زندگی کو آسان بنانا بہت مشکل
اور
مشکل بنانا بہت آسان ہے
بشکریہ: نورین تبسم
نورین تبسم کی ایک تحریر سے اقتباس شدہ آتو گراف
زندگی کو آسان بنانا بہت مشکل اور مشکل بنانا بہت آسان ہے بشکریہ: نورین تبسم نورین تبسم کی ایک تحریر سے اقتباس شدہ آتو...
By:
سیما آفتاب
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو متاثر کرنے کی کوشش ہی کیوں کر رہے تھے؟ آپ یہ تبھی کرتے ہیں جب اندر کہیں آپ کا کوئی اور مقصد ہو. عبد اللہ بن ابئی جیسے منافقین کا پہلا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ سیاسی پناہ گاہ حاصل کر سکیں. اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ جب جنگ ہو تو ان کو نہ بلایا جائے. وہ بس سہل جنگوں میں شرکت چاہتے تھے جن میں جیت کا تناسب زیادہ تھا. وہ ان جنگوں میں جانا چاہتے تھے جہاں وہ تو آرام سے پیچھے ہو کہ کھڑے رہیں اور رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم، اہل ایمان کے ساتھ مل کر لڑتے رہیں اور آخر میں وہ کہہ سکیں کہ مال غنیمت میں ہمارا حصہ کہاں ہے؟ وہ بس ایسی ہی جنگوں میں جاتے تھے کہ "اوہ اس جنگ میں ہم 300 ہیں اور مخالفین بس 40 ہیں تو یہ جنگ تو ہم جیت ہی جائیں گے، اس میں شرکت کر لیتے ہیں، اور دیکھیو! دیر سے جائیو، تاکہ آخری صف میں ہی رہو اور لڑنا ہی نہ پڑے لیکن جب مال غنیمت کی تقسیم کا وقت ہو. ان کنا معکم ہم تمہارے ساتھ تھے. ہم نے بھی شرکت کی تھی جنگ میں، ہمارا حصہ.. اور جب کوئی دشوار و طویل جنگ درپیش ہو تو بہانے بنا سکو. "
اور جو بہانے انہوں نے بنائے، ان میں سے کچھ تو انتہائی مضحکہ خیز تھے. جیسے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر. یہ ایک انتہائی سخت مرحلہ تھا. تو منافقین کا رویہ کیا تھا. قرآن ہمیں بتاتا ہے، وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُواْ
ان میں سے کوئی ہے جو آ کر کہتا ہے کہ مجھے اجازت دیں، مجھے فتنہ میں مت ڈالیں.
اوہ آپ سلطنت روم سے جنگ لڑنے جا رہے ہیں؟ جانتے ہیں راستے میں ہم جن دیہات سے گزریں گے ان میں نہایت خوبصورت خواتین پائی جاتی ہیں. میں تو ان کا حسن برداشت نہیں کر پاؤں گا. اور میں فتنہ میں مبتلا ہو جاؤں گا. تو مجھے اپنے سپاہیوں میں شامل مت کیجیے. ان عورتوں کی بھی اس میں بھلائی ہے، وہ مجھے دیکھ کر بہک نہ جائیں. تو مجھے جہاد سے رخصت دیجیے. رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بھائی تم رک ہی جاؤ. کیونکہ جس طرح کے بہانے آپ بنا رہے ہو تو آپ سپاہیوں کے تو کسی کام کے نہیں بلکہ الٹا ان پر بوجھ ہی بنو گے. آپ تو ایک ذرا سی خراش پر آسمان اٹھا لو گے سر پہ.
تو اللہ تعالٰی نے آگے فرمایا وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُواْ وہ جو جنگ سے رخصت مانگنے آئے، کیا وہ پہلے ہی فتنہ میں مبتلا نہیں ہو گئے تھے؟
وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ
وہ کسی ایک شخص کو بھی دھوکہ نہیں دیتے سوائے خود کے. دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے کہا گیا
يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا
اور آگے کہا گیا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ
پہلے " يُخَادِعُون " کا لفظ استعمال ہوا اور بالکل آگے ہی کہا گیا "يَخْدَعُون". اب عربی گرامر کے طلباء کے لیے یہ آسان ہے کہ " يُخَادِعُون " یہ " خَادِع " سے نکلا ہے اور اگر آپ کسی کو دھوکہ دینے کی پوری کوشش کریں تو کہا جاتا ہے خَادِع.
اور اگر آپ کسی کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائیں تو کہا جائے گا " َخْدَع" جس سے نکلا ہے "يَخْدَعُون". تو جب اس آیت کے آخر میں کہا گیا کہ وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ یعنی وہ "کامیاب" ہو گئے دھوکہ دینے میں مگر کسی کو نہیں سوائے خود کے . وہ بس خود کو ہی دھوکہ دینے میں کامیاب ہوئے.
وما یشعرون
اور وہ ذرا بھی سمجھ نہیں رکھتے.
کچھ علمائے کرام یہاں بحث کرتے ہیں کہ یہاں "ما" کا لفظ بفد ہے. کہ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں. لیکن دوسری طرف" ما " کا لفظ" لا" سے زیادہ قوی نہیں ہے. یہ عربی گرامر کے طلباء کے لیے سمجھنا آسان ہے.
تو ان کو اندازہ ہی نہیں اس وقت کہ وہ کیا کر رہے ہیں وہ کس کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں؟ آگے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُـمُ اللّـٰهُ مَرَضًا ۖ
ان کے دلوں میں مرض تھا.
کیونکہ جب آپ کہتے ہیں وما یشعرون، ان کو کچھ اندازہ ہی نہیں، انہیں کوئی احساس نہیں، انہیں کچھ سمجھ نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں. تو یہ سب شعور کے لغوی معنی ہیں. کسی چیز کو محسوس کرنا، کسی چیز کا احساس کرنا. اور ہمارے شعور میں حیا، خوف، پشیمانی یہ تمام احساسات شامل ہیں. اور یہ سب احساسات کہاں پائے جاتے ہیں؟ دل میں. تو جب اللہ تعالٰی کہتے ہیں کہ انہیں کوئی احساس نہیں تو فوراً سوال اٹھتا ہے کہ ان کو احساس کیوں نہیں؟ ان کو اندازہ کیوں نہیں؟ کیا ان کے دل نہیں ہیں.؟ فوراً اگلی ہی آیت میں جواب ملتا ہے فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَضٌ ان کے دلوں میں مرض ہے.
مثلاً بعض لوگ ایسے مرض کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کی جلد کچھ بھی محسوس نہیں کر پاتی. یا جب آپ دانتوں کی روٹ کینل ٹریٹمنٹ کرواتے ہیں تو وہ دانت سُن ہو جاتا ہے. ٹھنڈا، گرم کچھ محسوس نہیں ہوتا. کچھ لوگوں کی جب سرجری ہوتی ہے تو ان کا صرف نچلا دھڑ سن کر دیا جاتا ہے. اب وہاں چیرا لگائیں یا ٹانکے لگائے جائیں انہیں کچھ درد محسوس نہیں ہوتا. یہ ہے "و ما یشعرون ". اللہ تعالٰی نھ فرمایا فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَضٌ ان کے دلوں میں مرض ہے. پہلا مرض یہی ہے جو انہیں احساس ہی نہیں ہونے دیتا . دوسرے علماء کرام اختلاف کرتے ہیں کہ اگر آیات کا تسلسل دیکھا ْتو پہلا مرض جس کی آیات میں نشاندہی کی گئی ہے وہ ہے" ریب ". ذالك الکتاب لا ریب فيه ، جو مرض انہیں لاحق ہے وہ ان کے شکوک و شبہات ہیں . وہ اسلام کے دین حق ہونے میں پر یقین نہیں ہیں. یہ وہ مرض ہے جسے انہوں نے اپنے اندر پھلنے پھولنے دیا.
اس آیت کی ایک اور خوبصورت بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے یہ نہیں فرمایا کہ "فی صدورھم مرض" (ان کے سینوں میں مرض ہے) اللہ تعالٰی نے فرمایا، "فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَض" . اب " صدور" اور "قلوب" میں نہایت فرق ہے. آپ میں سے تقریباً سب ہی سورۃ الناس کے حافظ ہیں." الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ". ہم یہ نہیں کہتے الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي قلوب النَّاسِ، اگر کہا جاتا قلوب الناس تو ہم ترجمہ یوں کرتے کہ وہ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے. لیکن اللہ تعالٰی نے کہا وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے. قلب اور سینہ میں فرق ہے، سینہ ایک صندوق کی مانند ہے اور اس صندوق میں جو خزانہ ہے وہ دل ہے. شیطان کی رسائی آپ کے دل تک نہیں ہے. شیطان کی پہنچ آپ کے سینے تک ہے. آپ فرض کریں کہ دل آپ کا گھر ہے. اور سینہ گھر کے باہر کی چار دیواری، جس میں کارپورچ اور لان وغیرہ شامل ہے. شیطان کی رسائی باہر تک ہے مگر وہ گھر کے اندر تب تک داخل نہیں ہو سکتا جب تک آپ گھر کا دروازہ نہ کھول دیں. آپ کا دل محفوظ ہے جب تک آپ شیطان کو اس میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں. لیکن وہ آئے گا ضرور دروازہ کھٹکھٹانے، سنو! سنو تو! میرے پاس تمہارے لیے کچھ ہے، تمہیں ایک مزے کی بات بتاؤں... ہمارا کام ہے کہ ہم خبردار ہو جائیں جب بھی شیطان ہمارے دروازے پر دستک دے، ہمارے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرے . کیونکہ وہ نہایت قریب ہے. اس کی ہمارے سینوں تک رسائی ہے. وہ وسوڈالے گا سینوں میں . اور جب کوئی باہر سے دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو تو کیا آواز اندر تک نہیں جاتی؟ بالکل جاتی ہے. بعض اوقت جب کوئی در کھٹکھٹائے تو ہم اسے بھگا دیتے ہیں. لیکن کبھی ہم دروازا کھول بیٹھتے ہیں اور اگر آپ بار بار اس کے لیے دروازہ کھول دیں تو وہ اندر براجمان ہو جاتا ہے. . اور جب کوئی باہر کا بندہ اندر آ کر رہنے لگ جائے تو وہ اپنے حساب سے سجاوٹ شروع کر دیتا ہے. سمجھے آپ؟ آپ کے اپنے احساسات ہوتے ہیں کہ کیا اچھا ہے، کیا برا ہے کون سا رنگ اچھا ہے. کس طرح کا ساز و سامان چاہیے آپ کو گھر میں. لیکن جب آپ اس باہر کے بندے کو اندر داخل کر لیں تو ایک دن آپ دیکھتے ہیں کہ دیوار کا رنگ گلابی ہو گیا ہے، فرنیچر سارا سبز ہے اور برتن جامنی رنگ کے، آپ کہتے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے یہاں ؟ شیطان کہتا ہے "بس یہ میری پسند ہے".وہ کچن کو بیڈروم اور باتھ روم کو گیسٹ روم بنا چکا ہے اور آپ کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا ہو گیا ہے؟
میں یہ سب آپ کو کیوں سمجھا رہا ہوں کیونکہ جب آپ شیطان کو اپنے گھر داخل ہونے دیں تو جو چیز کبھی آپ کو خوبصورت لگتی تھی، وہ اب بدصورت لگنے لگتی ہے. اور جو آپ کو برا لگتا تھا وہ اسے خوبصورت لگنے لگتا ہے. اسی لیے اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا کہ و زین لھم الشیطان اعمالھم، شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے ہیں. شیطان آپ کے لیے کچھ بھی خوبصورت یا بدصورت نہیں بنا سکتا جب تک وہ آپ کے گھر کے اندر داخل نہ ہو جائے.
الله عزوجل سورت النمل( آیت 24) میں فرماتے ہیں :
* وٓزٓيَّنٓ لٓهُمُ الشّٓيْطٰنٓ اعْمٓالٓهُم *
"ترجمہ : اور سجا کر دکھائے ہیں انھیں، شیطان نے ان کے اعمال "
شیطان ان کیلئے ان کے ہر طرح کےاعمال خوبصورت بنا کے دکھاتا ہے.
لیکن یاد رکھئے کہ شیطان اس وقت تک ایسا نہیں کر سکتا جب تک وہ آپ کے دل تک نہیں پہنچ جاتا. آپ نے شیطان کو اپنے دل میں داخلے کی اجازت ہی نہیں دینی. جب تک آپ کے دل میں شیطان داخل نہیں ہوجاتا، تب تک آپ کے دل میں کیا ہے؟
یقینی طور پر ایمان.
الله فرماتے ہیں (سورت الحجرات آیت 7 )
*وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ *
*اللہ نے ایمان کو آپ کے لیے زینت بنادیا ہے*
کیا آپ کے ذہن میں اس صورت حال کا کوئی خاکہ بنتا ہے؟
کیونکہ الله عزوجل تو کہہ رہے ہیں کہ
* فِي قُلُوْبِهِم مٓرٓض*
" ان کے دلوں میں بیماری ہے."
یعنی یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو سینے تک محدود نہیں ہے، بلکہ دل کے اندر ہے. اس بیماری نے دل کے اندر کا راستہ پا لیا ہے. اگر کوئی حملہ آور آپ کے گھر میں گھس آئے تو سوچئے کہ آپ کیا کریں گے؟ جیسے ہی آپکو یہ ادراک ہو گا کہ اس کا ارادہ بُرا ہے آپ اُس کو گھر سے نکال دیں گے.
لیکن عمومی طور پر کیا ہوتا ہے؟ آپ شیطان کی سنتے ہیں اور اس کیلئے دروازہ کھول دیتے ہیں. عین اس لمحے میں اگر آپکو احساس ہوجائے تو آپ کو فوری *آعُوْ ذُبِالله مِنٓ الشّٓيْطٰنِ الرّٓجِيْم * پڑھنا چاہیے، اس طرح آپ اس کو پیچھے دھکیل دیں گے،الله كو آپ سے یہی مطلوب ہے.
لیکن اگر آپ اس کو اندر آنے دیں گے، رہنے کی اجازت دیں گے، اس کو اپنی کھچڑی پکانے دیں گے، اس کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے دیں گے، تو پھر نتیجہ کیا ہو گا؟ آپ بیمار پڑتے جائیں گے، اس کا تعلق اگلی آیات سے جڑتا ہے.
* وٓاِذٓاخٓلٓوْ اِلٰى شٓيٰطِيْنِهِم *
"اور جب وہ اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں "
بات یہ ہے کہ الله نے ہر نوع بشر کو طاقت دی ہے.
"الله نے شیطان کے منہ پر کہا تھا کہ جو میرے غلام ہیں اُن پر تمہیں کوئی حق نہ ہو گا"
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ﴾. ( سورة الحجر الآية:42
ترجمہ: "بے شک وہ جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کوئی اختیار نہیں، مگر جس نے تیری پیروی کی وہ گمراہوں میں سے ہے"
وہ آپ انسانوں کے دل میں زبردستی نہیں گھستا اور نہ ہی وہ اندر رہنے پر اصرار کرتا ہے.
جس لمحہ بھی آپ اُس کو کہتے ہیں کہ نکل جاؤ....!!! تو وہ نکل جاتا ہے. لیکن اگر آپ اسے اندر آنے دیتے ہیں، رہنے دیتے ہیں، اس کا مطلب ہے آپ نے خود ہی اسے باہر نہیں دھکیلا.
آپ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا ہو کر ہی اسے اپنے اندر سے نکال سکتے ہیں، محض *اعوذبالله * پڑھ لیں *استغفار * پڑھ لیں لیکن یہ کرنا پڑے گا، مگر آپ تو ایسا کرنے سے انکاری ہیں ناں.
جب آپ ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں، تو اللہ کہتے ہیں: ٹھیک ہے اپنے راستے پر چلتے رہو، میں تمہیں کھلی چھوٹ دیتا ہوں، جو کرنا ہے کر لو.
* فٓزٓادٓهُمُ الله مٓرٓضٓا*
الله ان کو بڑھا دیتے ہیں ان کی سرکشی میں، ان کی بیماری میں اضافہ کردیتے ہیں.
اگر آپ شیطان کو سننا پسند کرتے ہیں تو سنتے رہیں، پھر آپ اسی میں آگے بڑھتے رہیں گے،
اس طرح آپ شیطان کو اپنے دل کے اندر نقصان پہنچانے کی خود ہی اجازت دے رہے ہیں
اب ذرا ملاحظہ کریں! رمضان کے مہینے میں ویسے تو شیطان جکڑا ہوا ہوتا ہے. لیکن آپ کے دل میں اس نے برائیوں کو خوب آراستہ کیا ہوا ہے، اس لیے آپ ان غلط رستوں پر ایسے ہی چلتے ہیں، گویا کہ وہ ابھی بھی آپ کے اندر ہے. اس وقت شیطان نہیں ہے، مگر اس کے سیکھائے ہوئے سارے کام آپ خود بخود کر رہے ہیں.
سورت الانعام (آیت 112) میں الله رب العزت فرماتے ہیں:
*شٓيْطٰنٓ الاِ نْسٓ وٓ الْجِن*
شیطان اور بھوت پریت ، انسانوں اور جنوں دونوں میں سے ہوتے ہیں.
بھوت،عفریت اور دیو، "جن " تو بلاشبہ ہیں ہی، لیکن یہ "انسانوں" میں سے کیسے ہو سکتے ہیں؟ دیکھئے جب انسان ان کو اپنے اندر آنے کی اجازت دیتا ہے اور پھر ایک لمبے عرصے کیلئے اسے اپنے اندر قیام کا موقع بھی فراہم کر دیتا ہے، تو "میزبان انسان" تبدیل ہو جاتا ہےاور وہ شیطان اور عفریت بن جاتا ہے.
سبحان الله ! الله تعالى منافقون کیلئے کہہ رہے ہیں کہ ان کے دلوں میں گہری (پرانی )بیماری ہے. یہ بزدلی کی شکل میں ہے. وہ لوگ بزدل تھے، اس مذہب کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہ پاتے تھے،
دور حاضر میں بھی اسلام کے خلاف تین طرح کے ردعمل نظر آتے ہیں:
1- ایک ردعمل تو ان لوگوں کا ہے جو * لٓا اِلٰهٓ اِلّٓا الله مُحٓمّٓدُالرّٓسُوْلُ الله *
پورے دل سے پڑھتے ہیں. وہ مسلمان ہونے پر فخر اور عزت محسوس کرتے ہیں. اور وہ الله اور رسول الله کی بات سے بڑھ کر کسی بات کو نہیں سمجھتے. ان کی فرمانبرداری اعلٰى ترین درجے پر ہے. ان کی ہدایت کسی بھی تنقید سے بالا تر ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی غلطی ہو جائے تو وہ کہتے ہیں کہ غلطی ہمارے اپنے اندر ہی ہے، برائی ہماری اپنی کمائی ہوئی ہی ہے، اللہ کے دین میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کوئى مسئلہ نہیں ہے، وہ دین پر کوئی تنقید نہیں کرتے.
2-اب دوسری قسم کا انتہائی ردعمل دیکھئے:
یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے انتہائی نفرت کرتے ہیں. 3-ان دونوں کے درمیان میں بھی ایک گروپ ہے (جو سمجھوتے کی بات کرتے ہیں)
یہ دونوں سائیڈز پر ہیں،وہ کہتے ہیں کیوں نا ہم کچھ سمجھوتہ کرلیں، اسلام کو لے کر اتما سخت ہونے کی کیا ضرورت ہے بھلا. یہ 2016 ہیں. ہمیں ذرا وقت کے ساتھ چلنا چاہیے.
اس طرح کا ردعمل، کہ کوئی درمیانی حل نکال لیتے ہیں. یہ لوگ بنیادی منافقوں کی اتفاقی /ضمنی پیداوار ہيں.
اسلام کے ابتدائی دور کے منافقین بھی دونوں اطراف کو توازن کی حالت میں دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے.
جبکہ ہم تو *توازن اور دین* کا آپسی رشتہ پہلے سے ہی جانتے ہیں.
ہمارا دین ایک متوازن دین ہے.
یہاں ہم توازن کی کسی نئی قسم کا ذکر نہیں کر رہے. ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے دین کو الله تعالى نے نہائیت متوازن بنایا ہے.
ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ توازن کیا ہے؟ اسلام کیلئے یہ متوازن اپروچ (رسائی) کیا ہے؟ کیا یہ کوئی نیا قانون سامنے آگیا ہے؟ یا پھر یہ ان لوگوں کا خوف یا بزدلی ہے؟ کہ کم عمری میں اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر وہ دوسروں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع دیں گے. یہ لوگ اپنے حلقۂ احباب سے خوفزدہ ہیں . یہ تیسرے گروپ والے سب لوگوں سے بہترین معاشرتی تعلقات چاہتے ہیں. اپنا مطلب نکالنے کیلئے لوگوں کی خوشامد کرتے ہیں.
خدارا ایسے لوگ اپنی گھسی پٹی عزت نفس کا ملبہ اسلام پر نہ گرائیں.
درحقیقت جیسے ہم خود ہوتے ہیں، دین بھی ہمیں ویسا ہی دکھائی دیتا ہے. جب ہم دین کا مطالعہ کرتے ہیں تو گویا کہ ہم آئینہ دیکھ رہے ہیں . جس سوچ کے ساتھ ہم اس کی طرف بڑھتےہیں ، وہی ہماری طرف منعکس ہوتی ہے.
جن لوگوں کے بارے میں الله نے فرمایا ہے کہ
* فزادھم الله مرضا*
کیا ان کی سوچ /ان کی دین کی طرف رسائی متوازن ہے؟ ہر گز نہیں. تو پھر اللہ ان کی بیماری کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ الله ان کی بیماری میں اضافہ کرتا جاتا ہے.
یہ تیسری قسم کے لوگ کہتے ہیں: قرآن تو ٹھیک ہے مگر یہ حدیث ؟؟؟ نہیں، نہیں، میں نہیں جانتا یہ کیا ہے؟ یا پھر اس سے بڑھ کر، کہ قرآن کی کچھ سورتیں دور حاضر میں کچھ "بےمحل / بے ربط " سی ہو کر نہیں رہ گئیں ؟ کیا آپکو ایسا نہیں لگتا؟
پھر یہ لوگ ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ قرآن کیا ہے؟ اور مذاہب بھی تو ہیں، وہ بھی اچھے ہیں. پھر اور آگے نکل جاتے ہیں، کہ میں کسی مذہب پہ یقین نہیں رکھتا، میں نہیں مانتا کہ کوئی مذہب منظم ہو سکتا ہے؟
یا پھر وہ کسی حد تک ملحد بن جاتے ہیں کہ ہو سکتا ہے خدا ہو، ہو سکتا ہے کہ نہ ہو، مجھے اپنی جاب کی فکر کرنی ہے، روپیہ کمانا ہے.
سورت الانشقاق (آیت ۱۹)
* لٓتٓرْكٓبُن َّ طٓبٓقًا عٓنْ طٓبٓقْ *
"تم کو درجہ بہ درجہ ضرور چڑھنا ہے"
ان لوگوں کی بیماری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور وہ لوگ جو کبھی مسلمان ہوا کرتے تھے، وہ اب لوگوں کو اسلام کے خلاف بہکا رہے ہیں، ان کا کام ہی لوگوں کو بہکانا ہے.
*فِي قُلُوْبِهِم مٓرٓض فٓزٓادٓهُمُ اللهُ مٓرٓضٓا وٓلٓهُمْ عٓذٓابُُ آلِيْم بِمٓا كٓانُو يٓكْذِبُون *( سورت البقرہ آیت 10)
اور ان کو درد ناک عذاب دیا جائے گا. کیوں؟
ان کے جھوٹ کی وجہ سے، وہ جھوٹ جو یہ لوگ مسلسل بولتے رہے ہیں. یہاں ماضی استمراری استعمال ہوا ہے. یعنی ماضی میں مسلسل ہونے والا کام. اس کے استعمال کی کیا توجیہہ ہے؟
ہاں اب ذرا ان کے اعمال کا جائزہ لے لیں: وہ (منافق) جب رسول الله کے پاس آتے تھے، تو کہتے تھے ہم آپ لے وفادار ہیں. ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے، ہم مسلمان ہو چکے ہیں، آپ کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں وغیرہ، یعنی وہ اپنی وفاداری کا یقین دلاتے تھے.
جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر آپ کسی کی بات پر ایمان نہیں لاتے، اس کا یقین نہیں کرتے، تو سامنے آکر واضح طور پر کہہ دیں کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں. اس معاملے کو صاف شفاف رکھنا چاہئے.لیکن نہیں، ان لوگوں نے دونوں طرف ٹانگیں پھنسائی ہوئی تھیں. ان کے دونوں طرف تعلقات تھے.تاکہ جب مسلمانوں کو فتح ملے تو وہ بھی اس فتح کا حصہ ہوں. اور اگر کچھ مسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے تو انہوں نے اپنا بیک اپ پلان تیار رکھا تھا.
پس وہ جھوٹ/ افترا کے ساتھ بات کو بڑھاتے ہیں، اسی وجہ سے قرآن میں " بما كانو یکذبون " آیا ہے اور ساتھ میں لفظ" الیم " جو عظیم کے جیسا ہے، فعیل کے وزن پر ہے. "عذاب عظیم" بہت بڑا عذاب، بہت زیادہ اذیت موت تک لے جاتی ہے. مثلًا کسی شخص کو اگر کوڑے مارے جائیں، یا جلا دیا جائے، یا بجلی کے جھٹکے لگائے جائیں، تو کیا ہوگا؟؟؟؟
اگر آپ بجلی کا وولٹیج بڑھا دیں گے تو وہ شخص مر جائے گا، یعنی انسان "عذاب عظیم" کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہے، اس میں اس کی برداشت نہیں ہے، جبکہ الله ان کو بہت بڑا عذاب دے رہا ہے، * درد کا عذاب* جس میں مرنے کی بھی اجازت نہیں. اس دنیا میں یہ ممکن نہیں ہے. اگر آپ سزا کو بہت زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں گے، تو کیا ہوگا؟ مجرم کی موت واقع ہو جائے گی. یعنی آپکا مجرم تو اس دنیا سے ہی چلا گیا. اب آپ اس کو مزید اذیت نہیں دے سکتے. اب ذرا اس شخص کی صورت حال دیکھئے، جس کو اذیت دی جا رہی ہے، جب تک وہ اپنے حواسوں میں ہے، وہ درد محسوس کرتا رہتا ہے.
الله عزوجل لفظ استعمال کر رہے ہیں " عذاب الیم" یہ بظاہر متوقع لفظ نہیں ہے، کیونکہ یہ عام عربی میں مستعمل نہیں ہے. یہاں ہونا چاہئے تھا "عذاب مؤلم " دردناک عذاب.
"الیم " اسم صفت ہے مسلسل دردناک عذاب / سزا.
درد والی کیفیات کو ذہن میں لائیں، مثلًا آپ کے دانت میں درد ہو، گلا خراب ہو، پٹھوں میں اکڑن ہو یا ایسا ہی کوئی اور درد، جب آپکو پہلی بار درد محسوس ہوتا ہے تو آپ اپنے آپ کو مفلوج محسوس کرتے ہیں، لیکن جب اسی کیفیت کے ساتھ دو تین گھنٹے گزر جاتے ہیں تب کیا محسوسات ہیں؟ اب اس کی چبھن تو ہے، مگر اس کی شدت ویسی محسوس نہیں ہوتی جیسی ابتدا میں تھی. آپ کے اندر اس کی برداشت پیدا ہوتی جا رہی ہے. کچھ لوگ جو درد کا علاج کروا رہے ہوتے ہیں ان کی دوائیں اس درد کے احساس کو کم سے کم کرتی جاتی ہیں.دراصل ان کے سہنے کی حد بڑھتی جاتی ہے، یعنی درد کی شدت ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی، جب آپکو پہلی دفعہ کلائی میں انجکشن کی سوئی چبھوئی جاتی ہے، تو درد ہوتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ بار بار وہ عمل دوہرانے سے درد کا احساس ختم ہو جاتا ہے. اب عربی لفظ *الیم* کو سمجھئے،اس کا مطلب ہے مسلسل درد کی کیفیت، نہ کمی نہ بیشی، مسلسل متواتر. یہ درد ختم نہ ہوگی نا کم ہوگی.
آیئے قرآن کا اصول دیکھتے ہیں :
* الجزاء من جنس العمل * سزا عمل کے مطابق ہونی چاہیے
اگر کوئی شخص کسی کیلئے مسلسل تکلیف کا باعث بنا ہے، تو اسے اسی طرح کی سزا، مسلسل تکلیف دہ سزا ملے گی. اگر کسی نے بہت بڑا جرم کیا ہے، تو اس کی سزا بھی بہت بڑی سنائی جائے گی، آپ اس کو سمجھ رہے ہیں ناں ؟
جب الله تعالى کہتے ہیں: درد ناک سزا!!! اب اصولی طور پر سزا جرم کے مطابق ہے تو یہاں جرم کی نوعیت کیا ہے؟ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ "منافق لوگ " مسلمانوں کیلئے مسلسل تکلیف کا باعث تھے. یہ وہ گروپ ہے جو امت کیلئے پریشانیوں کا باعث تھا. امت مسلمہ پر بیرونی دشمن (غیر مسلم ) بھی حملہ آور ہوتے تھے، دین کا مذاق بناتے تھے، استہزاء اڑاتے تھے، دین پر نازیبا حملے کرتے تھے، لیکن ان سب سے بڑھ کر بھی کچھ تکلیف دہ تھا،وہ بھلا کیا؟ وہ یہ کہ ایسے حملے مسلمانوں کے اندر سے بھی ہو رہے تھے. یہ زیادہ دل آزاری والی صورت حال تھی. جب مسلمان دوسرے مسلمان کا خون بہائے. جب مسلمان دوسرے مسلمان کی عزت اور وقار کو ملحوظِ خاطر نہ رکھے. جب ایک مسلم دوسرے پر حملہ آور ہو، تو یہ بات بہت پریشان کن ہے، جب غیر مسلم اقوام مسلم قوم پر حملہ آور ہوں،ن تو بات سمجھ میں آتی ہے.لیکن جس وقت مسلم ہی ایک دوسرےسے لڑ رہے ہوں، قتل کر رہے ہوں؟ جب مسلمان ہی ایک دوسرے کو کچل رہے ہوں تو؟؟؟
تو یہی وہ درد ہے جو بہت عرصہ تک رہنے والا ہے، دائمی ہے، اور برداشت سے بڑھ کر ہے، کیونکہ کافرکی طرف سے نفرت تو متوقع ہے، لیکن وہ لوگ جو آپ سے *کلمہ طیبہ* کے ذریعے منسلک ہیں، اگر وہ آپ سے نفرت کریں، آپ کے قتل کی سازشیں کریں، تو یہ سب کچھ خاصا اہانت آمیز ہے. آپ کے اپنے اندر کے لوگ اگر منصوبہ سازی میں ملوث پائے جائیں، تو یہ آپ کیلئے نہ صرف غیر متوقع ہے، بلکہ غیر معمولی تکلیف کا باعث بھی ہے. الله عزوجل کی اس دین کے پیروکاروں سے محبت بہت مضبوط ہے. اس لئے الله عزوجل، مسلم امہ کیلئے باعث اذیت لوگوں سے خود ہی بدلہ لے لے گا.
* وٓاِذٓا قِيْلٓ لٓهُمْ لٓا تُفْسِدُو فِي الْآرْض قٓالُو اِنَّمٓا نٓحْنُ مُصْلِحُون* (سورت البقره آیت 11)
ان سے کہا جا رہا ہے کہ زمین میں خرابی نہ کرو، بد عنوانی نہ کرو، فساد نہ پھیلاؤ. انھوں نے کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں، ہم تو معاملات کو درست کر رہے ہیں.
عربی زبان میں "اصلاح " کا مطلب کسی چیز خراب یا ٹوٹی شے کو درست کرنا اور دوبارہ سے جوڑنا ہے. وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو محض خرابیوں کو دور کر رہے ہیں. مثلًا آپ کسی جگھڑے کے دونوں فریقوں کی بات سن رہے ہوں، تو آپ کہتے ہیں کہ میں تو معاملات کو سدھار رہا ہوں تا کہ امن قائم کیا جا سکے اور تعلقات کی ازسرنوع تجدید ہو سکے.
الله تعالى فرماتے ہیں:
* آلٓا اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونٓ وٓلٓا كِنْ لٓا يٓشْعُرُوْن*( سورت البقره 12 )
خبردار! یہی لوگ ہی تمام خرابیوں کے ذمے دار ہیں، یہی لوگ تمام خرابیوں کے موجب ہیں.
حالانکہ نہیں وه اس کا شعور رکھتے اور وه مسلسل انکار کئے جا رہے ہیں انہیں کبھی اس بات کا احساس نہ ہوگا.
یہاں ہمیں لفظ "فساد" کو سمجھنا ضروری ہے. فساد ایسی چیز ہے جو ظاہر ہوتی ہے اور دنیا میں پھیل جاتی ہے
الله عزوجل سورت الروم (آیت نمبر 41) میں فرماتے ہیں:
* ظٓهٓرٓالْفٓسٓادُ فِي الْبٓرِّ وٓ الْبٓحٓرِ بٓمٓا كٓسٓبٓتْ آيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقٓهُم بٓعْضٓ الَّذِي عٓمِلُوا لٓعٓلَّهُم يٓرجِعُون*
"ترجمہ: ظاہر ہوگیا فساد خشکی میں اور تری میں، بوجہ اس کے جو کمایا ان لوگوں کے ہاتھوں نے، تاکہ وہ ان کے بعض اعمال کا مزا انھیں چکھائے، شاید کہ وہ باز آجائیں."
الله عزوجل فرماتے ہیں کہ فساد ( کرپشن ) باہر ظاهر هوتا ہے، زمین پر، سمندر پر، کیونکہ اسے لوگ اپنے ہاتھوں سے سرانجام دے رہے ہیں.
زمین اور سمندر میں فساد سے کیا مراد ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟
جب زمین مزید پیداوار روک دے، جب مزيد فصلیں اگنا بند ہو جائیں، جب سمندر آلودہ ہو جائیں اور وہ متوقع رزق مہیا کرنا بند کر دیں. تو یہ زمین اور سمندر کا فساد ہے.
الله تعالٰى اس جگہ ہماری روحانی کرپشن کا ذکر کر رہے ہیں. لوگ اپنے کاروبار میں کرپشن کرتے ہیں، ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں، حرام رزق کو اپنا نوالہ بناتے ہیں، ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں، ایکدوسرے کا مال ہتھیا لیتے ہیں، یہ سب عوامل جرائم ہی شمار ہوتے ہیں، الله تعالى ان لوگوں کو براہ راست سزا نہیں دیتے، بلکہ ان کے یہی جرائم زمین پر منعکس ہوتے ہیں نتیجتًا زمین بیمار پڑ جاتی ہے.
یہ ہمارے دین کا اصول ہے کہ جب معاشرے کے لوگ الله تعالى پر یقین رکھتے ہیں اور وہ الله تعالى کی فرمانبرداری کرتے ہیں، تو زمین کی پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ فصلیں اگانا شروع کردیتی ہے، تب بارشیں بھی رحمت والی ہوتی ہیں، اُن سے سیلاب نہیں آتے...
سورت المائدہ (آیت 66) میں االله تعالى فرماتے ہیں:
* وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مٓا يٓعْمٓلُون *
*اور اگر وہ قائم کرتے تورات اور انجیل کو اور جو کچھ نازل کیا گیا تھا ان پر ان کے رب کی طرف سے تو رزق ملتا ان کو ان کے اوپر سے اور ان کے پیروں کے نیچے سے.*
جب حضرت عیسیٰ ( عليه سلام) دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے تب تمام لوگ الله کے فرما نبردار ہوں گے، یہاں تک کہ شیر شکار کو کھانا بند کر دیں گے، فصلوں کی پیداوار بڑھ جائے گی، ہر طرف رزق کی فراوانی ہوگی، ذرا سوچیں: کہ جب زمین پر کرپشن ختم ہو جائے گی تب کیا ہوگا؟ زمین پر اچھائی پھیلتی چلی جائے گی،
آپ کرپشن کو دوسرے لفظوں میں آلودگی بھی کہہ سکتے ہیں، یعنی فزیکل پلوشن، کیمیکل پلوشن جو سمندروں کو آلودہ کرتی ہے، اور پلاسٹک کا کچرا جو زمین كو آلودہ کر رہا ہے، زہر آلود کر رہا ہے. یہ بھی کرپشن کی ایک حقیقی قسم ہے. الله عزوجل نے روحانی حقائق اور جسمانی حقائق کے درمیان ایک براہِ راست تعلق رکھا ہے. جب روحانی حقائق معاشرے میں نمایاں ہوتے ہیں. تب ہر قسم کی اچھائی دنیا میں پھیلتی چلی جاتی ہے. سبحان الله!!! تب یہ دنیا ان اچھائیوں کی وجہ سے ایک بہترین جگہ بن جاتی ہے.
یہی ہمارے دین کے اصول ہیں. يہ وہ پہلی بات تھی جو میں فساد کے بارے میں آپکو بتانا چاہتا تھا.
لیکن ہم فساد کو ایک اور طرح سے بھی واضح کر سکتے ہیں.
-نعمان علی خان
جاری ہے
اور جو بہانے انہوں نے بنائے، ان میں سے کچھ تو انتہائی مضحکہ خیز تھے. جیسے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر. یہ ایک انتہائی سخت مرحلہ تھا. تو منافقین کا رویہ کیا تھا. قرآن ہمیں بتاتا ہے، وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُواْ
ان میں سے کوئی ہے جو آ کر کہتا ہے کہ مجھے اجازت دیں، مجھے فتنہ میں مت ڈالیں.
اوہ آپ سلطنت روم سے جنگ لڑنے جا رہے ہیں؟ جانتے ہیں راستے میں ہم جن دیہات سے گزریں گے ان میں نہایت خوبصورت خواتین پائی جاتی ہیں. میں تو ان کا حسن برداشت نہیں کر پاؤں گا. اور میں فتنہ میں مبتلا ہو جاؤں گا. تو مجھے اپنے سپاہیوں میں شامل مت کیجیے. ان عورتوں کی بھی اس میں بھلائی ہے، وہ مجھے دیکھ کر بہک نہ جائیں. تو مجھے جہاد سے رخصت دیجیے. رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بھائی تم رک ہی جاؤ. کیونکہ جس طرح کے بہانے آپ بنا رہے ہو تو آپ سپاہیوں کے تو کسی کام کے نہیں بلکہ الٹا ان پر بوجھ ہی بنو گے. آپ تو ایک ذرا سی خراش پر آسمان اٹھا لو گے سر پہ.
تو اللہ تعالٰی نے آگے فرمایا وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُواْ وہ جو جنگ سے رخصت مانگنے آئے، کیا وہ پہلے ہی فتنہ میں مبتلا نہیں ہو گئے تھے؟
وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ
وہ کسی ایک شخص کو بھی دھوکہ نہیں دیتے سوائے خود کے. دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے کہا گیا
يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا
اور آگے کہا گیا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ
پہلے " يُخَادِعُون " کا لفظ استعمال ہوا اور بالکل آگے ہی کہا گیا "يَخْدَعُون". اب عربی گرامر کے طلباء کے لیے یہ آسان ہے کہ " يُخَادِعُون " یہ " خَادِع " سے نکلا ہے اور اگر آپ کسی کو دھوکہ دینے کی پوری کوشش کریں تو کہا جاتا ہے خَادِع.
اور اگر آپ کسی کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائیں تو کہا جائے گا " َخْدَع" جس سے نکلا ہے "يَخْدَعُون". تو جب اس آیت کے آخر میں کہا گیا کہ وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ یعنی وہ "کامیاب" ہو گئے دھوکہ دینے میں مگر کسی کو نہیں سوائے خود کے . وہ بس خود کو ہی دھوکہ دینے میں کامیاب ہوئے.
وما یشعرون
اور وہ ذرا بھی سمجھ نہیں رکھتے.
کچھ علمائے کرام یہاں بحث کرتے ہیں کہ یہاں "ما" کا لفظ بفد ہے. کہ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں. لیکن دوسری طرف" ما " کا لفظ" لا" سے زیادہ قوی نہیں ہے. یہ عربی گرامر کے طلباء کے لیے سمجھنا آسان ہے.
تو ان کو اندازہ ہی نہیں اس وقت کہ وہ کیا کر رہے ہیں وہ کس کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں؟ آگے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُـمُ اللّـٰهُ مَرَضًا ۖ
ان کے دلوں میں مرض تھا.
کیونکہ جب آپ کہتے ہیں وما یشعرون، ان کو کچھ اندازہ ہی نہیں، انہیں کوئی احساس نہیں، انہیں کچھ سمجھ نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں. تو یہ سب شعور کے لغوی معنی ہیں. کسی چیز کو محسوس کرنا، کسی چیز کا احساس کرنا. اور ہمارے شعور میں حیا، خوف، پشیمانی یہ تمام احساسات شامل ہیں. اور یہ سب احساسات کہاں پائے جاتے ہیں؟ دل میں. تو جب اللہ تعالٰی کہتے ہیں کہ انہیں کوئی احساس نہیں تو فوراً سوال اٹھتا ہے کہ ان کو احساس کیوں نہیں؟ ان کو اندازہ کیوں نہیں؟ کیا ان کے دل نہیں ہیں.؟ فوراً اگلی ہی آیت میں جواب ملتا ہے فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَضٌ ان کے دلوں میں مرض ہے.
مثلاً بعض لوگ ایسے مرض کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کی جلد کچھ بھی محسوس نہیں کر پاتی. یا جب آپ دانتوں کی روٹ کینل ٹریٹمنٹ کرواتے ہیں تو وہ دانت سُن ہو جاتا ہے. ٹھنڈا، گرم کچھ محسوس نہیں ہوتا. کچھ لوگوں کی جب سرجری ہوتی ہے تو ان کا صرف نچلا دھڑ سن کر دیا جاتا ہے. اب وہاں چیرا لگائیں یا ٹانکے لگائے جائیں انہیں کچھ درد محسوس نہیں ہوتا. یہ ہے "و ما یشعرون ". اللہ تعالٰی نھ فرمایا فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَضٌ ان کے دلوں میں مرض ہے. پہلا مرض یہی ہے جو انہیں احساس ہی نہیں ہونے دیتا . دوسرے علماء کرام اختلاف کرتے ہیں کہ اگر آیات کا تسلسل دیکھا ْتو پہلا مرض جس کی آیات میں نشاندہی کی گئی ہے وہ ہے" ریب ". ذالك الکتاب لا ریب فيه ، جو مرض انہیں لاحق ہے وہ ان کے شکوک و شبہات ہیں . وہ اسلام کے دین حق ہونے میں پر یقین نہیں ہیں. یہ وہ مرض ہے جسے انہوں نے اپنے اندر پھلنے پھولنے دیا.
اس آیت کی ایک اور خوبصورت بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے یہ نہیں فرمایا کہ "فی صدورھم مرض" (ان کے سینوں میں مرض ہے) اللہ تعالٰی نے فرمایا، "فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَض" . اب " صدور" اور "قلوب" میں نہایت فرق ہے. آپ میں سے تقریباً سب ہی سورۃ الناس کے حافظ ہیں." الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ". ہم یہ نہیں کہتے الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي قلوب النَّاسِ، اگر کہا جاتا قلوب الناس تو ہم ترجمہ یوں کرتے کہ وہ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے. لیکن اللہ تعالٰی نے کہا وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے. قلب اور سینہ میں فرق ہے، سینہ ایک صندوق کی مانند ہے اور اس صندوق میں جو خزانہ ہے وہ دل ہے. شیطان کی رسائی آپ کے دل تک نہیں ہے. شیطان کی پہنچ آپ کے سینے تک ہے. آپ فرض کریں کہ دل آپ کا گھر ہے. اور سینہ گھر کے باہر کی چار دیواری، جس میں کارپورچ اور لان وغیرہ شامل ہے. شیطان کی رسائی باہر تک ہے مگر وہ گھر کے اندر تب تک داخل نہیں ہو سکتا جب تک آپ گھر کا دروازہ نہ کھول دیں. آپ کا دل محفوظ ہے جب تک آپ شیطان کو اس میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں. لیکن وہ آئے گا ضرور دروازہ کھٹکھٹانے، سنو! سنو تو! میرے پاس تمہارے لیے کچھ ہے، تمہیں ایک مزے کی بات بتاؤں... ہمارا کام ہے کہ ہم خبردار ہو جائیں جب بھی شیطان ہمارے دروازے پر دستک دے، ہمارے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرے . کیونکہ وہ نہایت قریب ہے. اس کی ہمارے سینوں تک رسائی ہے. وہ وسوڈالے گا سینوں میں . اور جب کوئی باہر سے دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو تو کیا آواز اندر تک نہیں جاتی؟ بالکل جاتی ہے. بعض اوقت جب کوئی در کھٹکھٹائے تو ہم اسے بھگا دیتے ہیں. لیکن کبھی ہم دروازا کھول بیٹھتے ہیں اور اگر آپ بار بار اس کے لیے دروازہ کھول دیں تو وہ اندر براجمان ہو جاتا ہے. . اور جب کوئی باہر کا بندہ اندر آ کر رہنے لگ جائے تو وہ اپنے حساب سے سجاوٹ شروع کر دیتا ہے. سمجھے آپ؟ آپ کے اپنے احساسات ہوتے ہیں کہ کیا اچھا ہے، کیا برا ہے کون سا رنگ اچھا ہے. کس طرح کا ساز و سامان چاہیے آپ کو گھر میں. لیکن جب آپ اس باہر کے بندے کو اندر داخل کر لیں تو ایک دن آپ دیکھتے ہیں کہ دیوار کا رنگ گلابی ہو گیا ہے، فرنیچر سارا سبز ہے اور برتن جامنی رنگ کے، آپ کہتے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے یہاں ؟ شیطان کہتا ہے "بس یہ میری پسند ہے".وہ کچن کو بیڈروم اور باتھ روم کو گیسٹ روم بنا چکا ہے اور آپ کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا ہو گیا ہے؟
میں یہ سب آپ کو کیوں سمجھا رہا ہوں کیونکہ جب آپ شیطان کو اپنے گھر داخل ہونے دیں تو جو چیز کبھی آپ کو خوبصورت لگتی تھی، وہ اب بدصورت لگنے لگتی ہے. اور جو آپ کو برا لگتا تھا وہ اسے خوبصورت لگنے لگتا ہے. اسی لیے اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا کہ و زین لھم الشیطان اعمالھم، شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے ہیں. شیطان آپ کے لیے کچھ بھی خوبصورت یا بدصورت نہیں بنا سکتا جب تک وہ آپ کے گھر کے اندر داخل نہ ہو جائے.
الله عزوجل سورت النمل( آیت 24) میں فرماتے ہیں :
* وٓزٓيَّنٓ لٓهُمُ الشّٓيْطٰنٓ اعْمٓالٓهُم *
"ترجمہ : اور سجا کر دکھائے ہیں انھیں، شیطان نے ان کے اعمال "
شیطان ان کیلئے ان کے ہر طرح کےاعمال خوبصورت بنا کے دکھاتا ہے.
لیکن یاد رکھئے کہ شیطان اس وقت تک ایسا نہیں کر سکتا جب تک وہ آپ کے دل تک نہیں پہنچ جاتا. آپ نے شیطان کو اپنے دل میں داخلے کی اجازت ہی نہیں دینی. جب تک آپ کے دل میں شیطان داخل نہیں ہوجاتا، تب تک آپ کے دل میں کیا ہے؟
یقینی طور پر ایمان.
الله فرماتے ہیں (سورت الحجرات آیت 7 )
*وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ *
*اللہ نے ایمان کو آپ کے لیے زینت بنادیا ہے*
کیا آپ کے ذہن میں اس صورت حال کا کوئی خاکہ بنتا ہے؟
کیونکہ الله عزوجل تو کہہ رہے ہیں کہ
* فِي قُلُوْبِهِم مٓرٓض*
" ان کے دلوں میں بیماری ہے."
یعنی یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو سینے تک محدود نہیں ہے، بلکہ دل کے اندر ہے. اس بیماری نے دل کے اندر کا راستہ پا لیا ہے. اگر کوئی حملہ آور آپ کے گھر میں گھس آئے تو سوچئے کہ آپ کیا کریں گے؟ جیسے ہی آپکو یہ ادراک ہو گا کہ اس کا ارادہ بُرا ہے آپ اُس کو گھر سے نکال دیں گے.
لیکن عمومی طور پر کیا ہوتا ہے؟ آپ شیطان کی سنتے ہیں اور اس کیلئے دروازہ کھول دیتے ہیں. عین اس لمحے میں اگر آپکو احساس ہوجائے تو آپ کو فوری *آعُوْ ذُبِالله مِنٓ الشّٓيْطٰنِ الرّٓجِيْم * پڑھنا چاہیے، اس طرح آپ اس کو پیچھے دھکیل دیں گے،الله كو آپ سے یہی مطلوب ہے.
لیکن اگر آپ اس کو اندر آنے دیں گے، رہنے کی اجازت دیں گے، اس کو اپنی کھچڑی پکانے دیں گے، اس کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے دیں گے، تو پھر نتیجہ کیا ہو گا؟ آپ بیمار پڑتے جائیں گے، اس کا تعلق اگلی آیات سے جڑتا ہے.
* وٓاِذٓاخٓلٓوْ اِلٰى شٓيٰطِيْنِهِم *
"اور جب وہ اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں "
بات یہ ہے کہ الله نے ہر نوع بشر کو طاقت دی ہے.
"الله نے شیطان کے منہ پر کہا تھا کہ جو میرے غلام ہیں اُن پر تمہیں کوئی حق نہ ہو گا"
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ﴾. ( سورة الحجر الآية:42
ترجمہ: "بے شک وہ جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کوئی اختیار نہیں، مگر جس نے تیری پیروی کی وہ گمراہوں میں سے ہے"
وہ آپ انسانوں کے دل میں زبردستی نہیں گھستا اور نہ ہی وہ اندر رہنے پر اصرار کرتا ہے.
جس لمحہ بھی آپ اُس کو کہتے ہیں کہ نکل جاؤ....!!! تو وہ نکل جاتا ہے. لیکن اگر آپ اسے اندر آنے دیتے ہیں، رہنے دیتے ہیں، اس کا مطلب ہے آپ نے خود ہی اسے باہر نہیں دھکیلا.
آپ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا ہو کر ہی اسے اپنے اندر سے نکال سکتے ہیں، محض *اعوذبالله * پڑھ لیں *استغفار * پڑھ لیں لیکن یہ کرنا پڑے گا، مگر آپ تو ایسا کرنے سے انکاری ہیں ناں.
جب آپ ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں، تو اللہ کہتے ہیں: ٹھیک ہے اپنے راستے پر چلتے رہو، میں تمہیں کھلی چھوٹ دیتا ہوں، جو کرنا ہے کر لو.
* فٓزٓادٓهُمُ الله مٓرٓضٓا*
الله ان کو بڑھا دیتے ہیں ان کی سرکشی میں، ان کی بیماری میں اضافہ کردیتے ہیں.
اگر آپ شیطان کو سننا پسند کرتے ہیں تو سنتے رہیں، پھر آپ اسی میں آگے بڑھتے رہیں گے،
اس طرح آپ شیطان کو اپنے دل کے اندر نقصان پہنچانے کی خود ہی اجازت دے رہے ہیں
اب ذرا ملاحظہ کریں! رمضان کے مہینے میں ویسے تو شیطان جکڑا ہوا ہوتا ہے. لیکن آپ کے دل میں اس نے برائیوں کو خوب آراستہ کیا ہوا ہے، اس لیے آپ ان غلط رستوں پر ایسے ہی چلتے ہیں، گویا کہ وہ ابھی بھی آپ کے اندر ہے. اس وقت شیطان نہیں ہے، مگر اس کے سیکھائے ہوئے سارے کام آپ خود بخود کر رہے ہیں.
سورت الانعام (آیت 112) میں الله رب العزت فرماتے ہیں:
*شٓيْطٰنٓ الاِ نْسٓ وٓ الْجِن*
شیطان اور بھوت پریت ، انسانوں اور جنوں دونوں میں سے ہوتے ہیں.
بھوت،عفریت اور دیو، "جن " تو بلاشبہ ہیں ہی، لیکن یہ "انسانوں" میں سے کیسے ہو سکتے ہیں؟ دیکھئے جب انسان ان کو اپنے اندر آنے کی اجازت دیتا ہے اور پھر ایک لمبے عرصے کیلئے اسے اپنے اندر قیام کا موقع بھی فراہم کر دیتا ہے، تو "میزبان انسان" تبدیل ہو جاتا ہےاور وہ شیطان اور عفریت بن جاتا ہے.
سبحان الله ! الله تعالى منافقون کیلئے کہہ رہے ہیں کہ ان کے دلوں میں گہری (پرانی )بیماری ہے. یہ بزدلی کی شکل میں ہے. وہ لوگ بزدل تھے، اس مذہب کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہ پاتے تھے،
دور حاضر میں بھی اسلام کے خلاف تین طرح کے ردعمل نظر آتے ہیں:
1- ایک ردعمل تو ان لوگوں کا ہے جو * لٓا اِلٰهٓ اِلّٓا الله مُحٓمّٓدُالرّٓسُوْلُ الله *
پورے دل سے پڑھتے ہیں. وہ مسلمان ہونے پر فخر اور عزت محسوس کرتے ہیں. اور وہ الله اور رسول الله کی بات سے بڑھ کر کسی بات کو نہیں سمجھتے. ان کی فرمانبرداری اعلٰى ترین درجے پر ہے. ان کی ہدایت کسی بھی تنقید سے بالا تر ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی غلطی ہو جائے تو وہ کہتے ہیں کہ غلطی ہمارے اپنے اندر ہی ہے، برائی ہماری اپنی کمائی ہوئی ہی ہے، اللہ کے دین میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کوئى مسئلہ نہیں ہے، وہ دین پر کوئی تنقید نہیں کرتے.
2-اب دوسری قسم کا انتہائی ردعمل دیکھئے:
یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے انتہائی نفرت کرتے ہیں. 3-ان دونوں کے درمیان میں بھی ایک گروپ ہے (جو سمجھوتے کی بات کرتے ہیں)
یہ دونوں سائیڈز پر ہیں،وہ کہتے ہیں کیوں نا ہم کچھ سمجھوتہ کرلیں، اسلام کو لے کر اتما سخت ہونے کی کیا ضرورت ہے بھلا. یہ 2016 ہیں. ہمیں ذرا وقت کے ساتھ چلنا چاہیے.
اس طرح کا ردعمل، کہ کوئی درمیانی حل نکال لیتے ہیں. یہ لوگ بنیادی منافقوں کی اتفاقی /ضمنی پیداوار ہيں.
اسلام کے ابتدائی دور کے منافقین بھی دونوں اطراف کو توازن کی حالت میں دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے.
جبکہ ہم تو *توازن اور دین* کا آپسی رشتہ پہلے سے ہی جانتے ہیں.
ہمارا دین ایک متوازن دین ہے.
یہاں ہم توازن کی کسی نئی قسم کا ذکر نہیں کر رہے. ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے دین کو الله تعالى نے نہائیت متوازن بنایا ہے.
ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ توازن کیا ہے؟ اسلام کیلئے یہ متوازن اپروچ (رسائی) کیا ہے؟ کیا یہ کوئی نیا قانون سامنے آگیا ہے؟ یا پھر یہ ان لوگوں کا خوف یا بزدلی ہے؟ کہ کم عمری میں اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر وہ دوسروں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع دیں گے. یہ لوگ اپنے حلقۂ احباب سے خوفزدہ ہیں . یہ تیسرے گروپ والے سب لوگوں سے بہترین معاشرتی تعلقات چاہتے ہیں. اپنا مطلب نکالنے کیلئے لوگوں کی خوشامد کرتے ہیں.
خدارا ایسے لوگ اپنی گھسی پٹی عزت نفس کا ملبہ اسلام پر نہ گرائیں.
درحقیقت جیسے ہم خود ہوتے ہیں، دین بھی ہمیں ویسا ہی دکھائی دیتا ہے. جب ہم دین کا مطالعہ کرتے ہیں تو گویا کہ ہم آئینہ دیکھ رہے ہیں . جس سوچ کے ساتھ ہم اس کی طرف بڑھتےہیں ، وہی ہماری طرف منعکس ہوتی ہے.
جن لوگوں کے بارے میں الله نے فرمایا ہے کہ
* فزادھم الله مرضا*
کیا ان کی سوچ /ان کی دین کی طرف رسائی متوازن ہے؟ ہر گز نہیں. تو پھر اللہ ان کی بیماری کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ الله ان کی بیماری میں اضافہ کرتا جاتا ہے.
یہ تیسری قسم کے لوگ کہتے ہیں: قرآن تو ٹھیک ہے مگر یہ حدیث ؟؟؟ نہیں، نہیں، میں نہیں جانتا یہ کیا ہے؟ یا پھر اس سے بڑھ کر، کہ قرآن کی کچھ سورتیں دور حاضر میں کچھ "بےمحل / بے ربط " سی ہو کر نہیں رہ گئیں ؟ کیا آپکو ایسا نہیں لگتا؟
پھر یہ لوگ ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ قرآن کیا ہے؟ اور مذاہب بھی تو ہیں، وہ بھی اچھے ہیں. پھر اور آگے نکل جاتے ہیں، کہ میں کسی مذہب پہ یقین نہیں رکھتا، میں نہیں مانتا کہ کوئی مذہب منظم ہو سکتا ہے؟
یا پھر وہ کسی حد تک ملحد بن جاتے ہیں کہ ہو سکتا ہے خدا ہو، ہو سکتا ہے کہ نہ ہو، مجھے اپنی جاب کی فکر کرنی ہے، روپیہ کمانا ہے.
سورت الانشقاق (آیت ۱۹)
* لٓتٓرْكٓبُن َّ طٓبٓقًا عٓنْ طٓبٓقْ *
"تم کو درجہ بہ درجہ ضرور چڑھنا ہے"
ان لوگوں کی بیماری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور وہ لوگ جو کبھی مسلمان ہوا کرتے تھے، وہ اب لوگوں کو اسلام کے خلاف بہکا رہے ہیں، ان کا کام ہی لوگوں کو بہکانا ہے.
*فِي قُلُوْبِهِم مٓرٓض فٓزٓادٓهُمُ اللهُ مٓرٓضٓا وٓلٓهُمْ عٓذٓابُُ آلِيْم بِمٓا كٓانُو يٓكْذِبُون *( سورت البقرہ آیت 10)
اور ان کو درد ناک عذاب دیا جائے گا. کیوں؟
ان کے جھوٹ کی وجہ سے، وہ جھوٹ جو یہ لوگ مسلسل بولتے رہے ہیں. یہاں ماضی استمراری استعمال ہوا ہے. یعنی ماضی میں مسلسل ہونے والا کام. اس کے استعمال کی کیا توجیہہ ہے؟
ہاں اب ذرا ان کے اعمال کا جائزہ لے لیں: وہ (منافق) جب رسول الله کے پاس آتے تھے، تو کہتے تھے ہم آپ لے وفادار ہیں. ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے، ہم مسلمان ہو چکے ہیں، آپ کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں وغیرہ، یعنی وہ اپنی وفاداری کا یقین دلاتے تھے.
جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر آپ کسی کی بات پر ایمان نہیں لاتے، اس کا یقین نہیں کرتے، تو سامنے آکر واضح طور پر کہہ دیں کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں. اس معاملے کو صاف شفاف رکھنا چاہئے.لیکن نہیں، ان لوگوں نے دونوں طرف ٹانگیں پھنسائی ہوئی تھیں. ان کے دونوں طرف تعلقات تھے.تاکہ جب مسلمانوں کو فتح ملے تو وہ بھی اس فتح کا حصہ ہوں. اور اگر کچھ مسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے تو انہوں نے اپنا بیک اپ پلان تیار رکھا تھا.
پس وہ جھوٹ/ افترا کے ساتھ بات کو بڑھاتے ہیں، اسی وجہ سے قرآن میں " بما كانو یکذبون " آیا ہے اور ساتھ میں لفظ" الیم " جو عظیم کے جیسا ہے، فعیل کے وزن پر ہے. "عذاب عظیم" بہت بڑا عذاب، بہت زیادہ اذیت موت تک لے جاتی ہے. مثلًا کسی شخص کو اگر کوڑے مارے جائیں، یا جلا دیا جائے، یا بجلی کے جھٹکے لگائے جائیں، تو کیا ہوگا؟؟؟؟
اگر آپ بجلی کا وولٹیج بڑھا دیں گے تو وہ شخص مر جائے گا، یعنی انسان "عذاب عظیم" کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہے، اس میں اس کی برداشت نہیں ہے، جبکہ الله ان کو بہت بڑا عذاب دے رہا ہے، * درد کا عذاب* جس میں مرنے کی بھی اجازت نہیں. اس دنیا میں یہ ممکن نہیں ہے. اگر آپ سزا کو بہت زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں گے، تو کیا ہوگا؟ مجرم کی موت واقع ہو جائے گی. یعنی آپکا مجرم تو اس دنیا سے ہی چلا گیا. اب آپ اس کو مزید اذیت نہیں دے سکتے. اب ذرا اس شخص کی صورت حال دیکھئے، جس کو اذیت دی جا رہی ہے، جب تک وہ اپنے حواسوں میں ہے، وہ درد محسوس کرتا رہتا ہے.
الله عزوجل لفظ استعمال کر رہے ہیں " عذاب الیم" یہ بظاہر متوقع لفظ نہیں ہے، کیونکہ یہ عام عربی میں مستعمل نہیں ہے. یہاں ہونا چاہئے تھا "عذاب مؤلم " دردناک عذاب.
"الیم " اسم صفت ہے مسلسل دردناک عذاب / سزا.
درد والی کیفیات کو ذہن میں لائیں، مثلًا آپ کے دانت میں درد ہو، گلا خراب ہو، پٹھوں میں اکڑن ہو یا ایسا ہی کوئی اور درد، جب آپکو پہلی بار درد محسوس ہوتا ہے تو آپ اپنے آپ کو مفلوج محسوس کرتے ہیں، لیکن جب اسی کیفیت کے ساتھ دو تین گھنٹے گزر جاتے ہیں تب کیا محسوسات ہیں؟ اب اس کی چبھن تو ہے، مگر اس کی شدت ویسی محسوس نہیں ہوتی جیسی ابتدا میں تھی. آپ کے اندر اس کی برداشت پیدا ہوتی جا رہی ہے. کچھ لوگ جو درد کا علاج کروا رہے ہوتے ہیں ان کی دوائیں اس درد کے احساس کو کم سے کم کرتی جاتی ہیں.دراصل ان کے سہنے کی حد بڑھتی جاتی ہے، یعنی درد کی شدت ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی، جب آپکو پہلی دفعہ کلائی میں انجکشن کی سوئی چبھوئی جاتی ہے، تو درد ہوتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ بار بار وہ عمل دوہرانے سے درد کا احساس ختم ہو جاتا ہے. اب عربی لفظ *الیم* کو سمجھئے،اس کا مطلب ہے مسلسل درد کی کیفیت، نہ کمی نہ بیشی، مسلسل متواتر. یہ درد ختم نہ ہوگی نا کم ہوگی.
آیئے قرآن کا اصول دیکھتے ہیں :
* الجزاء من جنس العمل * سزا عمل کے مطابق ہونی چاہیے
اگر کوئی شخص کسی کیلئے مسلسل تکلیف کا باعث بنا ہے، تو اسے اسی طرح کی سزا، مسلسل تکلیف دہ سزا ملے گی. اگر کسی نے بہت بڑا جرم کیا ہے، تو اس کی سزا بھی بہت بڑی سنائی جائے گی، آپ اس کو سمجھ رہے ہیں ناں ؟
جب الله تعالى کہتے ہیں: درد ناک سزا!!! اب اصولی طور پر سزا جرم کے مطابق ہے تو یہاں جرم کی نوعیت کیا ہے؟ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ "منافق لوگ " مسلمانوں کیلئے مسلسل تکلیف کا باعث تھے. یہ وہ گروپ ہے جو امت کیلئے پریشانیوں کا باعث تھا. امت مسلمہ پر بیرونی دشمن (غیر مسلم ) بھی حملہ آور ہوتے تھے، دین کا مذاق بناتے تھے، استہزاء اڑاتے تھے، دین پر نازیبا حملے کرتے تھے، لیکن ان سب سے بڑھ کر بھی کچھ تکلیف دہ تھا،وہ بھلا کیا؟ وہ یہ کہ ایسے حملے مسلمانوں کے اندر سے بھی ہو رہے تھے. یہ زیادہ دل آزاری والی صورت حال تھی. جب مسلمان دوسرے مسلمان کا خون بہائے. جب مسلمان دوسرے مسلمان کی عزت اور وقار کو ملحوظِ خاطر نہ رکھے. جب ایک مسلم دوسرے پر حملہ آور ہو، تو یہ بات بہت پریشان کن ہے، جب غیر مسلم اقوام مسلم قوم پر حملہ آور ہوں،ن تو بات سمجھ میں آتی ہے.لیکن جس وقت مسلم ہی ایک دوسرےسے لڑ رہے ہوں، قتل کر رہے ہوں؟ جب مسلمان ہی ایک دوسرے کو کچل رہے ہوں تو؟؟؟
تو یہی وہ درد ہے جو بہت عرصہ تک رہنے والا ہے، دائمی ہے، اور برداشت سے بڑھ کر ہے، کیونکہ کافرکی طرف سے نفرت تو متوقع ہے، لیکن وہ لوگ جو آپ سے *کلمہ طیبہ* کے ذریعے منسلک ہیں، اگر وہ آپ سے نفرت کریں، آپ کے قتل کی سازشیں کریں، تو یہ سب کچھ خاصا اہانت آمیز ہے. آپ کے اپنے اندر کے لوگ اگر منصوبہ سازی میں ملوث پائے جائیں، تو یہ آپ کیلئے نہ صرف غیر متوقع ہے، بلکہ غیر معمولی تکلیف کا باعث بھی ہے. الله عزوجل کی اس دین کے پیروکاروں سے محبت بہت مضبوط ہے. اس لئے الله عزوجل، مسلم امہ کیلئے باعث اذیت لوگوں سے خود ہی بدلہ لے لے گا.
* وٓاِذٓا قِيْلٓ لٓهُمْ لٓا تُفْسِدُو فِي الْآرْض قٓالُو اِنَّمٓا نٓحْنُ مُصْلِحُون* (سورت البقره آیت 11)
ان سے کہا جا رہا ہے کہ زمین میں خرابی نہ کرو، بد عنوانی نہ کرو، فساد نہ پھیلاؤ. انھوں نے کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں، ہم تو معاملات کو درست کر رہے ہیں.
عربی زبان میں "اصلاح " کا مطلب کسی چیز خراب یا ٹوٹی شے کو درست کرنا اور دوبارہ سے جوڑنا ہے. وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو محض خرابیوں کو دور کر رہے ہیں. مثلًا آپ کسی جگھڑے کے دونوں فریقوں کی بات سن رہے ہوں، تو آپ کہتے ہیں کہ میں تو معاملات کو سدھار رہا ہوں تا کہ امن قائم کیا جا سکے اور تعلقات کی ازسرنوع تجدید ہو سکے.
الله تعالى فرماتے ہیں:
* آلٓا اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونٓ وٓلٓا كِنْ لٓا يٓشْعُرُوْن*( سورت البقره 12 )
خبردار! یہی لوگ ہی تمام خرابیوں کے ذمے دار ہیں، یہی لوگ تمام خرابیوں کے موجب ہیں.
حالانکہ نہیں وه اس کا شعور رکھتے اور وه مسلسل انکار کئے جا رہے ہیں انہیں کبھی اس بات کا احساس نہ ہوگا.
یہاں ہمیں لفظ "فساد" کو سمجھنا ضروری ہے. فساد ایسی چیز ہے جو ظاہر ہوتی ہے اور دنیا میں پھیل جاتی ہے
الله عزوجل سورت الروم (آیت نمبر 41) میں فرماتے ہیں:
* ظٓهٓرٓالْفٓسٓادُ فِي الْبٓرِّ وٓ الْبٓحٓرِ بٓمٓا كٓسٓبٓتْ آيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقٓهُم بٓعْضٓ الَّذِي عٓمِلُوا لٓعٓلَّهُم يٓرجِعُون*
"ترجمہ: ظاہر ہوگیا فساد خشکی میں اور تری میں، بوجہ اس کے جو کمایا ان لوگوں کے ہاتھوں نے، تاکہ وہ ان کے بعض اعمال کا مزا انھیں چکھائے، شاید کہ وہ باز آجائیں."
الله عزوجل فرماتے ہیں کہ فساد ( کرپشن ) باہر ظاهر هوتا ہے، زمین پر، سمندر پر، کیونکہ اسے لوگ اپنے ہاتھوں سے سرانجام دے رہے ہیں.
زمین اور سمندر میں فساد سے کیا مراد ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟
جب زمین مزید پیداوار روک دے، جب مزيد فصلیں اگنا بند ہو جائیں، جب سمندر آلودہ ہو جائیں اور وہ متوقع رزق مہیا کرنا بند کر دیں. تو یہ زمین اور سمندر کا فساد ہے.
الله تعالٰى اس جگہ ہماری روحانی کرپشن کا ذکر کر رہے ہیں. لوگ اپنے کاروبار میں کرپشن کرتے ہیں، ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں، حرام رزق کو اپنا نوالہ بناتے ہیں، ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں، ایکدوسرے کا مال ہتھیا لیتے ہیں، یہ سب عوامل جرائم ہی شمار ہوتے ہیں، الله تعالى ان لوگوں کو براہ راست سزا نہیں دیتے، بلکہ ان کے یہی جرائم زمین پر منعکس ہوتے ہیں نتیجتًا زمین بیمار پڑ جاتی ہے.
یہ ہمارے دین کا اصول ہے کہ جب معاشرے کے لوگ الله تعالى پر یقین رکھتے ہیں اور وہ الله تعالى کی فرمانبرداری کرتے ہیں، تو زمین کی پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ فصلیں اگانا شروع کردیتی ہے، تب بارشیں بھی رحمت والی ہوتی ہیں، اُن سے سیلاب نہیں آتے...
سورت المائدہ (آیت 66) میں االله تعالى فرماتے ہیں:
* وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مٓا يٓعْمٓلُون *
*اور اگر وہ قائم کرتے تورات اور انجیل کو اور جو کچھ نازل کیا گیا تھا ان پر ان کے رب کی طرف سے تو رزق ملتا ان کو ان کے اوپر سے اور ان کے پیروں کے نیچے سے.*
جب حضرت عیسیٰ ( عليه سلام) دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے تب تمام لوگ الله کے فرما نبردار ہوں گے، یہاں تک کہ شیر شکار کو کھانا بند کر دیں گے، فصلوں کی پیداوار بڑھ جائے گی، ہر طرف رزق کی فراوانی ہوگی، ذرا سوچیں: کہ جب زمین پر کرپشن ختم ہو جائے گی تب کیا ہوگا؟ زمین پر اچھائی پھیلتی چلی جائے گی،
آپ کرپشن کو دوسرے لفظوں میں آلودگی بھی کہہ سکتے ہیں، یعنی فزیکل پلوشن، کیمیکل پلوشن جو سمندروں کو آلودہ کرتی ہے، اور پلاسٹک کا کچرا جو زمین كو آلودہ کر رہا ہے، زہر آلود کر رہا ہے. یہ بھی کرپشن کی ایک حقیقی قسم ہے. الله عزوجل نے روحانی حقائق اور جسمانی حقائق کے درمیان ایک براہِ راست تعلق رکھا ہے. جب روحانی حقائق معاشرے میں نمایاں ہوتے ہیں. تب ہر قسم کی اچھائی دنیا میں پھیلتی چلی جاتی ہے. سبحان الله!!! تب یہ دنیا ان اچھائیوں کی وجہ سے ایک بہترین جگہ بن جاتی ہے.
یہی ہمارے دین کے اصول ہیں. يہ وہ پہلی بات تھی جو میں فساد کے بارے میں آپکو بتانا چاہتا تھا.
لیکن ہم فساد کو ایک اور طرح سے بھی واضح کر سکتے ہیں.
-نعمان علی خان
جاری ہے
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سوال یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو متاثر کرنے کی کوشش ہی ...
By:
سیما آفتاب
اللہ صرف عبادت والوں کا رب نہیں.. اللہ ندامت والوں کا رب بھی ہے..
اللہ صرف نیکوکاروں کا نہیں۔۔۔ اللہ گنہگاروں کا رب بھی ہے ..
اللہ صرف ایمان والوں کا رب نہیں .. اللہ مشرکین کا رب بھی ہے..
.. مگر جو خالصتاً اللہ کا ہونا چاہے تو یاد رہے خالص ہونے کے لئے خاص ہونا پڑتا ہے ..
خاص ہونے کے لئے رجوع کرنا پڑتا ہے. رجوع کرنے کے لئے خطا کا اعتراف کرنا ضروری ہوتا ہے. اعتراف خطا و گناہ و طلب مغفرت کے لئے عجز و دل گداز ہونا ضروری ہے.
رب کو رب سمجھنا ضروری ہے.. اللہ خطا کے پار ندامت قبول کرتا ہے ..
ہٹ دھرمی، خود فریبی یا جوازوالزام تراشی نہیں.. اللہ ظلم نہیں کرتا..
اللہ کا انا سے راضی نہ ہونا بھی درحقیقت اللہ کا رحم ہے..!
حیا ایشم!
اللہ صرف عبادت والوں کا رب نہیں.. اللہ ندامت والوں کا رب بھی ہے.. اللہ صرف نیکوکاروں کا نہیں۔۔۔ اللہ گنہگاروں کا رب بھی ہے .. ...
By:
سیما آفتاب
زندگی نام ہے کھوئے ہوئے مواقع کو بُھلا کر ملے ہوئے مواقع کو استعمال کرنے کا۔ از: مولانا وحید الدین
By:
سیما آفتاب
خطباتِ حجة الوداع… احادیث ِنبویؐ کی روشنی میں
تحریر : ملک کامران طاہر
’حجة الوداع‘ کی و جہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ اکا یہ آخری حج تھا،اس کو ’حجة الاسلام‘ بھی کہا جاتا ہے اس وجہ سے کہ ہجرت کے بعد آپؐ نے یہی ایک حج کیا، اس کے علاوہ اس کو’حجة البلاغ‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے جملہ مسائل حج اس کے ذریعے قول اور فعل اور کردار کے آئینہ میں دکھا دیئے اور اسلام کے اُصول و فروع سے آگاہ کر دیا۔ تاہم ان ناموں میں سے ’حجۃ الوداع‘ زیادہ مشہور ہوا، کتب ِاحادیث میں اکثر راوی اسی نام سے روایت کرتے ہیں۔
خطبہ حجة الوداع ایک اہم تاریخی دستاویز اور ’حقوقِ انسانی کے چارٹر‘ کی حیثیت رکھتا ہے جو ذخیرہ احادیث و روایاتِ تاریخ کی صورت میں موجود ہے۔محدثین اور مؤرخین نے اپنے اپنے فن کے مطابق اسے اپنی تصنیفات میں ذکر کیا ہے۔ اب تک متعدد سیرت نگاروں نے ان شقوں کواکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سیرت کی کتابوں میں یکجا کی گئیں روایات کی تخریج و تحقیق کا کام کماحقہ نہ ہوسکا۔ اکثر مصنّفین نے صحیح احادیث کا اہتمام نہیں کیا بلکہ خطبہ حجۃ الوداع سے متعلق تمام رطب و یابس جمع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ کتب ِسیرت میں خطبات کی ترتیب کا بھی کوئی خاص لحاظ نہیں رکھا گیا بلکہ نبی کریمﷺ کے خطبات جو آپؐ نے تین دن مختلف مقامات واوقات میں دیے، ایک ہی جگہ جمع کردیئے گئے اور ان تینوں خطبوں کوایک ہی خطبہ (یعنی خطبہ حجۃ الوداع) کا نام دے دیا گیا۔ اسی طرح بعض بے سند تاریخی روایات بھی خطبات حجۃ الوداع کے نام سے متداول ہوچکی ہیں۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ محسن انسانیت محمد رسول اللہ ﷺ کے ان خطبات کو جوکہ ’حجۃ الوداع‘ کے نام سے موسوم ہیں، الگ الگ مقام اور وقت کی مناسبت سے اپنی تمام شقوں کے ساتھ مرتب کیا جاتا۔ راقم نے مذکورہ مضمون میں اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔لہٰذا آئندہ سطور میں اس ترتیب کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ۹،۱۰،۱۲ ذوالحجہ کے خطبات جو یوم عرفہ، یوم النحر، یوم الرؤس اوسط ایام التشریق کے نام سے مشہور ہیں، میں سے ہر خطبہ اس کے مقام و دن کے ساتھ بالترتیب لکھ دیا گیا ہے۔
خطبات میں چونکہ نبی کریمﷺ نے اعادہ کے طور پر ایک خطبہ کے کچھ جملوں کو ہر خطبہ میں بیان فرمایا، لہٰذا مکرر شدہ جملوں کو طوالت سے بچاتے ہوئے صرف ایک خطبہ میں ہی لکھ دیا گیا ہے اور غیر مکرر جملے اپنے اپنے مقام پر درج کردیئے گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ روایات جو کسی مقام کی طرف منسوب نہیں بلکہ راویوں نے صرف حجۃ الوداع یا حجۃ النبیﷺ کی طرف منسوب کرکے انہیں روایت کیا ہے ، رقم کردی گئی ہیں۔ اور اس میں صرف احادیث کی کتب سے صحیح روایات کا چناؤ کیا گیا ہے۔ تاریخی روایات کی اسنادی حیثیت ثانوی ہونے کی وجہ سے ان روایات سے گریز کیا گیا ہے، تاکہ رسول اللہﷺ کے اقوال مستند طور پر پیش کئے جاسکیں۔کوشش کی گئی ہے کہ صحیح و مقبول روایات ہی ان خطبات کا حصہ بنیں اور اس چیز کوممتاز کرنے کے لئے غیر مستند روایات کو آخر میں ان کے ضعف کی نشاندہی کے ساتھ درج کردیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں ان تمام خطبات سے جو نکات آخر کار حاصل ہوتے ہیں، ان کو آخرمیں ایک مستقل صورت میں عنوانات کے تحت مدون کر دیاگیا ہے۔
حجۃ الوداع کا پس منظر
نبوت کے ۲۳ سال پورے ہونے کو تھے،آپ ا نے اللہ کا پیغام لوگوں تک کما حقہ پہنچا دیا تھا اور آپ ؐ کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچ چکا تھا۔یقینا آپ کو اس کا احساس تھا جس کا پتہ آپﷺ کی وصیت سے چلتا ہے جو آپﷺ نے حضرت معاذ کو یمن کا گورنر مقرر فرما کر بھیجتے ہوئے فرمائی تھی۔ آپﷺنے حضرت معاذ کو ۱۰ ہجری میں یمن کا گورنر مقرر کیا اور وصیت کی کہ
’’اے معاذ! غالبا تم مجھ سے میرے اس سال کے بعد نہ مل سکو گے، بلکہ غالبا میری اس مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو گے۔حضرت معا ذ یہ سن کر رسول اللہ ا کی جدائی کے غم میں رونے لگے ‘‘ (مسنداحمد ۵؍۲۳۵ ،مجمع الزوائد ۹؍۲۲)
حج کا مہینہ قریب تھا اور ضرورت اس بات کی تھی کہ رہبر اعظمؐ کی لوگوں سے آخری ملاقات اور آپ کے وصیتی ارشادات لوگوں تک پہنچ جائیں۔سو آپﷺ نے اس سال حج کا ارادہ فرمایا اور اسی منصوبہ کے پیش نظر اطرافِ مکہ میں اس کا اعلان کر دیا گیا کہ نمائندگانِ قبائل اپنے قبائل کے افراد کے ساتھ اس اجتماع میں حاضر ہوں۔مسلمانانِ عرب جوق در جوق مکہ کی طرف روانہ ہونے لگے تھے۔شنبہ کے روز ظہر کے بعد مدینہ سے مکہ کی طرف کوچ فرمایا۔
آپﷺ تقریبا آٹھ دن سفر کرنے کے بعد ۴؍ذی الحجہ ۱۰ھ کو مکہ میں داخل ہوئے۔ ۸؍ذی الحجہ ، ترویہ کے دن آپ ؐ منیٰ تشریف لے گئے۔۹؍ذی الحجہ کی صبح تک وہیں قیام فرمایا اور پہلاخطبہ عرفات میں ارشاد فرمایا۔اور اس طرح دیگر مناسک حج ادا کرتے ہوئے ۱۰،۱۱؍ذی الحجہ کو بھی خطبات ارشاد فرمائے۔
آپﷺ کے ساتھ شریک صحابہ اکرام ؓ کی تعداد تقریبا ایک لاکھ چوالیس ہزار تھی۔حال ہی میں وفات پانے والے نامور مسلم محقق ومؤرخ جناب ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے ’انسانیت کا منشورِ اعظم‘ قرار دیا ہے۔’رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی‘ کے نام سے ان کی کتاب جس میں نبی کریم کے سیاسی کارناموں اور سیاسی دستاویزات کی تحقیق پیش کی گئی ہے، میں ایک مستقل باب میں انہوں نے اس خطبہ کی تمام شقوں کوکتب ِ تاریخ کی مدد سے ۱۶ دفعات میں جمع کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’جمعہ ۹؍ذی الحجہ ۱۰ھ کو جبل الرحمہ پر سے میدان عرفات کے ڈیڑھ لاکھ حاضرین سے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول کریمﷺ نے جو خطاب فرمایا تھا، اسے تاریخ نے خوش قسمتی سے محفوظ رکھا ہے، اس خطاب کو انسانیت کا منشورِاعظم کہا جاسکتا ہے ۔‘‘ (ص ۳۰۲تا ۳۰۵)
وصایا اور مناسک ِ حج سکھلانے کے بعد نبیﷺ اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ یوم النفر الثاني (۱۳؍ذی الحجہ) کو عشاء کے بعد طوافِ وداع کر کے واپس مدینہ کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔
حجۃ الوداع میں نبیﷺ نے چار خطبات ارشاد فرمائے جیسا کہ امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ’’ہمارے نزدیک چار خطبات ہیں:پہلا مکہ میں کعبہ کے نزدیک ذوالحجہ کے ساتویں دن، دوسرا مسجد نمرہ میں عرفہ کے دن ، تیسرا منیٰ میں نحر کے دن، چوتھا ایام التشریق کے دوسرے دن منیٰ میں۔‘‘ (مسلم شرح نووی: ۹؍۵۷)
’ساتویں دن‘ کے متعلق امام بیہقی ’سنن الکبریٰ‘ میں ابن عمرؓ کا یہ فرما ن ذکر کرتے ہیں:
"کان رسول الله ﷺ إذا کان قبل الترویة خطب الناس فأخبرهم بمناسکهم" (بیہقی:۵؍۱۱۱)
’’رسول اللہﷺ نے یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) سے پہلے (سات ذوالحجہ) لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں ان کو ان کے مناسک کے بارے میں خبر دی۔‘‘
راقم کو باوجود بسیار کوشش کے ’یوم السابع‘ کے خطبہ کی تفصیل کتب ِاحادیث سے نہیں مل سکی اہل علم و تحقیق اس بارے میں مزید جستجو اور رہنمائی فرمائیں۔
ذیل میں پیش کردہ روایات کی تحقیق و تخریج بقدر امکان کی گئی ہے ۔اور احتیاط کے لیے احادیث کے تراجم نامور سیرت نگاروں کی کتب سے لئے گئے ہیں، صرف وہ احادیث جن کا ترجمہ ان کتب سے نہ مل سکا ، راقم کا کیا ہوا ہے۔ وما توفیقي إلا بالله
خطبہ یوم عرفہ … ۹ ذوالحجہ
وقت او ر دِن :نبیﷺ نے عرفہ کے دن کا خطبہ بطن وادی (عرفہ) میدانِ عرفات میں سواری پر جمعہ کے دن ظہر کی نماز سے پہلے ارشاد فرمایا جیسا کہ اس کا ذکر آگے روایات میں آرہا ہے:
سنن ابی داؤد میں خالد بن عداء سے روایت ہے کہ:"رأیت رسول الله یخطب الناس یوم عرفة على بعیر قائم في الرکابین" (صحیح ابوداود للالبانی :۱۶۸۷،۱۶۸۶)
’’میں نے رسول اللہﷺ کو عرفہ کے دن اونٹ کی رکابوں پر کھڑے ہوکر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔‘‘
مسلم، سنن ابی داود، مستدرک حاکم ابن ماجہ میں روایت ہے کہ آپﷺ کے خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد "ثم أذّن بلال ثم أقام فصلى الظهر" بلالؓ نے اذان کہی اور ظہر کی نماز نبیؐ نے پڑھائی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ نے یہ خطبہ ظہر سے پہلے دیا تھا۔ (واللہ اعلم)
حضرت عمرؓ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یوم عرفہ جمعہ کے دن تھا۔چنانچہ آپؓ آیت ﴿ألْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ…﴾کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وهو قائم بعرفة یوم جمعة (بخاری ۴۴۰۷، ۴۶۰۶، نسائی ۵۰۱۲)
جبکہ دوسری روایت میں أنزلت لیلة الجمعة کے الفاظ بھی ہیں اور ان دونوں روایتوںمیں تطبیق کی صورت یہی ہے کہ یہ جمعہ کا دن تھا جس کی یہ آیت اتری اور حضرت عمرؓ نے جمعہ کی شام کی مناسبت سے اسے لیلۃ الجمعۃ کہہ دیا ورنہ لیلۃ الجمعۃ سے ان کی مراد جمعرات نہ تھی۔ اس سلسلے میں حافظ ابن حجر کا موقف بھی یہی ہے کہ عرفہ کا دن جمعہ کے دن تھا۔ (فتح الباری :۸؍۲۷۰)اوریہی بات صاحب ِتحفۃ الاحوذی لکھتے ہیں کہ ’’یہ عرفہ کا دن تھا اور اس دن جمعہ تھا۔‘‘ (تحفۃ الاحوذی: ۴؍۹۶ )
اس تحقیق کے بعد راجح بات یہی سامنے آتی ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا۔ اسی روایت کو بنیاد بناتے ہوئے ہم نے دوسرے دو خطبوں کے دنوں کا تعین یوم النحربروز ہفتہ، یوم الرؤس بروز سوموار کیا ہے۔ واللہ أعلم
خطبہ یومِ عرفہ کی روایات درج ذیل ہیں:
٭ امام بیہقی مسور بن مخرمہ سے روایت لائے ہیں کہ رسول اللہا نے عرفات میں حمدوثنا کے بعد خطاب فرمایا۔ (بیہقی ۵؍۱۲۵)
٭ حضرت جابر نبی کریمﷺ کا حج بیان کرتے ہوئے خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق بیان کرتے ہیں:
فأتى بطن الوادي، فخطب الناس وقال: إن دماءکم وأموالکم حرام علیکم، کحرمة یومکم هذا في شهرکم هذا في بلدکم هذا، ألا کل شیئ من أمر الجاهلیة تحت قدمي موضوع، ودماء الجاهلیة موضوعة وإن أول دم أضع من دمائنا دم ابن ربیعة بن الحارث، کان مسترضعا في بنی سعد فقتله هزیل، وربا الجاهلیة موضوع، و أوّل ربا أضع ربانا، ربا عباس بن عبد المطلب، فإنه موضوع کله فاتقوا الله في النساء فإنکم أخذتموهن بأمان الله، واستحللتم فروجهن بکلمة الله، ولکم علیهن أن لا یوطئن فروشکم أحداً تکرهونه، فإن فعلن ذلك فاضربوهن ضربًا غیر مبرح، ولهن علیکم رزقهن وکسوتهن بالمعروف، وقد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعده إن اعتصتم به: کتاب الله، وأنتم تُسألون عني، فما أنتم قائلون؟ قالوا: نشهد أنك قد بلغت وأدّیت ونصحت،فقال بإصبعه السبابة، یرفعها إلى السماء وینکتها إلى الناس: اللهم! اشهد، اللهم! اشهد ثلاث مرات (صحیح مسلم :۲۹۴۱، صحیح سنن ابی داود للالبانی :۱۹۰۵، ابن ماجہ :۱۸۵۰، الفتح الربانی :۲۱؍۵۸۸)
’’نبیﷺ کریم بطن الوادی میں آئے اور لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا: تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہے۔ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیئے گئے اور ہمارے خون میں سب سے پہلا خون جسے میں ختم کررہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایام میں قبیلہ ہزیل نے اسے قتل کردیا اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارا کا سارا سود ختم ہے۔
ہاں! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو تمہیں گوارا نہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا، اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔
یہ سن کر آپﷺ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ۔‘‘ (الرحیق المختوم: ص ۷۳۳)
٭ عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:
"ألا وإني فرطکم على الحوض، وأکا ثربکم الأمم فلا تسودوا وجهي،ألا وإني مستنقذ أناسا، ومستنقذ مني أناس فأقول: یارب! أصیحابي فیقول: إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك" (صحیح ابن ماجہ للالبانی :۲۴۸۱)
’’آگاہ رہو میں تمہارا پیش خیمہ ہوں، حوضِ کوثر پراور میں تمہارے سبب اس اُمت کی کثرت پر فخر کروں گا، مجھے شرمندہ نہ کرنا۔
خبردار! کچھ لوگوں کو میں چھوڑ دوں گا اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑوالئے جائیں گے۔ میں کہوں گا: اے میرے ربّ! یہ تو میرے اصحاب ہیں، سو وہ فرمائے گا تو نہیں جانتا جو اُنہوں نے تیرے بعد نئی بدعتیں ایجاد کیں۔‘‘
٭عرفہ کے دن ہی یہ آیت بھی نازل ہوئی: ﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الِاسْلاَمَ﴾ (المائدۃ:۳)
آ ج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا۔‘‘ (الرحیق المختوم :۷۳۵)
اس کے متعلق حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ"إني لأعلم أي مکان أنزلت ورسول اﷲ واقف بعرفة" (بخاری:۴۴۰۷)
’’بے شک میں بہتر جانتا ہوں کہ یہ کس مقام پر نازل ہوئی ، نبیﷺ اس وقت عرفہ میں تھے ۔‘‘
خطبہ یوم النحر… ۱۰؍ ذوالحجہ
عن رافع بن عمرو المزني قال رأیت رسول الله یخطب الناس بمنی حین ارتفع الضحى على بغلى شهباء وعلي یعبر عنه والناس بین قائم وقاعد" (بیہقی:۵؍۱۴۰)
’’رافع کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو چاشت کے وقت دن چڑھے سواری پر خطاب کرتے سنا، حضرت علی آپﷺ کا خطاب دہرا رہے تھے، سامعین میں بعض بیٹھے اور بعض کھڑے تھے ۔‘‘
خطبہ میں فرمایا:
"یا أیها الناس أي شهر أحرم؟ قالوا: هذا الشهر، قال أي یوم أحرم؟ قالوا: هذا وهو یوم النحر، قال: فأي بلد أعظم عند الله حرمة؟ قالوا: هذا، قال: فإن دماء کم وأموالکم وأعراضکم محرمة علیکم کحرمة یومکم هذا في شهر کم هذا، في بلدکم هذا إلى یوم تلقون ربکم ألا هل بلغت؟ قال الناس: نعم، فرفع یدیه إلى السماء ثم قال: اللهم اشهد، ثم قال: لیبلغ الشاهد منکم الغائب" (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۹)
’’اے لوگو! کون سا مہینہ سب سے زیادہ حرمت والا ہے، لوگوں نے کہا: یہی مہینہ۔ فرمایا کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: آج کا دن اور وہ یوم النحر تھا۔ پھر آپﷺ نے پوچھا: اللہ کے نزدیک سب سے حرمت والاشہر کون سا ہے تو صحابہ کرامؓ نے جواب دیا کہ یہی ہے۔ تب آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا خون اور تمہارا مال اور تمہاری عزت تم پر اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح یہ مہینہ، یہ دن اور اس شہر کی حرمت ہے اور یہ اس دن تک ہے جس دن تم اپنے ربّ سے ملاقات کرو گے۔
خبردار! کیا میں نے تمہیں پیغام پہنچا دیا۔ لوگوں نے کیا جی ہاں! تو نبی ا نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: اے اللہ گواہ رہ، پھر آپؐ نے فرمایا: ہر حاضرغائب کو یہ دعوت پہنچا دے۔‘‘
٭ حضرت جابر فرماتے ہیں، آپﷺ نے نحر کے دن فرمایا:
«ویقول لتأخذوا مناسککم فإني لا أدري لعلي لا أحج بعد حجتی هذه»
’’آپﷺ فرما رہے تھے کہ لوگو! تم حج کے طریقے سیکھ لو، میں اُمید نہیں کرتا کہ اس حج کے بعد حج کرسکوں۔‘‘ (صحیح مسلم:۱۲۹۷، مجمع الزوائد:۳؍۲۶۹)
٭ امام بخاری اپنی صحیح میں ابوبکرہ کی روایت لائے ہیں کہ آپٖﷺ نے فرمایا:
«الزمان قد استدار کهیئة یوم خلق السماوات والأرض، السنة اثنا عشر شهرًا منها أربعة حرم، ثلاثة متوالیات: ذوالقعدة ، وذو الحجة والمحرم، ورجب، مضر الذي بین جمادی وشعبان» (بخاری:۴۴۰۶)
’’زمانہ گھوم پھر کر اپنی اس دن کی ہیئت پر پہنچ گیا ہے جس دن اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہے جن میں سے چار مہینے حرمت والے کے ہیں۔ تین پے درپے یعنی ذیقعد، ذی الحجہ اور محرم اور ایک رجب،مضر(قبیلے کا) جو جمادی الآخرۃ اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ (الرحیق المختوم:۷۳۷)
٭مزید فرمایا:
"فإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام، کحرمة یومکم هذا في بلدکم هذا، في شهر کم هذا، وستلقون ربکم فسیألکم عن أعمالکم، ألا فلا ترجعو بعدي ضلالا، یضرب بعضکم رقاب بعض، ألا لیبلغ الشاهد الغائب فلعل بعض من یبلغه أن یکون أوعى له من بعض من سمعه" (بخاری:۴۴۰۶،۷۰۷۸)
’’اچھا تو سنو کہ تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے جیسے تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے۔ اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا، لہٰذا دیکھو میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو جو شخص موجود ہے، وہ غیر موجود تک (میری باتیں) پہنچا دے۔ کیونکہ بعض وہ افراد جن تک (یہ باتیں) پہنچائی جائیں گی، وہ بعض (موجودہ) سننے والوں سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دروبست کو سمجھ سکیں گے۔‘‘ (الرحیق المختوم:۷۳۷،۷۳۸)
٭ سلیمان بن عمرو بن اَحوص اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ا کے ساتھ تھے ، آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور وعظ فرمایا:
"ألا لا یجنی جان إلا على نفسه، ولا یجني والد على ولده ولا ولد على والده، ألا إن المسلم أخو المسلم، فلیس یحل لمسلم من أخیه شیئ إلا ما أحل من نفسه. ألا وإن کل ربا في الجاهلیة موضوع، لکم رؤوس أموالکم، لا تظلمون ولا تظلمون غیر ربا العباس بن عبد المطلب فإنه موضوع کله" (صحیح ابن ماجہ للالبانی:۲۴۷۹)
’’یاد رکھو! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا (یعنی اس جرم کی پاداش میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مجرم ہی پکڑا جائے گا) کوئی جرم کرنے والا اپنے بیٹے پر یا کوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم نہیں کرتا (یعنی باپ کے جرم میں بیٹے کو یا بیٹے کے جرم میں باپ کو نہیں پکڑا جائے گا) خبردار! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسرے مسلمان کے لئے حلال نہیں جب تک وہ خود حلال نہ کرے۔ خبردار! جاہلیت کا ہر قسم کا سود اب ختم ہے، تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی تم ظلم کا شکار ہو۔ عباس بن عبدالمطّلب کا سود سارے کا سارا ختم ہے۔‘‘
٭ انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: خطبنا رسول اﷲ ﷺ بمسجد من منی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مسجد ِخیف میں جو کہ منیٰ میں ہے، خطبہ دیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
«نضر الله امرأ سمع مقالتي فحفظها ووعاها، ثم ذهب بها إلى من لم یسمعها، فربّ حامل فقه لیس بفقیه ورب حامل فقه إلى من هو أفقه منه» (صحیح الترغیب والترہیب للالبانی :۸۶)
’’تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا، حفظ کیا اور یاد کیا۔ پھر اس کو اس تک پہنچایا جس نے اسے سنا نہیں۔کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو خود فقیہ نہیں،مگر فقہ(بصورتِ حدیث) کو اٹھائے پھرتے ہیں اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اپنے سے زیادہ فقیہ شخص تک اس فقہ(حدیث) کو پہنچانے والے ہیں۔‘‘
اسی روایت کو کچھ الفاظ کے اضافہ کے ساتھ حضرت جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مسجد ِخیف، (منیٰ) میں سنا :
«نضر الله عبدًا سمع مقالتي، فحفظها ووعاها، وبلغها من لم یسمعها، فربّ حامل فقه لا فقه له، وربّ حامل فقه إلى من هو أفقه منه، ثلاث لا یغل علیهن قلب مؤمن: إخلاص العمل لله، والنصیحة لأئمة المسلمین، ولزوم جماعتهم فإن دعوتهم تحوط من ورائهم»(صحیح ترغیب للالبانی:۸۷، صحیح ابن ماجہ:۲۴۸۰، مسنداحمد:۴؍۸۰)
’’تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا، حفظ کیا اور یاد کیا۔ پھر اس کو جس نے نہیں سنا، اس تک پہنچایا۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو خود غیر فقیہ ہیں مگر فقہ (حدیث)کو اٹھائے پھرتے ہیں۔اور بہت سے فقہ اٹھانے والے اپنے سے زیادہ فقہ والے کی طرف بات لے جاتے ہیں۔
… تین چیزیں ہیں جن پر مؤمن کا دل خیانت (تقصیر) نہیں کرتا: صر ف اللہ کے لئے عمل کے اخلاص میں، اور مسلمانوں کے حکمرانوں کی خیرخواہی میں، اور ان کی جماعت سے چمٹے رہنے میں، بے شک ان کی دعا ان پچھلے لوگوں کو بھی گھیر لیتی ہے۔‘‘
٭ احوص اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ نبیؐ نے حجۃ الوداع (یوم النحر) میں فرمایا :
"لا إن الشیطان قد أیس أن یُعبد في بلدکم هذا أبداً ولکن سیکون له طاعة في بعض ما تحتقرون من أعمالکم، فیرضی بها … ألا یأمتاه! هل بلغت؟ ثلاث مرات، قالوا: نعم، قال: اللهم اشهد ثلاث مرات" (صحیح ابن ماجہ للالبانی:۲۴۷۹)
’’یاد رکھو! شیطان مایوس ہوچکا ہے کہ اب تمہارے اس شہر میں کبھی بھی اس کی پوجا کی جائے لیکن اپنے جن اعمال کو تم لوگ حقیر سمجھتے ہو، ان میں اس کی اطاعت کی جائے گی اور وہ اسی سے راضی ہوگا۔ خبردار، اے میری اُمت! کیا میں نے تمہیں تبلیغ کردی، یہ تین دفعہ کہا۔ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپؐ نے تین دفعہ فرمایا: اے اللہ! گواہ رہ۔‘‘
٭ عمرو بن یثربی سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا:
«ولا یحل لامرء من مال أخیه الا ما طابت به نفسه»(مسند احمد۳؍۴۲۳، دارقطنی:۳؍۲۵، بیہقی:۶؍۹۷)
’’کسی آدمی کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے مال میں سے لے جب تک وہ اپنی خوشی سے نہ دے دے۔‘‘
٭ عمرو بن خارجہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے منیٰ کے خطبہ میں فرمایا:
«إن الله قسم لکل وارث نصیبه من المیراث، فلا یجوز لوارث وصیة، الولد للفراش وللعاهر الحجر، ومن ادعی إلى غیر أبیه، أو تولى غیر موالیه، فعلیه لعنة الله والملائکة والناس أجمعین، لا یقبل منه صرف ولا عدل» (صحیح ابن ماجہ للالبانی :۲۱۹۲، مصنف عبدالرزاق :۱۶۳۰۶)
’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر وارث کے لئے ثابت کردہ حصہ مقرر کردیا ہے اور وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔ بچہ اس کاہے جس کے بستر پر تولد ہوا اور بدکار کے لئے پتھر!۔ جس نے اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا یا جس غلام نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو آقا ظاہر کیا تو ایسے شخص پراللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی طرف لعنت ہے، اس سے (قیامت کے دن) کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہوگا۔‘‘ (محسن انسانیت از نعیم صدیقی ؒ:ص۵۸۷)
٭ حضرت اُمّ الحصین سے مروی ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
«إن اُمّر علیکم عبد مجدع أسود یقودکم بکتاب الله تعالى فاسمعوا له وأطیعوا» (مسلم:۱۲۹۸)
’’اگر کوئی حبشی یعنی بریدہ غلام بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔‘‘ (سیرۃ النبیؐ از شبلی نعمانی:ؒ۲؍۱۶۴)
٭ عبد اللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا:
«یأیها الناس! إیاکم والغلو في الدین، فإنه أهلك من کان قبلکم الغلو في الدین» (صحیح ابن ماجہ للالبانی: ۲۴۵۵|)
’’لوگو! مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی سے برباد ہوئیں‘‘ (سیرۃ النبیﷺ از شبلی نعمانی:۲؍۱۶۱)
٭ امام احمد بن حنبل، مرۃ ؒسے روایت لائے ہیں کہ جس میں نبیؐ نے منیٰ کے دن خطبہ دیا اور ایک لمبے وعظ کے بعد فرمایا:
«ألا وقد رأیتموني وسمعتم مني وستسألون عني فمن کذب على فلیتبوأ مقعده من النار» (مسنداحمد:۵؍۴۱۲)
’’خبردار! تم لوگوں نے مجھ سے سن لیا اور مجھے دیکھ لیا، عنقریب تم سے میرے بارے میں سوال ہوگا پس جس نے بھی مجھ پر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔‘‘
خطبہ یوم الرؤس اوسط ایامِ التشریق… ۱۲؍ ذوالحجہ
یہ خطبہ پچھلے دو خطبوں کی طرح کا تھا۔ نبی کریمﷺ نے یہ خطبہ سوموار کو سواری پر منیٰ کے مقام پر ’اوسط ایام التشریق‘ میں ارشاد فرمایا۔سنن ابی داود میں ابو نجیح سے روایت ہے کہ وہ بنی بکر کے دو آدمیوں سے روایت کرتے ہیں:
رأینا رسول الله یخطب بین أوسط أیام التشریق، ونحن عند راحلته، وهي خطبة رسول الله التي خطب بمني
(صحیح ابی داود للالبانی:۱۷۲، بیہقی:۵؍۱۵۱)
’’ہم نے نبیﷺ کو اوسط ایام تشریق میں منیٰ کے مقام ،پرخطبہ ارشاد فرماتے دیکھا، اس وقت ہم ان کی سواری کے قریب ہی تھے اور منیٰ کا خطبہ یہی ہے ۔‘‘
"ونحن عند راحلته" سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سواری پر تھے۔
اس بارے میں مزید روایات درج ذیل ہیں :
٭ امام بیہقی اپنی ’سنن‘ میں سراء بنت نبہاء کی روایت لائے ہیں، وہ فرماتی ہیں:
"سمعت رسول الله ﷺ، یقول في حجة الوداع: هل تدرون أي یوم هذا قال وهو الیوم الذي یدعون یوم الرؤس، قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: هذا أوسط أیام التشریق: هل تدرون أي بلد هذا؟ قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: هذا الشهر الحرام، ثم قال: إني لا أدري لعلى لا ألقاکم بعد هذا ألا وإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام کحرمة یومکم هذا في بلدکم هذا حتی تلقوا ربکم فیسألکم عن أعمالکم ألا فلیبلغ أقصاکم أدناکم ألا هل بلغت" (بیہقی:۵؍۱۵۱، مجمع الزوائد:۳؍۲۷۳)
’’میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے، کیا تم جانتے ہو، یہ کون سا دن ہے؟ اور یہ وہ دن تھا جسے ’یوم الرؤس‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ سب لوگوں نے کہاکہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا! یہ اوسط ایام التشریق ہے اور تم جانتے ہو یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا: یہ مشعر الحرام ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: میں نہیں جانتاشاید اس وقت کے بعد میں تم سے ملاقات کروں۔ بے شک تمہارا خون، تمہارے اَموال اور تمہاری آبروئیں تمہارے ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کا دن حرمت والا ہے اور یہ شہر حرمت والا ہے ، یہاں تک کہ تم اپنے ربّ سے جاملو ۔ عنقریب وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کرے گا۔ خبردار! تمہارا قریب والا دور والے کو یہ باتیں پہنچا دے۔خبردار! کیا میں نے تم کو تبلیغ کردی۔‘‘
٭ خطبہ اوسط ایام التشریق کے متعلق حافظ نورالدین ہیثمی ابونقرۃ سے روایت لائے ہیں جس میں آپؐ کا فرمان یوں روایت کیا گیا ہے :
"یأیها الناس إن ربکم واحد وأباکم واحد ألا لا فضل لعربي على عجمي ولا لعجمي على عربي ولا أسود على أحمر ولا أحمر على أسود إلا بالتقوی" (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۶، مسنداحمد:۵؍۴۱۲)
’’لوگو! بے شک تمہارا ربّ ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے، ہاں عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر،سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیںمگر تقویٰ کے سبب سے۔‘‘
(سیرۃ النبی از شبلی نعمانی: ۲؍۱۵۵)
٭ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اوسط ایام التشریق کو ہی سورہ ﴿إذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ﴾ نازل ہوئی۔ (بیہقی:۵؍۱۵۲)
حجۃ الوداع کے غیرمعین خطبات
حجۃ الوداع کے وہ فرمودات جنہیں راویوں نے کسی جگہ کی طرف منسوب کئے بغیر بیان کردیا، درج ذیل ہیں:
٭ ابوامامہ ؓکہتے ہیں کہ میں نبیؐ کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک تھا ، آپﷺ نے سب سے پہلے اللہ کی حمدوثنا بیان کی ، پھر فرمایا:
"ألا لعلکم لاتروني بعد عامکم هذا، ألا لعلکم لا تروني بعد عامکم هذا ألا لعلکم لا تروني بعد عامکم هذا، اعبدو ربکم وصلوا خمسکم وصوموا شهر کم و حجو بیتکم و أدوا زکوتکم طیبة بها أنفسکم تدخلوا جنة ربکم عزوجل" (مسنداحمد:۵؍۲۶۲، المسدرک حاکم :۱؍۹)
’’ سال کے بعد شاید تم مجھے نہ دیکھ سکو، خبردار! اس سال کے بعد شاید تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ اپنے پروردگار کی عبادت کرو، پانچوں وقت کی نماز پڑھو اور حج کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ یہ سب کام خوشی سے سرانجام دو تو تم اپنے ربّ کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔‘‘
٭ امام بخاری اپنی ’صحیح‘ میں ابن عمر ؓکی روایت لائے ہیں جس کے الفاظ یوں ہیں:
"فحمد الله وأثنى علیه ثم ذکر المسیح الدجال فأطنب في ذکره وقال ما بعث الله من نبي إلا أنذر أمته، أنذره نوح والنبیون من بعده وإنه یخرج فیکم فما خفي علیکم من شأنه فلیس یخفي علیکم أن ربکم لیس على ما یخفی علیکم ثلاثا، إن ربکم لیس بأعور، وإنه أعور عین الیمنی فأن عینه عنبة طافیة، ویلکم، أو ویحکم انظروا لا ترجعوا بعد کفارًا یضرب بعضکم رقاب بعض" (بخاری :۴۴۰۲،۴۴۰۳)
’’آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان فرمائی۔ پھر آپﷺ نے دجال کا ذکر کیا کہ کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی اُمت کو اس (دجال) سے نہ ڈرایا ہو۔ نوحؑ اور اس کے بعد آنے والے نبیوں نے بھی اس کے بارے میں ڈرایا۔ وہ تم (امت ِمحمدیہ کے زمانہ) میں ظاہر ہوگا اور یہ بات تم خوب جانتے ہو، اس کی حالت بھی تم سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی یہ بات تم پر مخفی ہے کہ تمہارا ربّ ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو تمہارے لئے پردہ میں ہیں (یہ تین دفعہ فرمایا)۔ اور فرمایا : تمہارا ربّ کانا نہیں جبکہ اس (دجال) کی دائیں آنکھ کانی ہے اور وہ آنکھ اس طرح ہے جس طرح پھولا ہوا منقیٰ ہوتا ہے۔ افسوس تم پر دیکھو! میرے بعد کفر میں نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنا شروع کردو۔‘‘
دوسری جگہ حضرت جریر ؓسے روایت ہے کہ
"قال في حجة الوداع لجریر، استنصت الناس فقال: لا ترجعوا بعدي کفاراً یضرب بعضکم ر قاب بعض" (بخاری:۴۴۰۵)
’’نبی کریمﷺ نے حجۃ الوداع میں حضرت جریر کو فرمایا کہ لوگوں کو چپ کروائیں، پھر فرمایا کہ میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘
٭ابوامامہ الباہلی سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
"یأیها الناس! خذوا من العلم قبل أن یُقبض العلم وقبل أن یرفع العلم وقد کان أنزل الله عزوجل ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَسْألُوْا عَنْ أشْیَاءَ إنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤکُمْ وَإنْ تَسْألُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَلَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْھَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ﴾ قال فکنا نذکرها کثیرا من مسألته وأتقینا ذلك حین أنزل الله على نبیه ﷺ قال فأتینا أعرابیا فرشوناه برداءه قال فاعتم به حتی رأیت حاشیة البرد خارجة من حاجبه الأیمن قال: ثم قلنا له سل النبي ﷺ قال فقال له یا نبي الله! کیف یرفع العلم منا وبین أظهرنا المصاحف وقد تعلمنا ما فیها وعلمناها نساءنا وذرارینا وخدمنا قال فرفع النبي ﷺ رأسه وقد علت وجهه حمرة من الغضب قال فقال: أي ثقلتك أمك! هذه الیهود والنصارى بین أظهرهم المصاحف لم یصبحوا یتعلقوا بحرف مما جاء تهم به أنبیاؤهم ألا وإن من ذهاب العلم أن یذهب حملته، ثلاث مرات" (مسنداحمد:۵؍۲۶۶)
ترجمہ: ’’اے لوگو! علم حاصل کر لو قبل اس کے کہ وہ قبض کرلیا جائے اور اٹھا لیا جائے (اور اس وقت تک یہ آیت نازل ہوچکی تھی) ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَسْاَلُوْا عَنْ أشْیَاءَ إنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُوْء کُمْ وَإنْ تَسْأَلُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَلَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْھَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ﴾کسی نے پوچھا کہ علم کیسے اُٹھا لیا جائے گا حالانکہ ہمارے پاس مصاحف موجود ہیں، ہم اس کو سیکھتے ہیں اور ان میں موجود (مسائل) اپنی عورتوں، اولاد اور خادموں کو بھی سکھلاتے ہیں؟ تونبی کریمﷺ نے سر اٹھایا اور آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا، فرمایا! تیری ماں تجھے گم پائے، یہود و نصاریٰ کے درمیان بھی تو مصاحف موجود تھے لیکن انہوں نے اپنے انبیاکی لائی ہوئی آسمانی کتابوں میں سے ایک حرف کے ساتھ بھی سروکار نہ رکھا۔ خبردار علم کے ختم ہوجانے کی ایک یہ بھی شکل ہے کہ اس کے جاننے والے ختم ہوجائیں ، آپﷺ نے یہ بات تین دفعہ کہی۔‘‘
٭فضالہ بن عبیدۃ انصاری سے روایت ہے کہ آپﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا:
"سأخبرکم، مَنِ المسلم؟ من سلم الناس من لسانه ویده والمؤمن من أمنه الناس على أموالهم وأنفسهم، والمهاجرین هجر الخطایا الذنوب، والمجهدین جاهد نفسه في طاعة الله تعالى" (کشف الاستار:۱۱۴۳)
’’عنقریب میں تمہیں خبردوں گا کہ مسلمان کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ سلامت رہیں، اور مؤمن وہ ہے جس سے لوگوں کے اموال اور جانیں امن میں رہیں، مہاجر وہ ہے جوگناہوں اور خطاؤں کو چھوڑ دے اور مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے۔‘‘
٭ ابوامامہ سے ہی روایت ہے کہ میں نے حجۃ الوداع میں نبیﷺ سے سنا کہ
"إن الله قد أعطى کل ذي حق حقه فلا وصیة لوارث"
(صحیح ابن ماجہ للالبانی:۲۱۹۳، اِرواء :۱۶۵۵، نسائی:۳۶۴۱، مشکوٰۃ:۳۰۷۳)
’’بے شک اللہ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا، اب وارث کیلئے کوئی وصیت نہیں۔‘‘
٭ حارث بن برصاء فرماتے ہیں کہ میں نے نبیؐ سے حجۃ الوداع میں سنا، آپﷺ نے فرمایا:
"من اقتطع حال أخیه بیمین فاجرة فلیتبوأ مقعده من النار" (ترغیب:۲؍۶۲)
’’جس شخص نے اپنے بھائی کا مال جھوٹی قسم سے ہتھیایا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘
٭ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں خطبہ دیا اور فرمایا:
"یأیها الناس! إني قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم به فلن تضلوا أبداً: کتاب الله وسنة نبیه إن کل مسلم أخ المسلم المسلمون إخوة" (مستدرک حاکم:۱؍۹۳)
’’اے لوگو! بے شک میں تم میں وہ چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے، وہ ہے: اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔ بے شک ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ (مستدرک حاکم:۱؍۹۳)
ایسی غیر مستند روایات جو خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب ہیں
٭ عبدالرحمن بن یزید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا:
"أرقائکم، أرقائکم، أطعموهم مما تأکلون، واکسوهم مما تلبسون فإن جاء وا بذنب لا تریدون أن تغفروه فبیعوا عباد الله ولا تعذبوهم" (مسنداحمد:۴؍۳۶)
’’ اپنے غلاموں کا خیال رکھو! جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ، جو خود پہنو، وہی ان کو پہناؤ… اگر وہ کوئی ایسی غلطی کر بیٹھیں کہ تم معاف نہ کرنا چاہو تو ان کو سزا مت دو بلکہ انہیں اللہ کے بندوں کو بیچ دو۔ ‘‘(سیرۃ النبی از شبلی نعمانی:ؒ۲؍۱۵۶)
حکم:یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند میں عاصم بن عبیداللہ جو کہ ابن عاصم بن عمر بن الخطاب ہے، ضعیف ہے۔ اس کے علاوہ یہ روایت مصنف عبدالرزاق (۱۷۹۳۵)، طبرانی (۲۲؍۶۳۶) میں بھی ہے۔ اور ان دونوں سندوں میں سفیان ثوری کی تدلیس ہے…اسی طرح طبقات ابن سعد (۳؍۲۷۷) اس میں عبداللہ الاسدی جو کہ ابواحمد الزبیری کی کنیت سے معروف ہے ضعیف راوی ہے کیونکہ یہ سفیان ثوری کی حدیث کے بارے میں غلطیاں کرتا ہے…مجمع الزوائد (۴؍۲۳۶) میں ھیثمی نے ذکر کیا اور کہا کہ اس روایت کو احمد اور طبرانی نے بھی اسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہے۔ الغرض غلاموں کے بارے میں اس مضمون کی حجۃ الوداع کے حوالے سے کوئی مستند روایت نہیں۔
نوٹ:لیکن ان الفاظ کے ساتھ یہ صحیح روایت بھی موجود ہے:
"إخونکم خولکم جعلکم الله تحت أیدیکم فمن کان أخوة تحت یده فلیُطعمه مما یأکل ولیلبسه مما یلبس ولا تکلفوهم ما یغلبهم فإن کلفتموهم فأعینوهم" (مسلم:۱۶۵۷،۱۶۶۱)، (مسنداحمد:۴۷۸۴)، (ابویعلی:۵۷۸۲)، (الادب المفرد:۱۸۰)، (ابوداود:۵۱۶۸)، (سنن بیہقی:۸؍۱۰)، (الشعب :۸۵۷۲)، (طبرانی فی الکبیر:۱۳۲۹۴) ان کتب میں اس مضمون کی روایت صحیح سند کے ساتھ موجود ہے لیکن وہ خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب نہیں۔
٭ ابوحرہ الرقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے اوسط ایام التشریق میں فرمایا:
"ألا ومن کانت عنده أمانة، فلیؤدها إلى من ائتمنه علیها" (مسنداحمد:۵؍۷۳)
(محسن انسانیت از نعیم صدیقی:صفحہ ۵۸۵)
حکم:یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں علی بن زید ضعیف ہے جو کہ ابن جدعان کی کنیت سے معروف ہے۔
٭ابوامامۃ الباہلی سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع میں نبیﷺ نے فرمایا:
"لا تنفق امرأة شیئا من بیتها إلا بإذن زوجها، قیل: یارسول الله! ولا طعام؟ قال: ذلك أفضل أموالنا، العاریة مؤداة، والمنیحة مردودة، والدین یقضی والزعیم غارم" (مصنف عبدالرزاق:۱۶۳۰۸)
’’ہاں عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ دینا جائز نہیں، قرض ادا کیا جائے، عاریتا واپس کی جائے، عطیہ لوٹایا جائے، ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔‘‘
حکم:یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں اسماعیل بن عیاش مُختلط راوی ہے۔ اس معنی کی روایت (ابوداود :۳۵۶۵، ابن ماجہ:۲۳۹۸) وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے لیکن خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب نہیں کی گئی۔
٭ ابن عمر سے روایت ہے کہ نبیؐ نے اوسط ایام التشریق میں فرمایا:
﴿إنَّمَا النَّسِئُ زِیَادَةٌ فِیْ الْکُفْرِ یُضَلُّ بِهِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَه عَامًا وَیُحَرِّمُوْنَه عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ﴾ کانوا یحلون صفرًا عاما، ویحرمون المحرم عاما ویحرمون صفرًا عاما، ویحلون المحرم عاما، فذلك النسیئ (کشف الاستار:۱۱۴۱)
’’سال کی کبیسہ گری کفر میں ایک زیادتی ہے۔ جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اس کے باعث بہکائے جارہے ہیں۔ وہ اسے ایک سال حلال کرلیتے ہیں اور اسے ایک سال حرام کرلیتے ہیں، تاکہ اس تعداد کا تکملہ کرلیں جو خدا نے حرام کررکھی ہے اور نسئ اس کوکہتے ہیں کہ وہ لوگ محرم کو ایک سال حرام قرار دیتے اور ایک سال صفر کو حلال قرار دیتے ، اسی طرح ایک سال صفر کے مہینے کو حرمت والا بنا دیتے ہیں تو ایک سال محرم کو لڑائی کے لئے حلال قرار دیتے ہیں۔‘‘
حکم:یہ روایت ضعیف ہے ، اس میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہے۔
٭ ابن صامت سے روایت ہے کہ آپﷺ نے عرفہ کے دن فرمایا:
"إن الله قد غفر لصالحیکم وشفع صالحیکم في طالحیکم ینزل المغفرة فتعمهم ثم یفرق المغفرة في الأرض فتقع على کل تائب ممن حفظ لسانه ویده وإبلیس وجنوده على جبال عرفات ینظرون ما یصنع الله فیهم، فإذا نزلت المغفرة دعا وجنوده بالویل" (الموضوعات:۲؍۲۱۶، ترغیب:۲؍۲۰۲، منثور : ۱؍۲۳۰)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے صالحین کو بخش دیا اور ان کی ضعیف اعمال والے لوگوں کے بارے میں بھی سفارش قبول کی جس کی و جہ سے اللہ کی رحمت اُترنے لگی اور عام ہونے لگی، پھر یہ مغفرت زمین پر بکھیر دی گئی، زبان اور ہاتھ کے گناہوں سے بچنے والے ہر تائب پریہ واقع ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم کو ابلیس اور ا س کا لشکر عرفات کے پہاڑوں پر سے دیکھ رہے ہیں۔ جب بھی اللہ کی رحمت اُترتی ہے تو ابلیس اور اس کے لشکر واویلا کرتے ہیں۔‘‘
حکم:یہ روایت موضوع ہے ،الحسن بن علی ازدی حدیثیں گھڑنے والا راوی ہے۔
اس روایت کی سند کے بارے میں ابن حبان لکھتے ہیں:
"لیس هذا الحدیث من کلام رسول الله ﷺ ولا من حدیث أبي هریرة ولا الأعرج ولا مالك والحسن بن علي کان یضع على الثقاة لا یحل کتب حدیثه ولا الروایة عنه حلال" (الموضوعات:۲؍۲۱۶)
’’یہ روایت اللہ کے رسولﷺکے کلام میں سے نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ابوہریرۃ کی کلام ہے اور نہ اعرج و مالک کے کلام میں سے ہے۔ حسن بن علی الازدی ثقات پر جھوٹ باندھتا تھا، اس سے روایت کرنا جائزنہیں۔‘‘
٭ حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبیٓﷺ نے فرمایا:
"المؤمن حرام على المؤمن کحرمة هذا الیوم، لحمه علیه حرام أن یاکله بالغیبة یغتابه وعرضه علیه حرام أن یظلمه وأذاه علیه حرام أن یدفعه دفعا" (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۸)
’’مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے اس طرح حرمت والا جس طرح آج (یوم الاضحی) کا دن حرمت والا ہے اور مؤمن کا گوشت دوسرے مؤمن پر حرام ہے جو وہ اس کی غیبت کرکے کھاتا ہے اور اس کی عزت بھی حرام ہے کہ ظلم کرکے اس کی بے عزتی کرے اور اس کو ردّ ؍ دور کرکے تکلیف پہنچانا بھی حرام ہے۔‘‘
حکم:یہ روایت ضعیف ہے، اس میں محمد بن اسماعیل بن عیاش ضعیف ہے۔
٭ سنن ابن ماجہ میں ابن مطر سے مروی ہے کہ نبیؐ نے حجۃ الوداع میں فرمایا:
"یاأیها الناس خذوا العطاء ماکان عطاء فإذا تجاحفت قریش على الملك وکان عن دین أحدکم فدعوہ" (ضعیف سنن ابی داود للالبانی:۶۳۳)
(آپ لوگوں کو نصیحت فرما رہے تھے ، نیک کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے منع کررہے تھے۔ سو آپﷺ نے فرمایا:
اے لوگو! (حاکم) کی بخشش کو لے لیا کرو جب تک وہ بخشش رہے (یعنی موافق شرع کے حاصل ہو اور موافق شرع کے تقسیم ہو) پھر جب قریش ایک دوسرے کے ساتھ بادشاہت کے لئے لڑنا شروع کردیں اور یہ عطا فرض کے بدلہ میں ملے تو اس کو چھوڑ دو۔‘‘
حکم:یہ روایت ضعیف ہے، دیکھئے حوالہ مذکورہ ؛ ضعیف سنن ابی داؤد للالبانی
٭ کعب بن عاصم الاشعری کہتے ہیں کہ میں نے اوسط ایام التشریق میں نبیؐ سے خطبہ سنا، آپؐ فرمارہے تھے :
"المؤمن على المؤمن حرام کحرمة هذا الیوم لحمه علیه حرام أن یاکله بالغیب ویغتابه وعرضه علیه حرام أن یخرقه ووجهه علیه حرام أن یلطمه وأذاه علیه حرام أن یؤذیه وعلیه حرام أن یدفعه دفعا یتعتعه" (مجمع الزوائد:۳؍۲۷۲)
’’مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے اس طرح حرمت والا ہے جس طرح آج کا یہ دن حرمت والا ہے۔اس کاگوشت بھی اس پر حرام ہے، وہ جو اس کی غیبت کر کے کھاتا ہے۔اس کی عزت کو تار تار کرنا، چہرے پر تھپڑ مارنا، اس کو اذیت دینا اور دھکے دے کر دفع دور کرنا بھی حرام ہے ۔‘‘ (مجمع الزوائد :۳؍۲۷۲)
حکم:اس روایت میں کرامۃ بنت الحسن مجہول ہے۔
٭ ابوامامہ الباہلی سے روایت ہے کہ آپؐ نے یوم العرفہ کو فرمایا:
"ألا کل نبي قد مضت دعوته إلا دعوتي فإني قد ذخرتها عند ربي إلى یوم القیامة، أما بعد! فإن الانبیاء مکاثرون فلا تخزوني فإني جالس لکم على باب الحوض" (مجمع الزوائد:۳؍۲۷۱، کنز الاعمال:۳۹۰۸۵)
’’خبردار! ہر نبی اپنی دعا کے ساتھ گزر چکے لیکن میں نے اپنے ربّ کے پاس اپنی دعا قیامت کے دن کے لئے ذخیرہ کر چھوڑی ہے۔ پس بے شک انبیا اپنی اپنی امت کی کثرت دیکھ رہے ہوں گے، سو تم مجھے خفت میں نہ ڈالنا، میں تمہارے لئے حوضِ کوثر کے دروازے پر بیٹھا ہوں گا۔‘‘
حکم:یہ روایت ضعیف ہے ، اس میں بقیۃ بن الولید مدلس ہے۔
٭ امام ابوداؤد اپنی ’سنن‘ میں باب الخطبۃ علی المنبر بعرفۃکے تحت روایت لائے ہیں
"عن رجل من بنی ضمرة، عن أبیه، أو عمه قال: رأیت رسول الله ﷺ وهو على المنبر بعرفة"
’’بنو ضمرہ (قبیلہ ) کا ایک آدمی اپنے والد یا چچا سے روایت کرتا ہے کہ میں نے رسول اللہ ا کو دیکھا، وہ عرفہ کے روز منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔‘‘
حکم:یہ روایت ضعیف ہے، دیکھئے (ضعیف سنن ابی داؤد للالبانی : ۴۱۶)
خطبۂ حجۃ الوداع: منشورِ انسانیت
آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا سے خطاب شرو ع کیا…
مرد و زَن کے حقوق و فرائض:عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پرکسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو گواراہ نہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ۔
ہدایت نامہ :اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ اللہ کی کتاب ہے اور اس کے نبیﷺ کی سنت ہے۔
انسانی مساوات :لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے ہاں عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔
حرمت سود :خبردار! جاہلیت کا ہر قسم کا سود اب ختم ہے ۔تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے ،نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی تم ظلم کا شکار ہو اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں، عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے اب یہ سارے کا سارا سود ختم ہے!!
جاہلیت کے خون معاف :سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیے گئے اور ہمارے خون میں سب سے پہلے خون جسے میں ختم کررہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایام میں قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کردیا۔
ذاتی ذمہ داری : یاد رکھو! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا (یعنی اس جرم کی پاداش میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مجرم ہی پکڑا جائے گا) کوئی جرم کرنے والا اپنے بیٹے پر یا کوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم نہیںکرتا (یعنی باپ کے جرم میں بیٹے کو یا بیٹے کے جرم میں باپ کو نہیں پکڑا جائے گا)
اطاعت امیر :اگر کوئی حبشی یعنی بریدہ غلام بھی تمہارا قائد بتا دیا جائے اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔
تلقین پیغام رسانی :جو شخص موجود ہے، وہ غیر موجود تک (میری باتیں) پہنچا دے، کیونکہ بعض وہ افراد جن تک (یہ باتیں) پہنچائی جائیں گی وہ بعض (موجودہ) سننے والوں سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دروبست کو سمجھ سکیں گے۔
باہمی سلوک: خبردار! کسی مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسرے مسلمان کے لئے حلال نہیں جب تک وہ خود حلال نہ کرے اور اپنی خواہش سے نہ دے دے۔
بدکاری کا خاتمہ :بچہ اس کا جس کے بستر پر تولد ہوا اور بدکار کے لئے پتھر ہیں۔
حفاظت نسب :جس نے اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا یا جس نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو آقا ظاہرکیا تو ایسے شخص پر اللہ اور فرشتوں اور عام انسانوں کی طرف سے لعنت ہے۔ اس سے (قیامت کے دن) کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہوگا۔
قوم کی ہلاکت کے مرض کی نشاندہی :لوگو! مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی سے ہلاک ہوئیں۔
اہمیت علم :اے لوگو! علم حاصل کرو قبل اس کے کہ وہ قبض کرلیا جائے اور اٹھالیا جائے۔
خبردار! علم کے ختم ہوجانے کی ایک یہ بھی شکل ہے کہ اس کے جاننے والے ختم ہوجائیں (یہ بات آپﷺ نے تین دفعہ دہرائی)
احترام انسانیت :عنقریب میں تمہیں خبر دوں گا کہ مسلمان کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ سلامت رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے اموال اور جانیں محفوظ رہیں۔
دھوکہ دہی کی حوصلہ شکنی :جس شخصنے اپنے بھائی کا مال جھوٹی قسم سے ہتھیایا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔
باہمی اخوت :بے شک ہرمسلما ن دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
بڑے دشمن کی پہچان :کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو اس (دجال) کے بارے میں نہ ڈرایا ہو۔ نوح ؑ اور اس کے بعد آنے والے نبیوں ؑ نے بھی اس کے بارے میں ڈرایا۔ وہ تم (امت محمدیہ کے زمانہ) میں ظاہر ہوگا اور یہ بات تم خوب جانتے ہو۔ اس کی حالت بھی تم سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی یہ بات تم پر مخفی ہے کہ تمہارا رب ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو تمہارے لئے پردہ میں ہیں۔ تمہارا ربّ کا نا نہیں جبکہ اس (دجال) کی دائیں آنکھ کانی ہے اور وہ آنکھ اس طرح ہے جس طرح پھولا ہو منقیٰ ہوتا ہے۔
حکمرانوں کی خیرخواہی :تین چیزیں ہیں جن پر مؤمن کا دل خیانت (تقصیر) نہیں کرتا۔ صرف اللہ کے لئے عمل کے اخلاص میں، مسلمانوں کے حکمرانوں کی خیر خواہی میں اور ان کی جماعت سے چمٹے رہنے میں۔
حق وراثت :اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر وارث کے لئے ثابت کردہ حصہ مقرر کردیا ہے۔ اب وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔
سچ کی تلقین :خبردار! عنقریب تم سے میرے بارے میں سوال ہوگا۔ جس نے بھی مجھ پرجھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔
حفاظت دین :اپنے پروردگار کی عبادت کرو پانچوں وقت کی نماز پڑھو اور حج کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ یہ سب کام خوشی سے سرانجام دو تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔
درس اتحاد :اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا، لہٰذا دیکھو میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
شہادت اور تکمیل مشن :اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ کرام ؓ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔ یہ سن کر آپؐ نے انگشت ِشہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ، اے اللہ گواہ رہے، اے اللہ گواہ رہے!!
اُنہی ایام میں یہ وحی نازل ہوئی:
﴿اَلْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ:۳)
’’آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا۔‘‘
بشکریہ: Mohaddis Forum - محدث فورم
خطباتِ حجة الوداع… احادیث ِنبویؐ کی روشنی میں تحریر : ملک کامران طاہر ’ حجة الوداع ‘ کی و جہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ اکا...
By:
سیما آفتاب
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
کچھ میرے بارے میں
مقبول اشاعتیں
فیس بک
بلاگ محفوظات
-
◄
2024
(4)
- ◄ اکتوبر 2024 (1)
- ◄ جنوری 2024 (3)
-
◄
2023
(51)
- ◄ دسمبر 2023 (1)
- ◄ اپریل 2023 (8)
- ◄ فروری 2023 (19)
- ◄ جنوری 2023 (8)
-
◄
2022
(9)
- ◄ دسمبر 2022 (9)
-
◄
2021
(36)
- ◄ دسمبر 2021 (3)
- ◄ اکتوبر 2021 (6)
- ◄ ستمبر 2021 (1)
- ◄ جولائی 2021 (8)
- ◄ فروری 2021 (7)
- ◄ جنوری 2021 (1)
-
◄
2020
(88)
- ◄ اکتوبر 2020 (5)
- ◄ اپریل 2020 (13)
- ◄ فروری 2020 (10)
- ◄ جنوری 2020 (16)
-
◄
2019
(217)
- ◄ دسمبر 2019 (31)
- ◄ نومبر 2019 (28)
- ◄ اکتوبر 2019 (27)
- ◄ ستمبر 2019 (18)
- ◄ جولائی 2019 (32)
- ◄ اپریل 2019 (11)
- ◄ فروری 2019 (7)
- ◄ جنوری 2019 (15)
-
◄
2018
(228)
- ◄ دسمبر 2018 (13)
- ◄ نومبر 2018 (18)
- ◄ اکتوبر 2018 (7)
- ◄ ستمبر 2018 (21)
- ◄ جولائی 2018 (7)
- ◄ اپریل 2018 (21)
- ◄ فروری 2018 (39)
- ◄ جنوری 2018 (38)
-
◄
2017
(435)
- ◄ دسمبر 2017 (25)
- ◄ نومبر 2017 (29)
- ◄ اکتوبر 2017 (35)
- ◄ ستمبر 2017 (36)
- ◄ جولائی 2017 (23)
- ◄ اپریل 2017 (33)
- ◄ فروری 2017 (34)
- ◄ جنوری 2017 (47)
-
▼
2016
(187)
- ◄ دسمبر 2016 (19)
- ◄ نومبر 2016 (22)
- ◄ اکتوبر 2016 (21)
-
▼
ستمبر 2016
(11)
- آج کی بات ۔۔۔ 29 ستمبر 2016
- آج کی بات ۔۔۔ 27 ستمبر 2016
- تدبرِ قرآن- سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) حصہ بارہ
- اللہ کا رحم
- آج کی بات ۔۔۔ 19 ستمبر 2016
- آج کی بات ۔۔۔ 16 ستمبر 2016
- خطباتِ حجة الوداع… احادیث ِنبویؐ کی روشنی میں
- آج کی بات ۔۔۔ 11 ستمبر 2016
- تدبرِ قرآن- سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) حصہ گیارہ
- حج.. ایمان کی تجدید
- 6 ستمبر۔۔۔ یومِ دفاعِ پاکستان
- ◄ جولائی 2016 (11)
- ◄ اپریل 2016 (14)
- ◄ فروری 2016 (23)
- ◄ جنوری 2016 (10)
-
◄
2015
(136)
- ◄ دسمبر 2015 (27)
- ◄ نومبر 2015 (22)
- ◄ ستمبر 2015 (1)
- ◄ جولائی 2015 (10)
- ◄ اپریل 2015 (4)
- ◄ فروری 2015 (12)
- ◄ جنوری 2015 (9)
-
◄
2014
(117)
- ◄ دسمبر 2014 (5)
- ◄ نومبر 2014 (14)
- ◄ اکتوبر 2014 (11)
- ◄ ستمبر 2014 (11)
- ◄ جولائی 2014 (8)
- ◄ اپریل 2014 (5)
- ◄ فروری 2014 (14)
- ◄ جنوری 2014 (12)
-
◄
2013
(293)
- ◄ دسمبر 2013 (18)
- ◄ نومبر 2013 (21)
- ◄ اکتوبر 2013 (35)
- ◄ ستمبر 2013 (26)
- ◄ اپریل 2013 (59)
- ◄ فروری 2013 (30)
- ◄ جنوری 2013 (27)
-
◄
2012
(56)
- ◄ ستمبر 2012 (2)
- ◄ جولائی 2012 (2)
- ◄ فروری 2012 (14)
- ◄ جنوری 2012 (8)
-
◄
2011
(28)
- ◄ دسمبر 2011 (6)
- ◄ نومبر 2011 (22)