خیر خواہی۔۔۔ دین کا بنیادی حصہ
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
15 ربیع الاول 1440 بمطابق 23 نومبر 2018
امام و خطیب: پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: اردو مجلس فورم
فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 15 ربیع الاول 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "خیر خواہی۔۔۔ دین کا بنیادی حصہ" ارشاد فرمایا جس انہوں نے کہا کہ قرآن کریم پر توجہ کر کے ہم دنیا اور آخرت میں کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں، اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جوامع الکلم عطا کیے تھے، اس لیے ایسی احادیث کو اچھی طرح دیا بھی کریں اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لئے انہیں سمجھیں ، انہی احادیث میں سے ایک حدیث "دین خیر خواہی کا نام ہے۔۔۔" ہے اس کی انہوں نے مکمل شرح بیان کی اور بتلایا کہ کتاب و سنت کی روشنی میں اللہ تعالی، رسول اللہ، کتاب اللہ ، مسلمان حکمران، اور عامۃ الناس کی خیر خواہی کس طرح ممکن ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ خیر خواہی پیغمبروں کا شیوہ اور مومنوں کی امتیازی خوبی ہے، اگر انسان اپنے دل میں تمام لوگوں کے لیے خیر خواہی بسا لے تو انتہائی عظیم مقام پا سکتا ہے، آخر میں انہوں نے سب کے لئے کروائی۔
⤽منتخب اقتباس ⤼
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں وہ عزت اور کرم والا اور تمام جانداروں کو پیدا کرنے والا ہے، اس کا فضل اور نعمتیں بہت وسیع ہیں، میں اپنے رب کی معلوم اور نامعلوم نعمتوں پر اسی کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں ، اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں وہ معزز ترین اور نہایت کرم کرنے والا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، آپ کو اللہ تعالی نے جوامع الکلم سے نوازا، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد ، ان کی آل اور راہ راست پر چلنے والے صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی اپناؤ اور اس کے لیے نیک اعمال کے ذریعے قرب الہی کی جستجو کرو، حرام کاموں سے بچو؛ کیونکہ متقی ہی کامیاب و کامران ہوں گے، جبکہ ہوس پرست اور کوتاہی برتنے والے نامراد ہوں گے۔
مسلمانو!
اپنا محاسبہ خود ہی کر لو قبل ازیں کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، دلوں کو غفلت سے بیدار کرو، اپنے نفوس کو حرام کاموں اور ان کی لذت سے روکو، گناہوں سے توبہ کر لیں اس سے قبل کہ موت آئے، امیدیں بکھر جائیں اور مزید عمل کرنا ممکن نہ رہے۔
آپ سالہا سال اور ایام تیزی کے ساتھ گزرتے دیکھ رہے ہیں، اس زندگی کے بعد موت ہی ہے، اور موت کے بعد یا تو نعمتوں والی جنت ہو گی یا درد ناک عذاب۔
آپ جس طرح فانی دنیا کے لئے کد و کاوش کرتے ہیں اسی طرح دائمی آخرت کے لئے بھی محنت کریں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى}
بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو [16] حالانکہ آخرت بہتر اور دائمی رہنے والی ہے۔ [الأعلى: 16، 17]
مسلمانو!
قرآن کریم پر توجہ دیں اسی میں تمہاری عزت اور سعادت ہے، اسی سے تمہارے حالات سنور سکتے ہیں، اسی میں تمہاری موت کے بعد کامیابی ہے، فتنوں سے تحفظ بھی اسی سے ملے گا اور یہ فتنے قربِ قیامت تک بڑھتے چلے جائیں گے، یہ فتنے ایسے ہیں کہ ابتدائی طور پر واضح نہیں ہوتے، لیکن جب انتہا ہو جائے تو ان کے بارے میں آنکھیں کھل جاتی ہیں؛ چنانچہ ان فتنوں سے وہی محفوظ رہ سکے گا جو قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھام لے، اور ملت اسلامیہ کے ہم رکاب رہے، اس لیے کتاب اللہ پر غور و فکر کرو، اسی پر عمل پیرا رہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث یاد کرو تا کہ دین قائم رہے، عقیدہ صحیح رہے اور عبادات مکمل ہوں، خصوصاً ایسی احادیث پر توجہ دو جن میں فضیلت والے اسلامی اعمال کے احکام جمع ہیں، ان احادیث کا معنی اور مفہوم ان پر عمل کرنے کے لئے اچھی طرح سمجھیں، سلف صالحین کا یہی منہج ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
{وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}
مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے [التوبہ: 100]
میں یہاں پر ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو کہ جوامع الکلم میں سے ہے، ہر حالت میں اس حدیث پر عمل ہر مسلمان مرد و زن کی ذمہ داری ہے، جسم میں جب تک روح باقی ہے اس وقت تک تمام آدمیوں اور عورتوں کے لئے اس پر عمل ضروری ہے، وہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: (دین خیر خواہی کا نام ہے ) تو ہم نے کہا: "کن کی خیر خواہی؟" تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی ، کتاب اللہ، رسول اللہ، مسلم حکمرانوں اور عوام الناس کی) اس حدیث کو امام مسلم نے تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
نیز اس حدیث کو امام مسلمؒ کے علاوہ دیگر بہت سے محدثین نے روایت کیا ہے، یہ حدیث بہت عظیم حدیث ہے۔ امام ابو داودؒ کہتے ہیں: "فقہ پانچ احادیث کا نچوڑ ہے، پہلی حدیث: (حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔۔۔) دوسری حدیث: (نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی کسی اور کو نقصان دو) تیسری حدیث: (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے) چوتھی حدیث: (دین خیر خواہی کا نام ہے) پانچویں حدیث: (جس چیز سے میں تمہیں روک دوں اس سے فوری رک جاؤ، اور جس چیز کے کرنے کا حکم دوں تو اس پر حسب استطاعت عمل کرو)"
اور اس بات کی دلیل کہ اس حدیث پر عمل ہر مسلمان مرد اور عورت پر ہر حالت میں واجب اور ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ عبادات کو بعض مکلف افراد مرد یا عورتوں سے کسی عذر یا دیگر کسی سبب کی بنا پر ساقط کر دیا لیکن خیر خواہی کو کسی حالت میں بھی ساقط نہیں فرمایا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ}
کمزور ،مریض اور وہ لوگ جن کے پاس انفاق فی سبیل اللہ کے لئے کچھ نہیں تو ان پر کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کریں ۔ نیکی کرنے والوں پر [اعتراض ]کا کوئی راستہ نہیں، اور اللہ درگزر کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ [التوبہ: 91]
تو اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ کسی بھی مسلمان کا ایک لمحے کے لئے بھی خیر خواہی سے عاری ہونا قبول نہیں ہے۔
عربی زبان میں "النصيحة" [خیر خواہی]نصح سے ہے، جو کہ کسی بھی چیز کو ملاوٹ، مٹی اور غیر متعلقہ چیز سے صاف کرنے کو کہتے ہیں، چنانچہ: "نَصَحَ العَسْلُ" اس وقت کہا جاتا ہے جب شہد کو موم سے صاف ستھرا کر لیا جائے۔
اس حدیث میں اللہ تعالی کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ سے محبت ہو، اللہ کے سامنے عاجزی اور انکساری ہو، شریعت الہی کے سامنے مکمل سرنگوں ہو کر تابعداری اس لیے ہو کہ اللہ کی رضا اور ثواب ملے، اللہ کے غضب اور عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کی اطاعت کریں، فرمان باری تعالی ہے:
{إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (15) تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ}
ہماری آیات پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب انہیں ان کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ [15] ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انہیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ [السجدة: 15، 16]
اللہ تعالی کی عظیم ترین خیر خواہی یہ ہے کہ صرف اسی کی بندگی اور عبادت کی جائے، اخلاص، سنت نبوی، اور طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عبادت کریں، ہر قسم کی عبادت صرف اللہ تعالی کے لیے بجا لائیں۔ دعا، مدد طلبی ،استغاثہ اور توکل اللہ پر ہی کریں ، فرمانِ باری تعالی ہے:
{قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا}
آپ کہہ دیں: میں تو اپنے پروردگار کو ہی پکارتا ہوں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔[الجن: 20]
اللہ تعالی کی بندگی اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ صفاتِ کمال اور جلال کا مالک ہے، وہ ہمہ قسم کے نقائص اور عیوب سے پاکیزہ اور منزہ ہے، ساری مخلوقات پر اسی کی نعمتیں ہیں، سب لوگ اسی کی رحمت کے سوالی ہیں، اس لیے اللہ کی عبادت اللہ تعالی سے خیرات ملنے کا باعث ہے۔ اللہ کی بندگی؛ زندگی میں اور زندگی کے بعد بلائیں ٹالنے کا باعث ہے۔ اللہ تعالی کی خیر خواہی یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے لیے ثابت کیا ہے اور جو کچھ اسما و صفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے لئے ثابت قرار دی ہیں انہیں اسی انداز سے ثابت مانا جائے جیسے سلف صالحین نے مانا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: آپ سے محبت ہو، آپ کا احترام کیا جائے، آپ کی سنت کی تعظیم ہو اور آپ کے احکامات کی تعمیل کریں، آپ کے منع کردہ کاموں سے بچیں، آپ کی شریعت کے مطابق اللہ کی عبادت کریں، آپ کی سیرت کو اپنائیں، آپ کی احادیث کی تصدیق کریں، ان احادیث کو آگے پھیلائیں، دین محمدی کی جانب لوگوں کو دعوت دیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا}
کہہ دو: اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو، لیکن اگر تم پھر جاؤ تو رسول کے ذمے صرف وہ ہے جس کا وہ مکلف بنایا گیا ہے اور تمہارے ذمے وہ جس کے تم مکلف بنائے گئے اور اگر اس کا حکم مانو گے تو ہدایت پا جاؤ گے۔ [النور: 54]
کتاب اللہ کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: قرآن کریم کی تعظیم کریں، قرآن سے محبت کریں، اسے سیکھنے ، سکھانے اور قرآنی احکام سمجھنے کی پوری کوشش کریں، قرآن کریم کی صحیح انداز سے تلاوت کریں، قرآن کے احکامات کی تعمیل کریں اور ممنوعہ امور سے اجتناب کریں، پابندی سے قرآن کریم کی تلاوت کریں، قرآن کے حروف اور حدود کو یاد رکھیں، قرآن کریم کی تفسیر، معنی اور مراد کی معرفت حاصل کریں، قرآن کریم پر تدبر کریں، اپنا اخلاق قرآن کے مطابق بنائیں، قرآن و سنت کے فہم میں غلطی کھانے والوں کو جواب دیں، ان کی باطل باتوں کا رد کریں اور ان سے خبردار کریں۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ}
بیشک یہ قرآن اسی کی رہنمائی کرتا ہے جو انتہائی مضبوط راستہ ہے۔[الإسراء: 9]
مسلم حکمرانوں کے لئے خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: حکمرانوں کے لئے خیر پسند کریں، ان کے عدل کو پسند کریں، ان کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کریں، انہیں دھوکا نہ دیں، ان کے ساتھ خیانت نہ کریں، ان کے خلاف بغاوت نہ کریں، ان کے خلاف مظاہرے نہ کریں۔ حق بات پر ان کے ساتھ تعاون کریں، گناہوں کے علاوہ ہر کام میں ان کی اطاعت کریں، ان کی کامیابی اور فیصلوں میں درستگی کی دعا کریں۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "اجتماعیت میں جو چیز تمہیں ناگوار ہے، وہ اختلاف میں تمہاری چاہت سے بہتر ہے۔"
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیف مقام پر اپنے خطاب میں فرمایا تھا: (تین چیزوں کے بارے میں کسی مسلمان کا دل کمی نہیں کرتا: عمل کرتے ہوئے اللہ کے لئے اخلاص، حکمرانوں کی خیر خواہی، اور ملت اسلامیہ کا التزام) اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
مسلمان عامۃ الناس کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: عوام الناس کو ان کے فائدے کی باتیں بتلائیں، انہیں دین سکھلائیں، ان کی عیب پوشی کریں، ان کی ضروریات پوری کریں، انہیں دھوکا مت دیں، خیانت سے کام مت لیں، ان سے حسد مت کریں، ان کی طرف سے ملنے والی تکلیف پر صبر کریں۔
خیر خواہی انبیائے کرام اور رسولوں کی صفت ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ}
بلاشبہ یقیناً تمہارے پاس تمہی سے ایک رسول آیا ہے، اس پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت گراں ہے، تمہارا بہت خیال رکھنے والا ہے، مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ [التوبہ: 128]
اسی طرح نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
{أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنْصَحُ لَكُمْ}
میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں [الأعراف: 62]
ہود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
{أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ}
میں تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارے لیے ایک امانت دار، خیر خواہ ہوں۔ [الأعراف: 68]
ایسے ہی صالح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
{لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ}
بلاشبہ یقیناً میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی [الأعراف: 79]
اللہ کے بندو!
اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور و فکر کرو:
{وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ}
مومن مرد اور مومن عورتیں، ایک دوسرے کے دوست ہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا، بے شک اللہ سب پر غالب اور کمال حکمت والا ہے۔ [التوبہ: 71]
اس آیت میں مسلمانوں کے باہمی تعاون، مدد، خیر خواہی، تکافل، اخوت، مودت اور شفقت کا ذکر ہے۔
ابو بکر مزنی ؒ کہتے ہیں: "ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہ کرام پر نماز اور روزے کی وجہ سے امتیازی مقام نہیں رکھتے تھے، بلکہ یہ ان کے دل میں کسی چیز کی وجہ سے تھا" اس کی تفصیل میں ابن علیہؒ کہتے ہیں: "سیدنا ابو بکر کے دل میں جو چیز تھی وہ اللہ کی محبت اور خلق خدا کی خیر خواہی تھی"
اور جناب حکیم بن ابو یزید اپنے والد سے بیان کرتے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ: (جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مشورہ طلب کرے تو اسے خیر خواہی پر مبنی مشورہ دے) اس حدیث کو احمد نے اور طبرانی نے الکبیر میں روایت کیا ہے۔
اللہ کے بندو!
{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56] اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا) اس لئے سید الاولین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔
اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد۔
یا اللہ! یا ذالجلال والا کرام! ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اگلے ، پچھلے ، خفیہ ، اعلانیہ سارے گناہ معاف فرما دے، وہ بھی معاف فرما جنہیں تو ہم سے زیادہ جانتا ہے، تو ہی تہہ و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت کے قریب کرنے والے قول اور فعل کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم جہنم کے قریب کرنے والے ہر قول اور فعل سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہم عذاب قبر اور جہنم کے عذاب سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمارے سب معاملات کے نتائج بہتر فرما دے، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔
اللہ کے بندو!
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ }
اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو [النحل: 90، 91]
صاحب عظمت و جلالت کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور جو تم کرتے ہو اللہ تعالی اسے جانتا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں