〜》 رازِ زندگی《〜
اقتباس از محمود الحق
جب دعویٰ عمل سے بڑا ہو تو دراز قد والا بھی چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ زندگی کو جاننے والے راز زندگی پا جاتے ہیں۔ پھر جینا انہیں اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ انسانوں پر عدم اعتماد کی وجہ سے فطرت سے دل لگا لیتے ہیں۔ کیونکہ انسان کا چلن کسی فارمولہ کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے لئے دودھ شہد کی نہر خود کھودتا ہے۔ دینا نہ بھی چاہے تو اس کے بس میں ہے مگر دکھانے کا مکمل اختیار رکھتا ہے کیونکہ چھپانا اس کے بس میں نہیں۔ زندگی گزارنے والے سینکڑوں ملتے ہیں مگر جینے والے بہت کم اور وہ بھی عدم اعتماد رکھنے والے۔
درسگاہوں میں استاد تعلیم وہی دیتے ہیں جنہیں سلیبس میں رکھا جاتا ہے۔ امتحان وہی ہوتا ہے جو پڑھایا جاتا ہے۔ محنت کے صلے پاس یا فیل کی صورت میں نکلتے ہیں۔ علم درسگاہوں اور استادوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ تو پہاڑوں پر برسنے والی اس بارش کی مانند ہے جو اپنے راستے خود بناتی ہوئی آبشاروں، ندیوں ،دریاؤں سے گزرتی سمندر تک جا پہنچتی ہے۔
زندگی راز بھی ہے رازداں بھی شکستہ بھی گلستاں بھی
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ اور بالکل حقیقت
حذف کریںآپ کی آمد کا شکریہ :)