"6 ستمبر"


نظم "6 ستمبر"

احمد ندیم قاسمی
مجموعہ کلام "مُحیط"
سنہ 1965

چاند اُس رات بھی نکلا تھا، مگر اُس کا وجوُد
اِتنا خوُں رنگ تھا، جیسے کسی معصوُم کی لاش
تارے اُس رات بھی چمکے تھے، مگر اِس ڈھب سے
جیسے کٹ جائے کوئی جسمِ حَسیں، قاش بہ قاش
اِتنی بے چین تھی اُس رات، مہک پھُولوں کی
جیسے ماں، جس کو ھو کھوئے ھوُئے بچّے کی تلاش
پیڑ چیخ اُٹھتے تھے امواجِ ھوا کی زَد میں
نوکِ شمشیر کی مانند تھی جھونکوں کی تراش

اِتنے بیدار زمانے میں یہ سازش بھری رات
میری تاریخ کے سینے پہ اُتر آئی تھی
اپنی سنگینوں میں اُس رات کی سفّاک سِپاہ
دُودھ پیتے ھوُئے بچّوں کو پرو لائی تھی
گھر کے آنگن میں رواں خوُن تھا گھر والوں کا
اور ھر کھیت پہ شعلوں کی گھٹا چھائی تھی
راستے بند تھے لاشوں سے پَٹی گلیوں میں
بِھیڑ سی بِھیڑ تھی، تنہائی سی تنہائی تھی

تب کراں تا بہ کراں صُبح کی آہٹ گوُنجی
آفتاب ایک دھماکے سے اُفق پر آیا
اب نہ وہ رات کی ہیبت تھی، نہ ظُلمت کا وہ ظُلم
پرچمِ نوُر یہاں اور وھاں لہرایا
جِتنی کِرنیں بھی اندھیرے میں اُتر کر اُبھرِیں
نوک پر رات کا دامانِ دریدہ پایا
میری تاریخ کا وہ بابِ منوّر ھے یہ دِن
جِس نے اِس قوم کو خوُد اُس کا پتہ بتلایا

آخری بار اندھیرے کے پُجاری سُن لیں
میں سَحر ھوُں، میں اُجالا ھوُں، حقیقت ھوُں میں
میں محبّت کا تو دیتا ھوُں محبّت سے جواب
لیکن اعدا کے لیے قہر و قیامت ھوُں میں
امن میں موجہء نکہت مِرا کِردار سہی
جنگ کے دَور میں غیرت ھوُں، حمیّت ھوُں میں
میرا دُشمن مُجھے للکار کے جائے گا کہاں
خاک کا طیش ھوُں، افلاک کی دہشت ھوُں میں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں