ترا قبلہ ہے بُتِ آذری،سر عرش میری نماز ہے


تجھے اپنے مال پہ عجب ہے ، مجھے اپنے حال پہ ناز ہے
تیرا حصّہ مستی و بیخودی مرا بخرہ سوزوگداز ہے

تو دُکھے ہوؤں کو دکھائے جا،تو جلے ہووں کو جلائے جا
تو نشان خیر مٹائے جا ترے شر کی رسی دراز ہے

غم دہر تجھ کو نہ کھائے کیوں خوشی اپنا جلوہ دکھائے کیوں
تو وفا کا لطف اٹھائے کیوں، ترا دل تو بندہ آز ہے

تجھے فکر ہے کم وبیش کی تجھے سوچ ہے پس و پیش کی
مری زندگی کے محیط میں نہ نشیب ہے نہ فراز ہے

طرب آفریں میرا ساتگیں،تری لے ہے مایہ بغض و کیں
میں جہان درد کا راز ہوں تو دیار حرص کا ساز ہے

مجھے تیرے مال سے کیا غرض،تجھے میرے حال کی کیا خبر
کہ میں غزنوی بُتِ ذر کا ہوں ،شہ سیم کا تو ایاز ہے

تو رہین شوکت قیصری ، میں امین شان قلندری
ترا قبلہ ہے بُتِ آذری،سر عرش میری نماز ہے

کروں مال و زر کی میں کیوں ہوس مجھے اپنے فقر پہ فخر بس
یہی حرز جان فقیر ہے ،یہی قول شاہ حجاز ؐہے

میکش اکبر آبادی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں