کہاوت کہانی ۔۔۔ 13



 
کہاوت کہانی

" آب آب کر مر گئے، سرہانے دَھرا رہا پانی "

اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔

 کوئی شخص ہندوستان سے باہر گیا اور وہاں سے فارسی سیکھ کر واپس آیا۔ اپنی فارسی دانی پر اس کو بہت ناز تھا۔ اتفاق سے وہ بیمار ہو گیا اور طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ وہ پیاس کی شدت میں ’’آب آب‘‘ کہہ کر پانی مانگتا رہا لیکن کوئی اس کی بات نہ سمجھ سکا اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہو گیا حالانکہ پانی اُس کے سرہانے ہی رکھا ہوا تھا۔ 
اس مناسبت سے گویا کہاوت میں تنبیہ ہے کہ گفتگو ہمیشہ ایسی زبان میں کرنی چاہئے جس کو لوگ سمجھتے ہوں۔ اپنی قابلیت کے زعم میں ایسی زبان استعمال کرنا سرا سر نادانی ہے جس سے لوگ نا واقف ہوں۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

  ✎ کہاوت کہانی ✎ " آب آب کر مر گئے، سرہانے دَھرا رہا پانی " اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔  کوئی شخص ہندوستان سے باہر گیا اور و...

کہاوت کہانی ۔۔۔ 12


 کہاوت کہانی 
"چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات "

پورا چاند بہت کم وقت کے لئے نکلتا ہے جب کہ اس کے بعد آنے والی اندھیری رات لمبی ہوتی ہے۔ زندگی کی خوشیاں بھی ایسی ہی کم مدت کے لئے ہوتی ہیں اور انسانی مشکلات کی مدت طویل ہوتی ہے۔ کہاوت میں عبرت کے ساتھ یہ تنبیہ بھی ہے کہ زندگی کی چار دن کی چاندنی سے جس قدر لطف اندوز ہوا جا سکے اچھا ہے کیونکہ اس کے بعد معلوم نہیں اندھیری رات میں کیا پیش آئے۔ کسی کی شہرت یا دولت کی بے ثباتی کو ظاہر کرنا ہو تو بھی یہ کہاوت بولتے ہیں۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

✎  کہاوت کہانی  ✎ "چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات " پورا چاند بہت کم وقت کے لئے نکلتا ہے جب کہ اس کے بعد آنے والی اندھیری رات...

کہاوت کہانی ۔۔۔ 11



کہاوت کہانی - 10

"پانڈے جی پچھتاؤ گے، وہی چنے کی کھاؤ گے"

جب کوئی شخص ضد میں کسی کام سے انکار کر دے لیکن بعد میں مجبور ہو کر اس پر بصد اکراہ راضی ہو جائے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔

اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے
 کہ ایک پنڈت جی کو چنے کی روٹی اور دال سخت ناپسند تھے۔ ایک دن جب بیوی نے ان کے سامنے چنے کی دال اور روٹی رکھی تو پنڈت جی نے کھانے سے انکار کر دیا۔ بیوی نے سمجھایا کہ ’’گھر میں اس وقت اور کچھ پکا نے کو نہیں ہے۔‘‘ لیکن وہ نہ مانے اور غصہ میں بھنائے ہوئے گھر سے نکل گئے۔ شام تک بھوک نے اتنا برا حال کر دیا کہ ہار کر گھر واپس آئے اور خاموشی سے کھانے کی چٹائی پر بیٹھ گئے۔ بیوی مطلب سمجھ گئی اور اس نے دال روٹی ان کے سامنے رکھ دی۔ پانڈے جی نے بحالت مجبوری اسی سے پیٹ کی آگ بجھائی۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

✐ کہاوت کہانی - 10 ✐ "پانڈے جی پچھتاؤ گے، وہی چنے کی کھاؤ گے" جب کوئی شخص ضد میں کسی کام سے انکار کر دے لیکن بعد میں مجبور ہو کر ...

کہاوت کہانی --- 10



کہاوت کہانی

" آپ سے آتی ہے تو آنے دو "


یہ کہاوت ایسے موقع پر استعمال کی جاتی ہے جب کوئی شخص کسی نا جائز چیز کو اپنے لئے جائز قرار دینے کا حیلہ تلاش کر رہا ہو۔

 اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔

 ایک مولوی صاحب کے گھر میں پڑوسی کا مرغ آ گیا۔ ان کی بیوی نے مرغ پکڑ لیا اور ذبح کر کے پکا بھی لیا۔ جب مولوی صاحب شام کو کھانے پر بیٹھے تو مرغ دیکھ کر پوچھا کہ ’’یہ کہاں سے آیا؟ ‘‘ بیوی کے بتانے پر انھوں نے فرمایا کہ ’’یہ تو حرام ہے، بھلا میں کسی اور کا مال اس طرح نا جائز طور پر کیسے کھا سکتا ہوں ؟ ‘‘ بیوی نے جواب دیا کہ’’ سو تو ٹھیک ہے لیکن سالن تو ہمارے ہی پیسوں کا بنا ہوا ہے۔ اس میں کیا قباحت ہے؟ ‘‘
 مولوی صاحب کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور انھوں نے بیوی سے کہا کہ وہ اُن کو صرف سالن نکال دے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا لیکن احتیاط کے باوجود ایک بوٹی پیالے سے لڑھک کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں آ گری۔ بیوی نے اس کو نکالنا چاہا تو مولوی صاحب نے کہا کہ’’ نہیں نہیں ! جو بوٹی آپ سے آتی ہے اُس کو آنے دو۔ ‘‘ بیوی نے کہا کہ’’ وہ مرغ بھی تو آپ سے ہی ہمارے گھر آ گیا تھا۔‘‘
 مولوی صاحب کی نیت تو پہلے ہی ڈانوا ڈول تھی۔ فوراً بیوی کی بات پر راضی ہو گئے اور دونوں مفت کا مرغ ہضم کر گئے۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

✎ کہاوت کہانی ✎ " آپ سے آتی ہے تو آنے دو " یہ کہاوت ایسے موقع پر استعمال کی جاتی ہے جب کوئی شخص کسی نا جائز چیز کو اپنے لئے جائز ...

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 12




⚔ شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-12

اور لومڑیاں بھاگیں اور گدھ اڑ گئے۔ وہاں انسانی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں ۔ سر الگ پڑا تھا۔ اس کے بال لمبے اِدھر ُادھر بکھرے ہوئے تھے ۔ کچھ کھوپڑی کے ساتھ تھے۔آدھے چہرے پر ابھی کھال موجود تھی وہ یوحاوہ تھی۔ لیث بن موشان کچھ دیراس کی بکھری ہوئی ہڈیوں کو اور ادھ کھائی چہرے کو دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اس کی دودھ جیسی داڑھی میں جذب ہو گئے۔ہم وہاں سے آگئے۔‘‘ ’’لیث بن موشان اور یوحاوہ نے جرید بن مسیب کو محمدﷺ کے قتل کے لیے تیار کیا تھا ۔‘‘خالد نے ایسے لہجے میں کہا جس میں طنز کی ہلکی سی جھلک بھی تھی ۔’’جرید بن مسیّب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور یوحاوہ کا انجام تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ……کیا تم سمجھے نہیں ہو ابو جریج؟‘‘’’ہاں ۔ ہاں!‘‘بوڑھے ابو جریج نے جواب دیا۔’’لیث بن موشان کے جادو سے محمد ﷺ کا جادو زیادہ تیز اور طاقتور ہے۔ لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کے ہاتھ میں جادو ہے۔ اس جادو کا ہی کرشمہ ہے کہ اس کے مذہب کو لوگ مانتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ جرید کو قتل ہونا ہی تھا۔‘‘ ’’میرے بزرگ دوست! ‘‘خالد نے کہا ۔’’اس بدروح کے قصّے مدینہ میں بھی پہنچے ہوں گے لیکن وہاں کوئی نہیں ڈرا ہوگا۔ محمد ﷺ کے پیروکاروں نے تسلیم ہی نہیں کیا ہو گا کہ یہ جن بھوت یا بدروح ہے۔‘‘ ’’محمدﷺ کے پیروکاروں کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’محمدﷺ کے جادو نے مدینہ کے گرد حصار کھینچا ہوا ہے ،محمد ﷺ کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اُحد کی لڑائی میں زخمی ہوا اور زندہ رہا ۔ تمہارا اور ہمارا اتنا زیادہ لشکر مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے گیا تو ایسی آندھی آئی کہ ہمارا لشکر تتّر بتّر ہو کے بھاگا۔ میدانِ جنگ میں محمد ﷺ کے سامنے جو بھی گیا اس کا دماغ جواب دے گیا۔ کیا تم جانتے ہو خالد! محمد ﷺ کے قتل کی ایک اور کوشش ناکام ہو چکی ہے؟‘‘ ’’سنا تھا۔‘‘خالد نے کہا۔’’ پوری بات کا علم نہیں۔‘‘’’یہ خیبر کا واقعہ ہے۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’مسلمانوں نے خیبر کے یہودیوں پر چڑھائی کی تویہودی ایک دن بھی مقابلے میں نہ جم سکے۔‘‘ ’’فریب کار قوم میدان میں نہیں لڑ سکتی۔‘‘خالد نے کہا ۔’’یہودی پیٹھ پر وار کیا کرتے ہیں۔‘‘ ’’اور وہ انہوں نے خیبر میں کیا۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’یہودیوں نے مقابلہ تو کیا تھا لیکن ان پر محمد ﷺ کا خوف پہلے ہی طاری ہو گیاتھا۔ میں نے سنا تھا کہ جب مسلمان خیبر کے مقام پرپہنچے تو یہودی مقابلے کے لیے نکل آئے۔ ان میں سے بعض محمد ﷺ کو پہچانتے تھے۔ کسی نے بلند آواز سے کہا کہ محمد بھی آیا ہے ۔ پھر کسی اور نے چلا کر کہا۔ محمد بھی آیا ہے۔ یہودی لڑے تو سہی لیکن ان پر محمد کا خوف ایسا سوار ہوا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔‘‘

یہودیوں نے شکست کھائی تو انہوں نے رسولِ کریمﷺ سے وفاداری کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور ایسے مظاہرے کیے جن سے پتا چلتا تھا کہ مسلمانوں کی محبت سے یہودیوں کے دل لبریز ہیں ۔ انہی دنوں جب رسولِ کریمﷺ خیبر میں ہی تھے ۔ ایک یہودن نے آپﷺ کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا۔ اس نے عقیدت مندی کا ااظہار ایسے جذباتی انداز میں کیا کہ رسولِ ﷲﷺ نے اسے مایوس کرنا مناسب نہ سمجھا۔ آپﷺ اس کے گھر چلے گئے۔ آپﷺ کے ساتھ ’’بشرؓ بن البارأ ‘‘تھے۔ یہودن زینب بنتِ الحارث نے جو سلّام بن شکم کی بیوی تھی۔ رسولِ ﷲﷺ کے راستے میں آنکھیں بچھائیں اور آپﷺ کو کھانا پیش کیا۔ اس نے سالم دنبہ بھونا تھا۔ اس نے رسول ﷲﷺ سے پوچھا کہ ’’آپﷺ کو دنبہ کا کون سا حصہ پسند ہے؟‘‘آپﷺ نے دستی پسند فرمائی۔ یہودن دنبہ کی دستی کاٹ لائی اور رسولِ خدا ﷺ اور بشرؓ بن البارأ کے آگے رکھ دی۔ بشرؓ بن البارأ نے ایک بوٹی کاٹ کر منہ میں ڈال لی۔ رسولِ اکرمﷺ نے بوٹی منہ میں ڈالی مگر اگل دی۔’’مت کھانا بشر!‘‘ آپﷺ نے فرمایا۔’’اس گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔‘‘ بشرؓ بن البارأ بوٹی چبا رہے تھے۔ انہوں نے اگل تو دی لیکن زہر لعابِ دہن کے ساتھ حلق سے اتر چکا تھا۔’’اے یہودن!‘‘. رسولِ ﷲﷺ نے فرمایا۔ ’’کیا میں غلط کہہ رہا ہوں کہ تو نے اس گوشت میں زہرملایا ہے؟‘‘ یہودن انکار نہیں کر سکتی تھی۔اس کے جرم کا ثبوت سامنے آ گیا تھا۔ بشرؓ بن البارأ حلق پر ہاتھ رکھ  کر اٹھے اور چکرا کر گر پڑے۔ زہر اتنا تیز تھا کہ اس نے بشر ؓکو پھر اٹھنے نہ دیا ۔ وہ زہر کی تلخی سے تڑپے اور فوت ہو گئے۔’’اے محمد!‘‘ یہودن نے بڑی دلیری سے اعتراف کیا۔’’خدائے یہودہ کی قسم! یہ میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا۔‘‘  رسول ﷲﷺ نے اس یہودن اور اس کے خاوند کے قتل کا حکم فرمایا اور خیبر کے یہودیوں کے ساتھ  آپﷺ نے جو مشفقانہ روّیہ اختیار کیا تھا وہ ان کی ذہنیت کے مطابق بدل ڈالا۔ ابنِ اسحاق لکھتے ہیں۔مروان بن عثمان نے مجھے بتایا تھا کہ رسولِ ﷲ ﷺ آخری مرض میں مبتلا تھے ،آپﷺ نے وفات سے دو تین روز پہلے اُمّ ِ بشر بن البارأ کو جب وہ آپ ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں ۔فرمایا تھا۔’’اُمّ ِ بشر!میں آج بھی اپنے جسم میں اس زہر کا اثر محسوس کررہا ہوں ۔جو اس یہودن نے گوشت میں ملایا تھا۔ میں نے گوشت چبایا نہیں اگل دیا تھا۔ مگر زہر کا اثر آج تک موجود ہے۔‘‘اس میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ رسول ﷲﷺ کی آخری بیماری کا باعث یہی زہر تھا۔

محمدﷺ کو کوئی شھید نھیں کر سکتا..‘‘خالد نے کہا۔’’آخر کب تک؟‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’اس کا جادو کب تک چلے گا؟ اسے ایک نہ ایک دن قتل ہونا ہے خالد!‘‘ابو جریج نے خالد کے قریب ہوتے ہوئے پوچھا۔’’کیا تم نے محمد)ﷺ کے قتل کی کبھی کوئی ترکیب سوچی ہے؟‘‘ ’’کئی بار۔‘‘خالد نے جواب دیا۔’’جس روز میرے قبیلے نے بدر کے میدان میں شکست کھائی تھی ،اس روز سے محمدﷺ کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کی ترکیب سوچ رہاہوں۔ لیکن میری ترکیب کارگر نہیں ہوئی۔‘‘’’کیا وہ ترکیب مجھے بتاؤ گے؟‘‘ ’’کیوں نہیں۔‘‘خالد نے جواب دیا۔’’بڑی آسان ترکیب ہے۔ یہ ہے کھلے میدان میں آمنے سامنے کی لڑائی ۔ لیکن میں ایک لشکر کے مقابلے میں اکیلا نہیں لڑ سکتا۔ ہم تین لڑائیاں ہار چکے ہیں۔‘‘’’خدا کی قسم!‘‘ ابو جریج نے قہقہہ لگا کر کہا۔’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ولید کا بیٹا بے وقوف ہو سکتا ہے۔ میں یہودیوں جیسی ترکیب کی بات کر رہا ہوں۔ میں دھوکے اور فریب کی بات کر رہا ہوں۔ محمد ﷺ کو تم آمنے سامنے کی لڑائی میں نہیں مار سکتے۔‘‘ ’’اور تم اسے فریب کاری سے بھی نہیں مار سکتے۔‘‘خالد نے کہا۔’’فریب کبھی کامیاب نہیں ہوا۔‘‘بوڑھا ابو جریج خالد کی طرف جھکا اور اس کے سینے پر انگلی رکھ کر بولا۔ ’’کسی اور کا فریب ناکام ہو سکتا ہے ، یہودیوں کا فریب ناکام نہیں ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فریب کاری یہودیوں کے مذہب میں شامل ہے۔ میں لیث بن موشان کا دوست ہوں، کبھی اس کی باتیں سنو۔ وہ دانش مند ہے اس کی زبان میں جادو ہے۔ وہ تمہیں زبان سے مسحور کردے گا۔ وہ کہتا ہے کہ سال لگ جائیں گے، صدیاں گزر جائیں گی، آخر فتح یہودیوں کی ہوگی۔ دنیا میں کامیاب ہوگا تو صرف فریب کامیاب ہوگا۔ مسلمان ابھی تعداد میں تھوڑے ہیں اس لیے ان میں اتفاق اور اتحاد ہے ۔ اگر ان کی تعداد بڑھ گئی تو یہودی ایسے طریقوں سے ان میں تفرقہ ڈال دیں گے کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے اور سمجھ نہ سکیں گے کہ یہ یہودیوں کی کارستانی ہے ۔محمد ﷺ انہیں یک جان رکھنے کے لیے کب تک زندہ رہے گا؟ ‘‘خالد اٹھ کھڑا ہوا۔ابو جریج بھی اٹھا۔ خالد نے دونوں ہاتھ آگے کیے ،ابو جریج نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ مصافحہ کرکے خالد اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔’’تم نے یہ تو بتایا نہیں کہ کہاں جا رہے ہو؟‘‘ابو جریج نے پوچھا۔’’مدینے۔‘‘’’مدینے؟‘‘ابو جریج نے حیرت سے پوچھا۔’’وہاں کیا کرنے جا رہے ہو؟ اپنے دشمن کے پاس……‘‘’’میں محمد ﷺ کا جادو دیکھنے جا رہا ہوں۔‘‘ خالد نے کہا اور گھوڑے کو ایڑی لگا دی۔

اس نے کچھ دور جا کر پیچھے دیکھا۔ اسے ابو جریج کا قافلہ نظر نہ آیا۔ خالد نشیبی جگہ سے نکل کر دور چلا گیا تھا۔اس نے گھوڑے کی رفتار کم کردی۔ اسے ایسے لگا جیسے آوازیں اس کا تعاقب کر رہی ہوں۔’’محمد جادوگر……محمد کے جادو میں طاقت ہے۔‘‘ ’’نہیں ……نہیں۔‘‘ اس نے سر جھٹک کر اپنے آپ سے کہا۔ ’’لوگ جس چیز کو سمجھ نہیں سکتے اسے جادو کہہ دیتے ہیں اور جس آدمی کا سامنا نہیں کر سکتے اسے جادوگر سمجھنے لگتے ہیں۔ پھر بھی……کچھ نہ کچھ راز ضرور ہے۔محمد ﷺ میں کوئی بات ضرور ہے۔‘‘ ذہن اسے چند دن پیچھے لے گیا۔ ابو سفیان نے اسے ،عکرمہ اور صفوان کو بلا کر بتایا تھا کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں۔ ابو سفیان کو یہ اطلاع دو شتر سواروں نے دی تھی جنہوں نے مسلمانوں کے لشکر کو مکہ آتے دیکھا تھا۔ خالد اپنی پسند کے تین سو گھڑ سواروں کو ساتھ  لے کر مسلمانوں کو راستے میں گھات لگا کر روکنے کے لیے چل پڑا تھا۔ وہ اپنے اس جانباز دستے کو سر پٹ دوڑاتا لے جا رہا تھا۔ اس کے سامنے تیس میل کی مسافت تھی۔ اسے بتایا گیا تھا کہ مسلمان کراع الغیمم سے ابھی دور ہیں۔ خالد اس کوشش میں تھا کہ مسلمانوں سے پہلے کراع الغیمم پہنچ جائے۔ مکہ سے تیس میل دور کراع الغیمم ایک پہاڑی سلسلہ تھا جو گھات کے لیے موزوں تھا۔ا گر مسلمان پہلے وہاں پہنچ جاتے تو خالد کے لیے جنگی حالات دشوار ہو جاتے۔ اس نے راستے میں صرف دو جگہ دستے کو روکا اور گھوڑوں کو سستانے کا موقع دیا۔ اس نے دو جگہوں پر اپنے گھوڑ سواروں کو اپنے سامنے کھڑا کر کے کہا۔’’یہ ہمارے لیے کڑی آزمائش ہے۔ اپنے قبیلے کی عظمت کے محافظ صرف ہم ہیں۔ آج ہمیں عزیٰ اور ہبل کی لاج رکھنی ہے۔ ہمیں اپنی شکست کا انتقام لینا ہے۔ اگر ہم مسلمانوں کو کراع الغیمم کے اندر ہی روک کر انہیں تباہ نہ کر سکے تو مکہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگا۔ ہماری بہنیں اور بیٹیاں ان کی لونڈیاں ہوں گی اور ہمارے بچے ان کے غلام ہوں گے۔عزیٰ اور ہبل کے نام پر حلف اٹھاؤ۔ کہ ہم قریش اور مکہ کی آن اور وقار پر جانیں قربان کر دیں گے۔‘‘ تین سوگھوڑ سواروں نے نعرے لگائے۔’’ہم عزیٰ اور ہبل کے نام پر مر مٹیں گے……ایک بھی مسلمان زندہ نہیں جائے گا……کراع الغیمم کی وادی میں مسلمانوں کا خون بہے گا……محمد کو زندہ مکہ لے جائیں گے……مسلمانوں کی کھوپڑیاں مکہ لے جائیں گے……کاٹ دیں گے……تباہ کر کے رکھ دیں گے۔‘‘خالد کا سینہ پھیل گیا تھا اور سر اونچا ہو گیا تھا۔ اس نے گھات کے لیے بڑی اچھی جگہ کا انتخاب کیا تھا ۔ اس نے نہایت کارگر جنگی چالیں سوچ لی تھیں۔ وہ اپنے ساتھ صرف سوار دستہ اس لیے لایا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بکھیر کر اور گھوڑے دوڑا دوڑا کر لڑنا چاہتا تھا۔ مسلمانوں کی زیادہ تعداد پیادہ تھی۔ خالد کو یقین تھا کہ وہ تین سو سواروں سے ایک ہزار چار سو مسلمانوں کو گھوڑوں تلے روند ڈالے گا، اسے اپنے جنگی فہم و فراست پر اس قدر بھروسہ تھا کہ اس نے تیر انداز دستے کو اپنے ساتھ لانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی تھی۔ حالانکہ پہاڑی علاقے میں تیر اندازوں کو بلندیوں پر بٹھا دیا جاتا تو وہ نیچے گزرتے ہوئے مسلمانوں کو چن چن کر مارتے۔

آگے جا کر خالد نے دستے کو ذرا سی دیر کے لیے روکا تو ایک بار پھر اس نے اپنے سواروں کے جذبے کو بھڑکایا۔ اسے ان سواروں کی شجاعت پر پورا اعتماد تھا۔ مسلمان ابھی دور تھے۔ خالد نے شتر بانوں کے بہروپ میں اپنے تین چار آدمی آگے بھیج دیے تھے جو مسلمانوں کی رفتار کی اور دیگر کوائف کی اطلاعیں دے رہے تھے۔ وہ باری باری پیچھے آتے اور بتاتے تھے کہ مسلمان کراع الغیمم سے کتنی دور رہ گئے ہیں ۔ خالد ان اطلاعوں کے مطابق اپنے دستے کی رفتار بڑھاتا جا رہا تھا۔ مسلمان رسول کریمﷺ کی قیادت میں معمولی رفتار سے اس پھندے کی طرف چلے آ رہے تھے جو ان کے لیے خالد کراع الغیمم میں بچھانے جا رہا تھا۔ خالد اس اطلاع کو نہیں سمجھ سکا تھا کہ مسلمان اپنے ساتھ بہت سے دنبے اور بکرے لا رہے ہیں۔ اسے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا کہ وہ مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں تو دنبے اور بکرے کیوں ساتھ لا رہے ہیں؟’’انہیں ڈر ہو گا کہ محاصرہ طول پکڑ گیا تو خوراک کم ہو جائے گی۔‘‘خالد کے ایک ساتھی نے خیال ظاہر کیا۔’’اس صورت میں وہ ان جانوروں کا گوشت کھائیں گے۔ اس کے سوا ان جانوروں کا اور کیا استعمال ہو سکتا ہے!‘‘ ’’بے چاروں کو معلوم ہی نہیں کہ مکہ تک وہ پہنچ ہی نہیں سکیں گے۔‘‘خالد نے کہا ۔’’ان کے دنبے اور بکرے ہم کھائیں گے۔‘‘مسلمان ابھی کراع الغیمم سے پندرہ میل دور عسفان کے مقام پر تھے کہ خالد اس سلسلۂ کوہ میں داخل ہو گیا۔ اس نے اپنے دستے کو پہاڑیوں کے دامن میں ایک دوسرے سے دور دور رکنے کو کہا اور خود گھات کی موزوں جگہ دیکھنے کے لیے آگے چلا گیا۔ وہ درّے تک گیا۔ یہی رستہ تھا جہاں سے قافلے اور دستے گزرا کرتے تھے۔ وہ یہاں سے پہلے بھی گزرا تھا لیکن اس نے اس درّے کو اس نگاہ سے کبھی نہیں دیکھا تھا جس نگاہ سے آج  دیکھ رہا تھا۔ اس نے اس درّے کو دائیں بائیں والی بلندیوں پر جا کر دیکھا۔ نیچے آیا۔ چٹانوں کے پیچھے گیا،اور گھوڑوں کو چھپانے کی ایسی جگہوں کو دیکھا جہاں سے وہ اشارہ ملتے ہی فوراً نکل آئیں اور مسلمانوں پر بے خبری میں ٹوٹ پڑیں۔ وہ مارچ ۶۲۸ء کے آخری دن تھے۔ موسم ابھی سرد تھا مگر خالد کا اور اس کے گھوڑے کا پسینہ بہہ رہا تھا۔ اس نے گھات کا علاقہ منتخب کرلیا،اور اپنے دستے کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے گھوڑوں کو درّے کے علاقے میں چھپا دیا۔ اب اس نے اپنے ان آدمیوں کو جو مسلمانوں کی پیش قدمی کی اطلاعیں لاتے تھے ،اپنے پاس روک لیا، کیونکہ خدشہ تھا کہ مسلمان ان کی اصلیت معلوم کر لیں گے۔ مسلمان قریب آ گئے تھے۔ رات کو انہوں نے پڑاؤ کیا تھا۔ اگلی صبح جب نمازِ فجر کے بعد مسلمان کوچ کی تیاری کر رہے تھے ۔ایک آدمی رسول اﷲﷺ کے پاس آیا۔’’تمہاری حالت بتا رہی ہے کہ تم دوڑتے ہوئے آئے ہو۔‘‘رسول ﷲﷺ نے کہا۔’’اور تم کوئی اچھی خبر بھی نہیں لائے۔‘‘ ’’یا رسول ﷲﷺ! ‘‘مدینہ کے اس مسلمان نے کہا۔’’خبر اچھی نہیں اور اتنی بری بھی نہیں۔ مکہ والوں کی نیت ٹھیک نہیں۔ میں کل سے کراع الغیمم کی پہاڑیوں میں گھوم پھر رہا ہوں ،خدا کی قسم! مجھے وہ نہیں دیکھ سکے جنہیں میں دیکھ آیا ہوں۔ میں نے ان کی تمام نقل و حرکت دیکھی ہے۔‘‘’’کون ہیں وہ؟‘‘ ’’اہلِ قریش کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟‘‘اس نے جواب دیا۔’’وہ سب گھڑ سوار ہیں اور درّے کے ارد گرد کی چٹانوں میں چھپ گئے ہیں۔‘‘ ’’تعداد؟‘‘ ’’تین اور چار سوکے درمیان ہے۔‘‘رسولِ کریمﷺ کے اس جاسوس نے کہا۔’’میں نے اگر صحیح پہچانا ہے تو وہ خالد بن ولید ہے جس کی بھاگ دوڑ کو میں سارادن چھپ چھپ کے دیکھتا رہا ہوں۔ میں اتنی قریب چلا گیا تھا کہ وہ مجھے دیکھتے تو قتل کر دیتے۔ خالد نے اپنے سواروں کو درّے کے ارد گرد پھیلا کر چھپا دیا ہے۔ کیا یہ غلط ہو گا کہ وہ گھات میں بیٹھ گئے ہیں؟‘‘ ’’مکہ والوں کو ہمارے آنے کی اطلاع ملی تو وہ سمجھے ہوں گے کہ ہم مکہ کا محاصرہ کرنے آئے ہیں۔‘‘ صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے کہا۔’’قسم خدا کی! جس کے ہاتھ میں ہم سب کی جان ہے۔‘‘رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا۔’’اہلِ قریش مجھے لڑائی کے لیے للکاریں گے تو بھی میں نہیں لڑوں گا۔ ہم جس ارادے سے آئے ہیں اس ارادے کو بدلیں گے نہیں۔ہماری نیت مکہ میں جاکر عمرہ کرنے کی ہے اور ہم یہ دنبے اور بکرے قربانی کرنے کے لیے ساتھ لائے ہیں۔ میں اپنی نیت میں تبدیلی کرکے خدائے ذوالجلال کو ناراض نہیں کروں گا۔ ہم خون خرابہ کرنے نہیں عمرہ کرنے آئے ہیں۔‘‘ ’’یا رسول ﷲﷺ!‘‘  ایک صحابیؓ نے پوچھا۔ ’’وہ درّے میں ہمیں روکیں گے تو کیا ہم پر اپنے دشمن کا خون  جائز نہیں ہو گا؟‘‘ صحابہ کرامؓ رسولِ ﷲ ﷺ کے ارد گرد اکھٹے ہو گئے۔ اس صورتِ حال سے بچ کر نکلنے کے طریقو ں پر اور راستوں پر بحث و مباحثہ ہوا۔ رسولِ کریمﷺ اچھے مشورے کو دھیان سے سنتے اور اس کے مطابق حکم صادر فرماتے تھے۔ آخر رسولِ ﷲﷺ نے حکم صادر فرمایا۔ آپﷺ نے بیس گھوڑ سوار منتخب کیے اور انہیں ان ہدایات کے ساتھ آگے بھیج دیا کہ وہ کراع الغیمم تک چلے جائیں لیکن درّے میں داخل نہ ہوں ۔ وہ خالد کے دستے کا جائزہ لیتے رہیں اور یہ دستہ ان پر حملہ کرے تو یوں لڑیں کہ پیچھے کو ہٹتے آئیں اور بکھر کر رہیں۔ تاثر یہ دیں کہ یہ مدینہ والوں کا ہراول جَیش ہے۔ ان بیس سواروں کو دعاؤں کے ساتھ روانہ کرکے باقی اہلِ مدینہ کا راستہ آپﷺ نے بدل دیا۔ آپﷺ نے جو راستہ اختیار کیا وہ بہت ہی دشوار گزار تھا اور لمبا بھی تھا۔ لیکن آپﷺ لڑائی سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک مشکل یہ بھی تھی کہ اہلِ مدینہ میں کوئی ایک آدمی بھی نہ تھا جو اس راستے سے واقف ہوتا۔ یہ ایک اور درّہ تھا جو مثنیہ المرار کہلاتا تھا۔ اسے ذات الحنظل بھی کہتے تھے۔ رسولِ کریمﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس درّے میں داخل ہو گئے اور سلسلۂ کوہ کے ایسے راستے سے گزرے جہاں سے کوئی نہیں گزرا کرتا تھا۔وہ راستہ کسی کے گزرنے کے قابل تھا ہی نہیں۔ خالد کی نظریں مسلمانوں کے ہراول دستے پر لگی ہوئی تھیں۔ لیکن ہراول کے یہ بیس سوار رک گئے تھے۔ کبھی ان کے دو تین سوار درّے تک آتے اور اِدھر اُدھر دیکھ کر واپس چلے جاتے۔ اگروہ بیس کے بیس سوار درّے میں آ بھی جاتے تو خالد انہیں گزر جانے دیتا کیونکہ اس کا اصل شکار تو پیچھے آ رہا تھا۔ ان بیس سواروں پر حملہ کرکے وہ اپنی گھات کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ کوئی پرانا واقعہ نہیں تھا۔ چند دن پہلے کی بات تھی۔ خالد پریشان ہو رہا تھا کہ مسلمانوں کا لشکر ابھی تک نظر نہیں آیا، کیااس نے کوچ ملتوی کر دیا ہے یا اسے گھات کی خبر ہو گئی ہے؟ اس نے اپنے ایک شتر سوار سے کہا کہ وہ اپنے بہروپ میں جائے اور دیکھے کہ مسلمان کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟اس دوران بیس مسلمان سواروں نے اپنی نقل و حرکت جاری رکھی ،ایک دو مرتبہ وہ درّے تک آئے اورذرا رک کر واپس چلے گئے۔ ایک دو مرتبہ وہ پہاڑیوں میں کسی اور طرف سے داخل ہوئے۔ خالد چھپ چھپ کر اُدھر آ گیا۔ وہ سوار وہاں سے بھی واپس چلے گئے۔اس طرح انہوں نے خالد کی توجہ اپنے اوپر لگائے رکھی۔ خالد کے سوار اشارے کے انتظار میں گھات میں چھپے رہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⚔ شمشیرِ بے نیام⚔   حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ قسط نمبر-12 اور لومڑیاں بھاگیں اور گدھ اڑ گئے۔ وہاں انسانی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں ۔ سر الگ...

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 11




⚔ شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-11


سب نے دیکھا کہ بنو قریظہ کے لوگ قلعے سے باہر آ رہے تھے۔ محاصرے میں سے کسی کو بھاگ نکلنے کا موقع نہ ملا۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہودیوں کی تاریخ فتنہ و فساد اور بد عہدی سے بھری پڑی تھی۔ اسے خدا کی دھتکاری ہوئی قوم کہا گیا تھا۔ ان کے ساتھ جس نے بھی نرمی برتی اسے یہودیوں نے نقصان پہنچایا چنانچہ بنو قریظہ کو بخش دینا بڑی خطرناک حماقت تھی۔ مسلمانوں نے اس قبیلے کے ایسے تمام آدمیوں کو قتل کردیا جو لڑنے کے قابل تھے اور بوڑھوں عورتوں اور بچوں کواپنی تحویل میں لے لیا ۔دو مؤرخین نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے بنو قریظہ پر فوج کشی کی تو یہودیوں نے بڑا سخت مقابلہ کیا۔ مسلمانوں نے پچیس روز بنو قریظہ کو محاصرے میں لیے رکھا۔ آخر یہودیوں نے رسول ﷲ ﷺ کو پیغام بھیجا کہ سعد ؓبن معاذ کو ان کے پاس صلح کی شرائط طے کرنے کے لیے بھیجا جائے۔ چنانچہ سعدؓ بن معاذ گئے اور یہ فیصلہ کر آئے کہ بنو قریظہ کے آدمیوں کو قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو مالِ غنیمت میں لے لیا جائے۔ جن یہودیوں کو قتل کیا گیا ان کی تعداد چار سو تھی۔ زیادہ تر مؤرخین نے لکھا ہے کہ بنو قریظہ نے مقابلہ نہیں کیا اور اپنے کیے کی سزا پانے کے لیے قلعہ سے نکل آئے۔ مدینہ میں یہودیوں کے قتلِ عام کے ساتھ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس سے پہلے مسلمانوں نے یہودیوں کے دو قبیلوں بنو نضیر اور بنو قینقاع کو ایسی ہی بدعہدی اور فتنہ پردازی پر ایسی ہی سزا دی تھی ،ان قبیلوں کے بچے کچھے یہودی شام کو بھاگ گئے تھے ، شام میں ایرانیوں کی حکومت تھی۔ ایک عیسائی بادشاہ ہرقل نے حملہ کرکے شام پرقبضہ کر لیا۔یہودیوں نے اس کے ساتھ  بھی بدعہدی  کی، اِدھر مدینہ میں مسلمان بنو قریظہ کو قتل کررہے تھے ،اُدھر ہرقل بنو نضیر اور بنو قینقاع کا قتلِ عام کر رہا تھا۔ ایک حدیث ہے جو حضرت عائشہؓ کے حوالے سے ہشام بن عروہ نے بیان کی ہے کہ سعد ؓبن معاذ کے فیصلے کو رسولِ کریمﷺ نے قبول فرما لیا اور بنو قریظہ کے یہودیوں کو قتل کر دیا گیا تھا ۔ ہشام بن عروہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے والد ِ بزرگوار نے انہیں یہ واقعہ سنایا تھا کہ سعد ؓبن معاذ کو سینہ میں برچھی لگی تھی ، جب بنو قریظہ کو سزا دی جا چکی تو رسول ﷲﷺ کے حکم سے سعد ؓبن معاذ کے لیے مسجد کے قریب ایک خیمہ لگا کر اس میں انہیں رکھا گیا ،تاکہ ان کے زخم کی دیکھ بھال آسانی سے ہوتی رہے۔

 سعدؓ بن معاذ اس خیمے میں لیٹ گئے لیکن اٹھ بیٹھے اور انہوں نے ﷲ سے دعا مانگی کہ ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ ہر اُس قوم کے خلاف لڑیں جو ﷲ کے رسولﷺ کو سچا نبی نہیں سمجھتی ، مگر لڑائی ختم ہو چکی ہے۔ انہوں نے ﷲ سے التجا کی کہ اگر میرے نصیب میں کوئی اور لڑائی لڑنی ہے تو مجھے اس میں شریک ہونے کے لیے زندگی عطا فرما اگر یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے تو میرے زخم کو کھول دے کہ میں تیری راہ میں جان دے دوں ۔ سعد ؓبن معاذ کی یہ دعا تین چار آدمیوں نے سنی تھی لیکن انہوں نے اسے اہمیت نہیں دی تھی۔ صبح کسی نے دیکھا کہ سعد ؓبن معاذ کے خیمے سے خون بہہ بہہ کر باہر آ رہا تھا۔ خیمہ میں جا کر دیکھا ،سعدؓ بن معاذ شہید ہو چکے تھے۔ انہوں نے ﷲ سے شہادت مانگی تھی، ﷲ نے ان کی دعا قبول کر لی ان کے سینے کا زخم  کھل گیا تھا۔

بنو قریظہ کی تباہی کی خبر مکہ پہنچی تو سب سے زیادہ خوشی ابو سفیان کو ہوئی۔’’خدا کی قسم! بنو قریظہ کو اس بد عہدی کی سزا ملی ہے جو اس کے سردار کعب بن اسد نے ہمارے ساتھ کی تھی۔ ‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’ اگر اس کاقبیلہ مدینہ پر شب خون مارتا رہتا تو فتح ہماری ہوتی اور ہم بنو قریظہ کو موت کے بجائے مالِ غنیمت دیتے……کیوں خالد؟ کیا بنو قریظہ کا انجام بہت برا نہیں ہوا؟‘‘ خالد نے ابو سفیان کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے اسے اس کی بات اچھی نہ لگی ہو۔’’ کیا تم بنو قریظہ کے اس انجام سے خوش نہیں ہو خالد؟ ‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔ ’’مدینہ سے پسپائی کا دکھ اتنا زیادہ ہے کہ بڑی سے بڑی خوشی بھی میرا یہ دکھ ہلکا نہیں کر سکتی۔‘‘ خالد نے کہا ۔ ’’بد عہد کی دوستی، دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہودیوں نے کس کے ساتھ وفا کی ہے؟ اپنی بیٹیوں کو یہودیت کے تحفظ اور فروغ  کے لیے دوسری قوموں کے آدمیوں کی عیاشی کا ذریعہ بنانے والی قوم پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ’’ہمیں مسلمانوں نے نہیں طوفانی آندھی نے محاصرہ اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ہمارے پاس خوراک نہیں رہی تھی۔‘‘ ’’تم لڑنا نہیں چاہتے تھے۔‘‘ خالد نے کہا اور اٹھ کر چلا گیا۔ خالد اب خاموش رہنے لگا تھا۔ اسے کوئی زبردستی بلاتا تو وہ جھنجھلا اٹھتا تھا۔ اس کے قبیلے کا سردار ابو سفیان اس سے گھبرانے لگا تھا ۔

 خالد اسے بزدل کہتا تھا۔ خالد نے اپنے آپ سے عہد کر رکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کو شکست دے گا۔ لیکن اسے جب میدانِ جنگ میں مسلمانوں کی جنگی چالیں اور ان کا جذبہ یاد آتا تھا تو وہ دل ہی دل میں رسول ﷲ ﷺ کو خراجِ تحسین پیش کرتا تھا۔ ایساعسکری جذبہ اور ایسی عسکری فہم و فراست قریش میں ناپید تھی۔ خالد خود اس طرز پر لڑبنا چاہتا تھا لیکن اپنے قبیلے سے اسے تعاون نہیں ملتا تھا ۔ آج جب وہ مدینہ کی طرف اکیلا جا رہا تھا تو اسے معرکۂ خندق سے پسپائی یاد آ رہی تھی۔ اسے غصہ بھی آ رہا تھا اور وہ شرمسار بھی ہو رہا تھا۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ اس نے ایک سال کس طرح گزارا تھا ۔ وہ مدینہ پر ایک اور حملہ کرنا چاہتا تھا ۔ لیکن اہلِ قریش مدینہ کا نام سن کر دبک جاتے تھے ۔ آخر اسے اطلاع ملی کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں ۔ اسے یہ خبر ابو سفیان نے سنائی تھی ۔’’مسلمان مکہ پر حملہ کرنے صرف اس لیے آ رہے ہیں کہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ قبیلہ ٔ قریش محمدﷺ سے ڈرتا ہے۔‘‘ خالد نے ابو سفیان سے کہا۔’’ کیا تم نے اپنے قبیلے کو کبھی بتایا ہے کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرسکتے ہیں ۔ کیا قبیلہ حملہ روکنے کے لیے تیار ہے؟‘‘

’’اب اس بحث کا وقت نہیں کہ ہم نے کیا کیا اور کیا نہیں؟ ‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’ مجھے اطلاع دینے والے نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ہزار ہے ۔ تم کچھ سوچ سکتے ہو؟‘‘ ’’میں سوچ چکا ہوں۔‘‘ خالد نے کہا۔’’مجھے تین سو سوار دے دو۔ میں مسلمانوں کو راستے میں روک لوں گا، میں کرع الغیم کی پہاڑیوں میں گھات لگاؤں گا۔ وہ اسی درّے سے گزر کر آئیں گے۔ میں انہیں ان پہاڑیوں میں بکھیر کر ماروں گا۔‘‘ ’’تم جتنے سوار چاہو ،لے لو۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ اور فوراً روانہ ہو جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ درّے سے گزر آئیں۔‘‘ خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ اس خبر نے اس کے جسم میں نئی روح پھونک دی تھی ۔اس نے اسی روز تین سو سوار تیار کر لیے تھے ۔ مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار چار سو تھی۔ ان میں زیادہ تر نفری پیادہ تھی۔ خالد خوش تھا کہ اپنے سواروں کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے۔ اب ابو سفیان اس کے سر پر سوار نہیں تھا۔ سب فیصلے اسے خود کرنے تھے۔ وہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کے لیے  روانہ ہو گیا۔ خالد کچھ دیر آرام کرکے اور گھوڑے کو پانی پلا کر چل پڑا تھا۔ اس نے گھوڑے کو تھکنے نہیں دیا تھا ۔ مکہ سے گھوڑا آرام آرام سے چلتا آیا تھا ۔ خالد بڑی مضبوط شخصیت کا آدمی تھا ۔ اس کے ذہن میں خواہشیں کم اور ارادے زیادہ ہوا کرتے تھے۔ وہ ذہن کو اپنے قبضہ میں رکھا کرتا تھا مگر مدینہ کو جاتے ہوئے ذہن اس پر قابض ہو جاتا تھا ۔ یادوں کے تھپیڑے تھے جو اسے طوفانی سمندر میں بہتی ہوئی کشتی کی طرح پٹخ رہے تھے۔ کبھی اس کی ذہنی کیفیت ایسی ہو جاتی جیسے وہ مدینہ بہت جلدی پہنچنا چاہتا ہو اور کبھی یوں جیسے اسے کہیں بھی پہنچنے کی جلدی نہ ہو۔ اس کی آنکھوں کے آگے منزل سراب بن جاتی اور دور ہی دور ہٹتی نظر آتی تھی۔ گھوڑا اپنے سوار کے ذہنی خلفشار سے بے خبر چلا جا رہا تھا ۔سوا رنے اپنے سر کو جھٹک کر گردوپیش کو دیکھا ۔ وہ ذرا بلند جگہ پر جا رہا تھا۔ افق سے احد کا سلسلۂ کوہ اور اوپر اٹھ آیا تھا ۔ خالد کو معلوم تھا کہ کچھ دیر بعد ان پہاڑیوں کے قریب سے مدینہ کے مکان ابھرنے لگیں گے۔ اسے ایک بار پھر خندق اور پسپائی یا د آئی اور اسے مسلمانوں کے ہاتھوں چار سو یہودیوں کا قتل بھی یاد آیا۔ بنو قریظہ کی اس تباہی کی خبر پر قریش کا سردار ابوسفیان تو بہت خوش ہوا تھا، مگر خالد کو نہ خوشی ہوئی نہ افسوس ہوا۔’’ قریش یہودیوں کی فریب کاریوں کاسہارا لے کر محمد ﷺ کے پیروکاروں کو شکست دینا چاہتے ہیں۔‘‘ خالد کو خیال آیا۔ اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا جیسے اس خیال کو ذہن سے صاف کر دینا چاہتا ہو۔ اس کا ذہن پیچھے ہی پیچھے ہٹتا جا رہا تھا۔ گھنٹیوں کی مترنم آوازیں اسے ماضی سے نکال لائیں ۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا ، بائیں طرف وسیع نشیب تھا ۔ خالد اوپر اوپر جا رہا تھا ۔ نیچے چار اونٹ چلے آ رہے تھے۔ اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے تھے ۔ ان کے پہلو میں ایک گھوڑا تھا، اونٹوں پر دو عورتیں چند بچے اور دو آدمی سوار تھے ۔ اونٹوں پر سامان بھی لدا ہوا تھا ۔ گھڑسوار بوڑھا آدمی تھا۔ اونٹ کی رفتار تیز تھی۔ خالد نے اپنے گھوڑے کی رفتار کم کر دی۔

اونٹوں کا یہ مختصر سا قافلہ اس کے قریب آ گیا۔ بوڑھے گھوڑ سوار نے اسے پہچان لیا۔ تمہارا سفر آسان ہو ولید کے بیٹے!‘‘بوڑھے نے بازو بلند کرکے لہرایا اور بولا ’’نیچے آ جاؤ۔ کچھ دور اکھٹے چلیں گے۔‘‘ خالد نے گھوڑے کی لگام کو ایک طرف جھٹکا دیا اور ہلکی سی ایڑھ لگائی گھوڑا نیچے اتر گیا۔’’ہاہا……ہاہا ‘‘خالد نے اپنا گھوڑا بوڑھے کے گھوڑے کے پہلو میں لے جا کر خوشی کا اظہار کیا اور کہا۔’’ابو جریج !اور یہ سب تمہارا خاندان ہے؟‘‘’’ہاں!‘‘بوڑھے ابو جریج نے کہا۔’’ یہ میرا خاندان ہے۔ اور تم خالد بن ولید کدھر کا رخ کیا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ مدینہ کو نہیں جا رہے۔ مدینہ میں تمہارا کیاکام؟‘‘ یہ قبیلہ غطفان کا ایک خاندان تھا جو نقل مکانی کر کے کہیں جا رہا تھا۔ ابو جریج نے خود ہی کہہ دیا تھا کہ خالد مدینہ تو نہیں جا رہا ،تو خالد نے اسے بتانا مناسب بھی نہ سمجھا ۔’’اہلِ قریش کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘ ابو جریج نے کہا۔’ ’کیا یہ صحیح نہیں کہ محمدﷺ کو لوگ نبی مانتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو گا کہ ایک روز مدینہ والے مکہ پر چڑھ دوڑیں گے اور ابو سفیان ان کے آگے ہتھیار ڈال دے گا ۔‘‘ ’’سردار اپنی شکست کا انتقام لینا ضروری نہیں سمجھتا ۔ وہ ہتھیار ڈالنے کو بھی برا نہیں سمجھے گا۔‘‘ خالد نے کہا۔ ’’کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہم سب مل کر مدینہ پر حملہ کرنے گئے تھے تو مدینہ والوں نے اپنے اردگرد خندق کھود لی تھی ۔‘‘ خالد نے کہا ۔’’ہم خندق پھلانگ سکتے تھے۔ میں خندق پھلانگ گیا تھا، عکرمہ بھی خندق کے پار چلا گیا تھا مگر ہمارا لشکر جس میں تمہارے قبیلے کے جنگجو بھی تھے، دور کھڑا تماشہ دیکھتا رہا تھا۔ مدینہ سے پسپا ہونے والا سب سے پہلا آدمی ہمارا سردار ابو سفیان تھا۔‘‘ ’’میرے بازؤں میں طاقت نہیں رہی ابنِ ولید!‘‘ ابو جریج نے اپنا ایک ہاتھ جو ضعیفی سے کانپ رہا تھا ۔ خالد کے آگے کر کے کہا۔’’میرا جسم ذرا سا بھی ساتھ دیتا تومیں بھی ا س معرکے میں اپنے قبیلے کے ساتھ ہوتا ۔ اس روز میرے آنسو نکل آ ئے تھے جس روز میرا قبیلہ مدینہ سے پسپا ہو کر لوٹا تھا۔ اگر کعب بن اسد دھوکا نہ دیتا اورمدینہ پر تین چار شب خون مار دیتا تو فتح یقیناً تمہاری ہوتی۔‘‘ خالد جھنجھلا اٹھا ۔اس نے ابوجریج کو قہر کی نظروں سے دیکھا اور چپ رہا۔ ’’کیا تم نے سنا تھا کہ یوحاوہ یہودن نے تمہارے قبیلے کے ایک آدمی جرید بن مسیب کو محمدﷺ کے قتل کے لیے تیار کر لیا تھا۔‘‘ ابو جریج نے پوچھا۔’’ہاں!‘‘ خالد نے کہا۔ ’’سنا تھا اور مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ جرید بن مسب میرے قبیلے کا آدمی تھا ۔ کہاں ہے وہ؟ ’’وہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اس کا پتا نہیں چلا ۔ میں نے سنا تھا کہ یوحاوہ یہودن اسے اپنے ساتھ  یہودی جادوگر لیث بن موشان کے پاس لے گئی تھی اور اس نے جرید کو محمدﷺ  کے قتل کے لیے تیار کیا تھا مگر مسلمانوں کی تلواروں کے سامنے لیث بن موشان کا جادو جواب دے گیا۔ جرید بن مسیب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا ۔ بنو قریظہ میں سے زندہ بھاگ جانے والے صرف دو تھے لیث بن موشان اور یوحاوہ ۔‘‘

’اب صرف ایک زندہ ہے ۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’ لیث بن موشان ۔ صرف لیث بن موشان زندہ ہے۔‘‘ ’’اور جرید اور یوحاوہ؟‘‘ ’’وہ بد روحیں بن گئے تھے۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔ ’میں تمہیں ان کی کہانی سنا سکتا ہوں ۔ تم نے یوحاوہ کو دیکھا تھا۔ وہ مکہ کی ہی رہنے والی تھی۔ اگر تم کہو گے کہ اسے دیکھ  کر تمہارے دل میں ہل چل نہیں ہوئی تھی اور تم اپنے اندر حرارت  سی محسوس نہیں کرتے تھے توخالد میں کہوں گا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ کیا تمہیں کسی نے نہیں بتایا تھا کہ مدینہ پر حملہ کے لیت غطفان اہلِ قریش سے کیوں جا ملا تھا اور دوسرے قبیلے کے سرداروں نے کیوں ابو سفیان کو اپنا سردار تسلیم کرلیا تھا۔ یہ یوحاوہ اور اس جیسی چار یہودنوں کا جادو چلا تھا۔‘‘ گھوڑے اور اونٹ چلے جا رہے تھے۔ اونٹوں کی گردنوں سے لٹکتی ہوئی گھنٹیاں بوڑھے ابو جریج کے بولنے کے انداز میں جلترنگ کا ترنم پیدا کر رہی تھیں ۔ خالد انہماک سے سن رہا تھا۔ ’’جرید بن مسب یوحاوہ کے عشق کا اسیر ہو گیا تھا۔‘‘ ابو جریج کہہ رہا تھا۔’’ تم نہیں جانتے ابنِ ولید! یوحاوہ کے دل میں اپنے مذہب کے سوا کسی آدمی کی محبت نہیں تھی ،وہ جرید کو اپنے طلسم میں گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔ میں لیث بن موشان کو جانتا ہوں ۔ جوانی میں ہماری دوستی تھی۔ جادو گری اور شعبدہ بازی اس کے باپ کا فن تھا۔ باپ نے یہ فن اسے ورثے میں دیا تھا ۔ تم میری بات سن رہے ہو ولید کے بیٹے یا اُکتا رہے ہو؟ اب میں باتو ں کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔‘ خالد ہنس پڑااوربولا۔’’سن رہا ہوں ابو جریج…… غور سے سن رہا ہوں۔‘‘ ’’یہ تو تمہیں معلوم ہو گا کہ جب ہمارے لشکر کو مسلمانوں کی خندق اور آندھی نے مدینہ کا محاصرہ اٹھا کر پسپائی پر مجبور کر دیا تو محمدﷺ نے بنو قریظہ کی بستی کو گھیر لیا تھا۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’لیث بن موشان اور یوحاوہ ،جرید بن مسب کو وہیں چھوڑ کر نکل بھاگے۔‘‘ ’’ہاں ہاں ابو جریج!‘‘ خالد نے کہا ۔’’مجھے معلوم ہے کہ مسلمانوں نے بنو قریظہ کے تمام مردوں کو قتل کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔‘‘ ’’میں جانتا ہوں تم میری باتوں سے اکتا گئے ہو ۔‘‘ابو جریج نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’تم میری پوری بات نہیں سن رہے ہو۔‘‘ ’’مجھے یہ بات وہاں سے سناؤ ۔‘‘ خالد نے کہا۔’’ جہاں سے میں نے پہلے نہیں سنی۔ میں وہاں تک جانتا ہوں کہ جرید بن مسیب اُسی پاگل پن کی حالت میں مارا گیا تھا جو اس بوڑھے یہودی شعبدہ باز نے اس پر طاری کیا تھا اور وہ خود یوحاوہ کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل بھاگا تھا۔ ’’پھر یوں ہوا……‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’ اُحد کی پہاڑیوں کے اندر جو بستیاں آباد ہیں وہاں کے رہنے والوں نے ایک رات کسی عورت کی چیخیں سنیں ۔ تین چار دلیر قسم کے آدمی گھوڑوں پر سوار ہو کر تلواریں اور برچھیاں اٹھائے سر پٹ دوڑے گئے لیکن انہیں وہاں کوئی عورت نظر نہ آئی اور چیخیں بھی خاموش ہو گئیں ۔وہ اِدھر ُادھر گھوم پھر کر واپس آ گئے۔ ’’یہ چیخیں صحرائی لومڑیوں یا کسی بھیڑیے کی بھی ہو سکتی تھیں؟‘‘ خالد نے کہا۔
’’بھیڑیے اور عورت کی چیخ میں بہت فرق ہے۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’ لوگ اسے کسی مظلوم عورت کی چیخیں سمجھے تھے۔ وہ یہ سمجھ کر چپ ہو گئے کہ کسی عورت کو ڈاکو لے جا رہے ہوں گے یا وہ کسی ظالم خاوند کی بیوی ہو گی اور وہ سفر میں ہوں گے ۔ لیکن اگلی رات یہی چیخیں ایک اور بستی کے قریب سنائی دیں ۔ وہاں کے چند آدمی بھی ان چیخوں کے تعاقب میں گئے لیکن انہیں کچھ نظرنہ آیا ۔ اس کے بعد دوسری تیسری رات کچھ دیر کے لیے یہ نسوانی چیخیں سنائی دیتیں ا ور رات کی خاموشی میں تحلیل ہو جاتیں ۔ پھر ان پہاڑیوں کے اندر رہنے والے لوگوں نے بتایا کہ اب چیخوں کے ساتھ عورت کی پکار بھی سنائی دیتی ہے۔ جرید……جرید……کہاں ہو ؟ آجاؤ۔ وہاں کے لوگ جرید نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتے تھے ۔ ان کے بزرگوں نے کہا کہ یہ کسی مرے ہوئے آدمی کی بدروح ہے جو عورت کے روپ میں چیخ چلارہی ہے ۔ ابو جریج کے بولنے کا انداز میں ایسا تاثر تھا جو ہرکسی کو متاثر کر دیا کرتا تھا لیکن خالد کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا جس سے پتا چلتا کہ وہ قبیلہ غطفان کے اس بوڑھے کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے۔’’ لوگوں نے اس راستے سے گزرنا چھوڑ دیا۔ جہاں یہ آوازیں عموماً سنائی دیا کرتی تھیں ۔‘‘ابو جریج نے کہا ۔’’ایک روز یوں ہوا کہ دو گھوڑ سوا ر جو بڑے لمبے سفر پر تھے ،ایک بستی میں گھوڑے سرپٹ دوڑاتے پہنچے۔ گھوڑوں کا پسینہ یوں پھوٹ رہا تھا جیسے وہ پانی میں سے گزر کر آئے ہوں ۔ ہانپتے کانپتے سواروں پر خوف طاری تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک وادی میں سے گزر رہے تھے کہ انہیں کسی عورت کی پکار سنائی دی۔جرید ٹھہرجاؤ…… جرید ٹھہرجاؤ…… میں آ رہی ہوں۔ ان گھوڑ سواروں نے اُدھر دیکھا جدھر سے آواز آ رہی تھی۔ ایک پہاڑ ی کی چوٹی پر ایک عورت کھڑی ان گھڑ سواروں کو پکار رہی تھی ۔ وہ تھی تو دور لیکن جوان لگتی تھی ۔وہ پہاڑی سے اترنے لگی تو دونوں گھڑ سواروں نے ڈر کر ایڑھ لگا دی ۔’’سامنے والی چٹان گھومتی تھی ۔ گھوڑ سوار اس کے مطابق وادی میں گھوم گئے ۔ انہیں تین چار مزید موڑ مڑنے پڑے گھبراہٹ میں وہ راستے سے بھٹک گئے تھے۔ وہ ایک اور موڑ مڑے تو ان کے سامنے تیس چالیس قدم دور ایک جوان عورت کھڑی تھی جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ نیم برہنہ تھی۔ اس کا چہرہ لاش کی مانند سفید تھا ۔ گھڑسواروں نے گھوڑے روک لیے ۔عورت نے دونوں بازو ان کی طرف پھیلا کر اورآگے کو دوڑتے ہوئے کہا۔ میں تم دونوں کے انتظار میں بہت دنوں سے کھڑی ہوں۔ دونوں گھوڑسواروں نے وہیں سے گھوڑے موڑے اور ایڑھ لگا دی ۔‘‘بوڑھا جریج بولتے بولتے خاموش ہو گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ خالد کی ران پر رکھا اوربولا ۔’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ ہم کچھ دیر کے لیے رک جائیں پھر نہ جانے تم کب ملو،تمہارا باپ ولید بڑا زبردست آدمی تھا۔ تم میرے ہاتھوں میں پیدا ہوئے تھے۔ میں تمہاری خاطر تواضع کرنا چاہتا ہوں۔ روکو گھوڑے کو اور اتر آؤ۔‘‘
یہ قافلہ وہیں رک گیا۔’’و ہ کسی مرے ہوئے آدمی یا عورت کی بدروح ہی ہو سکتی تھی۔‘‘ابو جریج نے بھنا ہوا گوشت خالد کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔  ’کھاؤ ولید کے بیٹے ! پھر ایک خوفناک واقعہ ہو گیا۔ ایک بستی میں ایک اجنبی اس حالت میں آن گرا کہ اس کے چہرہ پر لمبی لمبی خراشیں تھیں جن سے خون بہہ رہا تھا ۔اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور جسم پر بھی خراشیں تھیں ۔ وہ گرتے ہی بے ہوش ہوگیا۔ لوگوں نے اس کے زخم دھوئے اور اس کے منہ میں پانی ڈالا۔وہ جب ہوش میں آیا تو اس نے بتایا کہ وہ دو چٹانوں کے درمیان سے گزر رہا تھا کہ ایک چٹان کے اوپر سے ایک عورت چیختی چلاتی اتنی تیزی سے اُتری جتنی تیزی سے کوئی عورت نہیں اتر سکتی تھی۔ یہ آدمی اس طرح رک گیا جیسے دہشت زدگی نے اس کے جسم کی قوت سلب کرلی ہو۔ وہ عورت اتنی تیزی سے آ رہی تھی کہ رُک نہ سکی ، وہ اس آدمی سے ٹکرائی اور چیخ نماآواز میں بولی ۔ تم آ گئے جرید! میں جانتی تھی تم زندہ ہو۔ آؤ چلیں۔ اس شخص نے اسے بتایا کہ وہ جرید نہیں لیکن وہ عورت اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتی رہی اور کہتی رہی تم جرید ہو ،تم جرید ہو۔اس شخص نے اس سے آزاد ہونے کی کوشش میں اسے دھکا دیا وہ گر پڑی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ آدمی اسے کوئی پاگل عورت سمجھ کر وہیں کھڑا رہا۔ وہ اس طرح اس کی طرف آئی کہ اس کے دانت بھیڑیوں کی طرح باہرنکلے ہوئے تھے اور اس نے ہاتھ اس طرح آگے کر رکھے تھے کہ اس کی انگلیاں درندوں کے پنجوں کی طرح ٹیڑھی ہو گئی تھیں ۔وہ آدمی ڈر کر الٹے قدم پیچھے ہٹا اور ایک پتھر سے ٹھوکر کھا کر پیٹھ کے بل گرا۔ یہ عورت اس طرح اس پر گری اور پنجے اس کے چہرے پر گاڑھ دیئے جیسے بھیڑیا اپنے شکار کو پنجوں میں دبوچ لیتا ہے ۔اس نے اس آدمی کا چہرہ نوچ ڈالا۔ اس نے اس عورت کو دھکا دے کر پرے کیا اور اس کے نیچے سے نکل آیا۔ لیکن اس عورت نے اپنے ناخن اس شخص کے پہلوؤں میں اتار دیئے ا ور اس کے کپڑے بھی پھاڑ ڈالے اور کھال بھی بری طرح زخمی کردی۔ اس زخمی نے بتایا کہ اس عورت کی آنکھوں اور منہ سے شعلے سے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے تھے،وہ اسے انسانوں کے روپ میں آیا ہوا کوئی درندہ سمجھا۔ اس آدمی کے پاس خنجر تھا لیکن اس کے ہوش ایسے گم ہوئے کہ و ہ خنجرنکالنا بھول گیا۔ اتفاق سے اس آدمی کے ہاتھ میں اس عورت کے بال آ گئے۔ اس نے بالوں کو مٹھی میں لے کر زور سے جھٹکا دیا ۔ وہ عورت چٹا ن پر گری۔ یہ آدمی بھاگ اٹھا اسے اپنے پیچھے اس عورت کی چیخیں سنائی دیتی رہیں ۔اسے بالکل یاد نہیں تھا وہ اس بستی تک کس طرح پہنچا ہے ۔ وہ ان خراشوں کی وجہ سے بے ہوش نہیں ہوا تھا۔ اس پر دہشت سوار تھی۔ پھر دو مسافروں نے بتایا کہ انہوں نے راستے میں ایک آدمی کی لاش پڑی دیکھی ہے جسے کسی درندے نے چیر پھاڑ کر ہلاک کیا ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور تمام جسم پر خراشیں تھیں،اس جگہ کے قریب جس جگہ اس عورت کی موجودگی بتائی جا سکتی تھی، چھوٹی سی ایک بستی تھی ۔ وہاں کے لوگوں نے نقل مکانی کا ارادہ کرلیا لیکن یہودی جادوگر لیث بن موشان پہنچ گیا۔ اسے کسی طرح پتا چل گیا تھا کہ ایک عورت اس علاقے میں جرید جرید پکارتی اور چیختی چلاتی رہتی ہے اور جو آدمی اس کے ہاتھ آ جائے اسے چیر پھاڑ دیتی ہے ۔‘‘ابو جریج نے خالد کو باقی کہانی یوں سنائی ۔اسے بدروحوں کے علم کے ساتھ گہری دلچسپی تھی اور وہ لیث بن موشان کو بھی جانتا تھا۔ جب اسے پتا چلا کہ یہودی جادوگر وہاں پہنچ گیا ہے تو وہ بھی گھوڑے پر سوا رہوا اور وہاں جا پہنچا۔ وہ اس بستی میں جا پہنچا جہاں لیث بن موشان آکر ٹھہرا تھا۔’’ابو جریج!‘‘ بوڑھے لیث بن موشان نے اٹھ کر بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔’’تم یہاں کیسے آ گئے؟‘‘’’میں یہ سن کہ آیا ہوں کہ تم اس بد روح پر قابو پانے کے لیے آئے ہو۔‘‘ابو جریج نے اس سے بغل گیر ہوتے ہوئے کہا۔’’کیا میں نے ٹھیک سنا ہے کہ اس بدروح نے یا وہ جو کچھ بھی ہے، دو تین آدمیوں کو چیر پھاڑ ڈالا ہے؟‘‘’’وہ بد روح نہیں میرے بھائی!‘‘ لیث بن موشان نے ایسی آواز میں کہا جو ملال اور پریشانی سے دبی ہوئی تھی۔’’وہ خدائے یہودہ کی سچی نام لیوا ایک جوان عورت ہے۔ اس نے اپنی جوانی اپنا حسن اور اپنی زندگی یہودیت کے نام پر وقف کررکھی تھی۔ اس کانام یوحاوہ ہے۔‘‘ ’’میں نے اسے مکہ میں دو چار مرتبہ دیکھا تھا۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’اس کے کچھ جھوٹے سچے قصے بھی سنے تھے۔ یہ بھی سنا تھا کہ اس نے قریش کے ایک آدمی جرید بن مسیّب کو تمہارے پاس لا کر  محمدﷺ کے قتل کے لیے تیار کیا تھا پھر میں نے یہ بھی سنا تھا کہ تم اور یوحاوہ مسلمانوں کے محاصرے سے نکل گئے تھے اور جرید پیچھے رہ گیا تھا ۔ اگر یوحاوہ زندہ ہے اوروہ بدروح نہیں تو وہ اس حالت تک کس طرح پہنچی ہے؟‘‘ ’’ا س نے اپنا سب کچھ خدائے یہودہ کے نام پر قربان کر رکھا تھا۔‘‘ لیث بن موشان نے کہا۔’’ لیکن وہ آخر انسان تھی، جوان تھی ،وہ جذبات کی قربانی نہ دے سکی۔ اس نے جرید کی محبت کو اپنی روح میں اتارلیا تھا۔جرید ­پرجتنا اثرمیرے خاص عمل کا تھا۔ اتنا ہی یوحاوہ کی والہانہ محبت کا تھا۔‘‘

’’میں سمجھ گیا۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’اسے جرید بن مسیب کی موت نے پاگل کر دیا ہے ۔ کیا تمہارا عمل اور جادو اس عورت پر نہیں چل سکتا تھا؟‘‘ لیث بن موشان نے لمبی آہ بھری اوربے نور آنکھوں سے ابو جریج کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا اور کچھ دیر چپ رہنے کے بعد کہا۔’’میرا عمل اس پرکیا اثر کرتا۔ وہ مجھے بھی چیر پھاڑنے کومجھ پر ٹوٹ پڑتی تھی۔ میرا عمل اس صورت میں کام کرتا کہ میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتا اور میرا ہاتھ تھوڑی دیر کے لیے اس کے ماتھے پر رہتا۔‘‘ ’’جہاں تک میں اس علم کو سمجھتا ہوں۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’وہ پہلے ہی پاگل ہو چکی تھی اور تمہیں اپنا دشمن سمجھنے لگی تھی۔‘‘ ’’اور اسے میرے خلاف دشمنی یہ تھی کہ میں جرید بن مسیب کو مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آیا تھا ۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’میں اسے اپنے ساتھ لا سکتا تھا لیکن وہ اس حد تک میرے طلسماتی علم کے زیرِ اثر آچکا تھا کہ ہم اسے زبردستی لاتے تو شاید مجھے یا یوحاوہ کو قتل کردیتا۔ میں نے اس کے ذہن میں درندگی کا ایسا تاثر پیدا کر دیا تھا کہ وہ قتل و غارت کے سوااور کچھ سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ اگر میں ایک درخت کی طرف یہ اشارہ کرکے کہتا کہ یہ ہے محمد، تو وہ تلوار اس درخت کے تنے میں اتار دیتا۔ مجھے یہ توقع بھی تھی کہ یہ پیچھے رہ گیا تو ہو سکتا ہے کہ محمدﷺ تک پہنچ جائے اور اسے قتل کر دے لیکن وہ خود قتل ہو گیا۔‘‘ ’’کیا تم اب یوحاوہ پر قابو پا سکو گے؟‘‘ابو جریج نے پوچھا۔’’مجھے امید ہے کہ میں اسے اپنے اثر میں لے آؤں گا۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’کیا تم مجھے اس کام میں شریک کر سکو گے؟‘‘ابو جریج نے پوچھا اور کہا۔’’میں کچھ جاننا چاہتا ہوں۔ کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ ’’اگربڑھاپا تمہیں چلنے دے تو چلو۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’ میں تھوڑی دیر تک روانہ ہونے والا ہوں ۔ یہاں کے کچھ آدمی میرے ساتھ  چلنے کوتیار ہو گئے ہیں۔‘‘ ’’اور پھر خالد بن ولید!‘‘ بوڑھے ابو جریج نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے خالد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جذباتی لہجے میں کہا ۔’’ہم دونوں بوڑھے،اونٹوں پر سوار اس پہاڑی علاقے میں پہنچے جہاں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ ایک عورت کو دیکھا گیا ہے۔ ہم تنگ سی ایک وادی میں داخل ہوگئے۔ ہمارے پیچھے دس بارہ گھڑ سوار اور تین چار شتر سوار تھے۔ وادی میں داخل ہوئے تو ان سب نے کمانوں میں تیر ڈال لیے۔ وادی آگے جاکر کھل گئی ، ہم دائیں کو گھومے تو ہمیں کئی گدھ  نظر آئے جو کسی مردار کو کھا رہے تھے ۔ ایک صحرائی لومڑی گدھوں میں سے دوڑتی ہوئی نکلی۔ میں نے دیکھا اس کے منہ میں ایک انسانی بازو تھا ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⚔ شمشیرِ بے نیام⚔   حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ قسط نمبر-11 سب نے دیکھا کہ بنو قریظہ کے لوگ قلعے سے باہر آ رہے تھے۔ محاصرے میں سے کسی کو ...

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 10




⚔ شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-10

اس پر اس خواب کا ایسااثر ہوا کہ وہ لیث بن موشان کے پاس چلا گیا اوراس سے خواب کی تعبیر پوچھی۔ لیث بن موشان نے اسے بتایا کہ وہ اپنی کمسن بیٹی یوحاوہ کو اسلام کی جڑیں کاٹنے کے لیے وقف کردے۔ اس بوڑھے یہودی جادوگر نے یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ) یعنی نبی کریمﷺ( وہ اس لڑکی کے ہاتھوں قتل ہوں گے ،یا یہ لڑکی ان کی نبوت کے خاتمے کا ذریعہ بنے گی۔ اس نے یوحاوہ کے باپ سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ یوحاوہ کو اس کے پاس لے آئے۔ یوحاوہ کو لیث بن موشان کے حوالے کردیا گیا۔’’میں نے اس لڑکی کی تربیت کی ہے۔‘‘ لیث بن موشان نے یوحاوہ کی بات کاٹ کر کہا۔
’’خدائے یہودہ نے اسے جو حسن اور جو جسم دیا ہے،یہ ایک دلکش تلوار ہے یا اسے بڑا میٹھا زہر سمجھ لیں۔ اس نے قریش کو مسلمانوں سے ٹکرانے میں جو کام کیا ہے وہ تم میں سے کوئی نہیں کر سکتا۔ چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے سرداروں کو اس لڑکی نے قریش کا اتحادی اور محمد)ﷺ( کا دشمن بنایا ہے۔ اب اس نے محمد )ﷺ(کے قتل کا جو انتظام مجھ سے کرایا ہے وہ اسی سے سنو۔‘‘یوحاوہ نے سنایا کہ لیث بن موشان نے اس میں ایسی جرات اور ایسی عقل پیدا کر دی کہ وہ مردوں پر اپنے حسن کا جادو چلانے کی ماہر ہو گئی۔ حسین لڑکی ہوتے ہوئے اس میں مردوں جیسی جرات آ گئی تھی۔ )لیکن اس کا استاد اسے یہ نہ بتا سکا کہ جس نئے عقیدے کو روکنے کا اور جس شخصیت کے قتل کا انہوں نے ارادہ کررکھا ہے ۔وہ عقیدہ خدا نے اتارا ہے اور ااس شخصیت کو خدا نے اس عقیدے کے فروغ کیلئے رسالت عطا کی ہے۔ (یوحاوہ کی تربیت ایسی ہی ہوئی کہ وہ اپنے مذہب کو دنیا کا واحد سچا مذہب سمجھتی رہی،اور یہ نہ سمجھ سکی کہ حق پرستوں پر اﷲ کا ہاتھ ہوتا ہے خدا نے اسے آندھی میں تنہا پھینک دیا لیکن وہ خدا کا یہ اشارہ سمجھ نہ سکی، کہاں وہ جرات کے مقابلے میں اپنے آپ کو مردوں کے برابر سمجھتی تھی، کہاں وہ ایک کمزور اور بے بس لڑکی بن گئی۔وہ مرد کے جسم سے ناآشنا نہیں تھی،جرید بن مسیّب کا جسم بھی ایک مرد کا ہی جسم تھا لیکن اس جسم کو وہ مقدس اور پاک سمجھنے لگی اور جرید اسے فرشتہ لگنے لگا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اس کے حسین چہرے، ریشم جیسے بالوں، اور دلکش جسم سے ذرا بھی متاثر نہ ہوا تھا۔یوحاوہ پر جرید کے اس رویے کا یہ اثر ہواکہ وہ جرید کے جسم میں کشش محسوس کرنے لگی۔

مکہ دور نہیں تھا۔ شام کے بعد جب رات گہری ہو چکی تھی،جرید نے یوحاوہ کو اس کے گھر پہنچا دیا۔ یوحاوہ کے قلعہ نما مکان کا دروازہ کھلا تو اس کا باپ پریشان نظر آیا۔اسے توقع نہیں تھی کہ اس کی بیٹی زندہ واپس آجائے گی۔انہوں نے جرید کو روک لیا اور شراب سے اس کی تواضع کی،جرید جب چلا گیا تو یوحاوہ نے اپنی ذات میں خلا محسوس کیا۔
دوسرے ہی روز اس نے جرید کو پیغام بھیجا کہ اسے ملے، جرید آگیا۔ یہ ایک جذباتی ملاقات تھی۔ جرید نے یہ ملاقات جذبات تک ہی رکھی۔ اس کے بعد ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں اور جرید کے دل میں بھی یوحاوہ کی محبت پیدا ہو گئی۔ یہ محبت پاک رہی۔ یوحاوہ حیران تھی کہ اس کے اندر پاکیزہ اور والہانہ محبت کے جذبات موجود ہیں۔ ایک روز جرید نے یوحاوہ سے پوچھا کہ ’’وہ اس کے ساتھ شادی کیوں نہیں کر لیتی؟‘‘ ’’نہیں!‘‘ یوحاوہ نے جواب دیا۔’’میں تمہارے جسم کی پوجا کرتی ہوں۔ شادی ہو گئی تو جذبات مر جائیں گے۔‘‘ ’’میری بیٹیاں ہیں بیٹا کوئی نہیں۔‘‘جرید نے اسے کہا۔’’میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔مجھے بیٹا چاہیے۔‘‘یوحاوہ سوچ میں پڑ گئی۔ وہ جرید بن مسیّب کی یہ خواہش پوری کرنا چاہتی تھی۔ اسے ایک رستہ نظر آگیا۔’’ہمارا ایک بزرگ ہے لیث بن موشان ۔‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’اس کے پاس کوئی علم ہے۔ اس کے ہاتھ میں کوئی طاقت ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ اپنے علم اور عمل کے زور سے تمہیں اسی بیوی سے بیٹا دے گا۔ تم میرے ساتھ چلو وہ میرا اتالیق ہے۔‘‘جرید بن مسیّب اس کے ساتھ لیث بن موشان کے پاس جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ان کی دوستی دو آدمیوں یا دو عورتوں کی صورت اختیا رکر گئی تھی۔ وہ جب اکھٹے بیٹھتے تو رسولِ کریمﷺ کے خلاف باتیں کرتے تھے۔اسلام کے فروغ کو روکنے کے منصونے بھی بناتے تھے۔ لیکن جرید مسلمانوں کے خلاف کسی جنگی کارروائی میں شریک نہیں ہوتا تھا۔ یوحاوہ کو اس کی یہ بات پسند نہیں تھی۔وہ اسے اُکساتی اور بھڑکاتی تھی۔’’میرا مذہب تم ہو۔‘‘جرید بن مسیب نے اسے ایک روز فیصلے کے لہجے میں کہہ دیا تھا۔’’تم میری بیوی نہیں بن سکتیں تو نہ سہی،میں تمہیں دیکھے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘’’میں تمہیں ایک راز بتا دیتی ہوں جرید!‘‘یوحاوہ نے اسے کہا تھا۔’’میں کسی کی بھی بیوی نہیں بنوں گی۔ میرے باپ نے میری زندگی یہودیت کیلئے وقف کردی ہے۔ لیث بن موشان نے مجھے یہ فرض سونپا ہے کہ اسلام کے زیادہ سے زیادہ دشمن پیدا کروں۔میرے دل میں اپنے مذہب کے بعد صرف تمہاری محبت ہے ۔مجھے تم اپنی ملکیت سمجھو۔‘‘

ایک روز جرید یوحاوہ کے ساتھ لیث بن موشان سے ملنے اس کے پاس چلا گیا۔ یوحاوہ اسے لیث بن موشان کے سامنے لے جانے کے بجائے پہلے خود اندر گئی اور اس نے لیث کو صاف الفاظ میں بتایا کہ وہ جرید کو محبت کا دیوتا سمجھتی ہے۔ اس نے لیث بن موشان کو بتایا کہ جرید نے اسے موت کے منہ سے نکالا تھا۔ اس نے لیث کو بتایا کہ جرید کی بیٹیاں ہیں ،بیٹا ایک بھی نہیں۔’’کیا آپ کے علم میں اتنی طاقت ہے کہ جرید کی بیوی کے بطن سے لڑکا پیدا ہو؟ ‘‘یوحاوہ نے پوچھا۔’’کیا نہیں ہو سکتا۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’پہلے میں اسے دیکھوں گا، پھر میں بتا سکوں گا کہ مجھے کیا کرنا پڑے گا۔ اسے میرے پاس بھیج دو۔‘‘یوحاوہ نے اسے اندر بھیج دیا۔ اور خود باہر کھڑی رہی۔ بہت سا وقت گزرجانے کے بعد لیث بن موشان نے جرید کو باہر بھیج کر یوحاوہ کو اندر بلالیا۔’’جو شخص تم جیسی خوبصورت اور دل کش لڑکی کے ساتھ اتنا عرصہ پاک محبت کر سکتا ہے وہ بہت ہی مضبوط شخصیت کا آدمی ہے۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’یا وہ اس قدر کمزور شخصیت کا ہو سکتا ہے کہ تمہارے حسن کا جادو اپنے اوپر طاری کرکے تمہارا غلام ہو جائے۔‘‘ ’’جرید مضبوط شخصیت کا آدمی ہے۔‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’جرید کی ذات بہت کمزور ہے۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’میں نے تمہارے متعلق اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ میں نے اس کی ذات میں اتر کر معلوم کر لیا ہے۔ یہ شخص تمہارے طلسم کا اسیر ہے۔‘‘ ’’مقدس اتالیق! ‘‘یوحاوہ نے کہا۔ ’’آپ اس کے متعلق ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟ میں اسے ایک بیٹا دینا چاہتی ہوں ۔ مجھے اس کے ساتھ اتنی محبت ہے کہ میں نے یہ بھی سوچ رکھا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو جنم دوں گی۔‘‘ ’’نہیں لڑکی!‘‘ بوڑھے لیث نے کہا۔’’تمہاری کوکھ سے اس کا بیٹا جنم نہیں لے گا۔ یہ شخص ذریعہ بنے گا اس فرض کا جو خدائے یہودہ نے مجھے اور تمہیں سونپا ہے۔‘‘یوحاوہ خاموشی سے لیث بن موشان کے چہرے پہ نظریں جمائے ہوئے تھی۔ ’جسے تم اپنی محبت کا دیوتا سمجھتی ہو، وہ اس شخص کو قتل کرے گا جو کہتا ہے کہ اسے خدا نے نبوت دی ہے۔‘ ‘لیث بن موشان نے کہا۔’’جرید سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہو گا۔‘‘ ’’کیا آپ پیشن گوئی کر رہے ہیں؟ ‘‘یوحاوہ نے پوچھا۔’’یہ کس طرح قتل کرے گا؟‘‘’’اسے میں تیار کروں گا۔‘‘ ’’یہ تیارنہیں ہو گا۔‘‘ یوحاوہ نے کہا۔’’ یہ کہا کرتا ہے کہ اس کا کوئی مذہب نہیں۔محمد )ﷺ(کو یہ اپنا دشمن نہیں سمجھتا ،قتل و غارت کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

’’یہ سب کچھ کرے گا۔‘‘بوڑھے لیث نے کہا۔’’اس کے ذہن پر میرا قبضہ ہوگا۔ تم میرے ساتھ ہو گی ۔ تین روز تک یہ سورج کی روشنی نہیں دیکھ سکے گا۔ جب ہم اسے باہر نکالیں گے تو یہ ایک ہی بات کہے گا۔ کہاں ہے خدا کا نبی۔ وہ ہم میں سے ہے ۔میں اسے زندہ نہیں رہنے دوں گا۔‘‘ ’’مقدس باپ! ‘‘یوحاوہ نے رندھیائی ہوئی آواز میں التجا کی۔’’جرید مارا جائے گا ۔یہ واحد شخص ہے ……‘‘ ’’خدائے یہودہ سے بڑھ کر محبت کے لائق کوئی نہیں ۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’تمہیں یہ قربانی دینی ہو گی۔ جرید اب مکہ کو واپس نہیں جائے گا۔‘‘ پھر یوحاوہ بھی مکہ کو واپس نہ گئی ۔ جرید بن مسیّب بھی نہ گیا۔ بوڑھے لیث نے دونوں کو تین دن اور تین راتیں ایک کمرے میں بند رکھا ۔ جرید کو اپنے سامنے بٹھا کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں پھر اسے کچھ پلایا اور زیرِلب کچھ بڑ بڑانے لگا۔ اس نے یوحاوہ کو نیم برہنہ کرکے اس کے ساتھ بٹھا دیا۔ لیث یوحاوہ کو جو کہتا رہا وہ کرتی رہی۔
’’یہ ضروری نہیں کہ میں تم سب کو یہ بھی بتاؤں کہ میں نے جرید کے ذہن اور اس کی سوچوں کو کس طرح اپنے قبضے میں لیا ہے۔‘‘ لیث نے کہا۔’’میں اسے ساتھ لایا ہوں تم اسے خود دیکھ لو۔‘‘ ’’لیث بن موشان نے یوحاوہ کو اشارہ کیا۔‘‘یوحاوہ باہر چلی گئی اور جرید بن مسیّب کو اپنے ساتھ لے آئی۔ جرید نے اندر آ کر سب کو باری باری دیکھا۔’’وہ یہاں نہیں ہے ۔‘‘جرید نے کہا۔’’میں اسے پہچانتا ہوں وہ ہم میں سے ہے ۔وہ یہاں نہیں۔‘‘ ’’ذرا صبر کرو جرید!‘‘بوڑھے لیث نے کہا۔’’ہم تمہیں ا س تک پہنچائیں گے کل……کل جرید ……بیٹھ جاؤ۔‘‘جرید یوحاوہ کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور بازو اس کی کمر میں ڈال کر اسے اپنے اور قریب کر لیا۔ اگلی صبح جب مدینہ میں لوگ فتح کی خوشیاں منا رہے تھے اور کعب بن اسد کے گھر رسولِ اکرمﷺ اور اسلام کے خلاف بڑی ہی خطرناک سازش تیار ہو چکی تھی۔ رسولِ کریمﷺ کو یاد دلایا گیا کہ بنو قریظہ نے جس کا سردار کعب بن اسد تھا مدینہ کے محاصرے کے دوران اہلِ قریش اور غطفان کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا تھا جسے نعیمؓ بن مسعود نے بڑی دانشمندی سے بیکار کر دیا تھا۔ یہ واقعہ بھی دو چار روز پہلے کا تھا جس میں رسول اﷲﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے ایک یہودی مخبر کو قتل کیا تھا۔ یہ مخبر اس چھوٹے سے قلعے میں داخل ہونے کا رستہ دیکھ رہا تھا ۔ جس میں مسلمانوں کی عورتیں اور ان کے بچوں کورکھا گیا تھا ۔ اس یہودی نے ایک عورت کو اپنے مقابلے میں دیکھ کر بڑے رعب اور گھمنڈ سے کہا تھا کہ وہ یہودی ہے اور مخبری کے لیے آیا ہے۔ حضرت صفیہ ؓ نے اس کی تلوار کا مقابلہ ڈنڈے سے کیا اور اسے ہلاک کر دیا تھا۔

’’خدا کی قسم!‘‘ کسی صحابی نے للکار کرکہا۔’’ان یہودیوں پر اعتبار کرنا اور ان کی بد عہدی پر انہیں بخش دینا، ایسا ہی ہے جیسے اپنا خنجر اپنے ہی د ل میں اتا رلیا جائے۔‘‘ ’’عبداﷲ بن محمد بن اسماء اور نافع حضرت ابنِ عمرؓ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ معرکۂ خندق کے خاتمے پر رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا ’’تم میں ہر کوئی نمازِ عصر بنو قریظہ کے پاس پہنچ کر پڑھے۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے جس کے راوی حضرت انسؓ ہیں ،انہوں نے کہا تھا میں اب تک لشکرِجبرئیل کا گرد و غبار بنو غنم میں اڑتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب رسولِ کریمﷺ بنو قریظہ کو بدعہدی اور دھوکادہی کی سزا دینے گئے تھے۔

تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کے حکم سے مسلمانوں نے چڑھائی کردی اور بنو قریظہ کی قلعہ بند بستی کو محاصرے میں لے لیا۔ احادیث کے مطابق سعدؓ بن معاذ کو بنو قریظہ کے سرداروں کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا کہ وہ اپنی بد عہدی کی سزا خود تجویز کریں ۔سعدؓ بن معاذ زخمی تھے۔ خندق کی لڑائی میں انہیں قبیلہ قریش کے ایک آدمی حبان بن عرفہ کی برچھی لگی تھی۔ لیث بن موشان ،یوحاوہ اور یہودیوں کے تین چار سرکردہ آدمی ابھی تک کعب بن اسد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ جرید بن مسیب بھی وہیں تھا۔ انہوں نے اپنی سازش کا وقت رات کا مقررکیا ۔ لیکن ایک یہودی دوڑتا ہوا اندر آیا۔
’’مسلمان آ رہے ہیں۔‘‘اس نے گھبراہٹ سے کانپتی ہوئے آواز میں کہا۔ ’’صاف نظر آتا ہے کہ وہ دوست بن کر نہیں آ رہے۔ گرد بتا رہی ہے کہ وہ چڑھائی کرکے آ رہے ہیں۔ گرد دائیں بائیں پھیل رہی ہے۔ دیکھو…… اٹھو اور دیکھو ۔‘‘ کعب بن اسد دوڑتا ہوا باہر نکلا اور قلعہ کے برج میں چلا گیا ۔وہاں سے دوڑتا اترا اور لیث بن موشان کے پاس پہنچا۔ ’’مقدس موشان!‘‘کعب بن اسد نے کانپتی ہوئے آوا زمیں کہا ۔’’کیا آپ کا جادو ان برچھیوں اور تلواروں کو توڑ سکتا ہے؟ جو ہمیں قتل کرنے آ رہی ہیں۔‘‘ ’’روک سکتا ہے ۔‘‘بوڑھے لیث بن موشان نے کہا۔’’اگر محمد)ﷺ( کا جادو زیادہ تیز ہوا تو میں مجبور ہوں گا۔ تم اوپر جاکر کیا دیکھ آئے ہو؟‘‘ ’’خدائے یہودہ کی قسم!‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’یہ مخبری نعیم بن مسعود نے کی ہے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ و ہ مسلمان ہو چکا ہے۔ مسلمان محاصرے کی ترتیب میں آ رہے ہیں۔ ہم نکل نہیں سکیں گے۔‘‘

’ان دونوں کو نکال دو۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’یوحاوہ جرید کو ساتھ لے کر پچھلے دروازے سے نکل جاؤ۔ میں تمہارے پیچھے پیچھے آ رہا ہوں۔‘‘ ’’آپ اوپر کیوں نہیں جاتے لیث بن موشان؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’آپ کا وہ علم اور وہ جادو کہاں گیا جو آپ ……‘‘ ’’تم اس راز کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘بوڑھے لیث نے کہا۔’’ موسیٰ نے فرعون کو ایک دن میں ختم نہیں کر دیا تھا۔ یہ عصا جو تم میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہو، وہی ہے جو موسیٰ نے دریا میں مارا تھا تو پانی نے انہیں رستہ دے دیا تھا۔ یہ عصا کا کرشمہ تھا کہ فرعون کا لشکر اور وہ خود دریا میں ڈوب کر فنا ہو گیا تھا۔ جس طرح موسیٰ اپنے قبیلے کو مصر سے نکال لائے تھے اسی طرح میں تمہیں یہاں سے نکال لوں گا۔‘‘یوحاوہ اور جرید بن مسیّب پچھلے دروازے سے نکل گئے اور لیث بن موشان بھی نکل پڑا۔ مسلمان جب بنو قریظہ کی بستی کے قریب آئے تو عورتوں اور بچوں میں ہڑبونگ بپا ہو گئی اور بھگدڑ مچ گئی۔ عورتیں اور بچے اپنے گھروں کو بھاگے جا ہے تھے۔ کوئی آدمی مقابلے کے لیے باہر نہ آیا۔ جو مسلمان ٹھیکریوں کی طرف سے محاصرے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے انہیں دو آدمی اور ایک عورت نظر آئی ۔ تینوں بھاگے جا رہے تھے۔ آدمی جو بوڑھا تھا اور عورت، اپنے ساتھی کو گھسیٹ رہے تھے۔ وہ پیچھے کو مڑ مڑ کر دیکھتا اور آگے نہیں چلتا تھا ۔وہ لیث بن موشان ،جرید اور یوحاوہ تھے۔ لیث نے جرید کے ذہن پر قبضہ کر کے اسے رسولِ کریمﷺ کے قتل پر آمادہ کر لیا تھا لیکن اب جرید اس کے لیے مصیبت بن گیا تھا۔ وہ اس عمل کے زیرِاثر تھا جسے آج ہپناٹزم کہا جاتا ہے، یوحاوہ اپنی محبت کی خاطر اسے اپنے ساتھ لے جا رہی تھی ۔ اسے یہی ایک خطرہ نظر آرہا تھا کہ جرید مسلمانوں کے ہاتھوں مار اجائے گا۔ اور لیث ،جرید کواس لیے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش میں تھا کہ اسے کسی اور موقع پر رسول اﷲ ﷺ کے قتل کے لیے استعمال کرے گا۔لیکن جرید لیث کے عمل ِ تنویم کے زیرِ اثر بار بار کہتا تھا’’ کہاں ہے وہ جو اپنے آپ کو خدا کا نبی کہتا ہے ؟وہ ہم میں سے ہے۔ وہ میرے ہاتھوں قتل ہو گا۔ مجھے چھوڑ دو مجھے مدینہ جانے دو۔‘‘ ایک مسلمان نے ٹھیکری پر کھڑے ہوکر انہیں للکارا اور رکنے کو کہا۔ لیث اور یوحاوہ نے پیچھے دیکھا اور وہ جرید کواکیلا چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ جرید نے تلوار نکال لی۔’’کہاں ہے محمد ؟‘‘جرید نے تلوار لہرا کر ٹھیکری کی طرف آتے ہوئے کہا۔’’وہ ہم میں سے ہے۔ میں اسے پہچانتا ہوں ،میں اسے قتل کروں گا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے  یوحاوہ میری ہے۔‘‘ وہ للکارتا آ رہا تھا۔’’یوحاوہ ہبل اور عزیٰ سے زیادہ مقدس ہے۔ سامنے لاؤ اپنے نبی کو ……‘‘
کون مسلمان اپنے اﷲ کے رسول ﷺکی اتنی توہین برداشت کرتا ؟ جس مسلمان نے ان تینوں کوللکارا تھا اس نے کمان میں تیر ڈالا اور دوسرے لمحے یہ تیر جرید بن مسیب کی دائیں آنکھ میں اتر کر کھوپڑی کے دور اند ر پہنچ چکا تھا۔ جرید کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی۔ اس کا دوسرا ہاتھ دائیں آنکھ پر چلا گیا اور اس نے تیر کو پکڑ لیا ۔وہ رک گیا۔ اس کا جسم ڈولا پھر اس کے گھٹنے زمین سے جا لگے ۔ اس کا وہ ہاتھ جس میں تلوار تھی اس طرح زمین سے لگا کہ تلوار کی نوک اوپر کو تھی۔ جرید بڑی زور سے آگے کو گرا ، تلوار کی نوک اس کی شہ رگ میں اتر گئی ۔وہ ذرا سا تڑپا اور ہمیشہ کے لیے بے حس و حرکت ہو گیا۔

سعد ؓبن معاذ جو زخمی تھے، کعب بن اسد کے دروازے پر جا رکے اور دستک دی ۔ کعب نے غلام کو بھیجنے کے بجائے خود دروازہ کھولا۔’’بنو قریظہ کے سردار!‘‘ سعد ؓبن معاذ نے کہا۔’’ تیرے قبیلے کے بچے بچے نے دیکھ لیا ہے کہ تیری بستی ہمارے گھیرے میں ہے ۔ کیا تو کہہ سکتا ہے کہ تو نے وہ گناہ نہیں کیا جس کی سزا آج تیرے پورے قبیلے کو ملے گی؟ کیا تو نے سوچا نہیں تھا کہ بد عہدی کی سزا کیا ہے؟‘‘ ’’مجھے انکار نہیں۔‘‘ کعب بن اسد نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔’’لیکن میں نے وہ گناہ کیا نہیں جو ابو سفیان مجھ سے کرانا چاہتا تھا۔‘‘ ’’اس لیے نہیں کیا کہ تو اس سے یرغمال میں اونچے خاندا نوں کے آدمی کو مانگتا تھا۔‘‘ سعدؓ بن معاذنے کہا۔’’اس سے پہلے تو نے اسے کہہ دیا تھا کہ تیرا قبیلہ مدینہ کے ان مکانوں پر شب خون مارے گا جس میں ہماری عورتیں اوربچے تھے۔ تو نے ایک مخبر بھی بھیجا تھا بدبخت انسان ۔ تو نہ سوچ سکا کہ مسلمانوں کی ایک عورت بیدار ہوئی تو وہ یہودیوں کی شیطانیت کو صرف ایک ڈنڈے سے کچل دے گی۔‘‘ ’’میں جانتا ہوں تمہیں نعیم بن مسعود نے خبر دی ہے کہ میں نے تم سے بد عہدی کی ہے ۔‘‘کعب بن اسد نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔’’ تم یہ جان لو کہ یہ خبر غلط نہیں۔ میں نے جوکچھ کیا وہ اپنے قبیلے کی سلامتی کے لیے کیا تھا۔‘‘ ’’اب اپنے قبیلے کے لیے  سزا خود ہی مقرر کرلو۔‘‘ سعد ؓبن معاذنے کہا۔’’تو جانتا ہے کہ معاہدہ توڑنے والے قبیلے کو کیا تاوان دینا پڑتا ہے۔ اگر تو خود اپنی سزا کا فیصلہ نہیں کرتا تو بھی تجھے معلوم ہے کہ تیرے قبیلے کا انجام کیا ہو گا۔ کیا تو بنو قینقاع اور بنو نضیر کا انجام بھول گیا ہے؟ مجھے اس زخم کی قسم !جومیں نے خندق کی لڑائی میں کھایا ہے ،تیرے قبیلے کا انجام ان سے زیادہ برا ہوگا۔‘‘ ’’ہاں سعد! ‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’میں جانتا ہوں میرے قبیلے کا انجام کیا ہو گا۔ ہمارے بچے اورہماری عورتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ میرافیصلہ یہ ہے کہ معاہدے کے مطابق میرے قبیلے کے تمام مردوں کو قتل کردواور ہماری عورتو ں اور ہمارے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ وہ زندہ تورہیں گے۔‘‘ ’’صرف زندہ نہیں رہیں گے۔‘‘سعدؓ بن معاذنے کہا۔’’وہ خدا کے سچے نبی ﷺکی رحمت کی بدولت با عزت زندگی بسر کریں گے۔ اپنے تمام آدمیوں کو باہر نکالو۔‘‘ سعدؓ بن معاذ واپس آ گئے ۔’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ انہوں نے رسولِ کریمﷺ سے کہا ۔’’بنو قریظہ نے اپنی سزا خود مقررکی ہے۔ان میں جو آدمی لڑنے کے قابل ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو اپنی تحویل میں لے لیا جائے۔‘‘

جاری ہے۔۔۔۔۔

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⚔ شمشیرِ بے نیام⚔   حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ قسط نمبر-10 اس پر اس خواب کا ایسااثر ہوا کہ وہ لیث بن موشان کے پاس چلا گیا اوراس سے خواب ...

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر9





⚔ شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-9

اہلِ قریش ، غطفان اور دیگر قبائل جس محمد ﷺ کو شکست دینے آئے تھے وہ محمدﷺ  کسی ملک کے بادشاہ نہیں تھے۔ وہ  ﷲ کے رسولﷺ تھے۔ﷲ نے انہیں ایک عظیم پیغام دے کر رسالت عطا کی تھی۔ آپﷺ نے ﷲ سے مدد مانگی تھی ۔ﷲ اپنے رسولﷺ کو کیسے مایوس کرتا؟ اس کے علاوہ مدینہ کے اندر مسلمانوں کی عورتیں اور بچے دن رات اپنی کامیابی اور نجات کی دعائیں مانگتے رہتے تھے یہ دعائیں رائیگاں کیسے جاتیں؟
۱۸ مارچ ۶۲۷ء بروز منگل مدینہ کی فضا خاموش ہو گئی۔ سردی خاصی تھی، ہوا بند ہو گئی۔ موسم خوش گوار ہو گیا لیکن یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔ اچانک آندھی آ گئی جو اس قدر تیز و تند تھی کہ خیمے اڑنے لگے۔ جھکڑ بڑے ہی سرد تھے۔آندھی کی تندی اور اس کی چیخوں سے گھوڑے اور اونٹ بھی گھبرا گئے اور رسیاں تڑوانے لگے۔ مسلمانوں کی اجتماع گاہ سلع کی پہاڑی کی اوٹ میں تھی۔ ا س لیے آندھی انہیں اتنا پریشان نہیں کر رہی تھی جتنا مکہ کے لشکر کو ۔ قریش کھلے میدان میں تھے۔ آندھی ان کا سامان اڑارہی تھی ، خیمے اُڑ گئے یا لپیٹ دیئے گئے تھے ۔ لشکر کے سردار اور سپاہی اپنے اوپر ہر وہ کپڑا ڈال کر بیٹھ گئے تھے جو ان کے پاس تھا۔ ان کے لیے یہ آندھی خدا کا قہر بن گئی تھی ۔اس کی چیخوں میں قہر اور غضب تھا۔ ابو سفیان برداشت نہ کر سکا ،وہ اٹھا اسے اپنا گھوڑا نظر نہ آیا۔قریب ہی ایک اونٹ بیٹھا تھا۔ ابو سفیان اونٹ پر چڑھ بیٹھا اور اسے اٹھایا۔
مؤرخ ابنِ ہشام کی تحریر کے مطابق ابو سفیان بلند آواز سے چلانے لگا۔ ’’اے اہلِ قریش! اے اہلِ غطفان ! کعب بن اسد نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔آندھی ہمارا بہت نقصان کر چکی ہے۔ اب یہاں ٹھہرنا بہت خطرناک ہے۔ مکہ کو کوچ کرو، میں جا رہا ہوں……میں جا رہا ہوں۔‘‘اس نے اونٹ کو مکہ کی طرف دوڑا دیا۔ خالد کو آج وہ منظر یاد آ رہا تھا۔تمام لشکر جسے مکہ سے مدینہ کی طرف کوچ کرتے دیکھ کر اس کا سینہ فخر سے پھیل گیا تھا اور سر اونچا ہو گیا تھا، ابو سفیان کے پیچھے پیچھے ڈری ہوئی بھیڑوں کی طرح جا رہا تھا۔ خالد اور عمرو بن العاص نے اپنے طور پر سوچا تھا کہ ہو سکتا ہے مسلمان عقب سے حملہ کر دیں، چنانچہ انہوں نے اپنے سوار دستوں کو اپنے قابو میں رکھ کر لشکر کے عقب میں رکھا تھا ۔ابو سفیان نے ایسے حفاظتی اقدام کی سوچی ہی نہیں تھی۔ اس پسپا ہوتے لشکر میں وہ آدمی نہیں تھے جو مارے گئے تھے اور اس لشکر میں نعیمؓ بن مسعود بھی نہیں تھے۔ قریش کا لشکر چلا تو نعیم ؓ آندھی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خندق میں اتر گئے اور رسولِ کریمﷺ کے پاس پہنچ گئے تھے

آج خالد مدینہ کی طرف اسی راستے پر جا رہا تھا جس راستے سے ا س کا لشکر ناکام واپس گیا تھا۔ اسے شیخین کی پہاڑی نظر آنے لگی تھی ۔ آندھی نے تاریخِ اسلام کا رخ موڑ دیا۔ آندھی نے یہ حقیقت واضح کردی کہ ﷲ حق پرستوں کے ساتھ ہوتا ہے۔رسولِ ﷲﷺ کے دشمنوں کی پسپائی تنکوں کی مانند تھی۔ جو آندھی میں اڑے جاتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی۔ خالد کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ مسلمان تعاقب کریں گے لیکن مسلمانوں نے تعاقب کی سوچی ہی نہیں تھی۔ اس آندھی میں تعاقب اور لڑائی مسلمانوں کے خلاف بھی جا سکتی تھی۔ جس دشمن کو ﷲ نے بھگا دیا تھا اس کے پیچھے جانا دانشمندی نہیں تھی۔ البتہ رسولِ کریمﷺ کے حکم سے چند ایک آدمیوں کو بلندیوں پر کھڑا کر دیا گیا تھا کہ وہ دشمن پر نظر رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن کہیں دور جا کر رک جائے اور منظم ہو کر واپس آجائے۔ آندھی اتنی مٹی اور ریت اڑا رہی تھی کہ تھوڑی دور تک بھی کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ بہت دیر بعد تین ،چار مسلمان گھوڑ سوار اس جگہ سے خندق پھلانگ گئے جہاں سے عکرمہ اور خالد کے گھوڑوں نے خندق پھلانگی تھی۔ وہ دور تک چلے گئے انہیں اڑتی ہوئی گرد اور ریت کے سوا کچھ بھی نظر نہ آیا۔ وہ رک گئے لیکن واپس نہ آئے۔شام سے کچھ دیر پہلے آندھی کا زور ٹوٹ گیااور جھکڑ تھم گئے ۔فضاء صاف ہو گئی اور نظر دور تک کام کرنے لگی۔ دور افق پر زمین سے گرد کے بادل اٹھ رہے تھے۔ وہ اہلِ قریش اور ان کے اتحادی قبائل کی پسپائی کی گرد تھی جو ڈوبتے سورج کی آخری کرنوں میں بڑی صاف نظر آ رہی تھی۔ یہ گرد مکہ کو جا رہی تھی۔ تعاقب میں جانے والے مسلمان سوار اس وقت واپس آئے جب رات بہت گہری ہو چکی تھی۔’’ﷲ کی قسم!‘‘انہوں نے واپس آ کر بتایا۔’’وہ جو ہمارے عقیدے کو توڑنے اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے آئے تھے، وہ مدینہ سے اتنی دہشت لے کر گئے ہیں کہ رک نہیں رہے۔ کہیں پڑاؤ نہیں کر رہے۔ کیا راتوں کو مسافر پڑاؤ نہیں کیا کرتے؟ کیا لشکر راتوں کو بھی چلتے رہتے ہیں؟ وہی چلتے رہتے ہیں جو منزل تک بہت جلدی پہنچنا چاہتے ہوں۔‘‘
احادیث،اور مؤرخوں کی تحریروں کے مطابق رسولِ کریمﷺ کو جب یقین ہو گیا کہ دشمن گھبراہٹ کے عالم میں بھاگا ہے اور ایسا امکان ختم ہو چکا ہے کہ وہ منظم ہوکر واپس آ جائے گا ، تب آپﷺ نے کمر سے تلوار کھولی،خنجر اتار کر رکھ دیا اور ﷲ کا شکر ادا کر کے غسل کیا۔ اس رات کی کوکھ سے جس صبح نے جنم لیا، وہ مدینہ والوں کے لیے فتح و نصرت اور مسرت و شادمانی کی صبح تھی۔ ہر طرف ﷲ اکبر اور خوشیوں کے نعرے تھے۔ سب سے زیادہ خوشی عورتیں اور بچے منا رہے تھے۔جنہیں چھوٹے چھوٹے قلعوں میں بند کردیا گیا تھا۔ وہ خوشی سے چیختے چلاتے باہر نکلے۔ مدینہ کی گلیوں میں مسلمان بہت مسرور پھر رہے تھے۔

فتح کے اس جشن میں بنو قریظہ کے یہودی بھی شامل تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے انہیں امن و امان میں رہنے کے عوض کچھ مراعات دے رکھی تھیں۔ ظاہری طور پر وہ مسلمانوں کو اپنا دوست کہتے، اور دوستوں کی طرح رہتے تھے۔ اہلِ قریش کی پسپائی پر وہ مسلمانوں کی طرح خوشیاں منا رہے تھے لیکن ان کا سردار کعب بن اسد اپنے قلعے نما مکان میں بیٹھا تھا۔ اس کے پاس اپنے قبیلے کے تین سرکردہ یہودی بیٹھے تھے اور اُس وقت کی غیر معمولی طورپر حسین یہودن یوحاوہ بھی وہاں موجود تھی۔ وہ گذشتہ شام اہلِ قریش کی پسپائی کی خبر سن کر آئی تھی۔’’کیا یہ اچھا نہیں ہوا کہ ہم نے مسلمانوں پر حملے نہیں کیے؟ ‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’مجھے نعیم بن مسعود نے اچھا مشورہ دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ قریش سے معاہدے کی ضمانت کے طور پر چند آدمی یرغمال کے لیے مانگو۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ قریش اس سے دگنا لشکر لے آئیں تو بھی خندق عبور نہیں کر سکتے۔ میں نے نعیم کا مشورہ اس لیے قبول کر لیا تھا کہ وہ اہلِ قریش میں سے ہے۔‘‘ ’’وہ اہلِ قریش میں سے نہیں۔‘‘ایک یہودی نے کہا۔’’وہ محمد کے پیروکاروں میں سے ہے۔‘‘ ’’خدائے یہودہ کی قسم! تمہاری بات سچ نہیں ہو سکتی۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’وہ اہلِ قریش کے ساتھ آیا تھا۔‘‘ ’’مگر ان کے ساتھ گیا نہیں۔‘‘ اسی یہودی نے کہا۔’’میں نے کل شام اسے مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ  دیکھا ہے۔اس وقت تک  اہلِ قریش کا لشکر مدینہ سے بہت دور جا چکا تھا۔‘‘’’پھر تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ محمدﷺ  کے پیروکاروں میں سے ہے؟‘‘کعب نے کہا۔’’میں ایسی بات کو کیوں سچ مانوں جو تم نے کسی سے پوچھا نہیں۔‘‘’’میں نے اپنے ایک مسلمان دوست سے پوچھا تھا۔‘‘یہودی نے کہا۔’’میں نے نعیم کو دیکھ کر کہا تھا،کیا مسلمان اب قریش کے جنگی قیدیوں کو کھلا رکھتے ہیں؟ میرے دوست نے جواب دیا تھا کہ نعیم کبھی کا اسلام قبول کرچکا ہے۔اسے مدینہ میں آنے کا موقع اب ملا ہے۔‘‘ ’’پھر اس نے ہمیں مسلمانوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں کو ہم سے بچایا ہے۔‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’اس نے جو کچھ بھی کیا ہے ، ہمارے لیے اچھا ثابت ہوا ہے۔ اگر ہم قریش کی بات مان لیتے تو……‘‘ ’’تو مسلمان ہمارے دشمن ہو جاتے۔‘‘ ایک اور یہودی نے کہا۔’’تم یہی کہنا چاہتے ہو نہ کعب! مسلمان پھر بھی ہمارے دشمن ہیں، ہمیں محمدﷺ  کے نئے مذہب کو یہیں پر ختم کرنا ہے ورنہ محمدﷺ  ہمیں ختم کرا دے گا۔‘‘’’کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ یہ مذہب جسے یہ لوگ اسلام کہتے ہیں ،کتنی تیزی سے مقبول ہوتا جا رہا ہے؟‘‘ تیسرے یہودی نے جو معمر تھا ،کہا۔’’ہمیں اس کے آگے بندھ باندھنا ہے۔اسے روکنا ہے۔‘‘’’لیکن کیسے؟‘‘کعب بن اسد نے پوچھا۔’’قتل۔‘‘ معمر یہودی نے کہا۔’’محمدﷺ کا قتل۔‘‘ ’’ایسی جرات کون کرے گا؟ ‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’تم کہو گے کہ وہ ایک یہودی ہو گا۔ اگر وہ محمدﷺ کے قتل میں ناکام ہو گیا تو بنو قینقاع اوربنو نضیر کا انجام دیکھ لو، مسلمانوں نے انہیں جس طرح قتل کیا ہے اوران میں سے زندہ بچ رہنے والے جس طرح دوردراز کے ملکوں کو بھاگ گئے ہیں وہ نہ بھولو۔‘‘ ’’خدائے­یہودہ کی قسم!‘‘معمر یہودی نے کہا۔’’میری عقل تم سے زیادہ کام نہیں کرتی تو تم سے کم بھی نہیں،تم نے جو آج سوچا ہے وہ میں اور’’ لیث بن موشان‘‘ بہت پہلے سوچ چکے ہیں ۔ کوئی یہودی محمدﷺ کو قتل کرنے نہیں جائے گا۔‘‘’’پھر وہ کون ہو گا؟‘‘’’وہ قبیلۂ قریش کا ایک آدمی ہے۔‘‘بوڑھے یہودی نے جواب دیا۔’’لیث بن موشان نے اسے تیارکر لیا ہے ۔میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ کام کر دیا جائے۔‘‘ ’’اگر تم لوگ بھول نہیں گئے کہ میں بنو قریظۃ کا سردار ہوں تو میں اس کام کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں جو مجھے معلوم ہی نہ ہوکہ کیسے کیا جائے گا؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’اور مجھے کون بتائے گا کہ اس آدمی کو اتنے خطرناک کام کے لیے کیسے تیار کیا گیا ہے؟کیا اسے ابو سفیان نے تیار کیا ہے؟ خالدبن ولید نے تیار کیا ہے؟‘‘’’سنو کعب!‘‘بوڑھے یہودی نے کہا اور یہودی حسینہ یوحاوہ کی طرف دیکھا۔’’میں یہ بات لیث بن موشان کی موجودگی میں سناؤں تو کیا اچھا نہ ہوگا؟‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’اس بات میں اس بزرگ کا عمل دخل زیادہ ہے۔‘‘ ’’ہم اس بوڑھے جادوگر کو کہاں سے بلائیں۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’ہم تم پر اعتبار کرتے ہیں۔‘‘ ’’وہ یہیں ہیں۔‘‘بوڑھے یہودی نے کہا۔’’ہم اسے ساتھ لائے ہیں اور ہم اسے بھی ساتھ لائے ہیں جو محمد ﷺ کو قتل کرے گا۔اب ہم انتظار نہیں کر سکتے۔ ہم سب کو امید تھی کہ قریش غطفان اور ان کے دوسرے قبائل اسلام کا نام و نشان مٹا دیں گے مگر ہر میدان میں انہوں نے شکست کھائی ۔ہم نے انہیں مدینہ پر حملہ کے لیے اکسایا تھا وہ یہاں سے بھی بھاگ نکلے۔ خدائے یہودہ کی قسم! کعب تم نے مسلمانوں پر عقب سے حملہ نہ کرکے بہت برا کیا ہے۔‘‘’’میں اس کی وجہ بتا چکا ہوں۔‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’وجہ صحیح تھی یا غلط۔‘‘معمر یہودی نے کہا۔’’وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اب ہم قریش کی فتح کا انتظار نہیں کر سکتے۔ ‘‘اس نے یوحاوہ سے کہا۔’’لیث بن موشان کو بلاؤ دوسرے کو ابھی باہر رکھو۔‘‘یوحاوہ کمرے سے نکل گئی ۔واپس آئی تو اس کے ساتھ لیث بن موشان تھا ۔وہ ایک بوڑھا یہودی تھا جس کی عمر ستر اور اسی برس کے درمیان تھی۔اس کے سر اور داڑھی کے بال دودھ کی طرح سفید ہو چکے تھے۔ داڑھی بہت لمبی تھی،اس کے چہرے کا رنگ سرخ و سفید تھا ،اس نے اونٹ کے رنگ کی قبا پہن رکھی تھی۔ اس کے ہاتھ میں لمبا عصاتھا جو اوپر سے سانپ کے پھن کی طرح تراشا ہوا تھا ۔ لیث بن موشان کو یہودیوں میں جادوگر کے نام سے شہرت حاصل تھی۔ شعبدہ بازی اور کالے علم میں وہ مہارت رکھتا تھا ۔ وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان کسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔ اس کے متعلق بہت سی روایات مشہور تھیں، جن میں سے ایک یہ تھی کہ وہ مردے کو تھوڑی سی دیر کے لیے زندہ کر سکتا ہے اور وہ کسی بھی مرد یا عورت کو اپنے تابع کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔
یہودی اسے اپنا پیرومرشد سمجھتے تھے ۔وہ جہاندیدہ اور عالم فاضل شخص تھا۔وہ کمرے میں داخل ہوا تو سب اس کی تعظیم کو اٹھے وہ جب بیٹھ گیا تو سب بیٹھے۔’’خاندانِ موشان کی عظمت سے کون واقف نہیں۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’خدائے یہودہ کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی آپ کو یہاں بلانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ یوحاوہ شاید آپ کو لے آئی ہے۔‘‘ ’’میں پیغمبر نہیں، کعب بن اسد!‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’میں یہ خوبصورت الفاظ سننے کا عادی نہیں اور تعظیم و احترام کاوقت بھی نہیں۔کوئی نہ بلاتا تو بھی مجھے آنا تھا۔ تم لوگ اپنے فرض کی ادائیگی میں بہت وقت ضائع کر چکے ہو۔ تم سے یہ لڑکی اچھی ہے جس نے وہ کام کر لیا ہے جو تمہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘ ’’معزز موشان ‘‘کعب بن اسدنے کہا۔’’ہم نے ابھی اس انتہائی اقدام کی سوچی نہیں تھی۔اگر ہم محمد ﷺ کے قتل جیسا خوفناک ارادہ کرتے بھی تو یوحاوہ کو استعمال نہ کرتے۔ ہم اتنی خوبصورت اور جوان لڑکی کو استعمال نہیں کر سکتے-

جاری_ہے۔۔۔۔۔۔

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⚔ شمشیرِ بے نیام⚔   حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ قسط نمبر-9 اہلِ قریش ، غطفان اور دیگر قبائل جس محمد ﷺ کو شکست دینے آئے تھے وہ محمدﷺ  کسی ...