تحریر: محمد عمران
بسم اللہ الرحٰمن الرحیم
بڑے دنوں سے ایک قریبی دوست کا اصرار رہا ہے کہ موسیقی پر ایک پر مغز تحریر لکھوں۔۔
مگر چند اضافی مصروفیات کے باعث دماغ پر زور دینے سے کترا رہا تھا بہر حال اب ارداہ کرلیا کہ موسیقی پر ایک خصوصی تحریر لکھ دوں تاکہ موسیقی کے دلدادہ حضرات پر واضح ہوجائے کہ کیوں ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع کیا ہے۔۔۔
جب میں نے علمِ موسیقی کا مطالعہ شروع کیا تھاتو مجھ پر کئی ایک راز افشا ہوئے جن کا ذکر پھر کبھی کیونکہ پھر مذکورہ موضوع سے باہر نکل جانے کا امکان ہے۔۔۔
کچھ عرصہ پہلے مجھ سے ایک صاحب دانش نے سوال کیا کہ آپ اسلام کو ایک طرف رکھ کر صرف نفسیاتی نقطہ نظر سے یہ ثابت کریں کہ موسیقی واقعی نقصان دہ چیز ہے۔۔۔
اس نے مجھے ولیم شیکسپئر کے مشہور قول ’’ موسیقی روح کی غذاء ہے‘‘ پر بھی تبصرہ کرنے کو کہا کہ اگر موسیقی نفسیاتی طور پر نقصان دہ یا بری چیز ہوتی تو شیکسپئر جیسے دانشور اسے روح کی غذاء نہ کہتے۔۔۔
ایک طویل مدت تک چونکہ موسیقی سے کافی گہرا تعلق رہا ہے اس لئے اسکے ابطال پر لکھنے کو ایک گہری سوچ و بچار درکار تھی سو انتہائی غور وخوض کے بعد ایک نقطہ پر پہنچنے کی کوشش کی ہے کہ ایک مسلمان کیلئے موسیقی کیوں ممنوع قرار دی گئی ہے۔۔۔
میں یہاں پر موسیقی کا نفسیاتی پوسٹ مارٹم کرنے کی کوشش کروں گا۔۔۔
سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ موسیقی ہے کیا چیز؟
موسیقی مرکب ہے سات سروں کا۔۔سا رے گا ما پا دھا نی۔۔۔الاپ کے اساتذہ نے ان سات سروں کو انسانی گلے کے عین مطابق ترتیب دیاہے تاکہ جب ایک خاص الاپ کے ساتھ ان کو ادا کیا جائے تو یہ ایک مخصوص راگ کی شکل اختیار کر لیں آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی گلے کو موسیقی کے اصولوں کے عین مطابق بنایا ہے جبکہ اساتذہ موسیقی نے بھی اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے سات سر ترتیب دئیے ہیں تاکہ جب ان سروں کو ایک خاص ترتیب اور فن سے الاپا جائے تو ایک پیمانہ یعنی راگ سامنے آئے۔۔۔اور جس سے سننے والے پر ایک عجیب وغریب کیفیت طاری ہوجائے۔۔۔پاکستان میں اس فن کے ماہر مرحوم استا دنصرت فتح علی خان جبکہ اسکے علاوہ پٹیالہ گھرانے کے اساتذہ بھی اس فن کے ماہر تھے۔۔یہ لوگ یہی سات سر جب ایک مخصوص فن کے ساتھ گلے سے باہر اگلتے ہیں تو مخاطب عش عش کراٹھتا ہے اور پھراکثریت ان کے اس سحر میں مبتلا ہوجاتی ہے۔۔۔ہم نے اس مضمون میں موسیقی کے پس پست وہ عوامل جاننے ہیں جن کی بدولت لوگ اسکے رسیا ہوجاتے ہیں۔۔۔
چنانچہ ہم یہاں پر موسیقی کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے۔۔۔
علم نفسیات چونکہ ایک نہایت مشکل اور پیچیدہ علم ہے اور پاکستان میں بہت بعد میں یہ علم متعارف کیا گیا پہلے پہل اس کا سارا لٹریچر انگریزی زبان میں تھا جبکہ فی زمانہ اردو زبان میں بھی اس لٹریچر کا ترجمہ کیا جا رہا ہے۔۔۔مغربی دانشور ولیم شیکسپئر کو بلاشبہ نفسیات میں یدطولیٰ حاصل تھا ان کا مشہور قول "موسیقی روح کی غذاء ہے " انکی ایک سطحی تحقیق کی بدولت منظر عام پر آیا۔۔میں انکے اس قول سے بالکل متفق نہیں ہوں ۔۔۔یہ لوگ چونکہ اسلامی نظریات سے بالکل لاعلم ہوتے ہیں اس لئے یہ لوگ اس قسم کے اقوال پیش کرتے ہیں۔۔۔ان کا یہ کہنا کہ موسیقی روح کی غذاء ہے اس میں انہوں نےکوئی تخصیص نہیں کی گویا روئے زمین پرموجودہر نیک وبد کی روح کی غذاء ہے حالانکہ یہ تو عقل کے بھی خلاف معلوم ہوتا ہے اگر ہم اس قول کا تجزیہ خالصتاً نفسیاتی طور پر کرنےکی کوشش کریں تو یہ بات ہم پر روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ محض ایک قول ہی ہے جسکی کوئی حقیقت نہیں۔۔۔
راقم کا چونکہ کسی وقت میں نفسیات بنیادی مشغلہ رہا ہے ا س لئے مناسب سمجھا کہ موسیقی کا خالصتاً نفسیاتی تجزیہ کیا جائے کہ یہ واقعی روح کی غذاء ہے یا ہماری غلط فہمی۔۔۔۔
علم نفسیات میں جذبات کے علم کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر دو طرح کے جذبات ودیعت کئے ہیں ۔۔۔
1: علوی جذبات۔۔۔
2 : سفلی جذبات
علوی جذبات: جب ہم کسی کو تکلیف میں دیکھتے ہیں تو فوراً ہمیں دماغ یہ اطلاع فراہم کرتا ہے کہ اسکی کوئی مدد کی جائے اور پھر انسان اس مصیبت زدہ انسان کی مدد کیلئے بےتاب ہوجاتا ہے یہی بے تابی انسانی علوی جذبات کی عکاس ہوتی ہے اسکی دوسری مثال اس طرح کہ بحیثیت مسلمان جب کسی شعائر اسلام کی توہین ہوتے دیکھتے ہیں تو ہمارے جذبات ایک دم بھڑک اٹھتے ہیں اور بے تابی کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ کسی طرح اس کا سدباب کیا جائے۔۔۔اس علوی جذبات کی امثال آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں محاذ جنگ کے موقع پرصحابہ رضی اللہ عنہم کے ان جذبات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انکے جذبات توحید اور اسلام کی سربلندی کیلئے کتنے بے تاب ہوتے تھے۔۔۔ اس موقع پر صحابی رسول حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا اعلان جنگ کے موقع پر اپنی اہلیہ کو اچانک تنہا چھوڑ کر محاذ کی طرف جانا علوی جذبات کے اظہار کا ایک بہترین نمونہ ہے۔۔۔
سفلی جذبات: سفل عربی زبان میں نچلے کو کہتے ہیں جبکہ یہ لفظ علوی کا متضاد ہے دنیا کے ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے سفلی جذبات رکھے ہیں مگر انکے اظہار پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اگر علوی جذبات کی طرح سفلی جذبات کے اظہار کی تحسین کی جائے تو زمین پر دنگا فساد مچ جائے گا اور لوگ ہوائے نفس میں مبتلا ہوجائیں گے اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےان تمام چیزوں سے اپنی امت کو منع فرمادیا جن سے انسان کے سفلی جذبات ظاہر ابھرتےہیں۔۔
اب آیئے موسیقی کی جانب ۔۔۔جب انسان وہی سات سر ایک خاص فن کے ساتھ اپنے گلے سے اگلتا ہے تو انسان تو گانے اور سننے والے دونوں کےسفلی جذبات میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور انسان بے خودی کی سی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ ارد گرد کے ماحول سے بالکل بے خبر ہوجاتا ہے ۔۔بس اسی بے خودی کی کیفیت کو شیکسپئر نے روح کی غذاء کا نام دیدیاکیونکہ انسان کو اپنی خبر تو ہوتی نہیں اس لئے اسے یہی بے خودی کو سکون معلوم ہوتی ہے جبکہ اسی سکون کو شیکسپئر نے روح کا سکون کہہ دیا حالانکہ اگر غور کیا جائے تو سب سے بڑی بے سکونی یہی ہے کہ انسان اس موقع پر اپنے آپ سے بے خبر ہوجاتا ہے اب اس سے ایک قدم آگے جب انسان ان سات سروں میں سراپا ڈوب جاتا ہے(یہاں پر سات سروں سے مراد ہر نوع کا گیت وغیرہ ) تو اس کا پورا بدن تھرتھرانے لگتا ہے اور یہاں سے پھر انسان رقص کرنا شروع کردیتا ہے باالفاظ دیگر رقص دراصل سفلی جذبات کا بھرپور اظہار ہے یعنی آجکل جو آپ پاپ میوزک کے نام پر نوجوان نسل کی ہلڑبازی دیکھ رہے ہیں یہی تووہ سفلی جذبات کا اظہار ہے جس سے ہمارے احسن مذہب اسلام نے سخت منع کیا ہے کیونکہ اسلام ہمیں اخلاق سیکھاتا ہے نہ کہ ہمارے اخلاق بگاڑتا ہے رقص کی ایک قسم دھمال بھی ہے جسے صوفیاء کے ہاں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو دھمال بھی سفلی جذبات کے اظہار کا نمونہ ہے لیکن اس میں اور رقص میں معمولی فرق یہ ہے کہ رقص عام رومانوی گیت یاغزلوں پر کیا جاتا ہے اور دھمال صرف صوفیاء کے مناقب میں کہے گئےسررود سے بھرپور الفاظ پر کیا جاتا ہے اور اسے اسلام کے جوڑنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے ۔۔
ہندوستان کے صوفی سلسلہ چشتیہ کے ہاں یہ دھمال وغیرہ کو خاصی اہمیت حاصل ہے اس لئے تو انہوں نے قوالی وغیرہ کو عبادت میں شمار کیا ہے اگر ان کے اس سرود کی حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی کسی طور سفلی جذبات کے اظہار سے مختلف نہیں۔۔۔
قوالی میں کیا ہوتا ہے ۔۔۔ہامورنیم کا الاپ اور طبلے کی تھاپ جبکہ یہی دونوں آلات تو انسان کے سفلی جذبات کو بھڑکاتے ہیں الفاظ چاہے جتنے پاک اور کسی بڑےبزرگ کی مدح میں کیوں نہ ہوں مگر ان کے ساتھ ان دو آلات کی آمیزش حرمت تک لے جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حسن اخلاق کی تلقین کرنے آئے ہیں نہ کہ وہ ہمارے اخلاق کو گڑبڑ کرنے کیلئے۔۔آپ نےکہیں دیکھا ہوگا کہ دوران قوالی اکثر نام نہاد بزرگ گر جاتے ہیں اور وجد میں آجاتے ہیں۔۔۔تو آئیے ہم یہ بھی جان لیں کہ وجد کی حقیقت کیا ہے ؟کیونکہ ہوسکتا ہےبعض افراد کے ہاں وجد کی کوئی اہمیت ہو ۔۔۔آپ اگر شریعت کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کریں گے تو ٓپ کو وہاں وجد نام کی کوئی دھماچوکڑی نظر نہیں آئے گی جبکہ نفسیاتی طور پربھی اس کی کوئی حقیقت نہیں یہ بھی وہی سفلی جذبات کا اظہار ہے یعنی جب انسان ہارمونیم کے الاپ اور طبلے کی تھاپ پر بے خود ہوجاتا ہے اور آپے سے باہر ہوجاتا ہے تو صوفیاء کی اصطلاح میں یہ معاذ اللہ خدا تک پہنچ جاتا ہے اور مخلوق سے اس کا تعلق کٹ جاتا ہے حالانکہ یہ سب صریح لغویات ہیں اس قسم کا تصور آپ کو نہ تو اسلام میں کہیں نظر آئے گا بلکہ اس کا کوئی ثبوت نہ توا ٓپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں ملے گا اور نہ آپکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں نظر آئے گااگر یہ کوئی اتنی اہم چیز ہوتی تو ہمیں اسلام اسکے متعلق ضرور بتاتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس کے متعلق ضرور کوئی تلقین کرتے کہ اس طرح سے بھی اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اگر آج کوئی موسیقی کا رسیا یہ کہہ دے جس طرح کا وجد صوفیا کو قوالیاں سن کرا ٓتا ہے بالکل اس ی طرح کا وجد مجھے فلاں فلاں گیت سن کر بھی آجاتا ہے تو اس موسیقی کے رسیا اور اس صوفی صاحب کی حالت میں قطعاً کوئی فرق نہیں ہوگاکیونکہ موسیقی کی بنیادی برائی یہی کہ وہ انسان کے سفلی جذبات کو ابھارتی ہے اور انسان کو آپے سے باہر کرتی ہے اب کوئی اگر قوالی سن کر آپے سے باہر ہوجائےیا پھر اپنی پسند کا گیت۔۔دونوں کی کیفیت کچھ مختلف نہیں۔۔۔ اسکی مثال اس طرح دی جائے کہ ا ٓج عوام شادی بیاہ پر محفل موسیقی کا پروگرام کیوں بناتے ہیں اس لئےنا کہ وہ خوب دھماچوکڑی مچائیں اور بےدریغ رقص ودھمال کا مظاہرہ کریں آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ لوگ شادی بیاہ میں موسیقی پر رقص کرتےنظرآتے ہیں تو دراصل یہ لوگ اپنے سفلی جذبات کا بھرپور اظہار کررہے ہوتے ہیں اور عوام یہی سمجھتی ہے کہ شادی بیاہ کا موقع ہےکچھ برا نہیں کہ لوگ ناچ رہے ہیں۔۔۔حالانکہ اس میں سب بڑی قباحت یہی کہ یہ سر انسان کو بے خود کردیتا ہے اور اسے آپے سے باہر کرلیتا ہے ۔۔۔
آپ اگر اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کاملہ کا بغور مطالہ کریں توا ٓپ کو کہیں بھی یہ نہیں ملے گاا ٓپ نے یاا ٓپکے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کبھی رقص وغیرہ کیا ہو حالانکہ شادیاں توا ٓپ کی بھی ہوئیں ہیں آپکے صحا بہ کی بھی ہوئیں ہیں مگر انہوں کبھی اس قبیح فعل کو اختیار نہیں کیا چہ جائیکہ اسے اسلام سمجھا جائے۔۔۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس لئے موسیقی کے قریب جانے سے روک دیا کہ یہ سفلی جذبات کو ابھارتی ہے اور اس سے انسان مست ہوجاتا ہے اور یہ مستی پھر خدانخواستہ زنا یا شراب جیسےکسی بھیانک نتیجہ پر لے جاتی ہے جو ستم بالائے ستم سے کسی طور کم نہیں۔۔
اکثر لوگ دوران موسیقی زنا یا پھر شراب پینے کو ترجیح د یتے ہیں تاکہ موسیقی کا لطف دوبالا کیا جا سکے۔۔۔اب بتائیے کہ یہ کیسے روح کی غذاء ہوگئی ؟ بلکہ یہ تو روح کیلئے سم قاتل ٹھہری چہ جائیکہ روح کی غذاء۔۔۔البتہ یہ شیطانی روح کی غذاء ضرورہوسکتی ہے انسانی روح کی نہیں۔۔۔اگر یہ روح کی غذاء ہوتی تو اسلام اس سے کبھی بھی ہمیں نہ روکتا بلکہ اس کے کرنے کی اجازت ہوتی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں