کی اعلیٰ ذہانتیں اس کو اپنا موضوع بنائیں اور اس میں ہزاروں لاکھوں لوگ بھی کھپ جائیں تو کبھی و ہ اس کو یہ خیال کر کے ایک طرف نہیں رکھ سکتےکہ اب اسے ہر لحاظ سے سمجھ لیا گیا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں