بچہ اپنے کھیل میں جیسی سنجیدگی اور ہمہ تن محویت اور خود فراموشی دکھاتا ہے، بڑوں کے کسی مشن اور مہم میں اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا فلسفی بھی کسی کھیل میں منہمک بچے سے زیادہ سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
کھلونا ٹوٹنے پر بچے نے روتے روتے اچانک روشنی کی طرف دیکھا تھا تو آنسو میں دھنک جھلمل جھلمل کرنے لگی تھی۔ پھر وہ سسکیاں لیتے لیتے سو گیا تھا۔ وہی کھلونا بڑھاپے میں کسی جادو کے زور سے اس کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو وہ بھونچکا رہ جاۓ گا کہ اس کے ٹوٹنے پر بھی بھلا کوئی اس طرح جی جان سے روتا ہے۔ یہی حال ان کھلونوں کا ہوتا ہے، جن سے آدمی زندگی بھر کھیلتا رہتا ہے۔ ہاں، عمر کے ساتھ ساتھ یہ بھی بدلتے اور بڑے ہوتے رہتے ہیں.....
~ مشتاق احمد یوسفی ~
کھلونا ٹوٹنے پر بچے نے روتے روتے اچانک روشنی کی طرف دیکھا تھا تو آنسو میں دھنک جھلمل جھلمل کرنے لگی تھی۔ پھر وہ سسکیاں لیتے لیتے سو گیا تھا۔ وہی کھلونا بڑھاپے میں کسی جادو کے زور سے اس کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو وہ بھونچکا رہ جاۓ گا کہ اس کے ٹوٹنے پر بھی بھلا کوئی اس طرح جی جان سے روتا ہے۔ یہی حال ان کھلونوں کا ہوتا ہے، جن سے آدمی زندگی بھر کھیلتا رہتا ہے۔ ہاں، عمر کے ساتھ ساتھ یہ بھی بدلتے اور بڑے ہوتے رہتے ہیں.....
~ مشتاق احمد یوسفی ~
یوسفی صاحب جو مرضی کہیں۔ سر آنکھوں پر۔
جواب دیںحذف کریںلیکن میرا مشاہدہ ہے کہ بڑھاپے میں بھی کھلونے یاد آتے ہیں۔
کھلونوں کی اکثر دکانوں میں بزرگ کھلونے بچوں کو نہیں، بلکہ اپنے آپ کو لے کر دے رہے ہوتے ہیں، تبھی آپ کو کھلونوں کی دکان میں تمام بڑوں کا انہماک نظر آئے گا۔
جی میں بالکل اتفاق کرتی ہوں آپ کی بات سے۔۔ کھلونوں کے معاملے میں بڑے بھی بچے بن جاتے ہیں :)
حذف کریں