ادب کی ضرورت اور اہمیت۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ
14 ربیع الثانی 1440 بمطابق 21 دسمبر 2018
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 14 ربیع الثانی 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "ادب کی ضرورت اور اہمیت" ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ ادب انسان کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے، اس کے ہوتے ہوئے کسی اور شرف کی ضرورت نہیں رہتی۔ ادب یہ ہے کہ: انسان کے گفتار اور کردار میں تقوی الہی نظر آئے، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کریں، نیز ادب کو محض فصاحت و بلاغت میں محصور کر دینا مناسب نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ: ماں کا کردار ہر معاشرے میں کلیدی ہوتا ہے چنانچہ اگر آپ اپنی بیٹی کو اچھی ماں بنا دیں تو وہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کر سکتی ہے۔ کتب احادیث میں خصوصی طور پر ادب کے عنوان کے تحت احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔ ادب کا صلہ اور بدلہ بہت عظیم ہوتا ہے چنانچہ با ادب شخص کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں محلات کی ضمانت دی ہے۔ سلف صالحین ادب سیکھنے اور سکھانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے مملکت سعودی عرب میں ہونے والی بارشوں پر اللہ کا شکر ادا کیا اور ان بارشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی ہریالی کی سیر کرنے کے آداب بھی بتلائے اور کہا کہ راستوں ، اور سائے دار جگہوں پر گندگی مت پھیلائیں یہ مذموم اعمال ہیں، آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔
↲ منتخب اقتباس ↳
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اللہ تعالی نے ہمیں کتاب و سنت کے ذریعے بہترین انداز میں ادب سکھایا، ہم پر اپنی فضل کی بہاریں برسائیں، ہمیں اپنی وسیع رحمت کے زیر سایہ رکھا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک، میں اسی کی جانب دعوت دیتا ہوں اور خود بھی اسی کی جانب انابت کرتا ہوں۔ اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے رسول ہیں، آپ کو حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا، اعلی اخلاق کے بعد کسی حسب نسب کی ضرورت نہیں رہتی، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے ، دردو و سلام کے ذریعے ہمیں وافر اجر اور عظیم ثواب ملے گا۔
مسلمانو! تقوی الہی اختیار کرو ؛ کیونکہ متقی کامیاب ہوں گے اور حد سے تجاوز کرنے والے بد بخت تباہ و برباد ہوں گے،
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
اے ایمان والو! اللہ سے کما حقہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام پر۔[آل عمران: 102]
ادب انسان کا شرف ہے، ادب پر مبنی شرف کی وجہ سے حسب و نسب کے شرف کی ضرورت نہیں رہتی۔ شرف بلند ہمتی سے حاصل ہوتا ہے، بوسیدہ ہونے والی ہڈیوں سے نہیں!
مَا ضَرَّ مَنْ حَازَ التَأَدُّبَ وَالنُّهَى
أَلَّا يَكُوْنَ مِنْ آلِ عَبْدِ مَنَافِ
ادب اور دانشمندی حاصل کرنے والے کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ عبد مناف کی آل میں سے نہیں ہے
شرف اور خوبی یہ ہے کہ ادب انسان کے رگ و پے میں رچ بس چکا ہو۔
زَانُوْا قَدِيْمَهُمْ بِحُسْنِ حَدِيْثِهِمْ
وَكَرِيْمِ أَخْلَاقٍ وَحُسْنِ خِصَالِ
بہترین لوگوں نے حسن گفتگو، اچھے اخلاق اور خوبیوں کی بدولت اپنی نسل کو قدر فراہم کی
فَطُوْبَى لِقَوْمٍ أَنْتَ فَارِعُ أَصْلِهِمْ
وَطُوْبَاكَ إِذْ مِنْ أَصْلِهِمُ أَنْتَ فَارِعُ
آفرین ہے تمہارے خانوادے پر جس کے تم سپوت ہو، اور تم پر بھی آفرین ہے کہ تم ان کی اولاد ہو۔
ادب: قابل ستائش کلام اور کام کا نام ہے۔
ادب: اعلی کردار اور مذموم چیزوں کو ترک کرنے کا نام ہے۔
ادب: بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کا نام ہے۔
ادب: حسن اخلاق کو کہتے ہیں۔ فرمان باری تعالی:
{وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ} [القلم: 4]
کی تفسیر میں عطیہ عوفیؒ کہتے ہیں: "مطلب یہ ہے کہ: آپ بہت عظیم ادب کے مالک ہیں۔"
ادب: تقوی اور اطاعت الہی بجا لانے اور نافرمانی سے بچنے کا نام ہے۔
أَدَّبْتُ نَفْسِيْ فَمَا وَجَدْتُ لَهَا
بِغَيْرِ تَقْوَى الْإِلَهِ مِنْ أَدَبِ
میں نے اپنے آپ کو با ادب بنانا چاہا تو مجھے تقوی الہی کے علاوہ کہیں بھی ادب نہیں ملا۔
مجاہدؒ اللہ تعالی کے فرمان:
{قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ} [التحريم: 6]
کی تفسیر میں کہتے ہیں: "اپنے آپ اور اہل خانہ کو تقوی الہی کی تلقین کرو اور اسی کے ذریعے انہیں با ادب بناؤ"
قَدْ يَنْفَعُ الْأَدَبُ الْأَحْدَاثَ فِيْ مَهَلٍ
وَلَيْسَ يَنْفَعُ عِنْدَ الْكَبْرَةِ الْأَدَبُ
نو عمر افراد کو ابتدا میں ادب سکھانا مفید ہو سکتا ہے، لیکن بڑھاپے میں نہیں ۔
إِنَّ الْغُصُوْنَ إِذَا قَوَّمْتَهَا اعْتَدَلَتْ
وَلَنْ يَّلِيْنَ إِذَا قَوَّمْتَهُ الْخَشَبُ
کیونکہ گیلی ٹہنی کو سیدھا کرو تو سیدھی ہو جائے گی، لیکن لکڑی بن جانے کے بعد سیدھی نہیں ہوگی
لَيْسَ الْجَمَالُ بِأَثْوَابٍ تُزَيَّنُنَا
إِنَّ الْجَمَالَ جَمَالُ الْعِلْمِ وَالْأَدَبِ
پہنا ہوا لباس ہمیں خوبصورت نہیں بناتا، انسان خوبصورت تو علم اور ادب سے بنتا ہے۔
[عربی زبان میں ادب دعوت دینے کے معنی میں مستعمل ]تو ادب کو ادب اس لیے کہتے ہیں کہ یہ لوگوں کو اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی دعوت دیتا ہے۔
ادب: اچھی گفتگو، خوبصورت کلام، چاشنی بھری بات، حسین عبارت، بہترین تعامل اور روح و اخلاقیات کی عمدگی کا نام ہے۔
ادب صرف فصاحت، بلاغت، علوم و فنون پر دسترس، اور اشعار یاد ہونے کا نام نہیں ہے، بلکہ ادب کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اچھے اخلاق کا مالک ہو۔ دوسروں پر اللہ کی نعمتوں سے خوش ہو۔ حسد اور کینے سے اپنے آپ کو پاک صاف رکھے۔ جس با ادب شخص کی عقل کامل ہو جائے تو وہ کم بولتا ہے اور زیادہ خاموش رہتا ہے، اس کے بول میٹھے ہو جاتے ہیں اور اس کی برد باری عیاں ہوتی ہے۔
وَكُنْ كَرِيْمًا، حَلِيْمًا، عَاقِلًا، فَطِنًا
مُنَزَّهَ الْخُلْقِ عَنْ طَيْشٍ وَعَنْ غَضَبِ
تم سخی، حلیم، عقل مند اور فطین بنو، طیش اور غصے سے یکسر دور رہو
وَصُنْ لِسَانَكَ مِنْ هَجْوٍ، وَمِنْ سَفَهٍ
وَمِنْ مُجَاوَرَةَ الْأَوْبَاشِ، وَالْكَذِبِ
اپنی زبان کو ہجو اور بیوقوفانہ کلام سے محفوظ رکھو، نیز اوباشوں کی صحبت سے دور رہو۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے: تین چیزوں کی بدولت اجنبیت ختم ہو جاتی ہے، مشکوک افراد سے بچاؤ، با ادب رہنا، کسی کو تکلیف نہ دینا۔
يَزِيْنُ الْغَرِيْبَ إِذَا مَا اغْتَرَبَ
ثَلَاثٌ فَمِنْهُنَّ حُسْنُ الْأَدَبِ
مسافر شخص کی اجنبیت تین چیزیں ختم کر دیتی ہیں: اول، حسن ادب
وَثَانِيْةٌ: طِيْبُ أَخْلَاقِهِ
وَيَخْتِمُهُنَّ اجْتِنَابُ الرِّيَبِ
دوم: حسن اخلاق اور آخری ہے مشکوک سرگرمیوں سے اجتناب
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "با ادب شخص کامیاب اور خوش حال ہوتا ہے، جبکہ بے ادب شخص بد بخت اور تباہ حال ہوتا ہے۔ اسی لیے دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل کرنے کے لئے ادب کا کوئی ثانی نہیں، بعینہٖ ان سے محرومی کے لئے بے ادبی کا بھی کوئی ثانی نہیں۔ آپ والدین کے ساتھ ادب کو دیکھیں: کیسے والدین کا ادب کرنے والے کو غار سے خلاصی ملی انہیں چٹان نے محصور کر دیا تھا!؟ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نماز پڑھانے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادب دیکھیں: کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش امام نہ بنے اور کہا: ابن ابی قحافہ کو زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امام بنے۔ ان کے اس ادب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہیں پوری امت کی امامت کا وارث بنا دیا!"
إِنّي لَتُطرِبُني الخِلالُ كَريمَةً
طَرَبَ الغَريبِ بِأَوبَةٍ وَتَلاقي
میں اچھی خوبیوں کو دیکھ کر جھوم اٹھتا ہوں جیسے پردیسی واپس لوٹنے اور ملاقات ہونے پر جھوم جاتا ہے۔
وَتَهُزُّني ذِكرى المُروءَةِ وَالنَدى
بَينَ الشَمائِلِ هِزَّةَ المُشتاقِ
مجھے مروت اور نرم مزاج خوبیوں کا تذکرہ کسی مشتاق کی طرح بے خودی میں مست کر دیتا ہے۔
فَإِذا رُزِقتَ خَليقَةً مَحمودَةً
فَقَدِ اصْطَفاكَ مُقَسِّمُ الأَرزاقِ
لہذا اگر تمہیں کوئی اچھی خوبی مل جائے تو یقیناً رزق تقسیم کنندہ نے تمہیں چنیدہ بنا لیا ہے۔
فَالناسُ هَذا حَظُّهُ مالٌ وَذا
عِلمٌ وَذاكَ مَكارِمُ الأَخلاقِ
کچھ لوگوں کے نصیب میں مال تو کسی کے نصیب میں علم اور کسی کو حسن اخلاق ملتا ہے۔
وَالعِلمُ إِن لَم تَكتَنِفهُ شَمائِلٌ
تُعليهِ كانَ مَطِيَّةَ الإِخفاقِ
تو اگر علم اچھے اخلاق کے زیر سایہ نہ ہو تو یہ علم بھی تنزلی کی جانب گامزن کر دیتا ہے۔
لا تَحسَبَنَّ العِلمَ يَنفَعُ وَحدَهُ
ما لَم يُتَوَّج رَبُّهُ بِخَلاقِ
یہ مت سمجھنا کہ صرف علم ہی مفید ہے! جب تک صاحب علم اخلاقیات سے متصف نہ ہو کوئی فائدہ نہیں!
كَم عالِمٍ مَدَّ العُلومَ حَبائِلاً
لِوَقيعَةٍ وَقَطيعَةٍ وَفِراقِ
دیکھ لو کہ کتنے ہی علم رکھنے والوں نے اپنے علوم کو رخنے ڈالنے، قطع تعلقی اور دشمنی کا ذریعہ بنا دیا!
وَفَقيهِ قَومٍ ظَلَّ يَرصُدُ فِقهَهُ
لِمَكيدَةٍ أَو مُستَحِلِّ طَلاقِ
کتنے ہی فقیہانِ ملت نے اپنی فقاہت مکاری یا طلاق دلوانے کے لئے استعمال کیا!
الأُمُّ مَدرَسَةٌ إِذا أَعدَدتَها
أَعدَدتَ شَعباً طَيِّبَ الأَعراقِ
ماں ایک مکمل تربیت گاہ ہے، اگر تم ایک ماں کی تربیت کر دو تو تم ایک انتہائی اچھا معاشرہ تشکیل دے دو گے
الأُمُّ رَوضٌ إِن تَعَهَّدَهُ الحَيا
بِالرِيِّ أَورَقَ أَيَّما إيراقِ
ماں ایک گلستان ہے، اگر حیا اس کی آبیاری کرے تو بہت ہی پھل آور ثابت ہوتا ہے۔
الأُمُّ أُستاذُ الأَساتِذَةِ الأُلى
شَغَلَت مَآثِرُهُم مَدى الآفاقِ
ماں ان تمام اولین اساتذہ کی بھی استاد ہے، جن کے کارناموں سے افق بھرے ہوئے ہیں۔
رَبُّوا البَناتِ عَلى الفَضيلَةِ إِنَّها
في المَوقِفَينِ لَهُنَّ خَيرُ وِثاقِ
بیٹیوں کی اچھی تربیت کریں، اس کی بدولت وہ دونوں جہانوں میں ثابت قدم رہیں گی۔
وَعَلَيكُمُ أَن تَستَبينَ بَناتُكُم
نورَ الهُدى وَعَلى الحَياءِ الباقي
خیال کرنا جب تمہاری بیٹیاں اپنے گھروں کو سِدھاریں تو نورِ ہدایت اور دائمی حیا ان کی رفاقت میں ہو۔
احادیث کی کتب صحاح، سنن اور مصنفات نے ادب سے متعلقہ احادیث کا خصوصی اہتمام کیا ہے، اہل اسلام کے ہاں ان عظیم کتابوں کے مصنفین نے اپنی کتب میں ادب کے لئے خصوصی عنوان اور ابواب لکھے ہیں۔
آپ صحیح بخاری میں کتاب الادب دیکھ لیں، صحیح مسلم میں بھی کتاب الادب موجود ہے، سنن ابو داود میں کتاب الادب شامل ہے، ایسے ہی سنن ترمذی میں بھی کتاب الادب کو شامل کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب کا اسلام میں کتنا بلند مقام اور مرتبہ ہے۔ شریعت اور احادیث میں ادب کو واضح ترین اہمیت دی گئی ہے۔
آداب اور اخلاقیات کے بارے میں احادیث کے ذخیرے میں یہ حدیث بھی ہے جسے ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں جنت کے کنارے پر ایک محل کا ضامن ہوں اس کے لئے جو حق پر ہوتے ہوئے بھی لڑائی نہ کرے، اور جنت کے وسط میں ایک محل کا ضامن ہوں اس کے لئے جو مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے، اور اعلی ترین جنت میں محل کا ضامن ہوں اس کے لئے جس کا اخلاق اچھا ہے) اس حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے۔
ابن مبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے"
مسلمانو!
اللہ تعالی کی نعمت کا شکر ادا کرو کہ اللہ تعالی نے تمہارے لیے ٹھنڈی ہوائیں ، بارشیں برسانے والے بادل، اور گھن گرج والی گھٹائیں تسلسل کے ساتھ بھیجیں، ان سے پیاسی زمینوں، بنجر صحراؤں، بے آب و گیاہ کھلیانوں ، خشک اور چٹیل پہاڑوں پر بارشیں ہوئیں، ان پر قحط سالی کا راج تھا، تو بارشوں کی وجہ سے سر سبز اور ہرے بھرے ہو گئے، ان پر جڑی بوٹیاں نمودار ہو گئیں، اللہ کے فضل سے تمہاری زمینیں لہلہا اٹھی ہیں، اللہ کی بارش سے تمہارے کھیت اور کھلیان آباد ہوگئے ہیں، اللہ کی رحمت سے تمہارے پہاڑ تک سبزے سے ڈھک گئے ہیں، یہ زرعی پیداوار کا سال ہوگا۔ ان پہاڑوں کا منظر بھی انتہائی سہانا ہو گیا ہے، جو کہ اللہ تعالی کی قدرت، حکمت، رحمت، فضل، رزق اور احسان کی واضح ترین دلیل ہے۔
اپنی نظروں کو اللہ تعالی کے دلفریب مناظر سے لُبھائیں، اور سیر تفریح کے آداب کو مد نظر رکھیں، لہذا کسی بھی ایسی جگہ کو گندگی سے آلودہ مت کریں جہاں پر لوگ سایہ کے لئے بیٹھتے ہوں، یا آرام کرتے ہوں یا سواریاں کھڑی کرتے ہوں، یا کوئی سر سبز جگہ ہو، یا پھل دار درخت ہو، یا پانی پینے کی جگہ ہو یا پیدل، سواری اور گاڑیوں کے چلنے کی جگہ ہو کہیں پر بھی گندگی مت پھیلائیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم لعنت کا سبب بننے والے کاموں سے بچو) تو اس پر صحابہ کرام نے کہا کہ: "اللہ کے رسول! یہ لعنت کا سبب بننے والے کام کیا ہیں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو لوگوں کے راستے یا سائے میں قضائے حاجت کرے) مسلم
یا اللہ! ہمیں اپنے لطف و کرم کے ذریعے اپنے قریب فرما لے، ہمارا امتحان مت لینا۔ یا اللہ! ہمیں اپنا اطاعت گزار اور ولی بنا لے، یا اللہ! ہمیں حلال پر اکتفا کرنے والا بنا، حرام سے بچنے والا بنا، یا اللہ! ہمیں اپنے فضل سے ہر کسی کی محتاجی سے محفوظ فرما دے، یا رب العالمین!