درد دل کے واسطے


"دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو“ خواجہ میر درد نے یہ بات بڑی سہولت سے شعری قالب میں ڈھال کر انسان کوصبر و تحمل کا درس دیا تھا۔ گویا اس کے تجربات و مشاہدات اور ریاضتوں کا مآحصل یہی سنہری بات تھی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ازل سے ابد تک پھیلے انسانی زندگی کے احوال و آثار اسی حقیقت میںپنہاں ہیں۔ جس نے اس راز کو پا لیا‘ وہ شانت ہوگیا۔ جسے اس کا شعور نہ ملا ‘وہ بے چین ،اور جو جاننے اورنہ جاننے کے درمیان رہا’ وہ مضطرب۔ زندگی کی کہانی میں آنسو زیادہ اور قہقہے کم ہیں، اور ہوں کیوں نہ کہ پانی تو بنائے حیات ہے۔بہتا رہے تو نعمت ‘ رُک جائے تو زحمت۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں