لاکھوں
کروڑوں برہنہ ویب سائٹس کوئی افریقہ کے ننگے جنگلیوں نے تو نہیں بنائی ہیں؟
یورپ اور امریکا کے ’’مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ‘‘ روشن خیالوں ہی نے تو
بنائی ہیں۔ ان کے اثرات ہمارے دانشوروں کی آزاد خیالی کے طفیل اب ہمارے
’’بند معاشروں‘‘ تک بھی آن پہنچے ہیں۔ ہر طرف ترغیبات کاکھلا بازار سجا ہوا
ہے۔ حتیٰ کہ کسی پاکیزہ اخبار کا ’مجلہ‘ (Magazine) بھی اس وقت تک معیاری
نہیں گردانا جاتا جب تک وہ نوجوان نسل کے
جنسی جذبات بھڑکا دینے والی چہچہاتی، چہار رنگی تصاویر شایع نہ کرے۔ مگر
تعجب ہے کہ جب کوئی ’’جنسی سانحہ‘‘ رُونما ہوجاتا ہے تو الیکٹرونک، پرنٹ
اور سوشل میڈیا سب پر ایک کہرام مچ جاتا ہے۔ یہ کہرام کیسا؟ یہی تو مطلوب و
مقصود تھا-
یہ تمام ’’روشن خیالیاں‘‘ اور بقول آپ کے یہ سب ’’تفریح‘‘ (Entertainment) جو فراہم کی جارہی تھی، اُس کا اصل مقصد کیا کوئی حیادار، باعصمت اور صاف ستھرا، پاکیزہ معاشرہ تخلیق دینا تھا؟ یہی نتائج تو درکار تھے۔
بس یہ جدید دنیا کے رنگ ہیں۔ جو ان مین رنگ جائے وہ مہزب! باقی سب جنگلی۔
جواب دیںحذف کریںجی بالکل درست فرمایا آپ نے ۔۔۔ آج کل ہیہ روش چل نکلی ہے۔ ۔۔۔ شکریہ آپ کی آمد کا۔
حذف کریں