ادب پہلا قرینہ ہے ۔ ۔ ۔ محبت کے قرینوں میں



سورت الروم کی آیت نمبر 21 ہے
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
1۔ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ
2۔ اس نے تمھارے جوڑے تمھی میں سے پیدا کئے
3۔ تاکہ تم اُن کی طرف سکون کر سکو
4۔ اور پھر تمھارے درمیان موٴدت اور رحمت بنادی (کردی)
 5۔ کہ اس میں سوچنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔
اللہ تعٰالی نے عورت اور مرد کی تخلیق، خلقت اور فطرت کو اپنی نشانی کہا ہے جو ایک عظیم حکمت کی دلالت کرتی ہے۔
       * بات کے شروع میں اپنی نشانی قراردے کر باقی بات مکمل کرنا، اس بات کی طرف اشارە ہے کہ اس تمام معاملے کا اللہ کی شان سے خاص تعلق ہے۔
   * اندازِ تخاطب اور گرامر کی رُو سےیہاں عورت یا مرد کی تخصیص نہیں۔ یہ ضمیرِ مخاطب (مخاطب کرنے کا یہ لفظ) عورت اور مرد دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
   * اسی طرح لفظ “ازواجاً”، “جوڑا”، ” Spouse” مترادف ہیں یعنی بات ایک ہی وقت میں مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کرکے کہا جارہا ہے۔
   * تمھاری جنس اور سپیشز سے تمھارا جوڑا بنانے میں اللہ تعٰالی کی حکمت ہے۔ اس نے عورت اور مرد کو ہمزاد بنا کر اُن میں فطری میلان اور جھکاوٴ  ناگریز  بنا دیا۔ یہ انسان کی فطرت کےایسے اسرار ہیں جن کو اللہ تعٰالی اپنی نشانی کہہ رہا ہے۔
   * اس کے بعد ہم جنس بنائے ہوئے جوڑے کو سکون کا سبب بنایا ہے۔ “لتسکنوا الیہا” کا مطلب ہے کہ تم اس جوڑ سے سکون حاصل کرو۔ یہاں سکون بطور “اسم” ازخود پہلے سے موجود نہیں بتلایا گیا بلکہ “اُن کی طرف سکون کرو” بطور فعل بتایا گیا۔ یہ صفت اور خوبی اس تعلق میں ایسی ہے جس کے لئے مرد اور عورت کو تدبیر کرنی ہے۔
    * “و جعل بینکم” میں “بینکم” کا لفظ استعمال کرکے مرد اور عورت دونوں کے مابین کی طرف اشارە کیا گیا ہے۔ یہاں بھی مرد اور عورت کو بلا تخصیص اوربلا تفضیل برابر مخاطب کیا گیا ہے۔
   * ہم جنس جوڑے میں سکون کے ساتھ دو اور صفات کو اللہ تعٰالی اپنی نشانی بتاتا ہے کہ اللہ تعٰالی تمھارے مابین 1) مودت اور 2) رحمت جاری کردیتا ہے۔
یہاں شوہر اور بیوی کے تعلق میں لفظ “محبت” کی جگہ موٴدت اور رحمت استعمال کیا گیا ہے۔ بلاشبہ اس میں رب کائنات کی عظیم حکمت ہے۔
اس حکمت پہ غور کرنے کے لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ لغوی اعتبار سے موٴدت اور محبت میں کیا فرق ہے؟
      * لغت کے اعتبار سے
      محبت:  دل اور نفس کی صفت اور کیفیت (صفہ نفسیہ)
      موٴدت: عمل، رویے اور سلوک کی صفت اور کیفیت (صفہ عملیہ)
 محبت انسان کے دلی جذباتی لگاوٴ کی کیفیت ہے کہ جو کیفیت محبت کی صورت میں دل پہ ہوتی ہے، جبکہ موٴدت انسان کے سلوک اور رویئے کی کیفیت ہے کہ وە سلوک اور برتاوٴ جس سے محبت جھلکتی ہو، ۔ ۔ ۔
  اس بات سے یہ اشارە ملتا ہے کہ ازواج اپنی دلی کیفیت پہ اکتفا نہ کریں، خواە وە محبت کے دعویدار ہیں یا نہیں، اچھی ازدواجی زندگی کے لئے دل میں چھپی محبت کافی نہیں، اور لازم بھی نہیں، لیکن اپنے عمل، سلوک اور رویئے میں محبت کا ظاہر ہونا ضروری ہے، چونکہ مرد اور عورت دونوں کو یکساں مخاطب کیا گیا ہے لہذا موٴدت اور رحمت کا معاملہ دونوں ہی کو یکساں طور پہ کرنا ہے۔
ازواج کے باہمی رویۓ، عمل اور گفتگو میں موٴدت (محبت بھرا برتاو)ٴ اور رحمدلی کو اللہ تعٰالی اپنی نشانی قرار دے رہا ہے۔ محبت کے اظہار کے لئے اولین قدم عزت ہے۔ ۔ ۔
                  ؂ ادب پہلا قرینہ ہے ۔ ۔ ۔ محبت کے قرینوں میں
گویا یہ رشتہ قانونی اور شرعی بندھن تو اپنی جگہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت سے مطابقت رکھنے والا بھی ہے جس کو انسان کی فطرت بنانے والا خود اپنی نشانی کہہ رہا ہے اور اُن فائدوں کا ذکر کررہا ہے جو اُس نے اِن دونوں ازواج کی فطرت میں سمو دیئے ہیں۔
   * یہ مطالب ان کے لئے ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں اور سوچنے، تدبر کرنے والوں کے لئے ہی یہ بات اللہ تعٰالی کی نشانیوں میں شمار ہوگی۔
      ۔ * ۔ * ۔ * ۔ * ۔ * ۔ * ۔ * ۔ * ۔ * ۔ * ۔ * ۔
یہاں تک  سورت الروم کی آیت 21 کے ترجمے اور مفہوم کا ذکر ہوا۔ جس سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آئے۔
  1۔ اللہ تعٰالی اس آیتِ مبارکہ میں مرد اور عورت کی تخلیق، اُن کی باہمی کشش، مطابقت اور کیمسٹری کو اپنی قدرت کی نشانی قرار دے رہا ہے۔ چنانچہ یہ مطابقت اور موٴدت اپنا وجود رکھتی ہے۔ اگر ہم اِسے مفقود پاتے ہیں تو لازمی طور پہ ہم غلط پیمانے میں اس تعلق کو تول رہے ہیں۔ اور اس ضمن میں سب سے بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وە  توقعات اور ذمہ داریاں وابستہ کرلی یا کردی جاتی ہیں جو خالقِ کائنات نے لاگو نہیں کیں۔ مختلف لوگوں نے مختلف معاشروں میں مختلف روایتی اثرات کے زیرِ اثر اس تعلق کو مختلف مفہوم پہنادئیے جس کی وجہ اس تعلق کی وە حکمت پس منظر میں چلی گئی جو اللہ تعٰالی نے وضع کی تھی۔
  2۔ ہم جنس جوڑے ہونے کی وجہ سے اللہ تعٰالی نے ازواج کو ایک دوسرے کے لئے سکون کا سبب بنایا۔
  3۔ اور اللہ تعٰالی جوڑوں کے مابین موٴدت اور رحمت پیدا کردیتا ہے، جس کے لئے اُن کو باہمی سلوک میں محبت بھرا رویئہ اپنانا ہے بجائے اس کے کہ زبانی کلامی محبت کا دعوی ہو،( بعض صورتوں میں زبانی دعوے کا تکلف بھی روا نہیں رکھا جاتا) اور عملی رویئے، برتاوٴ، سلوک، محبت کے برعکس اور ناقدری ظاہر کرنے والے ہوں۔
  4۔ یہ بات، یہ نشانی، اس تخلیقی میکنزم کی حکمت صرف اُن ہی کو سمجھ آئےگی جو عقل رکھتے ہیں اورتدبر اور غورو فکر کرتے ہیں۔

3 تبصرے:

  1. So nice to see my post in ur blog. . .but wasnt it more sweet if u mentioned the source. . .and u didnt even gone through it so deeply to notice the paknet forum's link. . .for which i actually wrote it, in reply to a long conversation. . . .such a craze for blogging !

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. Thanks For visiting :) ... Oh yes thats my fault but i didn't know that the forum post was also urs so as u mentioned this link on ur blog so do i ... I apologize for this :)

      حذف کریں