اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی تعظیم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہیں، اللہ تعالی آپ پر ،آپ کی دائمی فضل والی آل اور بہادری سے دین کا دفاع کرنے والے طاقتور صحابہ پر درود و سلام نازل فرمائے، نیز تابعین اور درست طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں پر بھی کثرت سے برکت اور سلامتی نازل ہو جب تک کہ سورج اور چاند کی گردش جاری رہے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ کے بندو تقوی الہی اختیار کرو! جان لو تقوی اللہ کی خشیت کے لئے دلوں کا نور اور روشنی ہے ،نیز اس کی محبت کا راستہ اور زینہ ، اور اس کے خوف کی دلیل ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ} [الحشر: 18]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کر رہے ہو۔
مسلم اقوام!
میڈیا کی حیران کن عالمی ترقی جو مختلف چینلز، ٹیکنالوجیز، اور ایجادات و مخترعات کی بدولت رونما ہوئی ہے ،تو ایسے وقت میں ہر عقلمند و زیرک اور ماہر و سمجھدار انسان کے لیے صاف اور روشن منہج کا ہونا بہت ضروری ہے کہ جس کے ذریعے وہ سیدھے راستے کی رہنمائ حاصل کرے اور تاکہ وہ غلط منہج سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہوئے درست راستے کا انتخاب کر سکے اور اللہ رب العالمین کی طرف جانے والے راستوں کا راہ رو بن سکے۔
اور یہ سب کچھ صرف اور صرف پختہ ایمان اور سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عقیدہ کی طرح صحیح سند سے ثابت و منقول عقیدہ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
صحیحین میں عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میر ی امت میں سے بہترین اس دور کے لوگ ہیں جو میرے ساتھ ہیں(صحابہ)،پھر وہ ہیں جو ان کےساتھ(کے دور میں) ہوں گے(تابعین) ،پھر وہ جوان کے ساتھ(کے دور میں)ہوں گے(تبع تابعین)
عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں : جس کو کسی کی سنت اختیار کرنی ہو تو وہ فوت شدہ لوگوں کی سنت اختیار کرے اس لئے کہ زندہ لوگ فتنوں سے مخفوظ نہیں ہوتے ،وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں جو سب سے زیادہ پاکیزہ دل ، سب سے زیادہ نیک، علم میں سب سے گہرے اور سب سے کم تکلف برتنے والے تھے ، وہ ایسی قوم تھے جن کو اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت دی اور دین کو قائم کرنے کے لئے چنا تھا ۔
امام مالک سے صحیح سند سے ثابت ہے انہوں نے فرمایا: اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح بھی اسی سے ہو گی جس سے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی ۔
مسلمانو! سلف صالحین کے پاک عقیدے کے نشانات میں سب سے پہلا نشان اللہ کے لئے توحید خالص کا اہتمام ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ } [الزمر: 3]
خبردار! خالص دین صرف اللہ ہی کا حق ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى،
اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملے گا۔
اللہ تعالی کی توحید میں ، توحید ربوبیت ، توحید الوہیت، اور توحید اسماء و صفات شامل ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ } [الأعراف: 180]
اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں، انھیں جلد ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔
باوجود اس کے کہ توحید کا روشن مقام ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی بطور خاص حفاظت ، اس پر عمل ، اس کی شرائط اور تقاضوں کو پورا کرنا پوری زندگی کا عظیم ترین مقصد شمار کیا جاتا ہے ، اس لئے کہ وجود و عدم کے اعتبار سے روشن شریعت کا عظیم ترین مقصد دین کی حفاظت ، امن کا قیام اور ہر قسم کی مخالفت اور شرک و بدعات سے عقیدے کی حفاظت ہے ۔
بندوں پر سب سے پہلی ذمہ داری رحمن کی اس کی توحید کے ساتھ معرفت ہے ۔ اور وہ یہ کہ وہ خلق و ارادہ میں منفرد ہے نیز وہ حاکم ہے اور اپنے ارادے میں جلالت و شان والا ہے ۔
سلف کے عقیدے کے ارکان میں اللہ پر ، اس کے فرشتوں ، اس کے رسولوں ، اس کی کتابوں ، آخرت کے دن پر اور تقدیر کے اچھے اور برے ہونے پر ایمان لانا شامل ہے ۔
اور ایمان باللہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر اس چیز پر ایمان رکھا جائے جس کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب(قرآن مجید )میں خود بیان فرمایا ،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث مبارکہ میں واضح فرمایا بغیر تحریف(تبدیلی کرنے )،تعطیل(فضول قرار دینے )،تکییف(کیفیت بیان کرنے)اور تمثیل(مثال دینے ) کے، بلکہ سلف صالحین اس بات پر پختہ ایمان رکھتے تھے }لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ} اللہ سبحانہ جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔
وہ اللہ جل جلالہ بابرکت ہے ، وہ بڑا سخی، کریم اور کامل ہے ، اس کی مثال نہیں بیان کی جا سکتی ، اس کی ذات کی شوکت اوصاف سے بالاتر ہے ، وہ بلند اور کامل ترین ہے ۔
یقینا ً سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاں ایمان قول اور عمل دونوں کا نام ہے۔ زبان سے اقرار، ارکان پہ عمل اور دل سے تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے ۔ جو اطاعت کرنے کی وجہ سے بڑھتا اور نافرمانیوں کی وجہ سے کم ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرما ن ہے :
{ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ } [البينة: 5]
اور انہیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’ایمان کے ستر سے اوپر شعبے (اجزاء) ہیں ۔ سب سے افضل جز لااله الا الله کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا کسی اذیت (دینے والی چیز) کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک ہے ۔
اس حدیث میں قول و فعل دونوں کو ایمان شمار کیا گیا ہے۔
مسلمانوں صحیح سلف کا عقیدہ افراط و تفریط اور غلو سے ہٹ کر میانہ روی پر قائم ہے۔
{وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا} [البقرة: 143]
اور اسی طرح ہم نے تمھیں سب سے بہتر امت بنایا۔
سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عقیدہ افراط و تفریط (حد سے زیادہ کمی وبیشی )جیسی خرابی سے پاک اور متوسط تھا۔ وہ اللہ تعالی کی صفات اور وعید و عذاب، ایمان و دین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں متوسط عقیدہ کے حامل تھے۔
اے وہ آدمی جو حساب کے دن ،جہنم اور بھڑکتی آگ سے اپنی نجات چاہتا ہے
اقوال و اعمال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر اور قرآن سے باہر نہ نکل اور صحیحین کو پکڑ لے جو کہ دین و ایمان کے قیمتی ہار کا جوڑ ہیں۔
اور اللہ تعالی نے متشا بہ آیات کی تاویل کرنے والے لوگوں کی مذمت میں فرمایا:
{فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ} [آل عمران: 7]
پھر جن لوگوں کے دلوں میں تو کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، فتنے کی تلاش کے لیے اور ان کی اصل مراد کی تلاش کے لیے، حالانکہ ان کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ۔
چنانچہ اللہ تعالی نے تاویل کی جستجو کو کج روی کی علامت قرار دیا اور اس کی مذمت میں اسے فتنہ کی تلاش سے جوڑا ، پھر ان تاویل کرنے والوں کو ان کی امید سے روک دیا اور ان کی چاہت کو ان سے الگ کر دیا ۔
امت مسلمہ !
امامت اور جماعت کے بارے میں سلف صالحین کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ جماعت اور امامت کو لازم پکڑتے ہیں ۔ اور دین سے نکل جانے والے خوارج کے بر خلاف سمع و اطاعت کے ساتھ ان کی فرمانبرداری کو قبول کرتے ہیں۔
امام طحاوی (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں :کہ ہم جماعت کو حق اور درست سمجھتے ہیں اور اس سے علیحدگی کو گمراہی اور عذاب۔ آپ (رحمہ اللہ تعالی) یہ بھی فرماتے ہیں: ہم اپنے سربراہوں اور حکمرانوں پر خروج کو جائز نہیں سمجھتے اگرچہ کہ وہ ظلم کریں، نہ ہم ان کے لیے بد دعا کرتے ہیں اور نہ ان کی فرمانبرداری سے ہاتھ کھینچتے ہیں۔ اس لیے کے ان کی اطاعت بطور فریضہ اللہ کی اطاعت میں سے ہے۔ جب تک ہمیں معصیت کا حکم نہ دیں نیز ہم ان کے لیے درستگی اور عافیت کی دعا کرتے ہیں ۔
آج کل سوشل میڈیا پر علماء پر طعن زنی کا بڑا فتنہ کس قدر بڑھ گیا ہے ، جس میں بڑے معتبر اور قدوۃ علماء کے خلاف باتیں کی جاتیں ہیں تاکہ ان کی شان کم کی جا سکے ، اس موقع پر مسلمانوں کو اس خطرناک راہ کی سنگینی کو سمجھنا اور اس سے بچنا ضروری ہے ۔
سلف صالحین (رحمہم اللہ تعالی) کے روشن عقیدے میں سے عقیدہ و منہج کی بنیاد پر اخوت بھی ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ } [الحجرات: 10]
مومن تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
دلوں اور جذبات کا جڑنا اور اہداف و مناہج کا متحد ہونا اسلام کی مؤثر ترین تعلیمات اور مخلص مسلمانوں کی لازم ترین صفات میں سے ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً} [الأنبياء: 92]
بے شک یہ ہے تمھاری امت جو ایک ہی امت ہے۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا} [آل عمران: 103]
اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہوجاؤ۔
مسلمانوں کے دل مسلمانوں کے لیے پاک اور صاف ہوتے ہیں ۔
{وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} [الحشر: 10]
اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب ! یقینا تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
پس دین میں نہ گروہ بندی ہے اور نہ مسلک پرستی ، نہ فرقہ بندی، نہ عصبیت اور نہ نسل پرستی، بلکہ اتفاق سے دین کو مضبوطی سے پکڑنے ،تفرقہ کو چھوڑنے رحمت ، نرمی کے اظہار، تشدد اور باہمی لڑائی کو ترک کرنے کی دعوت ہے۔ اسی طرح گفتگو اور ہم آہنگی کو مضبوط کرنے، جھگڑے اور تصادم سے دور ہونے کی دعوت ہے۔
یہ ہمارے سلف صالح کا اجمالی عقیدہ ہے، اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت کرے اور ان سے راضی ہو۔
اے آدمی! جو اپنی نجات چاہتا ہے ،اس خیر خواہ کی بات کو غور سے سن۔
اپنے تمام امور میں وحی کو مضبوطی سے تھام نہ کہ لوگوں کی الٹی سیدھی باتوں کو ۔
اللہ کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کر۔
حقیقی مسلمان کا شعار حقیقی شریعت ہی ہے اور میرے لئے ہی یہ حقیقی مذہب ہے ۔
اور جب تم عزم کر لیا اور جان لیا تو سلف صالحین کے اس منہج کو مضبوط پکڑ لو۔
اور یاد رکھو ہر بھلائی سلف کی پیروی میں اور ہر برائی نئی چیزوں کی ایجاد میں ہے ۔
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں صحیح عقیدے پر زندہ رکھے واضح ترین منہج پر موت دے، بلاشبہ وہ جواد اور کریم ہے۔