خوشی اور بشارت کے اسباب و ذرائع
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
19 جمادی اولی 1440 بمطابق 25 جنوری 2019
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 19 جمادی اولی 1440 کا خطبہ جمعہ "خوشی اور بشارت کے اسباب و ذرائع" کے عنوان پر مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام انسانی جذبات کا خیال رکھتا ہے اور ہمیشہ خوش رہنے کی تلقین کرتا ہے، دوسروں کو خوش رکھنا اسلام میں عبادت کا کام ہے، بشارت دینا انبیائے کرام کی سنت اور ذمہ داری بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی داعیان اسلام کو مختلف علاقوں میں بھیجتے ہوئے اس چیز کی خصوصی تلقین فرماتے تھے اور خود بھی اپنے صحابہ کو بشارتیں دیتے تھے۔ درج ذیل اعمال اور افراد کو اسلام میں بشارت دی گئی ہے: اطاعت و وحدانیت الہی پر استقامت، عقیدہ توحید پر موت، قرآن و سنت کی اتباع، عالم با عمل، منکسرالمزاج لوگ، مصیبت میں صبر اور اللہ پر توکل، افراط و تفریط سے بچنے والا، جبکہ اہل ایمان کو زندگی، موت، قیامت قائم ہوتے وقت، پل صراط پر، اور جنت میں داخل ہو کر بھی بشارت دی جائے گی۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت انبیائے کرام کو بھی بشارتیں دی گئیں، سیدہ عائشہ اور خدیجہ کو خصوصی طور پر بشارت سنائی گئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خوشخبری ملنے پر سجدہ شکر کرنا مستحب عمل ہے، نیز اگر کسی شخص کے حسن تعامل پر مطالبے کے بغیر لوگ ستائشی کلمات کہتے ہیں تو یہ بھی بشارت میں شامل ہے، آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔
⇺ منتخب اقتباس ⇻
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم -اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمت و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!
دین اسلام دین فطرت ہے، اسلام بہترین عقیدے، خوبصورت اخلاق اور اعلی ترین صفات اپنانے کی دعوت دیتا ہے، اسلام انسان کے جذبات کا خیال رکھتا ہے، اپنے حال سے خوش رہنے اور مستقبل کے بارے میں مثبت سوچ کی ترغیب دیتا ہے۔
لوگوں کو مسرور کرنے والی باتیں بتلانا اللہ کی عبادت اور قربت کا ذریعہ ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ}
اور مومنوں کو خوشخبری دیں۔[البقرة: 223]
بلکہ اللہ تعالی نے اپنے آپ کو بھی اس سے متصف قرار دیا اور فرمایا:
{ذَلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ}
یہ ہے وہ چیز جس کی خوشخبری اللہ اپنے مومن اور نیک عمل کرنے والے بندوں کو دیتا ہے۔ [الشورى: 23]
اور چونکہ بشارت کی دل میں بڑی منزلت ہے اس لیے فرشتے اسے لے کر آئے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى}
بلاشبہ ہمارے پیغام رساں ابراہیم تک خوشخبری لے کر پہنچے۔ [هود: 69]
رسولوں کی بعثت کا مقصد اللہ کے مومن بندوں کو بشارت دینا بھی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ}
اور ہم رسولوں کو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہی بنا کر بھیجتے ہیں۔[الأنعام: 48]
اللہ تعالی نے ہمارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے لئے فضائل اور جنتوں کی بشارت دینے والا بنا کر بھیجا، اللہ کا فرمان ہے:
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا}
اور ہم نے آپ کو بشیر اور نذیر ہی بنا کر بھیجا ہے۔[الإسراء: 105]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار تھا کہ داعیان حق کو مختلف علاقوں میں بھیجتے تا کہ لوگوں کو اسلام کی نعمت ملنے پر بشارتیں دیں، چنانچہ : (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا: تم دونوں آسانی پیدا کرنا، مشقت میں نہ ڈالنا، بشارت دینا ، لوگوں کو متنفر مت کرنا۔) متفق علیہ
اللہ تعالی نے مومنین کی صفات میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو خوشخبریاں سناتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ}
اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا ؛ چنانچہ جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔[التوبة: 124]
یعنی مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی ملنے والی نعمتوں پر ایک دوسرے کو بشارت دے رہے ہوتے ہیں۔
اور جب انسان اللہ تعالی کی اطاعت اور وحدانیت پر ڈٹ جائے تو اس کے لئے اللہ کے ہاں بشارت ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ}
یقیناً جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو ؛ بلکہ اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔[فصلت: 30]
ہدایت کا سر چشمہ یہ ہے کہ علم کے ساتھ عمل بھی ہو، نیز علم و عمل پانے والا بھی بشارت یافتہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{فَبَشِّرْ عِبَادِ (17) الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ}
میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے [17] وہ جو کان لگا کر بات سنتے ہیں، پھر اس میں سب سے اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقل والے ہیں۔ [الزمر: 17، 18]
مصیبت کے وقت اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے اللہ کے فیصلوں پر صبر کرنے والے کے لئے بھی رب العالمین کی جانب سے بشارت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ}
اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں [155] جنہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ: ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں [156] انہی پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ [البقرة: 155 - 157]
اہل ایمان کے لئے بشارتیں زندگی میں اور وفات کے بعد بھی جاری رہیں گی، فرمانِ باری تعالی ہے:
{أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (63) لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ }
یاد رکھو کے اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں [62] یہ وہ لوگ ہیں جو صاحب ایمان اور متقی ہیں [63] انہی کے لئے دنیا کی زندگی اور آخرت میں بشارتیں ہیں ۔[يونس: 62 - 64]
جس وقت مومن کو موت آنے لگتی ہے تو اسے بلند ترین درجات کی بشارت دے دی جاتی ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب مومن کو موت آتی ہے تو اسے اللہ کے راضی ہونے اور اللہ کے ہاں تکریم کی بشارت دی جاتی ہے۔ چنانچہ جو آگے آنے والے مراحل ہیں وہ اس کے ہاں محبوب ترین ہو جاتے ہیں، اس لیے وہ اللہ سے ملاقات کو پسند بھی کرتا ہے) بخاری
پھر فرشتے بھی اسے کہتے ہیں: (اے پاکیزہ رو ح [اس جسم سے] نکل آ۔ اور پھر رحمت ،خو شبو اور پروردگار کے تجھ سے ناراض نہ ہونے کی بشارت قبول کر۔ فرشتے اسے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں ، اس کے لئے دروازہ کھو ل دیا جا تا ہے ۔ کہا جاتا ہے : کون ہے ؟ وہ کہتے ہیں: فلاں شخص ہے ، تب کہا جا تا ہے : پاک جسم کی پاکیزہ روح کو خوش آمدید، قابل ستائش انداز میں داخل ہو، نیز رحمت ،خو شبو اور پروردگار کے تجھ سے ناراض نہ ہونے کی بشارت قبول کر۔ اسے مسلسل اسی طرح کہا جا تا ہے حتی کہ فرشتے اسے لے کر اس آسمان تک پہنچتے ہیں جس پر اللہ عزوجل کی ذات اقدس ہے) احمد
جس وقت لوگ جہنم کے عین اوپر پل صراط پر ہوں گے تو اہل ایمان کے لئے اس سخت ترین موقعے پر بھی بشارت ہے : فرمانِ باری تعالی ہے:
{يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}
اس دن آپ دیکھیں گے کہ مومن مردوں اور عورتوں کا نور ان کے سامنے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (اور انہیں کہا جائے گا) آج تمہیں ایسے باغوں کی بشارت ہے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔ تم اس میں ہمیشہ رہو گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔ [الحديد: 12]
مسلمان اپنے بھائیوں کے لئے بھی وہی کچھ پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، نیز مسلمان اپنے بھائیوں کو خوش رکھنے کی کوشش میں بھی لگا رہتا ہے۔ خوشخبری سنا کر دلوں کو جیتنا بڑا آسان عمل ہے؛
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں یہ بھی شامل تھا کہ مصیبت زدہ کو مشکل کشائی ہونے پر خوشخبری دیتے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا تھا: (عائشہ! خوش ہو جاؤ، اللہ تعالی نے تو تمہیں بری قرار دے دیا ہے) متفق علیہ
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھارس باندھی تھی اور آپ کا مکمل تعاون کیا تھا اس لیے آپ کو جنت میں محل کی خوشخبری دی گئی، چنانچہ ایک بار جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: (اللہ کے رسول! یہ خدیجہ آ رہی ہیں ، ان کے ساتھ برتن میں سالن، کھانا یا پینے کی چیز ہے، جب وہ آپ تک پہنچ جائیں تو انہیں اللہ کی طرف سے اور میری طرف سے سلام پیش کریں، نیز انہیں جنت میں موتی کے خول سے بنے محل کی بشارت بھی دیں ، وہاں کوئی شور و غل نہیں ہو گا نہ ہی تھکاوٹ ہو گی) متفق علیہ
مصیبت زدہ شخص کی اشک شوئی، اس کی پریشانی کا مداوا، اور اسے خیر کی بشارت دیتے ہوئے مکمل تسلی دینا بھی بہت بڑی نیکی ہے، چنانچہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ خدیجہ کے پاس آئے اور انہیں اپنی کیفیت بتلاتے ہوئے کہا: (مجھے اپنی جان کا خدشہ ہے، تو خدیجہ نے انہیں کہا: ہر گز نہیں! بلکہ آپ خوش رہیں، اللہ کی قسم! اللہ تعالی آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا) متفق علیہ
جس دن بندے کی اللہ تعالی توبہ قبول فرما لے تو وہ اس کی زندگی کا سب سے بہترین دن بن جاتا ہے؛ کیونکہ توبہ کرنے سے انسان کی دنیا اور آخرت سنورتی ہے، جیسے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دو ساتھی بغیر عذر کے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے پھر جب اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا: (تم خوش ہو جاؤ، تمہارے پیدا ہونے سے لے کر آج تک تمہارے لیے اس سے بہتر دن نہیں گزرا۔) متفق علیہ
مسلمانوں کو دی جانے والی سب سے بڑی خوشخبری غلبۂ اسلام کی خوشخبری ہے، پوری کائنات میں اسلام کا پھیلاؤ ان کے لئے بشارت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اس امت کو بلندی، رفعت، غلبہ اسلام، نصرت اور دھرتی کا نظام ملنے کی خوشخبری دے دیں۔) احمد
خوشخبری ملنے پر سجدۂ شکر بجا لانا مستحب عمل ہے، نیز خوشخبری دینے والے کو تحفہ بھی دے، جیسے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اپنا اور اپنے دو ساتھیوں کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: " میں بیٹھا ہوا تھا اور میری حالت بعینہ وہی تھی جس کا ذکر اللہ تعالی نے کیا ہے کہ میں اپنے آپ سے تنگ تھا اور زمین اپنی فراخی کے باوجود میرے لیے تنگ ہو چکی تھی کہ اچانک میں نے کسی چلانے والے کی آواز سنی جو جبل سلع پر چڑھ کر پکار رہا تھا: "اے کعب بن مالک! خوش ہو جاؤ" میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور سمجھ گیا کہ آزمائش کا وقت ختم ہو گیا ۔ کچھ لوگ خوشخبری دینے کے لیے میرے دونوں ساتھیوں کی طرف بھی گئے اور ایک شخص گھوڑا دوڑا کر میری طرف نکلا، اور قبیلہ اسلم کا ایک آدمی دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور اس کی آواز گھوڑے سے تیز نکلی، لہذا یہ شخص جس کی آواز میں، میں نے خوشخبری سنی تھی میرے پاس پہنچا تو میں نے اپنے کپڑے اتار کر اسے انعام میں پہنا دیے۔ اللہ کی قسم! میرے پاس اس وقت اس کے علاوہ کچھ نہ تھا، لہذا میں نے دو کپڑے ادھار لے کر پہنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانے کے لیے چل پڑا۔ لوگ گروہ در گروہ مجھ سے ملتے اور توبہ قبول ہونے کی مبارک دیتے ہوئے کہتے: مبارک ہو اللہ تعالی نے تمہاری توبہ قبول فر ما لی۔ " متفق علیہ
دین اسلام سے بڑھ کر خوبصورت دین کوئی نہیں ، دین اسلام خوشیوں اور خوبیوں کا دین ہے، اسلام معاشرے میں خوشیاں بانٹنے کی ترغیب دیتا ہے، تو اسلام کی ان خوبیوں پر سب سے پہلا حق خود مسلمانوں کا ہے۔ دعوت دین کے لئے لوگوں کو بشارتیں دینا اور ان کے دلوں میں دین کی محبت پیدا کرنا بنیادی ترین امر ہے۔
مسلمانو!
اسلام میں سب سے بڑی بشارت قرآن کریم ہے، اس لیے قرآن کریم سراپا ہدایت اور بشارت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ}
اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور یہ مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے [النحل: 89]
حسن کارکردگی کے حامل مومن کی نہ چاہتے ہوئے شہرت؛ مومن کو جلد ملنے والی بشارت ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: " آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک شخص اچھے کام کرتا ہے تو اس پر لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں؟ "آپ نے فرمایا: (یہ مومن کے لیے فوری بشارت ہے۔) مسلم
ہواؤں کو اللہ تعالی بارش کی خوشخبری اور بشارت دینے کے لئے ارسال فرماتا ہے، تا کہ بارش آنے سے پہلے اور بعد میں لوگ خوش ہوں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ}
اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہواؤں کو اللہ کی رحمت سے قبل خوشخبری دینے والی بنا کر بھیجتا ہے ۔[الروم: 46]
اچھے بول بھی بشارت اور خوشی کا باعث بنتے ہیں، یہ نیک شگونی میں شامل ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیماری خود متعدی نہیں ہوتی، نہ ہی پرندوں میں کوئی نحوست ہے، مجھے نیک شگونی اچھی لگتی ہے) صحابہ نے کہا: "نیک شگونی کیا چیز ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میٹھے بول) متفق علیہ
اس لیے خوشخبری اور بشارت دینا رسولوں کا طریقہ کا ہے، چنانچہ لوگوں کے لئے بھی اچھی چیزوں کی خوشخبری دینا مستحب ہے۔
یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، تو غنی ہے، ہم ناتواں ہیں، ہمیں بارش عطا فرما، اور ہمیں مایوس مت فرما۔ یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔
یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر بہت زیادہ ظلم ڈھائے ہیں اگر توں ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
اللہ کے بندو!
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ [النحل: 90]
تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ