اس جان کی کوئی بات نہیں
(ملک جہانگیر اقبال کی Tangled Creation پیچیدہ تخلیق کتاب سے اقتباس )
رات چہل قدمی کرتے ہوئے ساتھ والے محلے تک چلا گیا اور اپنی مستی میں جا ہی رہا تھا کے اپنے عقب میں کار کا ہارن سنائی دیا پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسی محلے میں رہنے والے ایک واقف کار تھے گاڑی سے اتر کر میرے پاس آ گئے اور سلام دعا کرنے کے بعد کہا: "جہانگیر بھائی کیا پاکستان آرمی یا اسکے اداروں کے حق میں لکھ رہے ہو؟ آپ اب تک ١٩٦٥ کا رونا رو رہے ہو جب کہ پاکستان میں اب کچھ بچا ہی نہیں اب یہ حقیقت مان جاؤ کہ جن قوموں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا وہ اپنے ماضی پر بڑا فخر کرتی ہیں". اس کی بات سننے کے بعد دل تو چاہ رہا تھا انہیں کوئی سخت بات کہ دوں پر خود پر ضبط کیا اور کہا .
"بھائی یہ تو آپ نے بہت ہی نا امیدی والی بات کی ہے پاکستانی قوم کا مستقبل بہت شاندار ہے آپ کو تو اس قوم کو سلام پیش کرنا چاہئیے جس کے خلاف دنیا کی درجنوں اجنسیاں کام کر رہی ہیں پھر بھی یہ قائم ہے . پاکستانی قوم قابل فخر قوم ہے اگر کسی اور قوم پر ایسی مصیبت آئی ہوتی تو کب کی تباہ و برباد ہوچکی ہوتی پر یہ قائم رہی تو دشمنوں نے آپ جیسے کچھ لوگوں کو خرید لیا جنھوں نے جوانی لڑکیوں کے کالجوں کے سامنے گزاری اور پھر نقل کر کے اور باپ کی سفارشوں پر کسی اچھی جگہ بیٹھ گئے تو اس ملک اور قوم کو اور اسکے اداروں کو برا بھلا کہنے لگے .
آپ کو تو اور بھی شکر گزار ہونا چاہیے اس قوم کا کہ یہ دشمنوں کے حملے کی زد میں تھی اسلئے کچھ جگہوں پر توجہ نہیں دے سکی تو آپ جیسے نالائق لوگ بھی بولنے لگ گئے ورنہ آپ کا میرٹ تو بھنگی بننے لائق بھی نہیں ہے . تھوڑی بہت حرام خوری کرنے کی وجہ سے دو پیسے آگئے تو کسی نے آپ سے شادی بھی کرلی ورنہ آپ جیسے لوگ اکثر کنوارے کسی فٹ پاتھ پر پڑے پڑے ہی مر جاتے ہیں" .
میری باتیں سننے کے بعد وہ جناب زیادہ دیر کھڑے نہیں ہوئے اور اپنے گھر کی طرف چل دیے اور میں وہیں پاس پڑے پھٹے پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ ہم دشمنوں سے تو لڑ لیں گے پر اس قسم کی سوچ والوں کا کیا کیا جائے جو نا امیدی پھیلا کر فخر محسوس کرتے ہیں جن کا کام ہی ان تاریک چیزوں کو بار بار بیان کرنا ہوتا ہے جس سے قوم کا حوصلہ ٹوٹے . ارے اگر آرمی نے غلطیاں کی بھی ہیں تو کیا آرمی کو اٹھا کر پھینک دیں ؟ تم کہتے ہو آرمی مجاہدین کے خلاف ہے وہاں انڈیا روتا ہے کہ پاکستانی فوجی مجاہدین کے ذریعے حملہ کرتے ہیں . دوسری طرف افغان آجنکی روٹی ہے کہ مجاہدین کو آئی ایس آئی چلا رہی ہے تیسری طرف امریکا سپورٹ فنڈ محدود کردیتا ہے کہ پاکستان آرمی امریکن آپریشن میں رکاوٹ کر رہی ہے ؛
کہیں ایسا تو نہیں آپ نے دہشتگردوں کو مجاہدین اور مجاہدوں کو دہشتگرد بنا دیا ہو ؟
گھر کے اندر بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے ہوئے کسی بھی ادارے کو گالی دینا آسان ہوتا ہے کبھی میدان میں نکلو تو پتا چلے کہ دشمن کس طرح وار کر رہا ہے ارے آپ تو وہ لوگ ہو جو اگر گلی میں لڑائی ہورہی ہو تو گھر کے دروازے کھڑکیاں بند کر کے بیٹھ جاتے ہو اور لیکچر دوسروں کو بہادری کا دیتے ہو ؟ ایک وہ دنیا ہے جس میں شہری جیتے ہیں اور ایک وہ دنیا ہوتی ہے جس میں حساس ادارے جی رہے ہوتے ہیں . اگر آپکو ١ دھماکے کی خبر ملتی ہے تو اسی وقت ١٠ دھماکے مختلف جگہوں پر بچا لیے گئے ہوتے ہیں پر اسکا ذکر کوئی نہیں کرتا کیوں کہ وہ لوگ ہمارے سکون اور اپنی مٹی کے لئے خدمات سر انجام رہے ہوتے ہیں ذاتی نمود و نمائش کے لئے نہیں .
پر یہ سب کون سمجھائے گا .. باقی دنیا میں یہ ذمہ داری میڈیا نبھاتا ہے حالانکہ امریکا کی فوج کے خلاف سب سے زیادہ مظاہرے ہوتے ہیں اس کے اپنے ملک میں پر ان کا میڈیا فوجیوں کو فرشتہ دکھاتا ہے پر یہاں آج بھی عوام فوج کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں سرحدوں کے لئے پر یہ میڈیا نا جانے کون سے ملک کا میڈیا ہے . خیر کوئی نہیں سمجھے گا نہ ہی کوئی سمجھانے والا سمجھا پائے گا یہی سوچتے ہوئے میں نے واپسی کی راہ لی اور راستے میں مجھے اپنے بہت ہی دلعزیز دوست ملے جو ایک سرکاری ادارے سے منتخب کۓ گئے تھے "آئی ایس آئی " کے لئے اور مجھے قرآن پر حلف اٹھوا کر بتایا تھا کہ آپ کبھی کسی کو نہیں بتاؤ گے اور آج تک میں اس پر قائم ہوں اب یہ ایک ٹانگ سے محروم ہیں ایک آپریشن کے دوران ٹانگ پر دو گولیاں لگی تھیں پر افسوس کے یہ لوگ قوم کے لئے دی گئی قربانیوں کی نمائش نہیں کرتے میں نے انہیں سلام کیا اور کہا میرے بھائی یوم دفاع مبارک ہو مجھے تم پر فخر ہے . ہماری قوم شاید تمہاری قربانی نہ سمجھ پائے پر الله پاک جی تمھیں اس کا بھرپور اجر دیں گے . میری بات سن کر انھوں نے کہا
"جہانگیر بس افسوس اس بات کا رہے گا کہ پورا اجر شاید نہ لے سکوں صرف ایک ٹانگ ہی گئی ہے مزہ تو تب آتا جب پورا جسم چھلنی لیکر اسکے حضور حاضر ہوتا اپنے ملک کے بھی کام آجاتا اور جنت میں بھی واہ واہ ہوجاتی "
شکریہ :)
جواب دیںحذف کریں