"بہت ٹینشن ہے"
"ابو یحییٰ کی کتاب 'بس یہی دل' سے ایک مضمون"
’’اس ٹینشن میں زندگی بڑی مشکل ہوچکی ہے بھائی، بہت ٹینشن ہے۔‘‘یہ اس گفتگوکا خلاصہ تھا جسے میں پچھلے نصف گھنٹے سے سن رہا تھا۔میں نے گفتگو میں اس لیے مداخلت نہیں کی کہ باتیں ساری ٹھیک تھیں۔ مہنگائی ، بدامنی، سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی، ملکی سا لمیت پر لہراتے خطرات کے سائے، روپے کی گرتی قیمت، اسٹاک ایکسچینج کی بگڑتی صورتحالوغیرہ۔ان کا رونا اگر کوئی شخص روتا ہے تو اس کی تردید کرنے سے کیا حاصل۔
مگر اب میری باری تھی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کی ہر بات سر آنکھوں پر ۔ آپ کی ٹینشن بھی بجا، لیکن میرے چند سوالات کا جواب دیجیے۔مانا مہنگائی بہت ہے، مگر کیا آپ پر فاقے آئے ہیں؟ بدامنی سے بھی انکار نہیں ، مگر کیا آپ کی جان اور اعضا کو کوئی نقصان پہنچا ہے؟ملک کی معاشی صورتحال نازک ہے، مگر آپ کاکاروبار بہرحال بند نہیں ہوااور ملکی سا لمیت کے متعلق پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ جو قوم اپنا نصف دھڑ گنواکر بھی اقوام عالم میں سر بلند رہی اسے آئندہ بھی کوئی فیصلہ کن نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ جب یہ حقائق ہیں تو پھر ٹینشن کیسی؟
پھر سوچیے کہ ان سارے حالات کے باوجود آپ کتنی نعمتوں میں جی رہے ہیں۔زندگی اور صحت کی نعمت،اعضا و قویٰ کی نعمت ،اولاد اور گھر کی نعمت،عزت اور عافیت کی نعمت اور ان جیسی نہ جانے کتنی نعمتیں۔ ان نعمتوں کی میں اگر تفصیل شروع کردوں تو صبح سے شام اور شام سے رات ہوجائے گی، مگر ان نعمتوں کی تفصیل ختم نہ ہوگی۔ اور نعمتیں بھی ایسی کہ ایک ایک کے پیچھے آپ دنیا دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔
خدا نخواستہ آپ کے بیٹے کی جان کو کوئی خطرہ لاحق ہوجائے تو آپ کیا نہیں کریں گے؟ آپ سے آپ کی آنکھوں کی روشنی چھین لی جائے تو ان تاریکیوں سے نکلنے کے لیے آپ کیا قیمت نہیں دیں گے؟آپ کی آبرو پر کوئی داغ لگنے لگے تو اسے مٹانے کے لیے آپ اپنا سب کچھ قربان نہیں کردیں گے؟
پھر یہ نعمتیں تنہا آپ ہی پر نہیں ہیں۔پوری قوم کو امن و عافیت دی گئی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں چین میں زلزلہ آیا اور لاکھ لوگ مرگئے۔ میمار(برما) میں طوفان آیا بستیوں کی بستیاں برباد ہوگئیں۔ پڑوسی ملک افغانستان میں جنگ و جدل کے نتیجے میں پورا ملک کھنڈر بن گیا۔ لاکھوں لوگ مرگئے۔مگر آپ کے ہاں خیر ہے۔ وبائیں نہیں پھوٹیں، قحط نہیں پڑا، سیلاب نہیں آیا۔
پھر تاریخ اٹھائیں اور اس کے صفحات پڑھیں کہ دنیا میں لوگوں کے ساتھ کیا کچھ ہوا ہے۔ خود آپ کی قریبی تاریخ میں 1857کے غدر،بنگال کے قحط، تقسیم ہند ، اور بنگلہ دیش کی علیحدگی کی وہ قیامتیں رقم ہیں جن میں لاکھوں لوگ نہیں کروڑوں لوگ برباد ہوگئے۔ لوگوں کی جان، مال، جائیداد، اولاد اور آبرو سب مٹی میں مل گئے۔آپ کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ۔
آپ ٹینشن لینا چاہتے ہیں تو ضرور لیں، مگر پہلے ان نعمتوں کا تو شکر ادا کریں جو ذاتی اور قومی حیثیت میںآپ پر کی گئی ہیں۔آپ رب کا شکریہ اداکریں، ٹینشن نہ لیں۔ آپ شکر ادا کریں گے تو لوگو ں کے ساتھ بھی مہربانی سے پیش آئیں گے اور ٹینشن لیں گے تو پھر آپ لازماً دوسروں کو ٹینشن دیں گے۔ پھر آپ خود مسئلہ بن جائیں گے۔ پھر کوئی شخص اپنے مسائل جب گنوائے گا تو ان مسائل میں ایک نام اور شائد سر فہرست نام آپ کا ہوگا۔
شکر کرنا سیکھیے۔اپنی آنکھوں میں احسان مندی کا سرمہ لگائیے۔ اپنی بینائی کو نعمتوں کی یاددہانی سے روشن کیجیے۔ اپنے نفسیاتی وجود کو مثبت سوچ سے معطر کیجیے۔اس سے آپ شکر کریں گے۔ جب آپ شکر کریں گے تو جانتے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟آپ دوسروں کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت بن جائیں گے۔اس کے بر عکس جب آپ ٹینشن لیتے ہیں توآپ دوسرے کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔کچھ اور نہیں تو آپ اپنے الفاظ سے دوسروں کے کانوں میں ٹینشن کا زہر انڈیلنے لگتے ہیں۔ یہی عذاب کچھ کم نہیں۔
شکر کیجیے اور نعمت بنئے۔ ٹینشن لے کر عذاب مت بنئے۔مت کہیے کہ بہت ٹینشن ہے۔ یہ کہیے کہ بڑا کرم ہے۔ آپ پر مزید کرم ہوگا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں