دلی راحت اور سکون کے شرعی نسخے ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 02 نومبر 2018

دلی راحت اور سکون کے شرعی نسخے 
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 
24 صفر 1440 بمطابق 02 نومبر 2018
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 24 صفر 1440 کا خطبہ جمعہ "دلی راحت اور سکون کے شرعی نسخے" کے عنوان پر مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ دنیاوی زندگی میں مشکلات لازمی جز ہیں، جبکہ پریشانیوں سے نجات تمام مخلوقات کی چاہت ہے، اور یہ شرح صدر کے بغیر ممکن نہیں، انہوں نے کہا کہ دلی سکون کے اسباب میں : ذات باری تعالی کی معرفت، اللہ تعالی پر مکمل توکل، حالت ایمان میں عمل صالح، تقدیر پر ایمان، صبر و شکر ، اللہ سے حسن ظن، قلبی راحت کی دعا، ذکر الہی، تلاوت قرآن، تسبیح، تحمید، نوافل کی ادائیگی، تقوی، نماز فجر کی پابندی، کتاب و سنت کا علم، خلقت کے ساتھ نیکی، للہیت سے بھر پور رفاہی کام، دوسروں کی غلطیوں سے چشم پوشی، اچھے لوگوں کی صحبت، اہل لوگوں سے مشورہ، قناعت، ماضی و استقبال کی بجائے حال پر توجہ، فراغت کے اوقات میں مثبت سرگرمیاں، گناہوں سے اجتناب اور دلی بیماریوں سے نجات شامل ہیں، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: مملکت حرمین شریفین پر اللہ تعالی کی لا تعداد نعمتیں ہیں، یہ ملک مسلمانوں کا قبلہ اور قلب ہے، اس ملک کے متعلق افواہوں اور اڑتی پھرتی خبروں پر کان مت دھریں، اس ملک کے دشمن جتنی کوشش کریں گے یہاں کے عوام اپنے حکمرانوں پر اعتماد اتنا ہی بڑھاتے جائیں گے، مسلمانوں کو چاہیے کہ مثبت سرگرمیوں میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں، آخر میں انہوں نے دعا کروائی۔

⇥ منتخب اقتباس ⇤

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللی علیہ وسلم- اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!

دنیا آزمائش اور امتحان کا گھر ہے، تنگی ترشی دنیا کی فطرت میں شامل ہے، یہاں انسان بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ}
ہم نے انسان کو تکلیفیں برداشت کرتے رہنے والا پیدا کیا ہے۔ [البلد: 4]
 دنیا میں انسان کی زندگی مختصر ہوتی ہے، اور اس کا بھی وہی حصہ کام آتا ہے جو اچھا گزرے۔

قلبی سکون کا حصول جبکہ پریشانی اور غموں کا خاتمہ ہر انسان کی تمنا ہے، اگر ایسا ہو جائے تو خوشحال زندگی میسر آتی ہے۔

ساری مخلوقات خوشحالی کی چاہت رکھتی ہیں اور اس کے لیے کد و کاوش بھی کرتی ہیں، شرح صدر اور قلبی اطمینان خوشحالی کی بنیاد ہیں؛ اسی لیے جب اللہ تعالی کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرما لے تو اس کی شرح صدر فرما دیتا ہے ، اس سے بڑی نعمت بھی کوئی نہیں ہے۔ شرح صدر عظیم ترین نعمت اور اسباب ہدایت میں شامل ہے جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "شرح صدر جس طرح ہدایت کا سبب ہے اسی طرح یہ ہر نعمت اور بھلائی کی بنیاد بھی ہے"

اسی لیے جب موسی علیہ السلام کو فرعون کی جانب بھیجا گیا تو انہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالی سے شرح صدر ہی مانگی اور کہا: 
{قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي}
انہوں نے کہا: میرے پروردگار! میری شرح صدر فرما دے۔ [طہ: 25]
 پھر نبی صلی اللی علیہ وسلم پر نعمتوں کے شمار میں اللہ تعالی نے اسی کو سب سے پہلے ذکر کیا اور فرمایا: 
{أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ}
کیا ہم نے تمہاری شرح صدر نہیں فرمائی؟! [الشرح: 1]

ایمان اور عمل صالح شرح صدر کے موجب بننے والے بنیادی اسباب میں شامل ہیں، ان سے قلب و بدن میں بہتری آتی ہے، ظاہر اور باطن بھی سنور جاتا ہے، ان دونوں کی بدولت اچھی زندگی اور دائمی سعادت حاصل ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً}
 کوئی مرد یا عورت ایمان کی حالت میں جو بھی نیک عمل کرے تو ہم اسے لازما بہترین زندگی میں رکھیں گے۔[النحل: 97]

اللہ تعالی سے محبت ،انابت اور لذت کے ساتھ عبادت کے ذریعے سب سے زیادہ شرح صدر ہوتی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر تم اپنے دل میں عبادت کی لذت اور شرح صدر نہ پاؤ تو اپنے آپ پر نظر ثانی کرو؛ کیونکہ اللہ تعالی انتہائی قدر دان ہے۔"

خوشحالی اور بدحالی لوگوں کی زندگی کے لازمی عناصر ہیں، ان سے راہ فرار کسی کو حاصل نہیں تو ایسے میں اللہ کے فیصلوں پر اطمینان عین سعادت مندی ہے، اس لیے خوشی ملے تو شکر اور تکلیف ملے تو صبر کرے، رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مومن کا معاملہ بہت تعجب خیز ہے کہ اس کا ہر معاملہ ہی خیر والا ہوتا ہے، یہ امتیاز مومن کے علاوہ کسی کا نہیں، چنانچہ اگر مومن کو خوشی ملے تو شکر کرتا ہے تو یہ شکر اس کے لیے خیر بن جاتا ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے تو صبر اس کے لیے خیر بن جاتا ہے) مسلم

اللہ تعالی سے ملاقات اور اجر الہی پر یقین رکھنے والے کا دل بہتر سے بہترین کی تمنا رکھتا ہے، کوئی چیز نصیب میں نہ لکھی ہو تو غم نہیں کرتا بلکہ وعدہ شدہ چیزوں پر خوش رہتا ہے، اس طرح اس کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جاتی ہیں

تمام معاملات کی باگ ڈور صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، وہ جیسے چاہتا ہے کہ دلوں کو ڈھال دیتا ہے: صحیح یا خراب، تنگ یا فراخ اور نیک بخت یا بد بخت بنا دیتا ہے۔ تو جس ذات کے ہاتھ میں یہ سب کچھ ہے اسی پر توکل کرنا اور سب کچھ اسی کے سپرد کرنا شرعی طور پر واجب ہے، بلکہ یہ دنیا کی جنت ہے، فرمان باری تعالی ہے: 
{وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ}
 اور جو اللہ پر توکل کرے تو اللہ ہی اسے کافی ہے۔ [الطلاق: 3]
 لوگوں کا رزق اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، کوئی بھی جاندار اپنا رزق پورا حاصل کیے بغیر نہ مرے گا، اس لیے اللہ تعالی نے جو تمہارے لیے لکھ دیا ہے اس سے راضی رہو، اگر کوئی چیز تمہیں نصیب نہ ہو تو اس پر غم نہ کرو۔

قلبی راحت اور سکون کے متلاشی کو رب کریم کا دروازہ زیادہ سے زیادہ کھٹکھٹانا چاہیے؛ کیونکہ اللہ تعالی دعائیں کرنے والے کے قریب ہوتا ہے اور اللہ سے امید لگانے والا نامراد نہیں ہوتا، دعاؤں سے دنیا و آخرت کے سب امور سنور سکتے ہیں، نبی صلی اللی علیہ وسلم کی ایک دعا ہے:
 (اَللهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي، وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي، وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي، وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ 
[ترجمہ: اے اللہ! میرے دین کو درست کر دے، جو میرے ہر کام کے تحفظ کا ذریعہ ہے اور میری دنیا کو درست کر دے اس میں میرا معاش ہے اور میری آخرت کو درست کر دے وہیں پر میں نے لوٹنا ہے اور میری زندگی کو میرے لیے ہر بھلائی میں اضافے کا سبب بنا دے اور میری وفات کو میرے لیے ہر شر سے راحت بنا دے۔])

قلبی راحت اور سکون کے لیے ذکر کی تاثیر بھی بہت عمدہ ہے، ذکر سے پریشانیاں اور غم دھل جاتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ}
 جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں، توجہ کریں! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔ [الرعد: 28] 
رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم پریشانی کے وقت فرمایا کرتے تھے:
 (لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ۔
[ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں جو صاحب عظمت اور بردباد ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو عرش عظیم کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو زمین و آسمان اور عرش کریم کا مالک ہے۔]) بخاری

قرآن کریم افضل ترین ذکر ہے، اللہ کا کلام رہنمائی اور شفا پر مشتمل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ}
 لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نصیحت اور سینوں کی بیماریوں کے لیے شفا آ گئی ہے، یہ مومنین کے لیے رہنمائی اور رحمت بھی ہے۔[يونس: 57] 
چنانچہ قرآن کریم کی تلاوت کر کے اس پر عمل کرنے والے لوگ راحت اور سعادت کے سب سے زیادہ حق دار ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{طه (1) مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى} 
طہ، ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ شقاوت میں ڈوب جائیں۔[طہ: 1، 2]

سبحان اللہ اور الحمدللہ کہنے ، کثرت سے نوافل ادا کرنے نیز اطاعت پر استقامت سے دل میں راحت پیدا ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ (97) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ (98) وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ}
 یقیناً ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینہ ان کی باتوں سے کڑھتا ہے [97] تو آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدے کرنے والوں میں شامل رہیں [98] اور یقین [یعنی موت] آنے تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں۔[الحجر: 97 - 99]

جب انسان اپنے دن کا آغاز نماز سے کرے تو اس کا سارا دن بہترین گزرتا ہے؛ کیونکہ نماز فجر پڑھنے والا اللہ کے ذمے ہوتا ہے، اور جو شخص نماز فجر کی سنتیں بھی ادا کرے تو دن کے آخر میں اللہ تعالی اسے کافی ہوتا ہے، آپ صلی اللی علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم! دن کے آغاز میں تم چار رکعات پڑھنے سے قاصر مت رہو تو میں دن کے آخر میں تمہارے لیے کافی ہوں گا) احمد

اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم سے حاصل شدہ علم با عمل بھی قلبی راحت کا باعث ہے، ایسے اہل علم کے سینے وسیع ، کشادہ، پر اطمینان، خوش و خرم اور بہترین اخلاق کے مالک ہوتے ہیں، جس قدر انسان کا علم بڑھتا جائے اس کی قلبی راحت بھی بڑھتی جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا}
 ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کردیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دیا کہ وہ اس کے ذریعے لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہ پائے؟ [الأنعام: 122]

ابن قیم رحمہ اللہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں کہتے ہیں: "میں نے آپ سے بڑھ کر کسی کو خوش و خرم نہیں دیکھا، حالانکہ آپ بہت تنگ حالات سے گزرے، آپ عیش و عشرت سے کوسوں دور تھے، مزید برآں آپ کو قید و بند، دھمکیوں اور دباؤ کا سامنا رہا، لیکن اس کے باوجود آپ خوش و خرم تھے، قلبی راحت اور قوت کے مالک تھے، خوشی آپ کے چہرے پر چمکتی ہوئی نظر آتی تھی"

نیک اہل علم، اور دیندار لوگوں کی صحبت میں پیار بھی ملتا ہے اور محبت بھی، ان کی صحبت سے انسان علم ، حکمت اور تزکیہ نفس حاصل کرتا ہے، نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے والا شخص اپنے ہم عمروں میں نمایاں نظر آتا ہے۔

اپنے معاملات میں اہل دانش اور مشاورت کی صلاحیت رکھنے والوں سے رجوع کرنے پر دلی اطمینان حاصل ہوتا ہے اور فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ}
 جب انہیں کوئی خبر امن یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اس خبر کو رسول (ﷺ) اور مقتدر افراد کے حوالے کر دیتے تو تجزیہ کار لوگ اس کی حقیقت معلوم کر لیتے۔[النساء: 83]

شیطان کی انسان دشمنی لازوال ہے، شیطان سے پناہ حاصل کرنے پر برے وسوسوں سے نجات مل سکتی ہے، اسلام میں مسلمانوں کے لیے ایسے اسباب اپنانے کی ترغیب ہے جن سے مسلمان چاق و چوبند ہو جائے ؛ لیکن شیطان ایسا ہونے میں رکاوٹ بنتا ہے، آپ صلی اللی علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب کوئی سویا ہوا ہوتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ کہتا ہے کہ ابھی بہت رات باقی ہے، اس لیے سوئے رہو۔ لیکن اگر وہ بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر وضو کر لے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب نماز فجر پڑھ لے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اور وہ خوش مزاج اور ہشاش بشاش رہتا ہے، بصورت دیگر وہ بد مزاج اور سست رہ کر اپنا دن گزارتا ہے) متفق علیہ

مومن کی ایمانی قوت ہشاش بشاش رہنے کے لیے انتہائی اہم ماخذ ہے، اس لیے کہ مومن وہمی باتوں کے پیچھے نہیں لگتا، دکھی باتوں کے سامنے ہمت نہیں ہارتا، نیز مشکلات کے سامنے ڈھیر بھی نہیں ہوتا، بلکہ ہر وقت مضبوط دل کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، لہذا بندہ اللہ کے فضل اور نعمتوں کو اپنے ذہن میں اجاگر کر لے تو اس سے دل مطمئن ہو جاتا ہے اور شرح صدر حاصل ہوتی ہے۔

اپنے حال پر توجہ مرکوز کرنے والا انتہائی پرسکون رہتا ہے، کیونکہ وہ ماضی کے متعلق افسوس نہیں کرتا اور مستقبل کے متعلق پریشان نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ گزرا ماضی واپس نہیں آئے گا جبکہ مستقبل غیب بھی ہے اور لکھا ہوا بھی، اسی لیے آپ صلی اللی علیہ وسلم کی دعا میں یہ بھی شامل تھا:
 (اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ
[یا اللہ! مستقبل کی پریشانی اور ماضی کے غم سے تیری پناہ چاہتا ہوں])بخاری

فارغ اوقات سے مستفید نہ ہوں تو یہ ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے اس لیے اپنے وقت کو مثبت سرگرمیوں اور حصول علم میں صرف کرنے سے ذہنی دباؤ پیدا ہی نہیں ہوتا۔

قلبی راحت کا جامع ترین راستہ یہ ہے کہ مفید سرگرمیوں کے لیے اللہ تعالی سے مدد مانگیں، اور منفی چیزوں سے دور رہیں، منفی امور دل اور قوت ارادی کو کمزور بناتے ہیں، آپ صلی اللی علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مفید سرگرمیوں کا اہتمام کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور مایوس ہو کر نہ بیٹھ جاؤ، اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش! میں اس طرح کرتا تو ایسا ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: یہ اللہ کا فیصلہ ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس لیے کہ کاش [حسرت سے کہنا] شیطانی عمل کو کھول دیتا ہے۔)مسلم

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!

اسلام ہی ہر طرح کی بھلائی اور سعادت مندی کی بنیاد ہے، اہل اسلام ہی دنیاوی جنت اور دائمی نعمتوں میں رہتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ}
 جن لوگوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ان کا بدلہ بھلائی ہے، جبکہ آخرت کا گھر اس سے بھی بہتر ہے، اور متقی لوگوں کا گھر تو بہت اعلی ہے۔[النحل: 30] جاہلوں کی بدبختی جسے معلوم ہو وہی اسلام اور مسلمانوں کی خوشحالی کا اندازہ لگا سکتا ہے، اس پر وہ اللہ کا شکر ادا کئے بغیر نہیں رہ سکتا، وہ اپنے دین پر مزید مضبوط ہو گا، اسلام پر ثابت قدمی اس کے لیے اعزاز ہو گی، اور دوسروں کو دین اسلام کی دعوت بھی دے گا۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ:
 {فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ}
 جسے اللہ ہدایت دینا چاہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے تو اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے، گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے، اسی طرح اللہ ان لوگوں پر پلیدگی ڈال دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ [الأنعام: 125]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر بہت زیادہ ظلم ڈھائے ہیں اگر توں ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
 اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ [النحل: 90]

تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں