سال کی ایک اور گرہ


سال کی ایک اور گرہ


گرہ کی ہے یہی گنتی کہ تا بروز شمار 
ہوا کرے گی ہر اک سال آشکار گرہ 

گرہ سے اور گرہ کی امید کیوں نہ بڑھے 
کہ ہر گرہ کی گرہ میں ہیں تین چار گرہ 

مرزا غالب نے یہ معلوم نہیں کس کی سالگرہ پر کہا تھا، مگر حقیقت ہے کہ ہم ہر سال اس سال کی گرہ کو گنتے چلے جاتے ہیں، نئی سالگرہ پر نئی امیدیں لیے اگلی سالگرہ کا انتظار کرتے ہیں اور اسی طرح سالہاسال گزر جاتے ہیں۔

وقت اور عمر کے ساتھ بھی اس دن کی اہمیت ہماری زندگی میں کم نہیں ہوتی ہاں بس وہ بچپن اور لڑکپن والا جوش نہیں رہتا مگر پھر بھی اپنوں کی طرف سے ایک پیغام کا انتظار رہتا ہے اور پیغام ملنے کی صورت میں دل میں ایک خوشی سی محسوس ہوتی ہے کہ "آج ہماری سالگرہ ہے، دیکھو اس کو یاد ہے نا" :) 

Image result for birthday to me

کوئی بھی منطق کوئی بھی دلیل اس چھوٹی سی خوشی کی اہمیت کم نہیں کرپاتی ہے۔ 

لہٰذا میرا تو ماننا ہے کہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں اکھٹا کرتے رہیں اور خوش رہیں اور خوش رکھیں۔

باقی سالگرہ کا دن نہ بھی یاد رکھا جائے تو زندگی رک تو نہیں جائے گی کیونکہ زندگی کا کام ہی چلتے رہنا ہے۔ 

ہاں اہمیت سالگرہ سے زیادہ زندگی کی ہونی چاہئیے کہ ہماری زندگی ہمارے اور دوسروں کے لیے باعث راحت ہو، باعث آزار نہیں۔ 

جہاں رہیں خوش رہیں۔ :) 


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

سال کی ایک اور گرہ گرہ کی ہے یہی گنتی کہ تا بروز شمار  ہوا کرے گی ہر اک سال آشکار گرہ  گرہ سے اور گرہ کی امید کیوں نہ بڑھے...

آج کی بات ۔۔۔ 29 جنوری 2019

~!~ آج کی بات ~!~

کامیابی و ناکامی کا دارومدار " نیتوں " پر ہوا کرتا ہے ۔ 
عزت و ذلت بھی اپنے" کارناموں" اور " کرتوتوں " کے بنا پر ہی حصے میں آتی ہیں !!!


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

~!~ آج کی بات ~!~ کامیابی و ناکامی کا دارومدار " نیتوں " پر ہوا کرتا ہے ۔  عزت و ذلت بھی اپنے" کارناموں " اور ...

خوشی اور بشارت کے اسباب و ذرائع ۔۔۔۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)۔۔ 25 جنوری 2019

No photo description available.
خوشی اور بشارت کے اسباب و ذرائع 
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
 19 جمادی اولی 1440 بمطابق 25 جنوری 2019
امام و خطیب:  ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 19 جمادی اولی 1440 کا خطبہ جمعہ "خوشی اور بشارت کے اسباب و ذرائع" کے عنوان پر مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام انسانی جذبات کا خیال رکھتا ہے اور ہمیشہ خوش رہنے کی تلقین کرتا ہے، دوسروں کو خوش رکھنا اسلام میں عبادت کا کام ہے، بشارت  دینا انبیائے کرام کی سنت  اور ذمہ داری بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی داعیان اسلام کو مختلف علاقوں میں بھیجتے ہوئے اس چیز کی خصوصی تلقین فرماتے تھے اور خود بھی اپنے صحابہ کو بشارتیں دیتے تھے۔ درج ذیل اعمال اور افراد کو اسلام میں بشارت دی گئی ہے: اطاعت و وحدانیت الہی پر استقامت، عقیدہ توحید پر موت، قرآن و سنت کی اتباع، عالم با عمل، منکسرالمزاج لوگ، مصیبت میں صبر اور اللہ پر توکل، افراط و تفریط سے بچنے والا، جبکہ  اہل ایمان کو زندگی، موت، قیامت قائم ہوتے وقت، پل صراط پر، اور جنت میں داخل ہو کر بھی بشارت دی جائے گی۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سمیت انبیائے کرام کو بھی بشارتیں دی گئیں، سیدہ عائشہ اور خدیجہ کو خصوصی طور پر بشارت سنائی گئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خوشخبری ملنے پر سجدہ شکر کرنا مستحب عمل ہے، نیز اگر کسی شخص کے حسن تعامل پر مطالبے کے بغیر لوگ ستائشی کلمات کہتے ہیں تو یہ بھی بشارت میں شامل ہے، آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔

⇺ منتخب اقتباس ⇻

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم -اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمت و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!

دین اسلام دین فطرت ہے، اسلام بہترین عقیدے، خوبصورت اخلاق اور اعلی ترین صفات اپنانے کی دعوت دیتا ہے، اسلام انسان کے جذبات کا خیال رکھتا ہے، اپنے حال سے خوش رہنے اور مستقبل کے بارے میں مثبت سوچ کی ترغیب دیتا ہے۔

لوگوں کو مسرور کرنے والی باتیں بتلانا اللہ کی عبادت اور قربت کا ذریعہ ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ}
 اور مومنوں کو خوشخبری دیں۔[البقرة: 223]
 بلکہ اللہ تعالی نے اپنے آپ کو بھی اس سے متصف قرار دیا اور فرمایا: 
{ذَلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ}
 یہ ہے وہ چیز جس کی خوشخبری اللہ اپنے مومن اور نیک عمل کرنے والے بندوں کو دیتا ہے۔ [الشورى: 23]

اور چونکہ بشارت کی دل میں بڑی منزلت ہے اس لیے فرشتے اسے لے کر آئے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى}
 بلاشبہ ہمارے پیغام رساں ابراہیم تک خوشخبری لے کر پہنچے۔ [هود: 69]

رسولوں کی بعثت کا مقصد اللہ کے مومن بندوں کو بشارت دینا بھی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ}
 اور ہم رسولوں کو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہی بنا کر بھیجتے ہیں۔[الأنعام: 48]

اللہ تعالی نے ہمارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنی امت کے لئے فضائل اور جنتوں کی بشارت دینے والا بنا کر بھیجا، اللہ کا فرمان ہے:
 {وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا}
 اور ہم نے آپ کو بشیر اور نذیر ہی بنا کر بھیجا ہے۔[الإسراء: 105]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریقہ کار تھا کہ داعیان حق کو مختلف علاقوں میں بھیجتے تا کہ لوگوں کو اسلام کی نعمت ملنے پر بشارتیں دیں، چنانچہ : (آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا معاذ بن جبل اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا: تم دونوں آسانی پیدا کرنا، مشقت میں نہ ڈالنا، بشارت دینا ، لوگوں کو متنفر مت کرنا۔) متفق علیہ

اللہ تعالی نے مومنین کی صفات میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو خوشخبریاں سناتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ} 
اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا ؛ چنانچہ جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔[التوبة: 124]
 یعنی مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی ملنے والی نعمتوں پر ایک دوسرے کو بشارت دے رہے ہوتے ہیں۔

اور جب انسان اللہ تعالی کی اطاعت اور وحدانیت پر ڈٹ جائے تو اس کے لئے اللہ کے ہاں بشارت ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ}
 یقیناً جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو ؛ بلکہ اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔[فصلت: 30]

ہدایت کا سر چشمہ یہ ہے کہ علم کے ساتھ عمل بھی ہو، نیز علم و عمل پانے والا بھی بشارت یافتہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{فَبَشِّرْ عِبَادِ (17) الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ} 
میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے [17] وہ جو کان لگا کر بات سنتے ہیں، پھر اس میں سب سے اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقل والے ہیں۔ [الزمر: 17، 18]

مصیبت کے وقت اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے اللہ کے فیصلوں پر صبر کرنے والے کے لئے بھی رب العالمین کی جانب سے بشارت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ}
 اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں [155] جنہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ: ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں [156] انہی پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ [البقرة: 155 - 157]

اہل ایمان کے لئے بشارتیں زندگی میں اور وفات کے بعد بھی جاری رہیں گی، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (63) لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ }
 یاد رکھو کے اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں [62] یہ وہ لوگ ہیں جو صاحب ایمان اور متقی ہیں [63] انہی کے لئے دنیا کی زندگی اور آخرت میں بشارتیں ہیں ۔[يونس: 62 - 64]

جس وقت مومن کو موت آنے لگتی ہے تو اسے بلند ترین درجات کی بشارت دے دی جاتی ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (جب مومن کو موت آتی ہے تو اسے اللہ کے راضی ہونے اور اللہ کے ہاں تکریم کی بشارت دی جاتی ہے۔ چنانچہ جو آگے آنے والے مراحل ہیں وہ اس کے ہاں محبوب ترین ہو جاتے ہیں، اس لیے وہ اللہ سے ملاقات کو پسند بھی کرتا ہے) بخاری

پھر فرشتے بھی اسے کہتے ہیں: (اے پاکیزہ رو ح [اس جسم سے] نکل آ۔ اور پھر رحمت ،خو شبو اور پروردگار کے تجھ سے ناراض نہ ہونے کی بشارت قبول کر۔ فرشتے اسے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں ، اس کے لئے دروازہ کھو ل دیا جا تا ہے ۔ کہا جاتا ہے : کون ہے ؟ وہ کہتے ہیں: فلاں شخص ہے ، تب کہا جا تا ہے : پاک جسم کی پاکیزہ روح کو خوش آمدید، قابل ستائش انداز میں داخل ہو، نیز رحمت ،خو شبو اور پروردگار کے تجھ سے ناراض نہ ہونے کی بشارت قبول کر۔ اسے مسلسل اسی طرح کہا جا تا ہے حتی کہ فرشتے اسے لے کر اس آسمان تک پہنچتے ہیں جس پر اللہ عزوجل کی ذات اقدس ہے) احمد

جس وقت لوگ جہنم کے عین اوپر پل صراط پر ہوں گے تو اہل ایمان کے لئے اس سخت ترین موقعے پر بھی بشارت ہے : فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}
 اس دن آپ دیکھیں گے کہ مومن مردوں اور عورتوں کا نور ان کے سامنے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (اور انہیں کہا جائے گا) آج تمہیں ایسے باغوں کی بشارت ہے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔ تم اس میں ہمیشہ رہو گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔ [الحديد: 12]

مسلمان اپنے بھائیوں کے لئے بھی وہی کچھ پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، نیز مسلمان اپنے بھائیوں کو خوش رکھنے کی کوشش میں بھی لگا رہتا ہے۔ خوشخبری سنا کر دلوں کو جیتنا بڑا آسان عمل ہے؛ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت میں یہ بھی شامل تھا کہ مصیبت زدہ کو مشکل کشائی ہونے پر خوشخبری دیتے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا تھا: (عائشہ! خوش ہو جاؤ، اللہ تعالی نے تو تمہیں بری قرار دے دیا ہے) متفق علیہ

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ڈھارس باندھی تھی اور آپ کا مکمل تعاون کیا تھا اس لیے آپ کو جنت میں محل کی خوشخبری دی گئی، چنانچہ ایک بار جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے اور کہا: (اللہ کے رسول! یہ خدیجہ آ رہی ہیں ، ان کے ساتھ برتن میں سالن، کھانا یا پینے کی چیز ہے، جب وہ آپ تک پہنچ جائیں تو انہیں اللہ کی طرف سے اور میری طرف سے سلام پیش کریں، نیز انہیں جنت میں موتی کے خول سے بنے محل کی بشارت بھی دیں ، وہاں کوئی شور و غل نہیں ہو گا نہ ہی تھکاوٹ ہو گی) متفق علیہ

مصیبت زدہ شخص کی اشک شوئی، اس کی پریشانی کا مداوا، اور اسے خیر کی بشارت دیتے ہوئے مکمل تسلی دینا بھی بہت بڑی نیکی ہے، چنانچہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ خدیجہ کے پاس آئے اور انہیں اپنی کیفیت بتلاتے ہوئے کہا: (مجھے اپنی جان کا خدشہ ہے، تو خدیجہ نے انہیں کہا: ہر گز نہیں! بلکہ آپ خوش رہیں، اللہ کی قسم! اللہ تعالی آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا) متفق علیہ

جس دن بندے کی اللہ تعالی توبہ قبول فرما لے تو وہ اس کی زندگی کا سب سے بہترین دن بن جاتا ہے؛ کیونکہ توبہ کرنے سے انسان کی دنیا اور آخرت سنورتی ہے، جیسے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دو ساتھی بغیر عذر کے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے پھر جب اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کعب کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا: (تم خوش ہو جاؤ، تمہارے پیدا ہونے سے لے کر آج تک تمہارے لیے اس سے بہتر دن نہیں گزرا۔) متفق علیہ

مسلمانوں کو دی جانے والی سب سے بڑی خوشخبری غلبۂ اسلام کی خوشخبری ہے، پوری کائنات میں اسلام کا پھیلاؤ ان کے لئے بشارت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (اس امت کو بلندی، رفعت، غلبہ اسلام، نصرت اور دھرتی کا نظام ملنے کی خوشخبری دے دیں۔) احمد

خوشخبری ملنے پر سجدۂ شکر بجا لانا مستحب عمل ہے، نیز خوشخبری دینے والے کو تحفہ بھی دے، جیسے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اپنا اور اپنے دو ساتھیوں کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: " میں بیٹھا ہوا تھا اور میری حالت بعینہ وہی تھی جس کا ذکر اللہ تعالی نے کیا ہے کہ میں اپنے آپ سے تنگ تھا اور زمین اپنی فراخی کے باوجود میرے لیے تنگ ہو چکی تھی کہ اچانک میں نے کسی چلانے والے کی آواز سنی جو جبل سلع پر چڑھ کر پکار رہا تھا: "اے کعب بن مالک! خوش ہو جاؤ" میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور سمجھ گیا کہ آزمائش کا وقت ختم ہو گیا ۔ کچھ لوگ خوشخبری دینے کے لیے میرے دونوں ساتھیوں کی طرف بھی گئے اور ایک شخص گھوڑا دوڑا کر میری طرف نکلا، اور قبیلہ اسلم کا ایک آدمی دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور اس کی آواز گھوڑے سے تیز نکلی، لہذا یہ شخص جس کی آواز میں، میں نے خوشخبری سنی تھی میرے پاس پہنچا تو میں نے اپنے کپڑے اتار کر اسے انعام میں پہنا دیے۔ اللہ کی قسم! میرے پاس اس وقت اس کے علاوہ کچھ نہ تھا، لہذا میں نے دو کپڑے ادھار لے کر پہنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں جانے کے لیے چل پڑا۔ لوگ گروہ در گروہ مجھ سے ملتے اور توبہ قبول ہونے کی مبارک دیتے ہوئے کہتے: مبارک ہو اللہ تعالی نے تمہاری توبہ قبول فر ما لی۔ " متفق علیہ

دین اسلام سے بڑھ کر خوبصورت دین کوئی نہیں ، دین اسلام خوشیوں اور خوبیوں کا دین ہے، اسلام معاشرے میں خوشیاں بانٹنے کی ترغیب دیتا ہے، تو اسلام کی ان خوبیوں پر سب سے پہلا حق خود مسلمانوں کا ہے۔ دعوت دین کے لئے لوگوں کو بشارتیں دینا اور ان کے دلوں میں دین کی محبت پیدا کرنا بنیادی ترین امر ہے۔

مسلمانو!

اسلام میں سب سے بڑی بشارت قرآن کریم ہے، اس لیے قرآن کریم سراپا ہدایت اور بشارت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ} 
اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور یہ مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے [النحل: 89]

حسن کارکردگی کے حامل مومن کی نہ چاہتے ہوئے شہرت؛ مومن کو جلد ملنے والی بشارت ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا: " آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک شخص اچھے کام کرتا ہے تو اس پر لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں؟ "آپ نے فرمایا: (یہ مومن کے لیے فوری بشارت ہے۔) مسلم

ہواؤں کو اللہ تعالی بارش کی خوشخبری اور بشارت دینے کے لئے ارسال فرماتا ہے، تا کہ بارش آنے سے پہلے اور بعد میں لوگ خوش ہوں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ}
 اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہواؤں کو اللہ کی رحمت سے قبل خوشخبری دینے والی بنا کر بھیجتا ہے ۔[الروم: 46]

اچھے بول بھی بشارت اور خوشی کا باعث بنتے ہیں، یہ نیک شگونی میں شامل ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (بیماری خود متعدی نہیں ہوتی، نہ ہی پرندوں میں کوئی نحوست ہے، مجھے نیک شگونی اچھی لگتی ہے) صحابہ نے کہا: "نیک شگونی کیا چیز ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (میٹھے بول) متفق علیہ

اس لیے خوشخبری اور بشارت دینا رسولوں کا طریقہ کا ہے، چنانچہ لوگوں کے لئے بھی اچھی چیزوں کی خوشخبری دینا مستحب ہے۔

یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، تو غنی ہے، ہم ناتواں ہیں، ہمیں بارش عطا فرما، اور ہمیں مایوس مت فرما۔ یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔

یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر بہت زیادہ ظلم ڈھائے ہیں اگر توں ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
 اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ [النحل: 90]

تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

خوشی اور بشارت کے اسباب و ذرائع   خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)  19 جمادی اولی 1440 بمطابق 25 جنوری 2019 امام و خطیب:  ڈاکٹر جسٹس ع...

آج کی بات ۔۔۔ 23 جنوری 2019

⇒ آج کی بات ⇐

جب لوگ آپ پر تنقید کرتے ہیں ،
تو آپ کو اپنی خامیوں کا پتہ چلتا ہے۔ 

 جب لوگ آپ سے حسد کرتے ہیں
 تو آپ کو اپنی خوبیوں کا پتہ چلتا ہے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⇒ آج کی بات ⇐ جب لوگ آپ پر تنقید کرتے ہیں ، تو آپ کو اپنی خامیوں کا پتہ چلتا ہے۔   جب لوگ آپ سے حسد کرتے ہیں  تو آپ کو ...

مسلمان کی بنیادی اخلاقی قدر: احسان - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔ 18 جنوری 2019

مسلمان کی بنیادی اخلاقی قدر: احسان
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
12 جمادی اولی 1440 بمطابق 18 جنوری 2019
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 12 جمادی اولی 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "مسلمان کی بنیادی اخلاقی قدر: احسان" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام کی خوبی ہے کہ اسلام میں احسان کو بنیادی اخلاقی قدر قرار دیا گیا ہے، اور ہر چیز کے ساتھ احسان برتنے کی تلقین اور تاکید کی گئی ہے، چنانچہ احادیث میں پڑوسی، مہمان اور ہمہ قسم کے حیوانات سے بھی احسان کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پھر محسنین کے لئے قرآن مجید میں خصوصی اجر و ثواب ہے کہ محسنین کو اللہ تعالی کی معیت، نصرت اور محبت حاصل ہوتی ہے۔ خلقت پر احسان کرنے سے نعمتیں ملتی ہیں اور زحمتیں ٹلتی ہیں۔ دولت مند افراد پر احسان کرنا مزید ضروری ہو جاتا ہے۔ احسان کے حقدار افراد میں والدین کا سب سے پہلا مقام ہے۔ نیز احسان یہ ہے کہ آپ کسی کا کوئی بھی بھلا کر دیں یہ احسان میں شمار ہوتا ہے۔ آخر میں انہوں نے سب کے لئے جامع دعا کروائی۔

⟲منتخب اقتباس⟳

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، وہ فضل و احسان فرمانے والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بادشاہ اور بدلہ دینے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ قرآنی اخلاق کا مرقع ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام متقی و مومن صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرما۔

اسلامی بھائیو!

دین اسلام کے قطعی اصولوں میں موجود عظیم خوبیوں میں یہ بھی شامل ہے کہ لوگوں کو تمام تر صورتوں اور شکلوں میں احسان کرنے کی ترغیب دی جائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى}
 بے شک اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔[النحل: 90] ایسے ہی ایک اور مقام پر فرمایا:
 {وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا}
 اور لوگوں کو اچھی بات کہو۔[البقرة: 83]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ: (اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان رکھنے والے کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرے۔ اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان رکھنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔) متفق علیہ

بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عظیم اخلاقی قدر کی تاکیدی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: (قراراللہ تعالی نے احسان ہر چیز پر لازمی  دے دیا ہے) مسلم، اس حدیث کے تحت شارحین کا کہنا ہے کہ: (مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کے ساتھ احسان کرنا ضروری ہے، تو احسان کا دائرہ عام اور ہر چیز کو شامل ہے)

مسلم اقوام!

حصول ِ رحمت کی کنجی یہ ہے کہ خالق کائنات کی بندگی میں عمدگی ہو اور خلقت کی بھلائی کا جذبہ ہو، اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ}
 بیشک اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہے۔[الأعراف: 56]

مسلمان کی کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں عملی اور زبانی ہر طرح سے احسان کرتا رہے، اس کی بدولت وہ عظیم فوائد ، اور اچھا پھل پاتا ہے؛ چنانچہ محسن شخص کو اللہ تعالی کی خصوصی معیت حاصل ہوتی ہے، اور اس معیت کا تقاضا ہے کہ محسن شخص کو اللہ تعالی کی جانب سے تحفظ اور حمایت حاصل ہو، اللہ تعالی کی توفیق اور رہنمائی ملے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ}
بیشک اللہ تعالی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی ہیں اور جو محسنین ہیں۔ [النحل: 128] 

احسان کرنے سے دلوں میں مسرت اور سینوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے، نعمتیں ملتی ہیں اور زحمتیں ٹلتی ہیں۔ جس کسی معاشرے میں احسان عام ہو تو اس کی جڑیں بہت مضبوط ہو جاتی ہیں اور سماجی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے، ایسا معاشرہ تہذیب اور ترقی یافتہ بن جاتا ہے، وہ معاشرہ قلبی میل کچیل اور کدورتوں سے پاک ہو جاتا ہے، ایسا معاشرہ فتنوں کی آگ سے محفوظ نیز لڑائی جھگڑوں کے اسباب سے دور بھی ہو جاتا ہے؛ اسی لیے اللہ تعالی کی طرف سے لوگوں کو تعلیمات دی گئیں کہ وہ اپنی زندگی بھر کے لین دین اور تعاملات میں احسان پیدا کریں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ}
 آپ برائی کو احسن ترین طریقے سے ٹال دیں، تو [آپ دیکھیں گے کہ] آپ اور جس آدمی کے درمیان عداوت ہے، وہ بھی آپ کا گہرا دوست بن جائے گا۔ [فصلت: 34]

مسلم اقوام!

جود و سخا کے ذریعے احسان ایسے لوگوں کے لئے مزید ضروری ہے جو منصب اور اختیارات کے مالک ہیں، جن کے پاس دولت اور ثروت موجود ہے۔ اس لیے جسے اللہ تعالی نے نوازا ہے اسے چاہیے کہ وہ مہربانی اور نوازش کرتا رہے۔

احسان اپنے اندر انتہائی اعلی مفہوم رکھتا ہے، اے مسلمان! اس اعلی مفہوم کا تقاضا ہے کہ تم دوسروں سے بہترین کردار اور گفتار کے ساتھ تعامل کرو۔

یہ احسان کا ہی حصہ ہے کہ آپ کسی کے ساتھ نیکی کر دیں، یا کسی کی مالی معاونت کر دیں، یا کسی کا بھلا کر دیں، یا اچھے بول بول دیں، خندہ پیشانی سے ملیں، کشادہ دلی سے ملاقات کریں ، ہشاش بشاش چہرے سے ملیں اور سلام عام کریں۔

احسان: نہ تھمنے والی عنایت، مہمان کی ضیافت، سچی اشک شوئی، اور حاجت روائی کا نام ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا}
 وہ خود کھانے کی چاہت کے باوجود مسکین، یتیم اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔[الإنسان: 8] ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ}
 اور اپنے آپ پر [دوسروں کو] ترجیح دیتے ہیں، خواہ انہیں سخت حاجت ہو [الحشر: 9]

اللہ کے بندو!

احسان یہ ہے کہ: آپ مسلمانوں کو خوش کریں، کسی کا بھلا کریں، غریب کو نوازیں، مظلوم کی مدد کریں، مصیبت زدہ کو بچائیں، آفت زدہ کی اعانت کریں، بیمار کی تیمار داری کریں، بھوکے افراد کو کھلائیں، اسی طرح ہر ایسا کام احسان ہے جو لوگوں کو مسرت، فرحت، خوشی اور تازگی سے معمور کر دے۔

امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مومن کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی ایک مشکل دور کرنے والے سے اللہ تعالی قیامت کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دے گا۔ کسی تنگ دست پر آسانی کرنے والے پر اللہ تعالی دنیا و آخرت میں آسانی فرما دیتا ہے۔ مسلمان کی پردہ پوشی کرنے والے کی اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں بھی پردہ پوشی فرماتا ہے، اللہ تعالی اس وقت تک بندے کی معاونت فرماتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔)

اسلام میں احسان کا تصور محض انسانوں تک ہی محصور نہیں ہے، بلکہ ہر حیوان بھی احسان کے سائے تلے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ایک شخص جا رہا تھا کہ اس کو سخت پیاس لگی تو وہ ایک کنویں میں اترا اور وہاں سے اس نے پانی پی لیا۔ جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپتے ہوئے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اسے بھی شدتِ پیاس سے اتنی ہی اذیت ہے جتنی مجھے تھی۔ وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنا موزہ پانی سے بھر کر اسے منہ میں لے کر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلا دیا۔ اللہ تعالی نے اس کی قدرکرتے ہوئے اس کو معاف کر دیا۔) صحابہ نے [تعجب سے] پوچھا: "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہمیں جانوروں کی خدمت کرنے میں بھی اجر ملے گا؟" آپ نے فرمایا: (ہر زندہ جگر رکھنے والے جاندار کی خدمت میں اجر ہے۔) بخاری ، مسلم

یا اللہ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی بھلائی سے نواز اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! مسلمانوں پر ایسی رحمت نازل فرما کہ ان کے حالات ہی بدل جائیں ، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! ہمارے نبی جناب محمد ﷺ پر دردو و سلام نازل فرما، نیز آپ کی آل اور صحابہ کرام پر بھی درود و سلام نازل فرما۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

مسلمان کی بنیادی اخلاقی قدر: احسان  خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 12 جمادی اولی 1440 بمطابق 18 جنوری 2019 امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس ح...

آج کی بات ۔۔ 22 جنوری 2019


↖ آج کی بات ↗

اپنی خواہش کو کبھی ضرورت مت بنانا
کیونکہ ضرورت مند پھر کبھی غیرت مند نہیں رہتا۔


↖ آج کی بات ↗ اپنی خواہش کو کبھی ضرورت مت بنانا کیونکہ ضرورت مند پھر کبھی غیرت مند نہیں رہتا۔

رازِ نمازِ محبت

Image result for ‫نماز‬‎
 رازِ نمازِ محبت
حیا ایشم

نماز اللہ کا حکم ہے اور حکم، پناہِ محبت ہے!
نماز اللہ کی چاہ ہے اور اللہ کی چاہ افضل ہوتی ہے
نماز عطا ہے، اور اس میں نفس کی آزمائش ہے!

فرض میں نفس کی کشمکش آزمائش بن کر آتی ہے، مگر اسی کشمکش میں نفس کی قربانی، اللہ کو خود سپردگی آسانی عطا کرتی ہے الحمدللہ!
واقعی ہم حقیقی معنوں میں نماز کا کیف نہیں پا سکتے اگر ہم عالم غفلت میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ اللہ پاک کی باتیں ، اللہ پاک کے احکام بہت گہرے مفاہیم لیئے ہوتے ہیں

القرآن، سورۃ الواقعہ میں اللہ پاک نے فرمایا: نہیں چھوتے اسے (قرآن) مگر وہی جو پاک ہیں!
اب دیکھا جائے تو کوئی ناپاکی کے عالم میں بھی قرآن کو چھو ہی لیتا ہے، بظاہر حکم ہے کہ پاک ہو کر ہاتھ لگاؤ، مگر باطنی مفہوم میں سمجھا جائے تو جیسے اللہ پاک نے قرآن کا راز دل کی، روح کی پاکیزگی میں لازم و ملزوم کر دیا ہے، کہ اس کے رمز کو وہی چھو سکتے ہیں جو پاک (جن کے دل پاک) ہیں، کہ تمہاری سکت ہی نہیں کہ تمہارے دل پاکیزہ نہیں اور تم قرآن کا رمز پا جاؤ۔

ایک طرف اللہ پاک نے فرمایا کہ تم نشے (غفلت کے عالم) میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ! نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو" سورۃ النسآ 43۔ 
ایک شخص نے بتایا کہ وہ چرس پی کر نماز پڑھتا ہے تو اللہ سے اس کا الگ ہی کنکشن بنتا ہے، اس لیئے وہ ہمیشہ چرس پی کر نماز پڑھتا ہے، استغفراللہ! یقینا یہ اس پر شیطان کا ایسا پردہ ہے کہ اس کی عقل یہ تک فراموش کر گئی ہے کہ اللہ پاک نے نشہ آور اشیا سے منع فرمایا ہے، کجا کے نشہ کر کے نماز پڑھنا۔ اب بظاہر تو وہ نماز سکون کے لیے پڑھ رہا ہے، مگر کیا وہ ایسے نماز پڑھ کر سچا سکون پائے رکھے گا؟ یقیناً نہیں، کہ وہ نفس کے سراب میں شیطان کی پکار کو لبیک کہتا گمراہی کی جانب گامزن ہے، اسکا نفس اور شاطان آپس کی سازبازی سے اس کو اسکے اعمال خوشنما کر کے دکھا رہے ہیں، اللہ پاک ہدایت عطا فرما دیں اور نماز کی ہی خواہش کے لیئے اس پر اور ہم سب پر رحم کر دے اللھم آمین۔

اب اسی آیت کے دوسرے حصے میں اللہ پاک فرماتے ہیں " نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو" سورۃ النسآ 43۔ 

کیا ہم واقعی جانتے ہیں ہم کیا پڑھ رہے ہیں؟ شراب چرس ہیروئین، گردہ، کوکین، یا دیگر نشہ آور اشیا کی بات نہیں۔ ایک نشہ نفس کا بھی ہوتا ہے ۔۔ "میں" کا بھی اپنا ہی نشہ ہوتا ہے جو انسان کو اللہ کے حضور، یہاں تک کے اللہ کے ہونے کے احساس سے، اس کے حکم اسکی حد کے احساس سے غافل کر دیتا ہے، سو یہاں نفس کا نشہ اسکی غفلت کی بات ہے۔ عالم غفلت میں نماز پڑھنا، جیسے بس ہاتھ کے اشارے ادا کرنا اور زبان سے ایک رٹی رٹائی یادداشت دوہرانا۔۔ جس نماز میں دھیان نہیں اس نماز میں ایمان کیسے بڑھے گا۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی سخت امر درپیش ہوتا وہ نماز اور صبر کے ذریعے اللہ پاک کی مدد لیتے، نماز کی طرف متوجہ ہوتے، اور ایسا ہی کرنے کی وہ اہنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی تلقین کرتے۔ وہ خالص نماز تھی سچی نماز۔ یہ وہ نماز تھی جس میں وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں کسے کہہ رہے ہیں کیوں کہہ رہے ہیں، نماز تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا تحفہ تھا امت کے لیے ان کے گناہوں کو مٹانے کا سبب، رب سے معراج کا ذریعہ، ہماری پریشانیوں کی آسانی، ہماری روح جسم و دل کی کثافت کی لطافت، نماز ایک عملی دعا ایک عملی شکر ہے، ہمارے نفوس پر ظلم اس کی ناشکری و جلد بازی نے اس کرم کو کو ہم پر ایک بوچھ بنا دیا ہے جس کو ہم ادا کر کے جان چھڑانا اور خود کو نمازی کہلوانا چاہتے ہیں استغفراللہ!

ایاک نعبد وایاک نستعین پڑھتے احساس ہوتا ہے؟ ہم کیا پڑھ رہے ہیں؟ ہم کہہ رہے ہیں اللہ ہم تیرے ہیں، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ مگر کیا واقعی ہم جانتے ہیں ہم یہ کہہ رہے ہیں؟ ہم اقرارِ محبت کر رہے ہیں، عہد وفا دوہرا رہے ہیں؟ اور جو کہہ رہے ہیں ہم یہ روح کی کس سچائی اور گہرائی سے کہہ رہے ہیں؟
منافقت یہی ہوتی ہے کہنا کچھ کرنا کچھ، اور ہم تو نادانی میں اپنے نفس کے جالوں میں ایسے غافل ہیں کہ یہ تک نہیں جانتے ہم کیا کر رہے ہیں استغفراللہ!

کیا ہمیں یاد ہے کہ جو کل ہم نے نماز پڑھی اس میں کون سی سوچ تھی جو مسلسل ہمیں گھیرے میں لیئے ہوئے تھی؟ یا آج سے ایک ہفتے پہلے یا ایک ماہ پہلے یا ایک سال پہلے نماز پڑھتے ہوئے کون سی سوچ تھی۔۔ یقینا نہیں۔۔! ہاں مگر وہ نماز کہیں اللہ کے پاس درج ہے، ہماری روح کی لطافت یا کثافت کی پیمائش میں اسکا اثر محفوظ ہے! کہ اس کی جیسی بھی سہی، خاصیت نے ہماری روح پر اثر کیا!

تو زندگی کے معاملات، مسائل، ان سے متعلقہ سوچیں عام طور پر ہمارے ذہن میں چلتے رہتے ہیں، مگر اگر سوچا جائے تو جب ہم اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ اٹھاتے ہیں تو اسکا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے، میں جس کے حضور اپنی نیت اپنے عمل اپنی سوچ، اپنی زبان سے، دل جسم جان روح سے حاضر ہوں، وہ سب سے بڑا ہے میری سوچ سے، میری بات سے، میرے مسلے سے، یا کسی بھی شے سے وہ اکبر ہے!

نماز متقی کی قربانی ہے، اور قربانی میں اللہ کا قرب ہے، کیا ہم اپنی نمازوں میں اللہ کا قرب محسوس کرتے ہیں؟ نماز دل جسم روح ، نیت و عمل کی ہم آہنگی ہے، مگر اکثر ہم نماز کو فقط رٹے رٹائے انداز میں پڑھتے ہیں ۔۔ الحمدللہ اللہ کے حضور حاضر ہونے کا احساس تو بہت بڑی عطا ہے، اگر آغاز میں ہمیں نماز کے مفہوم و مطالب کی ہی صحیح آگاہی ہو جائے تو ان شاء اللہ اللہ کے فضل سے کوئی سوچ ہم پر غلبہ نہ پا سکے۔ ہم عموما غفلت کے عالم، نفس کو تسلی دینے کے لیے، نماز سر سے اتارنے کے لیے نماز پڑھتے ہیں، تو پھر کیسے نماز کے نام پر ہمارا یہ عمل ہمیں بے حیائی سے روکے، کیسے ہم غیبت اور دیگر گناہ سے محفوظ اللہ کی پناہ میں آ جائیں، کیسے ہمارا دل پریشانیوں میں آسانیوں کا رمز پائے؟ کیسے ہماری نماز ہماری رب سے معراج کا سبب بنے، کیسے ہمارا دل سکون پائے؟ کیسے نماز ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے کہ سچی نماز اللہ کا حکم ہے، اور حکم پناہِ محبت ہوتی ہے!

اللہ پاک ہم پر رازِ نمازِ محبت آشکار کر دے، ہمیں اپنی ذاتِ رحیمی کے لیئے نماز ادا کرنے، ہمیں اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے، نماز قائم کرنے کی توفیق عطا فرما دے اللھم آمین!



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

  رازِ نمازِ محبت حیا ایشم نماز اللہ کا حکم ہے اور حکم، پناہِ محبت ہے! نماز اللہ کی چاہ ہے اور اللہ کی چاہ افضل ہوتی ہے نماز ع...

کامیابی کا تین نکاتی نبوی نسخہ - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔11 جنوری 2019

کامیابی کا تین نکاتی نبوی نسخہ 
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
05 جمادی الاولی 1440 بمطابق 11 جنوری 2019
امام و خطیب:  ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی 
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 05 جمادی الاولی 1440 کا خطبہ جمعہ " کامیابی کا تین نکاتی نبوی نسخہ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ زندگی میں کامیابی ہر انسان کی اولین چاہت ہے اور اسی کے لئے کوشش بھی کرتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی حدیث میں کامیابی کے تین نکات بتلا دئیے ہیں کہ 1) صرف مفید سرگرمیوں اور کاموں پر توجہ دو، 2) اللہ سے مدد طلب کرتے رہو 3) اور سستی مت دکھاؤ، پھر اپنے خطبے میں تین نکات کی تفصیلات اور وضاحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ حدیث سستی ، کاہلی سے ہٹ کر ملک و قوم کے لئے کچھ مثبت کر دکھانے کی ترغیب دلاتی ہے، یہ حدیث ہماری کامیابی کے لئے مشعل راہ اور سرِ راہ ہے، ان پر عمل کرنے سے کامیابی ہماری قدم بوسی کرے گی اور اگر ان میں سے کسی ایک میں بھی کمی ہوئی تو اسی مقدار میں ناکامی ہمارے حصے میں آئے گی، پھر آخر میں انہوں نے سب کے لئے جامع دعا کروائی ۔

↺ منتخب اقتباس ↻

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ اس نے تمہاری شرح صدر فرمائی، تمہیں تمہارے لیے مفید امور بتلائے، اگر آپ اس کا شکر ادا کرو گے تو وہ قدر دان ذات آپ کی تکریم بھی کرے گی اور تمہیں مزید بھی نوازے گی، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہ سمیع اور بصیر ہے وہ تمہیں دیکھ بھی رہا ہے اور تمہاری باتیں سنتا بھی ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اگر آپ ان کی اقتدا کریں گے تو عظمت والی ذات آپ کو بھی عظمت عطا کرے گی۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے اگر آپ ان کی راہ کے راہی بن گئے تو قوت والی ذات تمہیں قوت عطا کرے گی اور تمہیں کبھی رسوا نہیں ہونے دے گی۔

زندگی میں کامیابی ہر انسان کا ہدف ہے، خوشحالی انسان کا مقصود اور مراد ہے، انہی دونوں چیزوں کے لئے دل و جان کد وکاوش میں لگے رہتے ہیں؛ لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے دنیاوی اور اخروی کامیابی اور خوشحالی کے لئے تین نکاتی راہ عمل وضع فرمایا، اس حدیث میں عظیم فوائد اور ڈھیروں خیر و بھلائیاں ہیں، آپ کا وہ فرمان یہ ہے: (اپنے لیے مفید چیز پر مکمل توجہ دو، اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور سستی مت دکھاؤ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : (اپنے لیے مفید چیز پر مکمل توجہ دو)کا مطلب یہ ہے کہ بلند اہداف ، اعلی اخلاقیات اور افضل ترین عبادات کے لئے بھر پور کوشش کریں۔ اپنی زندگی کا ایک ہدف مقرر کریں، عمر بھر کا کوئی مقصد بنائیں، آگے بڑھنے کے لئے بلند مقام مقرر کریں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ} 
بھلا اپنے منہ کے بل اوندھا چلنے والا زیادہ ہدایت یافتہ ہے، یا وہ جو سیدھا ہو کر صراط مستقیم پر چلے؟![الملك: 22]

(اپنے لیے مفید چیز پر مکمل توجہ دو)کیونکہ زندگی بہت مختصر ہے، جوانی کا پیچھا بڑھاپا کر رہا ہے، صحت کو بیماری کے خدشات لاحق ہے، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : "مجھے اس دن سے بڑھ کر کسی چیز پر ندامت نہیں ہوتی کہ جس دن کا سورج غروب ہو جانے سے میری عمر تو کم ہو جائے لیکن میرا عمل نہ بڑھے" اسی کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَى (23) يَقُولُ يَالَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي}
 اس دن انسان کو سمجھ آئے گی مگر اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا فائدہ؟ [23] وہ کہے گا کہ کاش میں نے اس زندگی کے لیے کوئی پیشگی تیاری کی ہوتی۔[الفجر: 23، 24]

مفید چیزوں پر مکمل توجہ دینے والا شخص ہمیشہ اچھے کاموں اور حسن کارکردگی میں مگن رہتا ہے، وہ ہمیشہ ایسے عمل کرتا ہے جن کا اجر بھی بہترین ہو اور اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین بھی ہوں؛ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اعلی اور افضل ترین اعمال کے متعلق پوچھا کرتے تھے، جیسے کہ :

ایک شخص نے کہا: "اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہارا دل اللہ عزوجل کا مطیع ہو اور تمام مسلمان تمہاری زبان اور ہاتھ سے سلامت رہیں)

اس آدمی نے کہا: "تو اسلام کا کون سا عمل افضل ترین ہے؟"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایمان)

اس نے کہا: "تو ایمان کیا ہے؟"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اللہ تعالی پر، اللہ کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر یقین رکھو)

اس نے کہا: "ایمان کا کون سا عمل افضل ترین ہے؟"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہجرت)

اس نے کہا: "ہجرت کیا ہے؟"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم گناہوں کو ترک کر دو

سمجھ دار مسلمان جو مفید چیزوں پر توجہ دینا چاہتا ہے وہ اپنے آپ سے آغاز کرتا ہے، اپنی اصلاح کرتا ہے، غیر متعلقہ امور اس کے لئے کبھی بھی مفید ثابت نہیں ہوتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی باتوں سے دور رہے) ابن ماجہ، لہذا جو شخص لا یعنی باتوں کو چھوڑ کر مفید کاموں میں توجہ دے تو اس سے اس کی دینداری میں حسن پیدا ہو گا، ترجیحی کاموں کے لئے وقت نکالے گا، اپنے کردار سے بلندی کے زینے چڑھتا جائے گا، اس کا دل، اخلاق اور زبان صاف ہو جائے گی، بلکہ وہ اپنی کڑی نگرانی کرے گا، اپنے چال چلن پر پہرہ دے گا، اپنے ساتھ مکمل سچائی اور انصاف والا تعامل کرے گا، اسی لیے سیدنا شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو فرمایا تھا: 
{وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ}
 میں نہیں چاہتا کہ جس بات سے میں تمہیں منع کرتا ہوں خود اسی کو کرنے لگوں۔ میں تو جہاں تک ہوسکے اصلاح ہی چاہتا ہوں۔ اور مجھے اللہ تعالی سے ہی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ میں اسی پر بھروسا کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ [هود: 88]

مفید امور پر توجہ کے لئے آرزوؤں اور من پسند امور سے نمٹنے کے لئے سختی کرنی پڑتی ہے؛ کیونکہ ہر پسندیدہ چیز مفید نہیں ہوتی اور ہر ناپسندیدہ چیز نقصان دہ نہیں ہوتی، اس لیے عقلمند انسان زیادہ لیکن دیر سے ملنے والے فائدے کو تھوڑے فوری فائدے پر ترجیح دیتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ(20) وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ}
 ہر گز نہیں، بلکہ تم جلد وصول ہونے والی چیز کو پسند کرتے ہو [20] اور تاخیر سے ملنے والی چیز کو چھوڑ دیتے ہو۔ [القيامة: 20، 21]

مفید چیزوں پر توجہ دینے کی وجہ سے لازم آتا ہے کہ مفید افراد کی صحبت اختیار کریں؛ کیونکہ ہر کوئی راہِ یار کا راہی ہوتا ہے۔ بلید ساتھیوں اور تاروں پر کمندیں ڈالنے والے یاروں میں بہت فرق ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (انسان اپنے دوست کے دین پر چلتا ہے، اس لیے تم دیکھ لو کہ کس کو اپنا دوست بنا رہے ہو ) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: (نیک اور برے دوست کی مثال کستوری بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے ؛ کستوری بیچنے والا خوشبو میں سے تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا ( کم از کم ) تم اس کی عمدہ خو شبو سے محظوظ ہوتے رہو گے اور بھٹی دھونکنے والا تمہارے کپڑے جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بد بو آتی رہے گی۔) بخاری، مسلم

اگر مسلمان کے سامنے متعدد مفید امور آ جائیں تو پھر مسلمان تردد کرنے کی بجائے سرگرمِ عمل ہو جائے؛ کیونکہ ہر کسی کو اسی کام کی توفیق ملے گی جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے، ایسی صورت میں شرعی رہنمائی یہ ہے کہ ہر انسان وہ کام کرے جس کی اس میں استطاعت ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ}
 جس قدر استطاعت ہو تقوی الہی اپناؤ۔ [التغابن: 16]

مزید برآں انسان جتنی مرضی مفید امور کے لئے توجہ کر لے لیکن اس کے اہداف اور مقاصد اسی وقت پورے ہوں گے جب اللہ تعالی کی مدد، توفیق، اور اعانت شامل حال ہو گی، اسی لیے فرمایا: (اپنے لیے مفید چیز پر مکمل توجہ دو اور اللہ سے مدد طلب کرتے رہو) تو اللہ سبحانہ و تعالی ہی وہ ذات ہے جس کی بارگاہ میں تمام تر مخلوقات اختیاری اور مجبوری ہر حالت میں گڑگڑاتی ہیں، تو ہر ایک جاندار مخلوق تنگی ،فراخی، خوشی اور غمی میں اسی سے مدد طلب کرتی ہے، ہر انسان کو اللہ تعالی کی مدد کی دائمی ضرورت ہے، انسان اپنی ہر حالت میں اور دینی یا دنیاوی ہر ضرورت میں اسی کا محتاج ہے۔

اس لیے اللہ تعالی سے مدد طلبی، اور رضائے الہی کے لئے اللہ سے معاونت کی دعا؛ مفید ترین دعاؤں میں شامل ہے، مومنوں کی زبانیں اللہ تعالی سے یہی سب سے زیادہ مانگتی ہیں؛ چنانچہ کسی بھی نماز کی کوئی بھی رکعت اس دعا کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی؛
 {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ}
 ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔[الفاتحۃ: 5]
 اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: (معاذ! میں تمہیں تاکیدی وصیت کرتا ہوں ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا کبھی بھی مت چھوڑنا:   "اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبادَتِكَ"  [یا اللہ! تیرے ذکر، شکر اور بہترین انداز میں تیری عبادت پر میری مدد فرما]) ابو داود

(اپنے لیے مفید چیز پر مکمل توجہ دو، اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور سستی مت دکھاؤ) یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : (سستی مت دکھاؤ) میدان عمل میں جد و جہد اور کد و کاوش کو مہمیز دینے والا پیغام ہے، یہ پیغام زمین کی تعمیر و ترقی کی راہ میں مشکلات سے ٹکرانے اور چیلنجز سے نمٹنے کی ترغیب دیتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {هُوَ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا}
 اللہ نے تمہیں زمین سے پیدا کر کے تم سے اس کی آبادکاری کا مطالبہ کیا ہے۔[هود: 61]

حدیث میں : (سستی مت دکھاؤ) اس لیے فرمایا کہ کاہل آدمی اپنے آپ کو سستی کا قیدی بنا لیتا ہے، اپنے پاؤں میں وہموں کی بیڑیاں ڈال لیتا ہے، اپنی سوچ اور خیالات آرزوؤں کے سپرد کر دیتا ہے۔

اظہار ناتوانی شیطانی عمل کا آغاز ہے۔ یہ کہنا کہ "کاش ایسے ایسے ہوتا" یا کہنا کہ: "کاش میں یوں کر لیتا" یہ خرابی کی کنجی ہے۔ اس طرح کہنے سے دل میں پریشانی، دکھ، بزدلی، بخیلی ، قرضوں کا بوجھ اور لوگوں کا دبدبہ بڑھتا ہے، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں شامل تھا: ( "اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ"
  [یا اللہ ! میں پریشانی، دکھ، عاجزی ، سستی ، بخیلی ، بزدلی ، قرضوں کے بوجھ اور لوگوں کے دبدبے سے تیری پناہ مانگتا ہوں]) بخاری

سست اور کاہل لوگوں کے ساتھ بیٹھنے والے کی معاشرے میں کوئی قدر و قیمت نہیں، نہ ہی ملکی ترقی میں ان کا کوئی کردار ہوتا ہے، پوری قوم میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے والا انسان؛ انسانیت سے خارج ہو جاتا ہے۔ سستی کی عادت بنانے والا اور ہمیشہ آرام کرنے والا در حقیقت آرام گنوا دیتا ہے۔

یہ بہت عظیم حدیث ہے، اس حدیث میں انتہائی اختصار کے ساتھ کامیابی کے اقدامات یکجا بیان ہوئے ہیں، لہذا مفید امور پر مکمل توجہ دیتے ہوئے جد و جہد کرنے والا اور اسباب اپنانے والا شخص کامیابی اور تکمیل کے لئے اللہ تعالی دعائیں بھی کرے تو کامرانی اس کی قدم بوسی کرتی ہے، اور اگر ان تینوں امور میں سے کوئی ایک بھی چوک جائے تو اتنی ہی خیر و بھلائی بھی چوک جاتی ہے۔ (اپنے لیے مفید چیز پر مکمل توجہ دو، اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور سستی مت دکھاؤ)

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق مانگتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے جہنم کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی بھلائی مانگتے ہیں چاہے کوئی جلدی ملنے والی یا دیر سے، یا اللہ ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی برائی سے پناہ مانگتے ہیں چاہے وہ جلد آنے والی ہے یا دیر سے ۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے۔ اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، نیز ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر میں اضافے کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم پر تیری برکتوں، رحمتوں ، فضل اور رزق کے دروازے کھول دے۔

{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ}
 ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23] 
{رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} [الحشر: 10]
 اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے، اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے[الحشر: 10]
 {رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201]
 ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
 اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کامیابی کا تین نکاتی نبوی نسخہ   خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 05 جمادی الاولی 1440 بمطابق 11 جنوری 2019 امام و خطیب:  ڈاکٹر عبد ال...

آج کی بات ۔۔۔ 12 جنوری 2019

❞  آج کی بات ❝

اگر ہم خود کو مباحثہ کی بیڑیوں سے آزاد کرلیں تو،
تصور کریں کہ ہم کتنا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

❞  آج کی بات ❝ اگر ہم خود کو مباحثہ کی بیڑیوں سے آزاد کرلیں تو، تصور کریں کہ ہم کتنا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ تبصرہ کرکے اپنی رائے...

آج کی بات ۔۔ 11 جنوری 2019



اگر تم گمشدہ کو حق سے واصل کرنے کا فرض ادا کر رہے ہو
 تو ہی تم اپنے ہونے کا حق نبھا رہے ہو..!


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

اگر تم گمشدہ کو حق سے واصل کرنے کا فرض ادا کر رہے ہو  تو ہی تم اپنے ہونے کا حق نبھا رہے ہو..! حیا ایشم تبصرہ کرکے اپنی رائ...

آج کی بات ۔۔۔ 10 جنوری 2019

❞ آج کی بات ❝

ثبوت کی غیر موجودگی، غیر موجودگی کا ثبوت نہیں۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

❞ آج کی بات ❝ ثبوت کی غیر موجودگی ، غیر موجودگی کا ثبوت نہیں۔ تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

سوال و جواب (مکالمہ)

Image result for q and a

سوال و جواب (مکالمہ)


ویک اینڈ کا کیا پلان ہے؟

میں کُچھ پڑھائی کروں گا۔ وہ جو کمپیوٹر والا  پراجیکٹ ہے، اس کا کام کرنا ہے۔

اُس کی تو تاریخ بہت آگے ہے۔

اور بھی تو کام ہیں ناں۔ جب اُسکی تاریخ قریب آئے گی ، تو ضروری نہیں کہ وقت ہو ہمارے پاس۔

یہ تو ہے۔ پر یہ وقت بھی نہیں آئے گا، اتنی فراغت والا۔ ہاہاہا۔ اتنا اچھا وقت۔ آگے کی آگے دیکھی جائے گی۔

وقت تو  وہی ہے جو گُزر گیا۔ جو آیا ہی نہیں ، وہ تو ایک گُمان ہے۔

اسی لئے کہتا ہوں ، انجوائے کرتے ہیں ویک اینڈ۔

پر آگے کی تیاری بھی تو ضروری ہے ناں۔

 تیاری۔  تمہارا تیاری پہ بڑا زور  رہتا ہے۔

تیاری ضروری ہے۔ ہم ہر وقت امتحان میں ہیں۔ وقت کبھی بھی ختم ہو سکتا ہے۔

تو کیا تیاری کی جائے؟

سوال  یاد رکھے جائیں۔

.سوال! سوال کیوں؟ جواب کیوں نہیں

زندگی کا امتحان کچھ مختلف ہے۔ یہاں سوال ہمیں پہلے سے معلوم ہیں۔ بس انہیں یاد رکھنا ہے۔

اور جواب؟ ان کے بارے میں کیا خیا ل ہے حضور کا؟

جواب تو ہماری پوری زندگی  ہی ہے۔ ہر نیت ، سوچ ، قول، عمل۔ یہ سب جواب ہی تو  ہیں۔

کون سے سوال ہیں آخر؟

کُل سات سوال ہیں۔

اچھا!!۔۔

جی۔ تین قبر کے۔ چار حشر کے۔

کیا کیا بھلا؟

مَن ربُّک؟ مَن دِینُک؟ مَن نبیُک؟

اور حشر کے؟

زندگی کِن کاموں میں گُزاری؟ جوانی کیسے گُزری؟ رزق   (و عِلم )کیسے حاصل کیا؟ کہاں خرچ کیِا؟

 پر  ، ایک بات ہے۔

کیا؟

ہماری زندگیوں کو دیکھا جائے تو لگتا ہے ، ہمارے خیال میں سوال کُچھ مُختلف ہیں۔

جیسے؟

 جیسے ، کِتنا مال بنایا؟ شہرت حاصل کی یا نہیں؟ کِتنا رقبہ اِکٹھا کِیا؟ تفاخر کی کِن بلندیوں پر پہنچے؟  دھوکہ دہی ، جھوٹ ، لالچ ، فریب ، خیانت ، اور ایسی کئی خصوصیات میں کِتنا درجہ پایا؟  طاقت کے نشے میں کیا کُچھ کِیا؟ اور اللہ رحم فرمائے ، ایسا ہی بہت کُچھ۔

آپ ٹھیک کہتے ہیں، پر یہ سوال نہیں۔

تو پِھر ،  یہ کیا ہیں؟

یہ جواب ہیں ۔ اللہ رحم فرمائے۔

جواب؟

جی۔ غلط جواب۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

سوال و جواب (مکالمہ) از عمر الیاس ویک اینڈ کا کیا پلان ہے؟ میں کُچھ پڑھائی کروں گا۔ وہ جو کمپیوٹر والا  پراجیکٹ ہے، اس کا ...

آج کی بات ۔۔۔ 08 جنوری 2019

❞ آج کی بات ❝

زندگی میں تلاش کیے جانے لائق خزانہ صرف “مقصد” ہے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

❞ آج کی بات ❝ زندگی میں تلاش کیے جانے لائق خزانہ صرف “ مقصد ” ہے۔ تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

فانی دنیا میں سرمدی آخرت کی تیاری ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)


فانی دنیا میں سرمدی آخرت کی تیاری
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
28 ربیع الثانی 1440 بمطابق 04 جنوری 2019
امام و خطیب: پروفیسر ڈاکٹرعلی بن عبد الرحمن الحذیفی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: اردو مجلس فورم


فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹرعلی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے28 ربیع الثانی 1440کا خطبہ جمعہ بعنوان "فانی دنیا میں سرمدی آخرت کی تیاری" ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ فانی اور عارضی دنیا کی طرح انسان کی زندگی بھی عارضی اور انتہائی معمولی ہے، اور پوری دنیا کی عمر آخرت کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے سمندر کا قطرہ ہو، اللہ تعالی نے اس زندگی کی مدت کو ایک لمحہ بھی قرار دیا ہے؛ تاہم اگر کوئی شخص اس لمحے بھر زندگی کو نیکیوں سے بھر پور رکھے اور برائیوں سے بچائے تو وہی کامیاب ہے، اس کے لئے ڈھیروں ابدی اور سرمدی نعمتیں ہیں، جبکہ برائیاں کمانے والے کے لئے لا متناہی عذاب جہنم ہے۔ انہوں نے سابقہ امتوں کی مثال دے کر کہا کہ ان کو دیکھ کر ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہیے، اور موت کو یاد کر کے اس کی تیاری انتہائی ضروری امر ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ صحت اور فراغت دو ایسی نعمتیں ہیں جنہیں لوگ ضائع کر دیتے ہیں، حالانکہ ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے، ساتھ میں انہوں نے یہ بھی تاکید کی ہے دنیا میں انسان کو مسافر کی طرح ہر وقت کوچ کے لئے تیار رہنا چاہیے، پھر انہوں نے جامع دعا کروائی۔

⇚ منتخب اقتباس ⇛

تمام تعریفیں غالب اور بخشنے والے اللہ کیلئے ہیں، وہی رات کو دن اور پھر دن کو رات کے بعد لاتا ہے، ہر چیز کا اس کے پاس درست تخمینہ ہے، میں نعمتوں اور فضل پر اسی کا شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا اور زبردست ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، چنیدہ اور برگزیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، انکی اولاد اور صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

اللہ کے بندو!

دنیا کی مختصر زندگی ، حقیر نمود و نمائش، اور یہاں کے پلک جھپکتے بدلتے حالات پر غور و فکر کرو؛ تو تمہیں اس کی قدر و قیمت معلوم ہو جائے گی، اور تمہارے لئے اس کے راز فاش ہو جائیں گے، اس لیے دنیا پر بھروسا کرنے والا دھوکے میں ہے، اور دنیا داری میں ملوث شخص تباہ ہونے والا ہے۔

انسان کی زندگی بھی دنیا کی طرح مختصر ہے، اور ہر فرد کی زندگی گھنٹوں سے شروع ہوتی ہے، اور گھنٹوں کے بعد ایام، اور ایام کے بعد مہینے ، اور مہینوں کے بعد سالہا سال آتے ہیں، پھر انسان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے، لیکن انسان کو یہ خبر نہیں ہے کہ موت کے بعد اس کے ساتھ کون سے بڑے بڑے معاملات پیش آنے والے ہیں!؟

کیا تمہارے بعد آنے والوں کی زندگی بھی تمہیں ملے گی!؟ ایک مخلوق کی عمر کئی نسلوں کی عمر کے مقابلے میں لحظہ بھر مقام رکھتی ہے، اور دنیاوی زندگی تو ویسے ہی متاع ہے، اور متاع کا لفظ اس چیز پر بولا جاتا ہے جس سے انسان وقتی طور پر لذت حاصل کرے اور پھر وہ چیز اسی وقت ختم ہو جائے، فرمان باری تعالی ہے: 
{إِنَّمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ}
 بیشک یہ دنیا متاع ہی ہے، اور آخرت ہی ہمیشگی کا ٹھکانا ہے۔[غافر : 39]

ایک اور مقام پر فرمایا: 
{أَفَرَأَيْتَ إِنْ مَتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ (205) ثُمَّ جَاءَهُمْ مَا كَانُوا يُوعَدُونَ (206) مَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يُمَتَّعُونَ } 
بھلا دیکھو! اگر ہم انہیں برسوں عیش کرنے کی مہلت دے دیں۔ [205] پھر ان پر وہ عذاب آ جائے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ [206] تو بھی لطف اندوزی والا سامان عیش و عشرت ان کے کچھ کام نہ آئے گا ۔[الشعراء: 205 -207]

بلکہ اللہ تعالی نے لوگوں کے قبروں میں قیامت تک لمبے عرصے کے قیام کو بھی ایک لمحہ قرار دیا اور فرمایا: 
{وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَنْ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ}
 اور جس دن وہ انہیں جمع کرے گا (وہ محسوس کریں گے) گویا وہ دن کی ایک لمحے سے زیادہ دنیا میں ٹھہرے ہی نہیں ، جو ایک دوسرے کو پہچاننے میں [بیت گئے]۔ [يونس : 45]

ایک اور مقام پر فرمایا:
 {فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} 
آپ صبر کریں! جیسے اولوالعزم پیغمبر صبر کرتے رہے اور ان کے بارے میں جلدی نہ کریں، جس دن یہ لوگ وہ چیز دیکھ لیں گے جس سے انہیں ڈرایا جاتا ہے تو وہ یوں سمجھیں گے جیسے (دنیا میں) بس دن کا ایک لمحہ ہی ٹھہرے تھے۔ بات پہنچا دی گئی ہے! تو اب نافرمان لوگوں کے علاوہ کوئی اور ہلاک ہوگا!؟ [الأحقاف : 35]

اے انسان یہاں تیری ایک لمحے کی زندگی ہے! اس کے بارے میں اللہ تعالی نے ہمیں بتلایا کہ یہ قیامت قائم ہونے کے وقت ایک لمحے کے برابر محسوس ہو گی، اور یہی ایک لمحہ جو کہ پوری دنیا کی مدت کے مساوی ہے یہ وقت کے ابدی اور سرمدی سمندر سے محض ایک قطرہ ہے، اس لیے ایسا شخص خوشخبری کا مستحق ہے جو اپنی مختصر سی زندگی میں نیک اعمال کرے اور گناہوں سے اجتناب کرے ، نیز خواہش پرستی ، گمراہی اور ضلالت کے راستوں سے بچے؛ تو وہ اپنی زندگی میں خیر و بھلائی سمیٹنے میں کامیاب ہو گیا، اور موت کے بعد جنتوں میں اللہ کی رضا پا گیا۔ جبکہ خواہش پرستی میں مگن ہو کر نمازوں اور واجبات کو ضائع کرنے والا ، مہلک گناہوں کا مرتکب تباہ ہو گا، وہ جہنم کی کھائیوں میں جا گرے گا، اس کو کھانے میں تھوہر ملے گا، پینے کو پیپ اور کھولتا پانی دیا جائے گا۔

اپنی صحت کے گھمنڈ میں نا فرمانیاں کرنے والے!

فراغت کی وجہ سے بگڑ کر اپنے اوقات کو لہو و لعب میں ضائع کرنے والے!

مال کے فتنے میں پڑ کر تباہی و بربادی کا سامان کرنے والے!

خواہش پرستی میں مست ہو کر گمراہ ہونے والے!

جوانی کے نشے میں مٹی بن جانے کو بھولنے والے!

اللہ کی نعمتوں کو اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کے لئے استعمال کرنے والے!

کیا تمہیں پتا نہیں کہ اللہ تعالی کو آسمان یا زمین میں کوئی بھی عاجز نہیں کر سکتا!؟

کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالی شدید ترین عذاب دینے والا ہے!؟

کیا تمہیں موت اور پھر حساب کتاب پر یقین نہیں ہے؟!

مزید سانسوں کی امید پر رب کی نافرمانی کرنے والے! اور اسے موت نے اپنے پنجوں میں دبوچ لیا، اور اب وہ نیکی کرنے کے لئے واپس نہیں آ سکتا!

اے غافل، روگرداں اور نافرمان شخص! کیا اب بھی تمہارا توبہ کا وقت نہیں آیا؟!

کیا گہری نیند سے بیدار ہونے کا وقت ابھی تک نہیں آیا؟!

موت کو کوئی ٹالنے والا نہیں ، اور قرآن سے ہٹ کر کوئی رہنما نہیں ۔

سال و ایام کے آنے اور جانے میں ہمارے لئے نصیحت ہے، کیونکہ گزرا ہوا دن کبھی واپس نہیں آئے گا، اور آنے والا دن بھی گزر جائے گا، اس طرح زندگی اختتام تک پہنچ جائے گی، اور خواہشات یہیں رہ جائیں گی؛ فرمان الہی ہے: 
{وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (39) وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى (40) ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَى (41) وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهَى }
 انسان کو وہی ملتا ہے جسکی کوشش کرتا ہے [39] اور اس کی کوششوں کو جلد ہی دیکھا دیا جائے گا[40] پھر پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا[41] اور یقیناً تیرے رب کے پاس ہی سب نے جانا ہے۔[النجم : 39 - 42]

چنانچہ ہمیشگی کے گھر کے لیے محنت کرو، وہاں کی نعمتیں کبھی ختم یا کم نہیں ہوں گی، بلکہ ان میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے گا، وہاں کے جوانوں پر کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا، انہیں کسی بیماری کا خدشہ بھی نہیں ہو گا، ان کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: 
{ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ (34) لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ}
 اس جنت میں داخل ہو جاؤ، آج حیاتِ ابدی کا دن ہے۔[34] انہیں جنت میں جو چاہیں گے ملے گا، اور ہمارے پاس [دینے کیلئے]اس سے بھی زیادہ ہے۔ [ق : 34 - 35]

اور جہنم سے بچو وہاں پر جہنمیوں کا عذاب کم نہیں کیا جائے گا، جہنم سے بچنے کے لئے اللہ تعالی کے حتمی احکامات پر عمل پیرا ہو جاؤ، اور غضب الہی کا موجب بننے والے اعمال سے بچتے رہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ (19) يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ (20) وَلَهُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ (21) كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ }
 ان میں سے جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے آگ کے کپڑے کاٹے جائیں گے اور ان کے سروں پر اوپر سے کھولتا پانی ڈالا جائے گا [19] جس سے ان کے پیٹ میں موجود سب کچھ گَل جائے گا، اور انکی جلد بھی پگھل جائے گی[20] نیز ان [کو مارنے کیلئے]کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے۔ [21] جب بھی وہ رنج کے مارے دوزخ سے نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے [اور انہیں کہا جائے گا کہ] اب جلانے والے عذاب کا مزہ چکھو۔ [الحج : 19 - 22]

اللہ کے بندو!

بلند و بالا جنت کے لئے بھر پور محنت کرو، اور ایسے گناہوں سے احتراز کرو جو انسان کو جہنم میں گرا دیتے ہیں۔

یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ انسان اور جنت یا جہنم کے درمیان میں صرف موت ہی رکاوٹ ہے، جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سات چیزوں سے پہلے پہلے نیک عمل کر لو، تم انتظار کر رہے ہو ہر چیز بھلانے والی غربت کا، یا باغی بنانے والی دولت کا، یا تباہی مچانے والی بیماری کا، یا بڑھاپے میں سٹھیانے کا، یا اچانک موت کا، یا شریر دجال منتظر کا، یا نہایت سخت اور کڑوی قیامت کا) اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔

اس لیے اے مسلمان! اپنی زندگی کے ایام میں حسب استطاعت نیکیاں بھرتے جاؤ، اور اپنے نامہ اعمال کو گناہوں سے محفوظ رکھو، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ}
 اپنی [آخرت کے]لئے کچھ آگے بھی بھیجو، اور تقوی الہی اختیار کرو، اور یہ یقین رکھو کہ تم یقیناً اللہ سے ملو گے، اور مؤمنوں کو خوشخبری سنا دیں۔[البقرة : 223]

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی نے تمہارے لئے رحمت کے دروازے کھولے ہوئے ہیں، اس لئے نیکیاں کماؤ اور گناہوں سے بچو، چنانچہ کسی شخص کو گناہ کر کے اللہ سے اعلان جنگ کرتے ہوئے رحمت کا دروازہ بند نہیں کروانا چاہئے، فرمان باری تعالی ہے: 
{وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ}
میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے، لہذا جو لوگ متقی ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں ان کے لئے میں رحمت ہی لکھوں گا ۔ [الأعراف : 156]

اے بندے! صحت و عافیت کے لمحات کو غنیمت جانو؛ کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: (دو نعمتوں کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں، صحت اور فراغت) بخاری

اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ: "جب صبح کرو تو شام ہونے کا انتظار نہ کیا کرو، اور جب شام ہو جائے تو صبح ہونے کا انتظار نہ کرو، اپنی صحت کے وقت میں بیماری کیلئے کچھ انتظام کر لو، اپنی زندگی میں موت کیلئے تیاری کر لو" بخاری ، مسلم

یا اللہ! ہمارے اگلے پچھلے، خفیہ اعلانیہ، سب گناہ معاف فرما دے، اور وہ بھی معاف فرما دے جنہیں تو ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے، تو ہی تہ و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔

یا اللہ! ہمیں حق بات اچھی طرح دکھا دے، اور پھر اتباعِ حق کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں باطل بات اچھی طرح دکھا دے، اور پھر باطل سے بچنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ، ہمارے لئے باطل کے بارے میں ابہام مت رکھنا ، کہ کہیں گمراہ نہ ہوجائیں، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں کہ الٹے راستے پر چل نکلیں، یا اللہ! اے دلوں کو ثابت قدم بنانے والے، ہمارے دلوں کو تیری اطاعت اور فرمانبرداری پر ثابت قدم بنا، یا اکرم الاکرمین!

یا اللہ! ہم تجھ ہدایت، تقوی، عفت، اور تونگری کا سوال کرتے ہیں، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! سب معاملات کا انجام ہمارے لئے بہتر بنا، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی کا ڈھیروں ذکر کرو، صبح و شام اسی کی تسبیح بیان کرو، اللہ کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

فانی دنیا میں سرمدی آخرت کی تیاری خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 28 ربیع الثانی 1440 بمطابق 04 جنوری 2019 امام و خطیب: پروفیسر ڈاکٹرعل...